Friday, June 20, 2014

خداوندا تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں - عمران زاہد کے قلم سے


مولانا علامہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے اکنامکس کے استاد محترم شاہد صدیق صاحب بہت یاد آتے ہیں۔  پڑھاتے تو وہ اکنامکس تھے لیکن ساتھ ساتھ بر محل اقوال اور اشعار بھی سناتے جاتے تھے۔ ان کی ایک بہت خاص بات یہ تھی کہ وہ دو زبانوں میں لیکچر دیتے تھے۔ ایک فقرہ انگریزی میں ادا کرتے تھے، پھر اس کو اردو میں ادا کرتے تھے۔ ان کا ہر فقرہ نگینے میں جڑا ہوا ہوتا تھا۔ ہر جملہ اتنا ٹھہر ٹھہر کے ادا کرتے کہ اس کو آرام سے لکھا جا سکتا تھا۔ ان کا جملہ کہنے کا انداز اتنا دلکش ہوتا تھا کہ میں اکثر ان کے چہرے پر نظریں جمائے ان کو بولتا ہوا دیکھا کرتا تھا اور ان کو دیکھنے سے جی نہیں بھرتا تھا۔ ان کے چہرے پر گھنی مونچھیں (بالکل آفتاب اقبال کی مونچھوں جیسی) تھیں، جو ان پر بہت بھلی لگتی تھیں۔ میرا اللہ میرے استاد محترم کو خوش رکھے اور انہیں اپنی بے پناہ رحمتوں کے حصار میں رکھے۔ آمین۔


بات ہو رہی تھی کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو دیکھ کے مجھے شاہد صدیق صاحب کی بہت یاد آتی ہے۔ اس یاد کی وجہ یہ ہے کہ شاہد صدیق صاحب اپنے لیکچر میں علامہ اقبال کی ایک نظم اکثر پڑھا کرتے تھے۔ ان کے پڑھنے کا انداز ہی انتہائی خوبصورت تھا۔ وہ کلاس میں صرف مطلع پڑھتے تھے۔ باقی ساری نظم میں نے بعد میں خود ہی پڑھی اور اتنی دفعہ پڑھی کہ یاد ہی ہو گئی۔ وہ نظم ہے باغی مرید۔ جس میں مرید اپنے پیر کی عیاشیوں اور ہوسِ مال و زر کی داستان بیان کرتا ہے اور اپنی بے حالی اور مسلمانوں کی سادگی پر مبنی عقیدت کا تذکرہ کرتا ہے۔ اشعار پڑھیے۔

باغی مرید
ہم کوتو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو، دہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں، سود ہے پیران حرم کا
ہر خرقہء سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!
(علامہ اقبال)

ڈاکٹر طاہر القادری صاحب جب کنٹینر میں تشریف فرما ہو کر اسلام آباد کی سڑکوں پر دھرنا دے رہے تھے، اور ان کے مریدین پورے اخلاص، تندہی اور جفا کشی کی مثال بنے سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے اپنے لیڈر کے احکام کی بجاآوری کر رہے تھے، یہی اشعار میرے ذہن میں گونج رہے تھے۔ واللہ مولانا اگر اپنے کارکنوں کے ساتھ تمام حالات کا سامنا کرتے تو بلاشبہ ان سے تمام اختلافات کے باوجود میرے دل میں ان کی عزت کئی گنا بڑھ جاتی۔

مولانا کے اسلام آباد دھرنے سے یاد آیا کہ صدر زرداری کا دھرنے سے نپٹنے کا طریقہ لاجواب تھا۔ زرداری نے ذرہ برابر بھی مزاحمت نہیں اور مولانا کو پورا موقعہ دیا کہ وہ اپنے دل کی ریجھیں نکال لیں۔ اس حکمتِ عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس دھرنے سے مولانا بری طرح ایکسپوز ہوتے چلے گئے۔ بڑی مشکل سے انہیں اسلام آباد ڈیکلریشن کی صورت میں ایک فیس سیونگ دی گئی جس کے بعد وہ بعد از خرابی بسیار کینیڈا کو سدھارے اور کافی عرصہ اپنے خول سے نکلنے کی ہمت نہیں کی۔ ان کے الیکشن کے بائیکاٹ کو لوگوں نے سننا بھی گوارا نہ کیا اور تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ پڑے۔

اس کے برعکس، شریف برادران کا مولانا سے نپٹنے کا طریقہ طاقت کے بے جا استعمال پر مبنی ہے۔ طاقت کے غیر ضروری استعمال انہیں ایک بددماغ، مغرور اور کسی کے پروا نہ کرنے والے ایڈمینسٹریٹر کے روپ میں پیش کرتا ہے۔ حالیہ ماڈل ٹاؤن سانحے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ گیارہ بے گناہ انسان دو اناؤں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ جہاں مولانا کا اُن ناجائز رکاوٹوں کو قائم رکھنے پر اصرارغلط ہے، وہاں پنجاب حکومت کا معاملہ کو طاقت کے ذریعے نپٹانے پر اصرار کرنا بھی غلط ہے۔ ایسے معاملات میں ہم اکثر مشتاق یوسفی صاحب سے مستعار لی گئی ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں کہ یہ حق اور باطل کی جنگ نہیں تھی بلکہ جھوٹ کی جھوٹ سے اور باطل کی باطل سے جنگ تھی۔ دونوں اطراف حق پر نہیں تھیں۔

سانحے کی بنیادی وجہ:
دیکھاجائے تو اس سارے سانحے کی بنیاد وہ رکاوٹیں اور بیرئیر تھے جو مولانا ڈاکٹر طاہر القادری کے ادارے ادارہ منہاج القران کے ارد گرد کی سڑکوں پر قائم کیے گئے تھے۔ مجھے خود اس علاقے میں بارہا جانے کا اتفاق ہوا ہے اور مجھے کہنے میں باک نہیں کہ وہ رکاوٹیں سراسر ناجائز تھیں۔ مختلف سڑکوں کو نہ صرف بند کر دیا گیا تھا بلکہ چیک پوسٹس بنا کر وہاں مسلح گارڈز بٹھا دیے گئے تھے جو عام لوگوں کو وہاں سے گزرنے نہیں دیتے تھے۔  تھوڑی سی مسافت طے کرنے کے لیے بھی بعض اوقات پورے بلاک کا لمبا چکر کاٹ کر دوسری طرف جانا پڑتا تھا۔ اس طرح سے عام لوگوں کے لیے بنائی گئی سڑکوں پر قبضہ دیکھ کر دل بہت کڑھتا تھا۔ آخر اپنی حفاظت کے لیے عوام کی چیز پر قبضہ کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ جہاں تک میرا ناقص علم ہے اس کے تحت تو کسی جگہ پر ناجائز قبضہ کر کے مسجد بھی نہیں بنائی جا سکتی۔ ایسی مسجد کو انتظامیہ گرا سکتی ہے۔ نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسجد تعمیر کرنے کے لیے زمین خریدی تھی۔ جب مسجد کے معاملے میں اتنی سختی ہے تو صرف حفاظت کے لیے عام گزرگاہ پر قبضہ کرنا تو حد درجہ کی خودغرضی ہے۔ میں مفتی یا عالم نہیں ہوں لیکن کامن سینس یہی بتاتی ہے کہ عام گزرگاہ کو لوگوں پر بند کرنا سراسر غیر شرعی ہے۔

دلیل نمبر 1:
معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں ہے۔ ان رکاوٹوں کی قانونی حیثیت کے بارے میں مولانا ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اپنے ٹوئیٹر بیانات میں بارہا یہ کہا کہ یہ رکاوٹیں عدالتِ عالیہ کی مرضی سے قائم کی گئی تھیں۔ عدالت کا احترام ہم سب پہ واجب ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب اور ان کا کوئی بھی ساتھی ایسا کوئی بھی ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہا ہے، جس میں عدالت نے انہیں عام گزرگاہ پر قبضہ کرنے کی اجازت دی ہو۔ مجھے نہایت خوشی ہو گی اگر کوئی عدالت کا ایسا کوئی بھی حکم پیش کر سکے۔ میرا دل نہیں مانتا کہ عدالت اتنا احمقانہ حکم دے بھی سکتی ہے۔

روزنامہ امت کے 18 جون 2014 کے شمارے میں اندر کے صفحات پر ماڈل ٹاؤن سانحہ پر ایک مفصل رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ اس کے تمام مندرجات سے میرا اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس رپورٹ میں ہائی کورٹ کے حکم کے حوالے سے جو واقعہ تحریر کیا گیا وہ قارئین کی نذر ہے۔ گو میں اس کی صحت کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں کہ عدالت عام گزرگاہ پر قبضے کا حکم دے ہی نہیں سکتی اور نہ ہی ادارہ منہاج القران کے دوستوں کی طرف سے کوئی عدالتی حکم نامہ پیش کیا گیا ہے، تو اس کی صحت کو قرین قیاس کیا جا سکتا ہے۔ (پوری رپورٹ مضمون کے آخر میں شئیر کی گئی ہے۔)

"پورا بلاک ایم ان رکاوٹوں کی وجہ سے شدید تنگ تھا۔ بالآخر یہاں کی فراہمی انصاف ویلفئیر سوسائٹی نے اگست 2010ء میں اس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی۔ ہائی کورٹ نے دسمبر 2010 میں ان رکاوٹوں کو ہٹانے کا حکم صادر کر دیا، جس کے بعد تمام رکاوٹیں عارضی طور پر ہٹا دی گئیں۔ لیکن 2 ماہ بعد ہی دوبارہ پورا بلاک بند کر دیا گیا تھا۔ اس کے خلاف سوسائٹی نے توہین عدالت کی پٹیشن دائر کر رکھی ہے، جس کی ابھی سماعت شروع نہیں ہوئی ہے۔"

محولہ بالا رپورٹ میں عدالتِ عالیہ کے حوالے سے جو واقعہ نقل کیا گیا ہے وہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے بیان کردہ دعوے کے بالکل برعکس ہے، یعنی عدالت عالیہ نے قادری صاحب کے بیان کے برعکس تمام رکاوٹوں کو ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ اس صورت میں دو ہی امکانات موجود ہیں،  یا تو روزنامہ امت جھوٹ بول رہا ہے یا ڈاکٹر طاہر القادری صاحب۔ جھوٹے کا فیصلہ ہم اپنے قارئین کی صوابدید پر چھوڑتے ہیں۔

دلیل نمبر 2:
سوشل میڈیا جو آپریشن کے حامیوں اور مخالفین میں باہم گرما گرم جملوں، طعنوں، اور الزامات سے بھرا ہوا ہے۔ وہاں پر ان رکاوٹوں کی ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ چونکہ شریف برادران، حمزہ شریف اور بلاول وغیرہ نے بھی اپنی رہائش گاہوں کے باہر گزرگاہیں سیکورٹی کے نام پہ بلاک کر رکھی ہیں تو اسی بنا پر ڈاکٹر طاہر القادری کو روکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

گویا شہباز شریف غلط کام کرے گا تو ہم بھی کریں گے
بظاہر تو یہ دلیل بہت موثر ہے۔ کیونکہ کوئی شک نہیں کہ شریف برادران، حمزہ شریف اور بلاول  نے بھی وہی کام کیا ہوا ہے جو ڈاکٹر طاہر القادری نے کیا تھا۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ کسی ایک کا جرم دوسرے کے لیے جواز نہیں بن سکتا۔ شریف برادران تو شاید اور بہت کچھ کرتے ہوں گے تو کیا قادری صاحب ان سب کاموں کو کرنا پسند کریں گے؟ پنجابی میں ایک محاورہ ہے کہ "اوہناں نے کھوہ وچ چھال ماری اے تے کی تسی وی کھوہ وچ چھال مارنی ایں"۔ یعنی انہوں نے تو کنویں میں چھلانگ لگائی ہے تو کیا دیکھا دیکھی آپ بھی کنویں میں چھلانگ لگائیں گے؟ ہم مزید یہ کہیں گے کہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ طاہر القادری صاحب شریف برادران کو سیکورٹی کے نام پر سڑکوں کو بند کرنے کے خلاف آواز بلند کرتے اور انہیں بھی قانونی راستوں اور پرامن احتجاج کے ذریعے سڑکیں کھولنے پر مجبور کر دیتے۔ لیکن انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا کہ شریف برادران کے غیر قانونی کام کو اپنے غیر قانونی کام کے لیے جواز بنا لیا۔

دلیل نمبر 3:
سوشل میڈیا پہ ہی بہت سے لوگوں نے پولیس کی طرف سے جاری کیا گیا ایک ہدایت نامہ شئیر کیا ہے اور اپنے اس دعوے کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی ہے کہ یہ رکاوٹیں عدالتِ عالیہ کے حکم پر قائم کی گئیں تھیں۔ یعنی دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ عدالت نے ہمیں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا حکم دیا ہے اور دکھایا جا رہا ہے پولیس ڈیپارٹمنٹ کا ایک مراسلہ۔ اس کا بھی پوسٹمارٹم کرتے ہیں۔

اس مراسلے کو شئیر کرنے والوں میں نہ صرف حافظ ذوہیب طیب صاحب، جو کہ ایک مستند کالم نویس ہیں، شامل ہیں بلکہ خود ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے بھی اسے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ کے ذریعے شئیر کیا ہے۔  ویسے تو شاید ہم اسے اہمیت نہ دیتے لیکن چونکہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب بھی اسے شئیر کر رہے ہیں تو ہم اس کا تفصیلی جائزہ لینے پہ مجبور ہو گئے ہیں۔

اس مراسلے میں بہت سے نکات درج ہیں لیکن دو نکات کو خاص طور ہر ہائی لائیٹ کیا گیا ہے۔ وہ دو نکات درج ذیل ہیں۔


0۔ادارہ کے لیے ایک ہی داخلی و خارجی راستہ استعمال کریں اور باقی راستوں کو مستقلاً بند کر دیں۔
0۔درج بالاتجاویز پر عمل درآمد کر کے کسی بھی ممکنہ دہشت گردی سے بچا جا سکتا ہے۔


وہ درج بالا تجاویز کیا ہیں۔ وہ مختلف ہدایات ہیں، جیسے ادارے کے باہر سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں۔ نماز کے اوقات میں خصوصی سیکورٹی کا انتظام کیا جائے۔ خواتین کی چیکنگ کے لیے خواتین سیکورٹی گارڈ بھرتی کیے جائیں۔ ادارہ کے اندر آنے والی گاڑیوں کو ڈگی کھلوا کر چیک کیا جائے۔ گاڑیوں کو سٹکر جاری کیا جائے اور  ادارہ کی بیرونی دیوار کے ساتھ سیمنٹ کے بلاک رکھوائے جائیں تاکہ کوئی گاڑی تیزی سے ہٹ نہ کر سکے۔ وغیرہ وغیرہ۔

یہ مراسلہ پندرہ اپریل دو ہزار گیارہ کو جاری کیا گیا تھا۔ اور اس پر مہتمم تھانہ ماڈل ٹاؤن کے دستخط موجود ہیں۔ آپ کے لیے یہ مراسلہ شئیر کیا جا رہا ہے۔

یہ مراسلہ پڑھ کے یقیناً یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ادارے کے گرد سڑکوں کو رکاوٹوں سے بند کرنے کے حق میں عدالت کا کوئی نہ کوئی حکم نامہ یقیناً موجود ہو گا کہ پولیس بھی اسکے لیے تفصیلی ہدایات جاری کر رہی ہے۔ ہماری گذارشات کچھ اس ضمن میں کچھ یوں ہیں۔

1. یہ عمومی سیکورٹی ہدایات ہیں جو پولیس نے ادارہ منہاج القران کو جاری کی ہیں۔ ایسی ہدایات تقریباً ہر سکول، کالج، اور یونیورسٹی کو جاری کی جا چکی ہیں۔ جو لوگ تعلیمی اداروں سے وابستہ ہیں یا اپنے بچوں کی وجہ سے وہاں آتے جاتے ہیں انہیں اس چیز کا مشاہدہ ہو گا کہ تعلیمی اداروں کو دہشت گردی کی دھمکیوں کے بعد تمام اداروں کے ایک سے زیادہ گیٹوں کو بند کر کے آنے جانے کے لیے صرف ایک گیٹ ہی کو استعمال کیا جانے لگا ہے۔ گیٹوں کے باہر سیمنٹ کے بلاک اور لوہے کے بیرئیر نصب کیے گئے ہیں۔ لیکن کسی بھی ادارے نے سڑک بند نہیں کی، نہ ہی پورے رہائشی علاقے کو رکاوٹوں سے بند کیا ہے۔ کوئی ادارہ ایسا کرنے کی جرات کرے تو صرف ایک شکایت پر ایل ڈی اے والے فوراً آ کر ان رکاوٹوں کو گرا جاتے ہیں۔

2۔  میرے اوپر بیان کردہ نکتے سے یہ بات خود ہی واضح ہو گئی کہ داخلی و خارجی راستوں سے مراد ادارے کے اپنے گیٹ ہیں نہ کہ اس ادارے کے باہر کی عوامی گزرگاہیں اور سڑکیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کوئی عام شخص نہیں ہیں بلکہ ان کو ان کے چاہنے والے علامہ اور شیخ الاسلام کا لقب بھی دیتے ہیں۔ کیا ایک علامہ یہ غلطی کر سکتا ہے کہ وہ ادارے کے خارجی و داخلی راستوں سے مراد ان سڑکوں کو لے جو اس کے ادارے کی حدود سے باہر موجود ہیں؟

ڈاکٹر طاہر القادری صاحب جس طرح سے تحقیق و تفتیش کا حق ادا کرتے ہیں اور قران و احادیث کے مطالب کی گہرائی میں جا کر درست نتائج اخذ کر کے اپنے سامعین کو جوشیلے خطبوں سے نوازتے ہیں، کیا وہ اتنے ہی معصوم، سادہ اور بے سمجھ ہیں کہ انہیں "داخلی و خارجی راستوں" کی درست تفہیم نہ ہو سکی؟

پورا ہدایت نامہ ایسے نکات سے بھرا ہوا جس میں بار بار یہ کہا گیا کہ اپنے ادارے میں یہ کیجیے، اپنے ادارے میں وہ کیجیے۔۔ آخر اس ہائی لائیٹ کیے گئے نکتے سے یہ کیسے مراد لے لی گئی کہ پوری سڑکیں بلاک کرنے کا حق انہیں مل گیا؟

ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے ادارے کے پاس ہی ڈاکٹر اسرار صاحب کا قران کالج بھی موجود ہے۔ بہت سے سکول اور کالج بھی آس پاس موجود ہیں۔ یہ ہدایات ان اداروں کو بھی دی گئیں تھیں۔ وہاں کوئی بھی شخص جا کے دیکھ سکتا ہے کہ انہوں نے کیا سیکورٹی انتظامات کیے ہیں۔ گیٹ پر ایک بیرئیر اور سیمنٹ کے دو چار بلاکس۔ یہی پولس کی ہدایات کا منشا و مقصد بھی تھا۔

ڈاکٹر قادری صاحب کی معلومات کے لیے شئیر کیے دیتا ہوں کہ ایل جی ایس سکول وہاں بھی یہی ہدایات گئیں (تصویر نہچے شئیر کی گئی ہے) اور انہوں نے بھی سیمنٹ کے بلاک رکھوائے اور گیٹ پہ بیرئیر لگوایا۔ لمز یونیورسٹی نے بھی یہی اقدامات کیے۔ 

لاہور گرائمر سکول کے حفاظتی انتظامات۔ انہوں نے بیرئیر سڑک پر لگانے
 کی بجائے، اپنے گیٹ پر نصب کیے ہیں
اوپر جن اداروں کا نام میں نے لکھا ہے وہ دنیاوی تعلیم کے ادارے ہیں اور ان کے مالکان بھی کوئی مذہبی شخصیات نہیں ہیں بلکہ شاید کچھ سیکولر خیالات کے ہی حامل ہوں۔ لیکن ان کا طریقہ زیادہ مہذب، زیادہ قانون پسندی والا ہے۔ اس کے برعکس ایک مشہور مذہبی شخصیت اور مذہبی تعلیمی ادارے (بلکہ مدرسے) کا طریقہ نہ صرف غیر قانونی اور غیر مہذب ہے بلکہ ان میں دنگا فساد کر کے اپنے اس غیر قانونی کام کو جاری رکھنے کا بھی داعیہ پایا جاتا ہے۔

عام لوگ اس سے نہ جانے کیا تاثر لیں۔ یہ مجھے ذاتی طور پر بہت افسوس ہوا ہے کہ ایک غیر قانونی کام کو بچانے کے لیے اس ادارے نے اپنے کئی نوجوانوں کوریاست کے خلاف لڑنے پر آمادہ کیا اور انہیں قربان کر دیا ہے۔ عام نوجوان ہماری مذہبی شخصیات کے انہی رویوں کے ردعمل کا شکار ہو کے اسلام سے ہی دور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ زبان سے نہ بھی ہو لیکن عملاً وہ دہریانہ خیالات کا حامل ہو کر رہ گیا ہے۔

میں علامہ اقبال کے شعر پہ ہی اپنے مضمون کا اختتام کروں گا،

خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری

ختم شد

روزنامہ امت کی رپورٹ مورخہ 18 جون 2014









3 comments :

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...