Saturday, June 27, 2015
تین غدار، تین کہانیاں - عمران زاہد کے قلم سے
Labels:
Bangladesh
,
History
,
پاکستان
,
تاریخ
,
حالاتِ حاضرہ
,
عالمی سیاست
,
عمران زاہد
Friday, May 15, 2015
ٹی وی ہمارے بچپن کا ۔ عمران زاہد کے قلم سے
پہلا ٹی وی جو ہم نے دیکھا وہ ہمارے ہمسائیوں کا تھا۔
بات بہت پرانی نہیں ہے، یہی کوئی اَسّی کی دہائی کی بات ہے۔
اس دور میں ہم ریڈیو سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ہمیں روزانہ شام کو بچوں کی کہانی سننے کا لپکا تھا۔ کہانی کے بعد بچوں کا گیت ضرور لگتا تھا۔ چندا ماما دور کے، بڑے پکائے بور کے ریڈیو پہ ہی سنا تھا۔ ہم بہن بھائیوں میں ریڈیو پہ قبضہ جمانے کا مقابلہ چلتا تھا۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ریڈیو کو اپنی گود میں رکھ کر کہانی سنے۔ اس طرح سے آواز صاف سنائی دیتی تھی۔
Labels:
Imran Zahid
,
Media
,
Politics
,
تہذیب
,
حالاتِ حاضرہ
,
خودنوشت
,
عبدالغفار عزیز
,
عمران زاہد
,
کہانی
,
معاشرت
,
میڈیا
Sunday, April 12, 2015
راشد نسیم صاحب - عمران زاہد کے قلم سے
راشد نسیم صاحب جو قومی اسمبلی کے حلقہ 246 سے ضمنی الیکشن لڑ رہے ہیں، اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلٰی رہ چکے ہیں۔ جب ہم 88ء میں جمعیت میں داخل ہوئے تب سراج صاحب ناظمِ اعلیٰ تھے۔ ان سے پہلے اعجاز چوہدری صاحب، امیر العظیم صاحب اور راشد نسیم صاحب ناظمِ اعلٰی رہ چکے تھے۔ سراج صاحب کے بعد، اویس قاسم صاحب، وقاص جعفری صاحب، اظہار الحق اور انجینئیر نعیم الرحمٰن صاحب ناظم اعلٰی بنے۔
Labels:
Pakistan
,
Politics
,
حالاتِ حاضرہ
,
سیاست
,
شخصیت
,
عمران زاہد
Tuesday, November 25, 2014
جماعتِ اسلامی کے سالانہ اجتماع میں کچھ وقت - عمران زاہد کے قلم سے
کئی دوستوں کی معیت اور کشش کے سبب جماعت کے سالانہ اجتماع میں جانے کا پکا پروگرام تھا لیکن ہماری یونیورسٹی کے کانوکیشن نے، جو انہی تاریخوں میں منعقد ہوا، اسے تقریباً ناممکن بنا دیا۔ گو فیس بک کے ذریعے پتہ چلتا رہا کہ اجتماعِ عام میں لاکھوں لوگ جمع ہو چکے ہیں۔ بیرون ملک سے مندوبین کا اجلاس ہوا۔ خواتین کا ایک علیحدہ سے پروگرام ہوا۔ نوجوانوں کا ایک کنونشن بھی ہوا ، جس میں جمعیت والوں نے ایک ڈرامہ بھی پیش کیا۔ سوشل میڈیا کیمپ کا خاصا چرچا تھا۔ فیس بک پہ ہی اس میں موجود سہولتوں کے بارے میں پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اردو بلاگرز جن میں ایم بلال بھی شامل ہیں ان کے سوشل میڈیا کیمپ کے وزٹ کی خبر بھی پہنچی۔ اسی طرح کی مزید کئی سرگرمیوں کی خبریں پہنچتی رہی تھیں لیکن ان میں عملاً شریک ہونا ناممکن تھا۔ تئیس نومبرکو اجتماع کا آخری دن تھا۔بائیس کی شام کو کانوکیشن سے فارغ ہوا تو برادرم الیاس انصاری نے دعوت دی کہ آخری دن اکٹھے چلا جائے۔ میں نے ان کی دعوت پہ لبیک کہا۔ سوچا چلو اسی طرح سے انگلی کٹا کے شہیدوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
Labels:
Imran Zahid
,
JI
,
Pakistan
,
Politics
,
اسلام
,
پاکستان
,
حالاتِ حاضرہ
,
سیاست
,
عمران زاہد
Saturday, November 22, 2014
ایک تربیت گاہ کی یادیں - عمران زاہد کے قلم سے
سن 1992 کی بات ہے، مہینہ شاید نومبر کا ہی تھا کہ جمعیت صوبہ پنجاب کی ایک تربیت گاہ بہاولپور میں رکھی گئی۔ سفر میں زیادہ سامان سے مجھے ہمیشہ کوفت ہوتی ہے، لہٰذا والدہ سے کرایہ لیا اور خالی ہاتھ گھر سے نکل آیا۔ والدہ نے اصرار بھی کیا کہ ساتھ کوئی گرم کمبل لیجاؤ کہ وہاں رات کو ٹھنڈ ہو گی۔۔ لیکن کمبل کو اٹھانے کی کوفت سے بچنے کے لیے میں سنی ان سنی کرتا ہوا ویسے ہی گھر سے نکل آیا۔ ایک ہلکی سی چادر ضرور جماعتی سٹائل میں اوڑھ لی کہ سردی سے بچاؤ کے لیے کافی ہے۔ بار بار اتارنے اور پہننے سے بچنے کے لیے مجھے تسموں والے بوٹ بھی ہمیشہ سے اَن ایزی لگتے تھے لہٰذا عام گھریلو چپل ہی پہنے رکھی کہ اس میں پاؤں کو خاصا سکون ملتا ہے۔
Labels:
Imran Zahid
,
پاکستان
,
خودنوشت
,
طلبہ سیاست
,
عالمی سیاست
,
عمران زاہد
Tuesday, November 4, 2014
عمران خان کے نواز شریفی ہتھکنڈے - عمران زاہد کے قلم سے
میاں نواز شریف ماضی میں اپنے اتحادیوں کی سبکی کا باعث بنتے رہے ہیں بلکہ یہ رویہ ان کی اہم سیاسی حکمت عملی بن چکا ہے۔ چانکیہ کوٹلیا کی فلاسفی کہیں یا میکاولی کے اصول کہیں، سیاسی کامیابی کے لیے ایسے ہی طریقے بیان کیے گئے ہیں کہ ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنا لو اور ضرورت نہ ہو تو باپ کو بھی گڑھے میں ڈال دو۔ عمران خان صاحب بھی اسی روش پر گامزن ہیں۔ موجودہ دھرنے کے دوران قادری صاحب اور عمران خان صاحب کے درمیان طے شدہ باتوں سے خان صاحب کا نظریہ ضرورت کے تحت انحراف اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ اس ضمن میں بہت سی باتیں تو علامہ طاہرالقادری کے حوالے سے میڈیا میں آ چکی ہیں۔ وہ بیچارے مایوس ہو کر خان صاحب کا ساتھ ہی چھوڑ گئے۔
Labels:
Imran Khan
,
Imran Zahid
,
Jamaat e Islami
,
JI
,
پاکستان
,
حالاتِ حاضرہ
,
سیاست
,
طلبہ سیاست
,
عمران زاہد
Monday, July 21, 2014
برکس بینک کا قیام.... اُمہ کیلئے قابل تقلید مثال - سرور منیر راؤ کے قلم سے
دنیا کے پانچ ممالک نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی اقتصادی اجارہ داری سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ’برکس ترقیاتی بینک کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ BRICS کا نام بھی ان پانچ مالک کے پہلے حروف تہجی پر رکھا گیا ہے۔ B برازیل ، Rروس ، Iانڈیا، C چین،Sسے ساؤتھ افریقہ کے پہلے حروف تہجی پر مشتمل ہے۔ جنوبی افریقہ کی شمولیت سے پہلے اس بینک کا مجوزہ نامBRICتھا ۔ ان پانچ ممالک کی مجموعی آبادی تین ارب اور اس کی مجموعی پیداوار 16.39کھرب ڈالر ہے جبکہ فارن کرنسی کے ذخائر چار کھرب ڈالرسے زیادہ ہیں۔اس نئے ترقیاتی بینک نے حادثاتی فنڈ بھی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ برازیل کے شہر فورٹی لیزا میں ممبر ممالک کے رہنماؤں کے اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ کے مطابق ابتدائی طور پر ترقیاتی بینک کے لیے سرمایہ کا حجم 50 ارب ڈالر رکھا گیاہے۔جسے بعد میں سو ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ اس کے علاوہ سو ارب ڈالر کا ایک ایمرجنسی فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے جس میں چین 41 ارب ڈالر‘ بھارت، برازیل اور روس اٹھارہ ،اٹھارہ ارب ڈالر اور جنوبی افریقہ پانچ ارب ڈالر کا سرمایہ لگائے گا۔
Labels:
اخباری مضمون
,
پاکستان
,
عالم اسلام
,
عالمی سیاست
,
مسلم دنیا
Sunday, July 20, 2014
پاکستانی سیاست کا چہرہ بدلنے والے تین سیاستدان - عمران زاہد کے قلم سے
Labels:
Imran Khan
,
Imran Zahid
,
Pakistan
,
Politics
,
پاکستان
,
سیاست
,
عمران زاہد
Tuesday, July 8, 2014
ایک من گھڑت قصہ - جناب طارق علی کے قلم سے
تسلیم کی ہر نئی کونپل سے رضا کا ایک نیا پھول کھلتا ہے. توحید، تقویٰ اور توکل کی آبیاری سے زہدو قناعت اور صبر اور شکر کے پھل آتے ہیں. سسکٹئون کی جامع مسجد میں ایک بابا لاٹھی ٹیکتا، تیز تیز چلتا ہوا آیا اور اعلان کر گیا:
تسلیم کا مطالبہ کوئی لمبا چوڑا کرنے والا کام نہیں ہیں، یعنی کوئی کہے کہ جی میں نے تسلیم کیا، میں بندہ ہوا۔۔۔
فرمائیں اب کیا کروں۔۔۔
تسلیم کے بعد کچھ بہت زیادہ نئے کام کرنے والے نہیں ہوتے ہاں البتہ نہ کرنے والے کاموں کی فہرست ضرور طویل ہے۔۔۔
تسلیم کے بعد کچھ بہت زیادہ نئے کام کرنے والے نہیں ہوتے ہاں البتہ نہ کرنے والے کاموں کی فہرست ضرور طویل ہے۔۔۔
Labels:
اسلام
,
تصوف
,
طارق علی
,
متفرق مضامین
Monday, July 7, 2014
نہ قبول ہونے والی دعائیں - عمران زاہد کے قلم سے
گھر میں لاتعداد ایسے کھلونے بکھرے پڑے ہیں، جو بچوں کی توجہ سے محروم ہو چکے ہیں۔ اب ان کھلونوں سے جو چاہے کھیل سکتا ہے، کوئی بچہ بھی ان پہ اپنا حقِ ملکیت نہیں جتاتا۔ جو ذرا نئے کھلونے ہیں، بچوں کی ساری توجہ وہ کھینچ لیتے ہیں۔ لیکن وہ بھی صرف تب تک ہی مرکزِ نگاہ ہیں، جب تک کوئی اور نیا کھلونا ان کی جگہ نہیں لے لیتا۔
Labels:
اسلام
,
عمران زاہد
,
متفرق مضامین
Subscribe to:
Posts
(
Atom
)