Sunday, May 12, 2013

پی ٹی آئی کے الیکشن نتائج کا تجزیہ - عمران زاہد کے قلم سے


الیکشن کے بعد سب سے اہم کام اپنی جیت ہار کا جائزہ لینا ،اس کی مثبت و منفی پہلوؤں کو جانچنا اور آئندہ کے لیے  دوبارہ سے صف بندی کی پلاننگ کرنا ہے۔ پی ٹِی آئی میرے نزدیک جماعت ِ اسلامی کے بعد دوسری آپشن تھی۔ گو میرا ووٹ گیا تو جماعت کو، لیکن پی ٹی آئی کی کارکردگی پرمیری توجہ تھی۔ میرے نزدیک اُن کے نتائج بالکل ٹھیک اندازے کے عین مطابق آئے ہیں۔ لیکن پھر بھی پی ٹی آئی بہتر کارگردگی دکھا سکتی تھی جو وہ نہ دکھا سکی۔ میرے نزدیک اس کی وجوہات  نیچے دی گئی ہیں، ہو سکتا ہے کہ بہت ساری وجوہات overlap کر رہی ہوں، لیکن یہ میرا فوری ردعمل ہے۔




۱ – الیکشن ٹکٹ کے فیصلے۔ بہت ساری جگہوں پر لوٹوں اور بری شہرت والے امیدواروں کو ٹکٹ ملی۔ اُن کی وجہ سے پی ٹی آئی کا "صاف چلی، شفاف چلی" والا تاثر بہت گہنا گیا۔ مخالفین تو مخالفین پی ٹی آئی کے حامی کالم نگاربھی اس پر تنقید کرتے رہے۔ اس تنقید کو آپ پچاس فیصد بھی  درست مان لیں تو بھی اپنی اصلاح کے لیے بہت گنجائش ہو گی۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بہت اچھے اچھے امیدوار بھی میدان میں تھے تو وہ کیوں ہار گئے۔یہ یاد رہے، ایک بری شہرت والا امیدوار خود تو شاید جیت ہی جاتاہو لیکن اس کے جرائم کی صفائی اُن معصوم امیدواروں اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کو دینی پڑتی ہے جن کا اس شخص سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ ایک حلقے کا امیدوار بعض اوقات، کسی دوسرے حلقے  (یا حلقوں) میں آپ کا بیڑہ غرق کر سکتا ہے۔ لاہور میں بارہا میاں اسلم اقبال،سردار ساجد جوئیہ اور اس سے پہلے علیم خان، عبد الرشید بھٹی  وغیرہ پر تنقید ہوئی۔ پی ٹی آئی کے بہت سے پختہ حمایتی بھی ان پر تنقید کو حق بجانب ٹھہراتے اور چپ ہو جاتے تھے، کجا  یہ کہ وہ کسی دوسرے  سے ووٹ مانگتے۔
جماعتِ اسلامی میں ہمیں بارہا اس چیز کا تجربہ ہوا۔ بُرا امیدوار  نہ صرف آپ کے لیے عام لوگوں کو جواب دینا مشکل بنا دیتا  ہے بلکہ آپ کے پکّے ووٹوں کو بھی اتنا ڈی موریلائز  کر دیتا ہے کہ وہ ووٹ یا تو بے اثر ہو جاتے ہیں اور ڈلتے ہی نہیں یا وہ کسی اور کے حق میں ڈل جاتے ہیں۔ جماعت والے آج تک  میاں نواز شریف اور  مولانافضل الرحمٰن  کی حرکتوں کے  لیےجواب  دہ ٹھہرائے جاتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ ان لوگوں کے ساتھ جماعت نے اتحاد کیے ۔ اب اگر اتحاد پر یہ معاملہ ہو سکتا ہے تو پارٹی ٹکٹ پر تو بہت ذیادہ ہو سکتا ہے۔

۲ –  الیکشن کمپین کے انداز و بیاں- موجودہ الیکشن کمپین میں عمران خان اور ان کے حامیوں نے جس طرح کی زبان استعمال کی اور جس طرح کی بڑھکیں لگائیں، اس نے ان کے بہت سے ووٹرز کو مجبور کر دیا کہ وہ کسی اور کو ووٹ ڈال دیں۔ "اوئے نواز شریف"، "بلے سے پھینٹی لگاؤں گا"، "شیر کے تِکے بنا کر کھا جاؤں گا" وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ اس کی مثالیں ہیں۔
سوشل میڈیا میں بھی طوفانِ بدتمیزی کی انتہا تھی۔ ایک بہت ہی سنجیدہ قسم کے حامی نے کچھ اس قسم کا پیغام لکھا کہ "الیکشن والے دن، شیرکی دم اٹھائیں ، وہاں تیر رکھ کر بلے سے ضرب لگائیں اور عمران خان کا ووٹ دیں" ۔ واللہ   میں اس بیہودگی کا عشر عشیر بھی نقل نہیں کر سکا۔ اس پیغام  کے علاوہ، کئی کئی طرح کے مذاق مخالفین کے لیے ، مولانا فضل الرحمٰن کے لیے "مولوی ڈیزل" اور "فضلو" کے خطابات نہ صرف غرور کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ذہنی پستی بھی نمایا ںکرتے ہیں۔ عمران خان صاحب نے تو خود اپنے خطابات میں ان کے لیے "منافق" کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اللہ سے ڈرنا چاہیئے۔ کسی کو کافر یا منافق کہنا بہت بڑی بات ہے۔ ان چیزوں سے جتنا بچا جا سکے اتنا ہی اچھا ہوتا ہے۔
سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ بعض اوقات مخالفین سے بھی ہاتھ ملانے پڑتے ہیں یا اُن کے ساتھ بھی مل کے بیٹھنا پڑتا ہے۔ ایسے الفاظ و کلمات سے پرہیز کرنا چاہیئے جو آپ کے لیے روٹین کے سماجی تعلقات کو بھی مشکل بنا دیں۔
پنجاب کے لوگ بہت وضع دار ہیں۔ یہاں کی کچھ روایات ہیں۔ لوگ ہی نہیں اللہ  تعالٰی بھی غرور کو ناپسند کرتے ہیں۔لوگ عاجزی کی سراہتے ہیں چاہے وہ دکھاوا ہی کیوں نہ ہو۔  عمران خان صاحب کی لفٹر سے گر کر زخمی ہونے کے واقعے کے بعد میاں شہباز شریف نے عیادت کے لیے شوکت خانم  ہسپتال کا دورہ کیا۔ روایات کے مطابق (دروغ بر گردن فیس بک راویان)، وہاں پر میاں شہباز شریف سے نہ صرف بدتمیزی ہوئی، لوگوں نے دھکم پیل کی بلکہ عمران خان نے ملنے سے ہی انکار کر دیا۔ ہمارے لوگ گھر آئے دشمن کی بھی مدارات کرتے ہیں۔ قاتل چل کر گھر آجائے تو قتل معاف کر دیتے ہیں۔ عمران خان کے اس عمل نے میاں شہباز شریف کا قد بہت بڑھا دیا اور عمران خان کا قد کافی گھٹا دیا۔
۳ – سوشل میڈیا بد تمیزی :  یہ کہنا تو ذیادتی ہو گی کہ پی ٹی آئی کے لوگ بد تمیز ہیں۔ میرے بہت سے جاننے والے قابلِ احترام دوست پی ٹی آئی میں شامل ہیں اور ان کی شیریں بیانی کا  میں بھی قائل ہوں۔ ہو سکتا ہے پی ٹی آئی کے دور کے حامیوں نے یا اس کے عام ووٹروں  نے ایسا کیا ہو ۔۔ لیکن بہرحال پی ٹی آئی کے کھاتے میں سوشل میڈیا بدتمیزی کا الزام ہے۔ اس سے پہلے ایم کیو ایم والے اس طرح کے ایگریشن کے لیے معروف تھے۔ دائیں بازو کے لوگ ادب آداب اورمذہبی  اخلاقیات کو کافی اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی نے یہ سب بدل دیا۔ انہوں نے سب سے پہلے مخالفین کے لیے نفرت پر مبنی پیجز بنائے۔ جن میں اُن کی تضحیک کی جاتی تھی۔
سب سے زیادہ غیر اخلاقی چیز مخالفین کے دین و ایمان پر شک کرنا ہے۔ ہمارے پی ٹی آئی کے دوستوں نے ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنا مناسب سمجھا۔  تنقید کرنے والے  ہم خیال لوگوں کو اسٹیٹس کُو کا ساتھی قرار دینا، تنقید کرنے والے صحافیوں کو لفافہ قرار دینا، خواتین صحافیوں کے بارے میں غیراخلاقی زبان استعمال کرنا یہ سب چیزیں آپ کے نمبر کاٹ گئیں۔
اسی طرح سے اس طرح کا رویہ اختیار کرنا کہ وہ تو گویا جیت ہی چکے ہیں اور مخالفین ہار چکے ہیں، ذہنی بچگانہ پن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر خان صاحب کے مداح مل جل کر اتنا شور مچاتے تھے کہ یو ں لگتا تھا جیسے سارے عقلِ کُل پی ٹی آئی کے حصےمیں آئے ہیں اور باقی سب کے سب احمق ہیں۔ لوگوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے پی ٹی آئی کے   تنگ نظر عاقلوں کو مسترد کر دیا۔ یہ ایک مقامِ عبرت بھی ہے اور اس میں مستقبل کی سٹریٹیجی کا نقشہ بھی چُھپا ہے۔
میں عمران خان کی جگہ ہوں تو اپنی تمام سوشل میڈیا ٹیم کو فارغ کر کے مثبت سوچ والے نوجوان بھرتی کروں۔ مخالفین پر تنقید کے لیے مہذب انداز اور بہترین الفاظ کا چناؤ کرنے کا کہوں اور ذاتی حملوں کی حوصلہ شکنی کروں۔ دوسروں کے خود پر ذاتی حملوں کو نظر انداز کروں اور ان پر ذاتی حملے نہ ہونے دوں۔ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ذاتی حملے کرنے والے اپنا نقصان سب سے ذیادہ کرتے ہیں۔
۴۔تنگ نظری اور میں نہ مانوں کی رَٹ: پی ٹی آئی کے دوست تقریباً ان تمام سروے کے نتائج کو جھٹلاتے رہے جس میں میاں نواز شریف کی برتری دکھائی گئی تھی۔  حتٰی کہ گیلپ سروے کے قابلِ احترام ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کی۔ ان کو بھی بکاؤ ہونے کا طعنہ دیا گیا۔  اب تک کے نتائج نے گیلپ کے اندازوں کی تصدیق ہی کی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے دوست بعض جعلی سروے بھی لانچ کرتے رہے جس میں پی ٹی آئی کی برتری دکھائی گئی تھی۔ اس قسم کے سروے محترم عارف علوی صاحب کے صاحبزادے اپنی فیس بک وال پہ بھی دیتے رہے جس میں وہ اپنے والد کے حلقے کی خود ساختہ قسم کے سرووں سے یہ ثابت کرتے رہے کہ وہ بہت عظیم اکثریت سے جیت رہے ہیں۔
جماعت ِ اسلامی کے دوست اور کئی دوسرے غیر جانبدار اور حتٰی کہ پی ٹی آئی کے سنجیدہ لوگ بھی تقریباً انہی نتائج کی پیشین گوئی کر چکے تھے۔ اور نتائج پانچ سے دس فیصد کے فرق سے وہی ہیں۔ لیکن اب اس تنگ نظری کا کیا کیا جائے کہ پی ٹی آئی کے وہ لوگ جو بہت ذیادہ غیر حقیقی نتائج کی امیدیں لگا بیٹھے تھے اب سڑکوں پر آنے  کی باتیں کر رہے ہیں۔ مسئلہ ان نتائج میں نہیں ہے مسئلہ آپ کے غیر حقیقی تجزیوں میں تھا۔ اس شاک کو برادشت کریں، ساری عمر غلط تجزیوں کے سراب میں نہیں آئیں گے۔
جماعتِ اسلامی کے دوست اس سراب کا شکار اسلامک فرنٹ والے الیکشن میں ہوئے تھے۔ اُس شاک کو برداشت کرنے کے بعد اب وہ بہت حد ٹھیک تجزیے کر لیتے ہیں۔ جماعت کے کافی لوگ تقریباً انہی نتائج کی پیشین گوئی کر چکے تھے اور اگلے الیکشن کو اپنا مقصد سمجھ کر اس الیکشن کو لڑ رہے تھے۔ خیر جماعت کی الیکشن اسٹریٹیجی ایک الگ مضمون کو تقاضہ کرتی ہے جس کو کسی وقت ضرور لکھا جائے گا۔ ابھی تو مقصد پی ٹی آئی کی اسٹریٹیجی کی خامیاں ہیں۔
۵۔بے جا تنقید اور ووٹر کےذہن کو نہ سمجھنا ۔  مسلم لیگ نے شروع دن سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسلم لیگ کے علاوہ کسی بھی جماعت کا پڑنے والا ووٹ زرداری کو جائے گا جس سے آپ لوگ نجات چاہتے ہیں۔مسلم  لیگ کے اس  موقف کو بہت پزیرائی ملی۔ پی ٹی آئی ووٹر کی اس ذہنی خلش کو مٹانے میں ناکام رہی۔ بلکہ پے در پے کئی اقدامات سے مسلم لیگ کے  اس پراپیگنڈے کو درست ثابت کرتی رہی۔ مثلاً
ساری کمپین میں ایک لفظ بھی زرداری  کے بارے میں نہیں کہا گیا۔ حتٰی کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر بھی زرداری کو بخش کے مسلم لیگ کے لتّے لیے جاتے رہے۔ مسلم لیگ بھی قصوروار تھی لیکن زرداری اور مسلم لیگ کی ذمہ داری کا تناسب 80 اور 20 کا تھا۔ لیکن تنقید صد فیصد مسلم لیگ کے کھاتے میں ہی پڑتی رہی۔ پنجاب کے خاموش ووٹر نے اس تعصب کو بہت محسوس کیا اور مسلم لیگ کے پراپیگنڈے کو غیر محسوس انداز میں قبول کر لیا۔
بہت ساری جگہوں پر پی پی پی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی گئی۔ کچھ جگہوں پر پی پی پی نے ازخود پی ٹی آئی کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا۔ اس چیز نے بھی لوگوں کے اذہان کو متاثر کیا۔ لوگوں نے مسلم لیگ کے اس پراپیگنڈے کودرست  مان لیا کہ پی ٹی آئی  زرداری کی بی-ٹیم ہے۔ لوگوں نے اس خدشے کو بھی پزیرائی بخشی کہ کہیں عمران خان کو ڈلنے والا ووٹ دوبارہ پی پی پی کو حکومت میں لانے کا سبب نہ بن جائے۔ بہت سارے لوگ نواز شریف کے کٹر حامی تو نہ تھے لیکن وہ اسی ڈر کے سبب اس کو ووٹ ڈالنے میں ہی عافیت جانتے تھے۔
پوری الیکشن  مہم میں ایم کیو ایم کے خلاف کوئی بات نہیں کی گئی۔ حتٰی کہ عمران خان کراچی گئے اور کوئی جلسہ تو کجا ڈھنگ کی پریس کانفرنس بھی نہ کر سکے۔  کی بھی تو اس میں ایم کیو ایم کے خلاف کوئی بات کرنے سے گریز کیا۔خان صاحب کی مسلم لیگ کے خلاف استعمال کی گئی زبان کے پس منظر میں لوگوں نے اس فرق کو بہت ذیادہ محسوس کیا اوران کی اس میانہ روی کو ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی میں خاموش مفاہمت سے موسوم کیا۔
الیکشن کے دوران جب ایم کیو ایم کی واضح دھاندلی اور بدمعاشی کے ثبوت سوشل میڈیا میں آ رہے تھے تب بھی پی ٹی آئی کے احباب ایم کیو ایم کے خلاف ایک بھی لفظ بولنے کے روادار نہیں تھے۔ جماعتِ اسلامی اور دوسری جماعتوں نے جب بائیکاٹ کا اعلان کیا تو تب بھی" خاموشی ہے اپنا ایمان" کے مصداق پی ٹی آئی کے دوست خاموش تھے۔ اس چیز نے پی ٹی آئی کی ہمدردی کو جتنا کم کیا اس کا اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا۔ شاید اب آئیندہ پی ٹی آئی کو بہت سارے معاملات میں سولو فلائیٹ ہی کرنی پڑے اور دوسری جماعتیں اس  کے غیر پختہ رویے کی وجہ سے اس کے ساتھ تعاون سے گریز کریں۔
اسی طرح پنجاب کی حکومت کے بعض اچھے منصوبوں کو بھی منفی پراپیگنڈے کا شکار بنایا۔ لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ زرداری کی زبان بولی جا رہی ہے۔ میٹرو بس کو غیر ضروری طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی طرح کی تنقید ماضی میں موٹروے پر بھی ہوئی تھی۔  وفاقی حکومت کے تمام بوگس منصوبوں پر خاموشی اور پنجاب حکومت کے نسبتاً  بہتر منصوبوں پر بے جا تنقید نے ان کی تنقید کا وزن بہت ہلکا کر دیا۔ حتٰی کہ لوگوں نے ان کے بعض حقائق پر مبنی  الزامات کو  بھی وزن نہیں دیا۔
مختصراً بے جا  ، بے محل اور غیر محتاط تنقیدنے پی ٹی آئی کی ہمدردیاں بہت کم کر دیں۔ مجھے بیگم صاحبہ نے بتایا کہ پولنگ اسٹیشن پہ بہت ساری خواتین اس بات کا اظہار کر رہی تھیں کہ وہ ووٹ تو عمران خان کو ہی دینا چاہ رہی تھیں لیکن مخالفین  کے بارے اُس کی غیر محتاط زبان کے سبب وہ اب اس کو وو ٹ نہیں دیں گی۔ ایک بہت ہی سنجیدہ دوست کی طرف سے بھیجا گیا ایس ایم ایس یقیناً اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ:
ALHAMDOLILAH Allah ka shukar aur Allah say dua hai k hamaray mulk ko khushhali aata farma. Amin

All those who voted for PML N on my request, I say Thank . And for PTI ppl thank you to u as well. Bcoz ur leader used such bad lang in election campaign it pushes all pml n lovers to vote out ill mannered politician.
پی ٹی آئی والے دوستوں کے لیے بڑا سبق یہی ہے کہ زبان دو دھاری تلوار کی طرح ہوتی ہے، جہاںوہ مخالفین کو نقصان پہنچاتی ہے وہاں وہ خود کو بھی  زخمی کر سکتی ہے۔ اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو۔
ایک اور چیز جس نے پی ٹی آئی کے ممکنہ ووٹر کو بددل کیا اور ایک ذہنی خلفشار میں مبتلا کیا، وہ پی ٹی آئی کا مخلوط اور میوزیکل جلسہ کلچر تھا۔  مخالفین کو یہ کہنے کا موقعہ ملا کہ پی ٹی آئی کے جلسوں میں لوگ میوزک اور مخلوط ماحول سے لطف اندوز ہونے جاتے ہیں۔ اس کلچر کے سبب بہت سارا  مغرب ذدہ کراؤڈ یقیناً پی ٹی آئی کی طرف کھنچا بھی، لیکن بہت سارے سنجیدہ اور اخلاقی قدروں کو اہمیت دینے والے لوگوں نے اس کو ناپسند کرتے ہوئے دوسری آپشنز کو چن لیا۔ پی ٹی آئی کی شناخت ایک دائیں بازو کی جماعت کی ہے، اور دائیں بازو کا روایتی ووٹر اس طرح کے کلچر کو نہ صرف پسند نہیں کرتا بلکہ سختی سے مسترد کرتا ہے۔ پی ٹی آئی کے بہت سارے اسلامی ذہن رکھنے والے دوست بھی  پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کے باوجود ان ذہنی الجھنوں کو سلجھا نہ پائے  اور بیشتر مواقع  پر یا تو چپ ہو رہے یا عجیب و غریب توجیہات گھڑتے رہے۔
۶۔ اختتامی اقدامات: کسی بھی چیز میں فنشنگ ٹچز کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔  الیکشن میں دیکھا گیا کہ پی ٹی آئی کے لوگوں نے گیارہ بارہ سے پہلے پہلے ووٹ بھگتا ڈالے۔ اور  اُس وقت کے رش کو دیکھ کر وہ اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ فتح انہی کی ہے۔ تین چار بجے کے بعد ان کے کئی پولنگ کیمپ بند پڑے تھے۔ شاید وہ فتح کی امید میں لمبی تان کر سو چکے تھے۔  جبکہ مخالفین آخری منٹ تک ووٹروں کو سہولتیں مہیا کر رہے تھے اور  اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔ یہ معاملہ بالکل کچھوے اور خرگوش والا ہو گیا تھا۔
اسی طرح کراچی کے واقعات پر بھی ان کا رد عمل بہت سست اور غیر فیصلہ کن تھا۔  اسی طرح تھوڑے بہت رزلٹ کے بعد ہی میاں نواز شریف کا ردعمل میڈیا میں آ گیا تھا اور اس میں بھی انہوں نے اپنے عاجزانہ کلمات سے لوگوں کو متاثر کیا۔ انہوں نے اپنے خلاف سب و شتم کو معاف کیا۔ یہ ایک بڑے دل کی بات ہے۔ عمران خان صاحب رات گئے تک بھی کوئی بیان جاری کرنے سے قاصر رہے۔ حتٰی کہ پی ٹی آئی کے فین پیجز پر لوگ اپنی لیڈرشپ کو دہائیاں دے رہے تھے کہ کچھ کرو کچھ کرو لیکن وہ سب بے سود ہی رہا۔
اس معاملے میں پی ٹی آئی کے ایک نمایاں نام اسد عمر کا ذکر نہ کرنا ذیادتی ہو گی۔ انہوں نے مسلم لیگ کو مبارکباد دی اور اچھے کلمات ادا کیے۔ یہ ایک مثبت سوچ کے حامل شخص کا رویہ تھا۔  کاش یہ کلمات عمران خان خود کہتے تو بات ہی اور ہو جاتی۔
سب سے بڑھ کر یہ پنجاب کے مختلف حلقوں میں شکست کی خبریں سن کر پی ٹی آئی کے لوگ اتنے ذیادہ حواس باختہ ہو گئے کہ وہ پنجابیوں کو ہی بُرا بھلا کہنے لگے  حتٰی کہ ننگی گالیوں سے بھی پرہیز نہ کیا۔ یہ وہ موقعہ تھا کہ پی ٹی آئی کے دوست ایک  مہذب زبان استعمال کر کے اپنے ممکنہ ووٹروں کو اگلے الیکشن کے لیے جیت سکتے تھے۔ لیکن ان کے اس عاقبت نا اندیشانہ طرزِ عمل نے مستقبل کے لیے بھی پی ٹی آئی کی راہ میں کانٹے بکھیر دیے ہیں۔ خیر اب بھی وقت نہیں گزرا، پی ٹی آئی کی قیادت باوقار طریقے سے اپنی پوزیشن کو تسلیم کرے اور اپنے کارکنوں کو تحمل کا مشورہ دے تو بات مثبت رخ پر بڑھ جائے گی۔
آخر میں یارِ طرحدار کاشف عظیم صاحب کا فوری  تجزیہ پیش خدمت ہیں۔ امید ہے دوست اس سے بھی مثبت طریقے سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ذہن میں رکھیے کہ کاشف صاحب رائیٹ آف دا سنٹر کی سوچ رکھتے ہیں اوراس دفعہ پی ٹی آئی کی  اچھے انداز سے  حمایت کرتے رہے ہیں، نون لیگ سے بھی مراسم کو توڑے بغیر ۔
My unbiased Post-Election Analysis
======================
1. PTI failed to counter PMLN's media campaign about division of right-wing vote against PPP - Last thing people wanted was to see PPP govt back so they took the msg from PMLN seriously
2. IK’s policy of inducting 2nd grade but corrupt electibles proved wrong – they brought bad reputation and maligned the clean image of PTI
3. Imran Khan’s one-sided criticism on Nawaz Sharif was not appreciated by rural class of Punjab – they considered it unfair that PMLN is being criticized more than PPP and MQM
4. Imran Khan remained rigid on seat adjustment with like-minded parties
5. PTI thought it was sufficient to control social media only while they ignore the importance of electronic media that has a wider and deeper reach in the rural areas
6. Unlike in Cricket, Imran Khan didn’t have ‘Javed Minadad’ who could advise him and take the lead where he was not present
7. PMLN was quick enough to react and respond to PTI threat while PTI slowed down after creating the momentum on 30 Oct 2011
مجھے امید ہے کہ یہ تجزیہ پی ٹی آئی کے دوستوں کو اگلے الیکشن کی حکمتِ عملی بنانے میں مدد دے گا۔ نواز شریف کو اگر حکومت ملنے جا رہی ہے تو یہ  ان کے لیے بہت بڑی آزمائش بھی ہے۔ لوگوں نے ان کو ایک لحاظ سے آخری موقع دیا ہے۔ اگر وہ اپنے وعدوں کو پورا نہ کر سکے تو ان کا اگلے الیکشن میں زرداری والا حال بھی ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے دوست مثبت اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے نواز حکومت کو اپنے وعدے یاد دلاتے رہیں اور ان کو پانچ سال پورے کرنے دیں۔ مسلم لیگ نے پی پی پی کو پانچ سال پورے کرنے دیے اور صبر کا دامن تھاما تو اس چیز نے پی پی پی کا تقریباً صفایا ہی کر دیا۔ پی پی پی کے پاس ہمدردی بٹورنے کو کچھ نہیں تھا۔ یہی طریقہ اب نون لیگ پر آزمایا جائے اور ان کو اچھی کارکردگی دکھانے پر مجبور کیا جائے۔

آخر میں میری دعا ہے کہ جو بھی ہو پاکستان کی بہتری میں ہو۔ پاکستانیوں کی عزت بڑھے اور ہم ایک باوقار قوم بن پائیں۔ ہماری حکومت بھی عوام کی خواہشات کو سمجھ پائے اور اپنی بہترین کاوشوں کو ان کے حصول کے لیے صرف کرے۔ آمین۔ ثم آمین۔



11 comments :

  1. Very good Analysis on Defeat of PTI

    ReplyDelete
  2. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  3. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  4. Jo shakhsh dhandli kar ka Govt main aata hai, woh kabhi public ka faia nahin kar skata. is liya Mian Sahbaan sa achhai ki tawaqa karna bewaqufi hai.. But PTI should learn from his weak points

    ReplyDelete
  5. Very nice article. I agree its time to learn both for PTI and JI if they do alliance before election that could come out as a way better result. I know a lot of people were 1st JI 2nd PTI or 1st PTI 2nd JI other than those extreme right in JI and Extreme Left in PTI ... I wish and pray their success in KPK as lot of eyes and hearts waiting for their failure in KPK

    ReplyDelete
  6. Being PTI supporter you are right the lose moral adds and attitude it was irresponsibility of PTI leaders as they must guide and stop them.

    ReplyDelete
  7. آپ نے درست تجزیہ کیا ہے ۔ میں یہ وجوہات مختصر طور پر اپنے گرد عمران خان کے پرستاروں کو 9 مئی کو ہی بتا دیا تھا لیکن وہ لوگ اپنے میں مست تھے ۔ ایک بات آپ سے رہ گئی ہے ۔ تحریک انصاف میں خوس انتظامی بھی مفقود تھی اور ایک دن خطرنک صابت ہوئی ۔ عمران خان کا گلبرگ لاہور میں گرنا ۔ اللہ نے بچا لیا ورنہ مرنے میں کوئی کسر نہ تھی ۔ اس پر طرّہ یہ کہ سفقت محمود نے کہا کہ لِفٹر کا استعمال معمول کی بات ہے ۔ جبکہ لفٹر کی آپریشن مینؤل میں لکھا ہوا ہے
    To be used for lifting appropriate dead load only
    دوسری بات کہ سٹیج 20 فٹ اونچی کیوں بنائی جاتی ہے ؟ عمران خان کے ایک پروانے نے بتایا ”دوسرے لیڈروں کے جلسے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ سامعین سٹیج سے دور ہوتے ہیں ۔ عمران خان سے لوگ اتنی محبت کرتے ہین کہ لوگ سٹیج پر چڑھ آتے ہیں“۔ اصل وجہ نظم و ضبط کا فقدان ہے

    ReplyDelete
  8. ایک بہت اچھا تجزیہ

    ReplyDelete

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...