چند روز قبل نعرے بازی سے متعلق ذاتی مشاہدات پر مبنی ایک ہلکی پھلکی تحریر لکھی تو جیسے "چپکے سے ویرانے میں بہار آجائے" یار دوستوں نے ایس ایم ایس، ای میلز اور کمنٹس کے ذریعے اپنی رائے کا خوب "ڈٹ" کر اظہار کیا۔ یہاں تک کہ چند جوشیلے جوا نوں نے تو اپنا قیمتی بیلنس اس "پھسڈی" سی تحریر پر قربان کر کے حاتم طائی کو بھی "للکار کے کہہ دو۔ ۔ ۔ زندہ ہے!" والا نعرہ سنا دیا۔ بیشتر احباب کا کہنا ہے کہ کالم میں تحریر کئے گئے نعرے بلاشبہ ان کی یادوں میں محفوظ ہیں لیکن کیا ہمارے نوجوان اتنے ہی" کند ذہن " ہو چکے ہیں کہ پچھلے 15،20 سالوں میں کوئی نیا نعرہ تخلیق نہ کرسکے۔ یا پھر آپ (یعنی کہ راقم) نئے "ٹرینڈز" سے ناواقف ہیں۔ اور چیلنج کیا گیا کہ صاحب اگر صحافت یا کالم نگاری کا شوق ہے تو کچھ اچھوتا پیش کرو۔
خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ ایک کالم سے احباب کا پیٹ نہیں بھرا اور تشنگی دور کرنے کیلئے حصہ دوم کا مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ سو جناب پیش خدمت ہے "نئی ڈش" ۔ اس ضمن میں جو کچھ تحریر کیا جائے گا اس میں مجھ سے زیادہ حصہ ان دوستوں کا ہے جنہوں نے نعرے بازی کے متعلق مفید اور نادر انکشافات کئے ہیں اور ان کی روشنی میں کچھ لکھنے کی فرمائش صادر کی ہے۔ گویا یہ مضمون "لکھا نہیں گیا، لکھوایا گیا ہوں" کی عملی تصویر ہے۔
سب سے پہلا اعتراض تو کچھ "ممی ڈیڈی" دوستوں کی جانب سے آیا اور ایک صاحب تو باقاعدہ ناراضی سے کہنے لگے کہ نعرے بازی کا مقصد صرف سیاسی مطالبات کا کھل کر اظہار کرنا نہیں بلکہ کچھ ہلکا پھلکا شغل میلہ بھی نعروں کی شکل میں لگتا ہی رہتا ہے۔ اس قسم کے دوستوں کا پسندیدہ نعرہ ہے۔ "تارا، ری ری، رو و، را۔ ۔ ۔ ہوہا، ہو ہا" لو بتائوبھلا، اب اسے اوٹ پٹانگ نعرے کا نہ کوئی سر نہ پیر۔ لیکن بلاشبہ یہ نعرہ "اوچھے" قسم کے نوجوانوں میں خاصا مقبول ہے اور اگر آپکو لاہور کے مشہور شغل پوائنٹ "پیالہ" جانے کا اتفاق ہوا ہے تو وہاں ون ویلنگ کرنے والے جوانوں کے اس قسم کے نعروں سے ضرور محظوظ ہوئے ہوں گے۔
اسی کیٹیگری کا ایک اور معروف نعرہ "مرد مومن مرد حق۔ ۔ ۔ چاچا گڈی چھک کے رکھ" ہے۔ ضیاء الحق مرحوم کو اس سے زیادہ خراج تحسین اور کیا پیش کیا جاسکتا ہے کہ ان کہ یاد میں بنایا گیا نعرہ اب ہر کالج و یونیورسٹی کے پکنک اور ٹور میں لگتا ہے ۔ صرف نعرے کا جواب ہی تو تبدیل ہوا ہے جس کی خیر ہے۔۔۔
نعروں کی بناوٹ اور گردان کیساتھ ساتھ اس کو لگوانے کا انداز بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ عموما نعرہ صرف ایک ہی سٹائل سے لگوایا جاتا ہے اور روایتی انداز میں ہی اس کا جواب دے دیا جاتا ہے۔ لیکن ہم نے خود نعرہ بازی کے ایسے ایسے سٹائل دیکھے ہیں کہ نعرے کا جواب دینے کو خود بخود جی چاہتا ہے۔ جن احباب کو لاہور شہر کی مختلف تحریکوں میں حصہ لینا کا موقع ملا ہے وہ شائد "چاچا ہلچل" کے نام سے بخوبی واقف ہوں اور لاہور کے کئی مظاہرین نے ان کو نعرے لگواتے دیکھا بھی ہوگا۔ موصوف بزرگ ہونے کے باوجود جوانوں کی سی اٹھکیلی طبعیت کے مالک تھے۔ ان کا نعرے لگوانے کا سٹائل یہ تھا جیسے کرکٹ میچ میں امپائر چوکے کا اشارہ کرتا ہے۔ "میں نے مچا دی۔۔۔ ہلچل ہلچل، تم نے مچا دی۔ ۔ ۔ ہلچل ہلچل، سب نے مچادی۔۔۔ ہلچل ہلچل، زور سے بولو۔۔۔ ہلچل ہلچل" اگرچہ تحریک ختم نبوت کے وقت تو ہم نے ابھی اس دنیا میں قدم رنجا نہیں فرمائے تھے لیکن متحدہ مجلس عمل کی پرویز مشرف مخالف تحریک کے دوران چاچا جی کو مینار پاکستان پر (مینار پر نہیں گراونڈ میں) پرجوش نعرے لگواتے دیکھا اور خوب لطف اٹھایا۔
اسی طرح نعرے لگوانے کا ایک اور اچھوتا سٹائل مقامی زبان میں "گھیرا" کہلاتا ہے۔ افسوس ابھی نعرے بازی سے متعلق مختلف علامات اور تراکیب کی لغت (جمع جس کی ہوتی ہے "لغویات") مارکیٹ میں دستیاب نہیں ورنہ آپ ان تمام علامات (یا کیفیات) سے بخوبی آگاہ ہوتے۔ تو جناب "گھیرا سٹائل" میں ایک صاحب سڑک یا میدان پر کھڑے ہوتے ہیں اور نعرہ باز حضرات ان کے گرد آپس میں ہاتھ تھام کر گھیرا (یا دائرہ) بنا لیتے ہیں اور گول گول گھومتے رہتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے بچپن میں ہمجولی ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر گھومتے اور اٹھکیلیاں کرتے ہیں۔ اس سٹائل میں عموما لمبے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ ایک مقبول نعرہ ملاحظہ کیجئے جو ہم نے مال روڈ پر ایک جامعہ کے طلبہ کو لگواتے سنا، "تھی اک شام سہانی۔۔۔شاوا، طلبہ پڑھ رہے تھے۔۔۔ شاوا، ایک ظالم آیا۔۔۔شاوا، اونے ہنیر پایا (یعنی اندھیرا مچایا)۔۔۔شاوا، اونے ایتھے لیاؤ (اسے یہاں پر لاؤ)۔۔۔ شاوا، نالے کن پھڑاؤ (ساتھ کان پکڑاؤ)۔۔۔ شاوا)" اگرچہ نعرے کا اصل لطف لینے کیلئے صوتی اثرات لازمی ہیں لیکن اگر آپ نعرے کی "تھیم" تک پہنچ چکے ہیں تو شاباش۔
نعرہ بنانے سے زیادہ اہم اور تخلیقی کام "جوابی نعرہ" بنانا یا کسی نعرے کو اپنے حق میں تبدیل کرنا ہے۔ گذشتہ دنوں حسن نثار صاحب نے ایک کالم بعنوان "چغد بغد لم ڈھینگ چبغدے ٹھاہ" لکھا اور اس "اوٹ پٹانگ" نعرے کے متعلق دلچسپ انکشافات کئے۔ اس نعرہ کی بگڑی ہوئی شکل "اخت بخت کمبخت بخت لما ٹینگ چبغدے ٹھاہ۔۔۔ فلاں ٹھاہ، فلاں ٹھاہ" ہےجسے متحدہ قومی موومنٹ کے کسی تخلیقی کارکن نے "نام نہاد اسلام پسند تنظیم کے غنڈے ٹھاہ۔۔۔۔جماعتی ٹھاہ" بنا کر "امر" کردیا۔ لیکن اس "بے ضرر" سے نعرے کے جواب میں جماعتی بھائیوں نے بھی ایسے کو تیسا پیش کیا اور متحدہ کیخلاف ایک دلچسپ اور مزیدار نعرہ بنایا۔ " کراچی کی ان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر، اک مست ملنگ قاضی نے، لندن کے جعلی پیر کو کچھ یوں رگڑا، پہلے سر رگڑا، پھر دھڑ رگڑا، پھر رگڑے پہ رگڑا۔۔۔ دے رگڑا۔۔۔۔ الطاف کو رگڑا۔۔۔ دے رگڑا۔۔" اس طویل ترین نعرے کا فائدہ یہ ہے کہ جب اسے لگوانا شروع کیا جاتا ہے تو ارد گرد کے افراد فورا چوکنا ہوجاتے ہیں اور جواب زیادہ "کوالٹی" اور "کوانٹٹی" کا موصول ہوتا ہے۔
مضمون کی طوالت سے اگر بور نہیں ہوئے تو ایک اور مزیدار نعرہ اور جوابی نعرہ پیش ہے (اگر بور ہو گئے ہیں تو ذرا پانی شانی پی آئیں) سرخے (جن کا گزشتہ کالم میں ذکر خیر ہوچکا ہے) بے شک جو بھی نظریات رکھتے تھے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال تھے اور اس کی بنیادی وجہ ان کا وسیع مطالعہ اور گروپ ڈسکشن جیسے پروگرامات تھے۔ اس لئے ان کا ادبی و تخلیقی میدان میں روایتی "سبزے" یعنی دائیں بازوں سے تعلق رکھنے والے احباب خاص مقابلہ نہیں کرسکے اگر کسی نے ان حضرات کو ہر میدان میں زچ کیا ہے تو وہ "پڑھے لکھے سبزے" یعنی جماعتی ہی تھے جنہوں نے سرخ نظریات کے حامل گروہ کے مقابلے میں سنجیدگی سے اپنے افراد کی تربیت کی اور میدان میں اتارا۔ خیر مضمون میں سنجیدگی در آئی ہے چناچہ واپس اپنی "ٹون" میں بات کرتے ہیں۔ سرخوں نے جماعتیوں کو تنگ کرنے کیلئے "سبز ہے سبز ہے۔۔۔ایشیا سبز ہے" والے نعرے کے جواب میں نعرہ "ایجاد" کیا اور مل کر اسے لے سے گاتے تھے "تمہارا نعرہ سبز ہے، گدھے کا چارا سبز ہے، گدھے چراؤ جماعتیوں گدھے چراؤ۔۔۔" (اس نعرے کی طرز، بڑھے چلو مجاہدو ۔والے ترانے پر ہے، اسی طرح گنگنائیں اور لطف اٹھائیں)۔ اس کے جواب میں جماعتی بھائیوں نے سرخوں کو مخاطب کرکے کہا " ہمارا نعرہ سبز ہے، گدھے کا چارا سبز ہے، ہم تمہیں چرائیں گے اور گدھا بنائیں گے۔۔۔ ادھر تو آؤ سرخیوں، ادھر تو آؤ۔۔۔" یوں سرخ سویرے کو اسی کی زبان میں جواب ملنا شروع ہوا تو وہ بھی "کہساروں کے پار" واپس چلا گیا۔
نعرے بازی سے متعلق ذاتی مشاہدات اور تجربات میں خودکفیل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ "مذکورہ کارکن" کارکنان کی اس کیٹگری میں شامل ہے جو جلسہ، جلوس، احتجاج وغیرہ میں اس وقت تک آگے آگے رہتے ہیں جب تک ذرا "دھوم دھڑکا" لگا رہے۔ جیسے ہی تقاریر کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اس کیٹگری کے افراد دائیں بائیں فٹ پاتھ ڈھونڈ کر اپنا ڈیرہ لگا لیتے ہیں۔ احباب کی "خواہش دیرینہ" کے احترام میں نعرے بازی کا عملی نمونہ پیش خدمت ہے کیونکہ "تھیوری" پڑھ پڑھ کر آپ بھی بور ہوچکے ہوں گے سو پریکٹیکل دیکھنے کیلئے یہ ملاحظہ کریں۔
Post by Ahmad Shaheen.
گزشتہ مضمون کے اختتام پر نعرے بازی کے شوقین حضرات کو ایک سچا واقعہ سنا کر تلقین کی گئی تھی کہ نعرے لگواتے وقت جوش کے ساتھ ساتھ ہوش بھی ضروری ہے۔ جن حضرات کو ابھی بھی اس پر شک ہے ان کیلئے ایک "ذاتی واقعہ" پیش خدمت ہے۔ چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک کے دوران ان کے لاہور کے دورہ کے موقع پر سیاسی پارٹیوں اور طلبہ تنظیموں نے فیصلہ کیا کہ چیف صاحب کو لاہور ائیر پورٹ سے جلوس کی شکل میں لایا جائے گا۔ اس وقت تک چیف جسٹس نے عمران خان صاحب کی "شرمناکی" پر گرفت نہیں کی تھی لہذا "عمرانی نوجوان" بھی جلوس میں شریک تھے۔ کچھ ہی عرصہ قبل جامعہ پنجاب میں عمران خان صاحب "جیمز بانڈ" کی طرح داخل اور "ضدی راجپوت" کی طرح رخصت ہوئے تھے چناچہ جمعیت اور آئی ایس ایف (انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن) کے مابین تلخی کا ماحول تھا۔ لیکن تحریک میں چونکہ دونوں شامل تھے لہذا "بے رغبتی" سے ایک دوسرے کو برداشت کر رہے تھے۔ جلوس کا ہراول ٹرک جس پر سپیکر نصب تھے، آئی ایس ایف اور تحریک انصاف کے نرغے میں تھا اور وہاں سے چیف جسٹس کے حق میں نعرے بازی کی جارہی تھی، "چیف تیرے جانثار۔۔۔بے شمار بے شمار" اب کسی "انصافی بھائی" کو شرارت سوجھی اور اس نے 2 نعرے چیف جسٹس کے لگوا کر "عمران تیرے جانثار۔۔۔ " لگوانا شروع کردیا ۔ چونکہ پہلے 2 نعرے چیف کے متعلق ہوتے تھے اور تیسرا عمران خان کے متعلق تو اسے بھی اسی کھاتے میں "بے شمار، بے شمار" کا جواب مل جاتا۔ اور تحریک انصاف والے خوش ہوجاتے۔ جمعیت کے افراد بھی کچھ دیر تو چیف صاحب کے دھوکے اور جلوس کی مستی میں نعروں کا جواب دیتے رہے لیکن جیسے ہی انہیں معلوم ہوا کہ ان کیساتھ تو "ہتھ" ہوگیا ہےتو بہت تلملائے۔ آخر دو، تین "جانباز" قسم کے "ساتھی بھائیوں" نے ٹرک پر کمانڈو ایکشن کیا اور مائک والے کے پاس پہنچ گئے۔ اب جیسے ہی چیف جسٹس کے نعروں کے بعد نعرہ بلند ہوا "عمران تیرے جانثار۔۔۔۔" تو ساتھ ہی مائیک پر زوردار آواز گونجی "سارے بیمار، سارے بیمار" ۔ اس کارروائی سے پورا جلوس کشت زعفران بن گیا اور انصافی بھائی کھسیانے ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔
تو جناب کیا اب بھی آپ سمجھتے ہیں کہ نعرہ بازی کیلئے جوش کیساتھ ہوش کی ضرورت نہیں؟
ختم شد
مصنف:
احمد شاہین سوشل سائنسز کے گریجویٹ ہیں اور میڈیا اینڈ کمیونیکیشن میں سپیشلائزیشن کر رکھی ہے۔ آج کل ایک این جی او میں شامل ہو کر معاشرتی سدھار کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ اگرچہ کیمرہ سے دور ہیں لیکن قلم سے گدگدی کرتے رہتے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم رہے ہیں۔ ان سے یہاں پرملا جاسکتا ہے۔
ایک بہت ہی "مزیدار" کالم ۔۔ جس سے کوئی بھی شخص جو پاکستانی کالجز/جامعات سے نسبت رکھتا ہو، لطف اندوز ہو سکتا ہے۔۔ نعرہ بازی کا پچھلا کالم پڑھ کہ احساس ہوا کہ لکھنے کے انداز میں بہت بہتری آئی ہے (اس کالم سے پاکستانی معاشرہ کا ہر فرد محظوظ ہو سکتا ہے جبکہ پچھلا کالم چند لوگوں کے تفریح کا باعث تھا)۔
ReplyDeleteامید ہے آپ آئیندہ بھی اسطرح کی گدگداتی تحریروں کے ذریعے قارئین کو اس کٹھن وقت میں تعلیم و تفریح کے مواقع فراہم کرتے رہیں گے
احمد شاہین ، اپ کی تحریروں نے زمانہ طالب علمی اود بعد ازاں سیاسی جدوجہد کی بھولی بسری یادیں تازہ کردیں ، بہت خوب تحریر ہے ، بس لکھتے رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو سکے تو اپنے نام سے بلاگ بنا لیں
ReplyDeleteبہت عمدہ، ہلکی پھکی اور گدگداتی تحریر۔ جاری رکھئے!
ReplyDeleteکچھ گد گداتے نعرے یاد آرہے ہیں
ReplyDeleteلما لم ڈھینگ کے چمچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھاہ
کہ کڑچھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھاہ
کہ لوٹے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھاہ
great job! Maza aaya apka column parh ky!
ReplyDeleteUnique topic and Unique style sy zbrdst c entertainment, hr age k bndy k Liye......!
KEEP IT UP!!!
boaht mazay daar tehreer .. keep it up janab..
ReplyDeleteInteresting...keep it up.
ReplyDelete