Saturday, June 27, 2015

تین غدار، تین کہانیاں - عمران زاہد کے قلم سے

غدار میر جعفر اور اس کا بیٹا

میسور:

1787ء میں سلطان ٹیپو نے میر صادق ،وزیرِ اعظم ریاست میسور، کو ظلم و ستم اور خردبرد کے الزامات کے تحت معزول کر دیا، اس کے اثاثے ضبط کر لیے اور ذلیل و خوار کر کے جیل میں قید کر دیا۔ اس کے جگہ مہدی خان کو وزیرِ اعظم کا منصب عطا کیا گیا۔

مہدی خان بھی میر صادق کا ہی ہم پیالہ و ہم نوالہ تھا۔ وہ پانچ سال تک اس عہدے پر فائز رہا اور سارے کام میر صادق کے مشورے سے ہی چلاتا رہا۔ اس کی وجہ سے سلطان کو جنرل میڈرس سے دب کر صلح کرنی پڑی۔ اسی نے عین لڑائی میں توپوں کا دہانہ بارود کے بجائے مٹی اورریت سے بھردیا تھا۔

مہدی خان کی غداری کا پتہ چلنے پر سلطان نے اسے معزول کر کے میر صادق کو دوبارہ منصبِ دیوانی پر بحال کر دیا۔ لیکن اس کے دل و دماغ اپنی سابقہ معزولی پر انتقام کی آگ سے جل رہے تھے۔ انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے کی خاطر میر صادق نے انگریزوں سے سازباز کی۔

4 مئی 1799 کو سلطان کئی دنوں سے باہر بیٹھے انگریز لشکر کے ایک حملے کی خبر سن کر قلعے سے باہر نکلا تو میر صادق نے قلعے کا دروازہ بند کر دیا۔ سلطان قلعے میں واپس نہ آ سکا اور انگریزوں سے لڑتا ہوا بہادری کا استعارہ بن کے امر ہو گیا۔


پلاسی:


23 جون 1757 کا دن ہے اور پلاسی کا مقام ہے۔ جہاں نواب سراج الدولہ اور انگریز جنرل لارڈ کلائیو کی فوجیں لڑنے کے لیے تیار کھڑی ہیں۔

نواب سراج الدولہ کے پاس پچاس ہزار سے زیادہ فوج ہے جبکہ انگریز کی کل فوج چار ہزار تھی۔ اتنی تھوڑی تعداد سے اتنے عظیم الشان لشکر کا مقابلہ قطعی ناممکن تھا لیکن لارڈ کلائیو کو امید تھی کہ اس کی سازش کامیاب ہو کر رہے گی۔ جو غداری اور نمک حرامی کا بیج ااس نے بویا ہے، وہ ضرور پھل لائے گا۔ لارڈ کلائیو میر جعفر کی یقین دہانیوں پر اتنا بڑا جوا کھیلنے چلا آیا تھا۔

عین میدانِ جنگ میں نواب کو اطلاع ملی کہ میر جعفر اپنی پنتالیس ہزار سپاہ کو انگریزوں سے ملنے کا حکم دینے والا ہے۔ نواب نے میر جعفر کو اپنے خیمے میں طلب کیا اور کہا:
"ماموں جان! یہ وقت میری نہیں ملک کی امداد کا ہے۔ اس مسندکی مدد کا ہے جسے علی وردی خان نے قوتِ بازو کے زور سے حاصل کیا۔ اگر انگریزوں کی فتح ہوئی تو ہندوستان ان کے قبضے میں چلا جائے گا۔ اگر اس نے تم سے کوئی وعدہ کیا ہے‘ تو ہرگز قائم نہ رہے گا۔ یہ پگڑی جس پر طرہ لگا ہوا ہے‘ تم نے میرے سر پر رکھی تھی۔ اب اس کی لاج تمہارے ہی ہاتھ میں ہے۔"

نواب سراج الدولہ نے اپنی پگڑی میرجعفر کے پیروں میں رکھ دی۔ نمک حرام نے بڑے ادب سے جھک کر اسے اُٹھایا اور نواب کے ہاتھ میں دے، دونوں ہاتھ اپنی چھاتی پر مار، بڑے جوش سے کہا "میں نواب کا وفادار ہوں اور مرتے دم تک رہوں گا۔"

لیکن جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا۔ میر جعفر نے اپنی سپاہ کو انگریزوں سے جا ملنے کا حکم دیا۔ نواب کے ساتھ صرف بارہ ہزار کے قریب وفادار سپاہ باقی رہ گئی۔ تمام وفادار جرنیل شہید ہو گئے۔ نواب سراج الدولہ کی کمر ہی ٹوٹ گئی۔

بنگال کے دارالحکومت مرشدآباد پر انگریزوں کا قبضہ ہوا۔  غدار میر جعفر کو انگریزوں نے نواب کی گدی پر بٹھایا اور تمام خزانہ لوٹ لیا گیا۔ پرہیزگار، خدارسیدہ اور عابد و زاہد نواب سراج الدولہ کو قید کیا گیا اور قید کی حالت میں ہی قتل کرا دیا گیا۔


مشرقی پاکستان:


ایوب خان کے اقتدار کے آخری سال چل رہے تھے۔
غدار شیخ مجیب الرحمٰن
1968ء میں عوامی لیگ کی سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے ساتھیوں کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا گیا۔اس پہ الزام یہ تھا کہ اس نے ہندوستان کے شہر اگرتلہ میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں سے ملاقات کی اور مشرقی پاکستان کو توڑنے کے سلسلے میں منصوبہ سازی کی۔ اس کیس کو اگرتلہ سازش کیس کا نام دیا گیا۔

آئی ایس آئی کے بہادر جوان لیفٹنٹ کرنل شمس العالم نے دشمنوں کی صفوں میں گھس کر اس سازش کا سراغ لگایا تھا۔

مقدمے کی سماعت شروع ہوتے ہی سیاسی حلقوں میں بھونچال برپا ہو گیا۔ سیاسی جماعتوں نے اس مقدمے کو ختم کرنے اور ملزموں کو آزاد کرنے کی تحریک شروع کر دی۔

تمام سیاسی جماعتوں نے اسے حکومت کی سیاسی جماعتوں کے خلاف ایک سازش قرار دیا۔ حتٰی کہ ایوب خان کی گول میز کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے تمام جماعتوں نے مجیب الرحمٰن کی غیر مشروط رہائی کی شرط عائد کر دی۔

15 فروری 1969 کو ایک غدار سارجنٹ ظہورالحق کو اس کی بیرک کے دروازے پر گولی مار کر ختم کر دیا گیا۔ پورے مشرقی پاکستان میں طوفان برپا ہو گیا۔ سارجنٹ کو آزادی کا شہید قرار دیا گیا اور بعدازاں اس کی یادگار بنائی گئی۔

22 فروری1969 کو حکومت نے تمام ملزموں کو غیر مشروط طور پر رہا کر دیا۔

بالاخر 16 دسمبر1971 کو سازش کامیاب ہوئی اور عوامی لیگ نے بھارتی افواج کی مدد سے پاکستان توڑنے میں کامیابی حاصل کر لی۔

22 فروری 2010 کو اگرتلہ سازش کیس کی بیالسویں سالگرہ پر سازش کیس کے ایک ملزم اور اس وقت کی بنگلہ دیش پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر شوکت علی نے اپنی تقریر میں اقرار کیا کہ ان پر لگائے گئے تمام الزامات درست تھے۔


تاریخ کا سبق:


غداری ناقابلِ معافی جرم ہے۔ غداروں کو کبھی معاف مت کرو چاہے وہ کوئی خونی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ وہ آستین کے سانپ ہیں۔ ان کا پھن ان کی غداری کا پتہ چلتے ہی کچل ڈالو۔

غدار کوئی سیاسی لیڈر ہو یا فوجی جرنیل ہو، کوئی سول افسر ہو یا وزیرِ اعظم ہو۔ وہ جہاں ملے، جسے ملے، جس حالت میں ملے، اس کو وہیں ختم کردو۔ اس کو ایک دفعہ بھی بچنے کو موقعہ دیا تو وہ ملت کی تاریخ ہی نہیں، اس کا جغرافیہ بھی بدل ڈالے گا۔

ختم شد


مندرجہ ذیل مضامین سے استفادہ کیا گیا۔ تفصیل کے لیے براہ کرم انہیں پڑھیے۔
۱۔ ننگ آدم، ننگ دین ننگ وطن ۔۔ میرصادق  از ڈاکٹر راہی فدائی 


۲ ۔ نواب سراج الدولہ کے آخری ایام از محمد صادق قریشی

۳ - اگرتلہ سازش کیس - وکی پیڈیا مضمون

1 comment :

  1. بہت خوب ۔۔۔جناب مشرقی پاکستان کے بارے میں تلخ حقائق

    ReplyDelete

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...