Tuesday, April 23, 2013

کیا مشرف کو آرٹیکل چھ کے تحت سزا دینی چاہیئے؟ - عمران زاہد کے قلم سے



مشرف کے آرٹیکل چھ کے کیس (باقی دفعات میں بلاشبہ مقدمات چلائے جائیں) کے حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ:


اس حوالے سے معاملات اتنے گنجلک ہیں کہ صرف مشرف کی سزا کا مطالبہ کرنا قرین انصاف نہیں ہے۔ اس میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوں گے کہ کسی بڑی پارٹی میں سے کوئی نہیں بچے گا۔ فوج کا مورال بہت گر جائے گا۔ ملک ایک عظیم بحران میں گھِر سکتا ہے جس میں خدانخواستہ غیر ملکی طاقتیں یہاں دندناتی پھریں گی اور ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہو گا۔

فوجی مداخلت اور ان مداخلت کاروں سے تعاون کے حوالے سے دیکھا جائے تو ۔۔۔۔ بھٹو صاحب، ایوب خان کی کابینہ میں شامل تھے، محترمہ فاطمہ جناح کو ہروانے میں ان کو نمایاں کردار تھا،  ایوب خان کے متبادل امیدوار یہی تھے۔۔۔۔ ۔۔۔ ایوب خان کے بہت منہ چڑھے اور لاڈلے وزیر تھے۔ ان کو محبت میں ڈیڈی تک کہنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔

بعد ازاں، پاکستان قومی اتحاد کی سب جماعتوں کے لوگ، پیپلز پارٹی کے لوگ اور مسلم لیگ کے لوگ ضیاءالحق کی مجلسِ شوریٰ میں شامل تھے۔ ان میں پیر پگاڑا صاحب، جماعتِ اسلامی، جمعیت علماء پاکستان شامل ہیں۔ نواز شریف صاحب ان کے وزیرِ اعلٰی تھے۔ بعد ازاں آئی جے آئی بنانے میں جنرل حمید گل کا نمایاں ہاتھ تھا۔

بینظیر بھٹو بھی جنرلوں سے فائدہ اٹھانے میں پیچھے نہیں تھیں۔ جنرل آصف نواز مرحوم بے نظیر کے جلسے میں شریک ہوئے۔ جنرل اسد درانی بھی پی پی پی کے لیے استعمال ہونے والوں میں سے ایک تھے۔ اس کے بعد، منشورِ جمہوریت پر دستخط کرنے کو باوجود جس میں محترمہ نے تسلیم کیا تھا کہ کوئی فریق بھی جنرلز سے رابطہ نہیں رکھے گا، محترمہ نے جنرل مشرف سے خفیہ مزاکرات کیے۔ دبئی میں ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ایک بدنامِ زمانہ این آر او آرڈینس کی ڈیل کی۔

عمران خان بھی مشرف کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر رہ چکے ہیں۔ چوہدری برادران کا معاملہ بھی کھلا ہے۔

ایم ایم اے نے بھی سترھوین ترمیم جیسا متنازع قانون پاس کروایا جس کی رو سے مشرف نے وردی اتارنے کے اپنے وعدے کو توڑ دیا۔ ہماری جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، جمعیت اہلحدیث، تحریک فقہ جعفریہ سب اس میں شامل تھے۔


مولانا طاہر القادری تو ماشاءاللہ وزیر اعظم بننے کے خواہشمند بھی تھے، وہ تو مشرف کو عقل آ گئی۔


یہ سب ہماری قومی تاریخ کے تلخ باب ہیں۔ اپنے ماضی کو سلجھانے کی کوشش میں ہم کہیں اپناحال ہی خراب نہ کر بیٹھیں۔ ویسے بھی ماضی کے گناہوں کی صرف توبہ ہی بہترین طریقہ ہے۔۔۔اب ہمیں آگے دیکھنا چاہیئے ۔ نیلسن منڈیلا کی خود نوشت میں کہیں ان کے "ٹروتھ کمیشن" کا احوال پڑھا تھا اور مجھے تو وہی ایک درست طرز عمل لگتا ہے۔  جنوبی افریقہ کی طرز پہ ایک "ٹروتھ کمیشن" بنا کر اس میں سب سیاستدانوں، سیاسی جنرلوں اور بیوروکریٹوں کو بلایا جائے جس میں وہ اپنے ضمیر کی سچائی کے مطابق اپنے قومی گناہوں کا اقرار کریں اور آئندہ کے لیے ان سے دور رہنے کا عزم کریں۔ اس پر کوئی سزا نہ ہو۔ ایک قومی عزم ہو کہ ہم آئندہ پاکستان کو آئینی طریقوں کے مطابق چلائیں گے۔ آئین کو بالادست بنائیں گے۔  اس قومی عزم کے بعد جو بھی اس سے انحراف کی روش اپنائے  اس کو بے دھڑک پھانسی لگا دی جائے۔

1 comment :

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...