Tuesday, July 8, 2014

ایک من گھڑت قصہ - جناب طارق علی کے قلم سے


تسلیم کی ہر نئی کونپل سے رضا کا ایک نیا پھول کھلتا ہے. توحید، تقویٰ اور توکل کی آبیاری سے زہدو قناعت اور صبر اور شکر کے پھل آتے ہیں. سسکٹئون کی جامع مسجد میں ایک بابا لاٹھی ٹیکتا، تیز تیز چلتا ہوا آیا اور اعلان کر گیا:
تسلیم کا مطالبہ کوئی لمبا چوڑا کرنے والا کام نہیں ہیں، یعنی کوئی کہے کہ جی میں نے تسلیم کیا، میں بندہ ہوا۔۔۔
فرمائیں اب کیا کروں۔۔۔
تسلیم کے بعد کچھ بہت زیادہ نئے کام کرنے والے نہیں ہوتے ہاں البتہ نہ کرنے والے کاموں کی فہرست ضرور طویل ہے۔۔۔
کیلگری کی اکبر جامع مسجد میں ایک بابے نے کہا کہو:
کھانا، بھوک نہیں مٹاتا، اللہ مٹاتا ہے.
پانی، پیاس نہیں بجھاتا، الله بجھاتا ہے.
دوا سے شفا نہیں ملتی، الله دیتا ہے .

پھر کہا اب مجھے سناؤ ...
میں نے طوطے کی طرح فر فر سنا دیا 

پھر بولا
کام سے مال نہیں ملتا
مال سے چیزیں نہیں ملتی
چیزوں سے ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں

پھر کہا اب مجھے سناؤ ۔۔۔
میں نے پھر طوطے کی طرح فر فر سنا دیا

پھر میرا ہاتھ پکڑ کر ایک اور بابے کے پاس لے گیا اور بولا
لو جی اس کو یاد ہو گیا تسلیم کا مذکراہ...

اور میں دو قدم چل کے ہی سب کچھ بھول چکا تھا، سٹپٹا سا گیا اور جو الٹا سیدھا یاد تھا سنا دیا۔

سن کر بابا بولا کیا خوب یاد کیا۔
پھر بولا جاؤ سب کو بتاؤ۔

ختم شد


نوٹ: یہ سارا قصہ من گھڑت، اور سب کردار فرضی ہے.


کچھ مصنف کے بارے میں:
طارق صاحب سسکٹئون، کینیڈا میں مقیم ہیں اور وہاں کی مقامی یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ آپ مختصر تاثراتی تحریروں  کے ماہر ہیں، جن میں روحانیت اور لوک دانش کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ان سے یہاں پہ ملا جا سکتا ہے۔

No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...