Sunday, June 29, 2014

اپنا اپنا چاند - عمران زاہد کے قلم سے


چاند ہمیں ہمیشہ سے اچھا لگتا ہے۔ چونکہ ہماری والدہ کسی حقیقی بھائی سے محروم ہیں، اس لیے انہوں نے بچپن سے ہی چاند کو ہمارا ماموں بنا دیا تھا۔ اُس دور میں ریڈیو پاکستان لاہور کے سٹوڈیو نمبر دو سے روزانہ شام کو بچوں کی کہانی اور نغمہ نشر ہوتا تھا، جس میں بچوں کا معروف نغمہ  "چندا ماما دور کے، بڑے پکائے بور کے" اکثر چلایا جاتا تھا، جسے ہم بچے بہت شوق سے سنتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر میں شام سات بجے سے پہلے بچوں میں مقابلہ ہوتا تھا کہ کون ریڈیو کو گود میں لے کے بیٹھے گا۔ ہمارے شاعروں نے چاند پر ایسی ایسی  شاعری  لکھ دی ہے کہ انہیں سن کر چاند خود بھی شرمائے۔ ابنِ انشاء نے چودھویں کی رات کے فسوں خیز ماحول کے پسِ منظر میں اپنی محبوب کا ایسا تذکرہ کیا ہے کہ وہ غزل اردو شاعری کی کلاسیکل غزلوں میں شمار ہوتی ہے۔

Thursday, June 26, 2014

ایک واقعہ جس نے میری سوچ بدل دی - عمران زاہد کے قلم سے


یہ دو ہزار سات کی ایک صبح کی بات ہے۔ میں تیار ہو کر دفتر جانے کے لیے نکل رہا تھا۔ اسامہ اور حذیفہ، جو میرے جڑواں بیٹے ہیں، کی ڈھائی تین ماہ میں پیدائش متوقع تھی۔ مجھے  اہلیہ نے بتایا کہ کچھ دنوں سے انہیں دائیں جانب گردے کے مقام پہ ہلکی ہلکی درد محسوس ہو رہی ہے، گو ابھی اتنی سیریس نہیں ہے، لیکن پھر بھی کسی دن شام کو چیک کروا لیا جائے۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ آج شام کو ڈاکٹر کے ہاں چلیں گے۔ ابھی میں بیرونی دروازے کے پاس ہی پہنچا تھا کہ گھر سے لیجیو، پکڑیو، سنبھالیو کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔

Friday, June 20, 2014

خداوندا تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں - عمران زاہد کے قلم سے


مولانا علامہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے اکنامکس کے استاد محترم شاہد صدیق صاحب بہت یاد آتے ہیں۔  پڑھاتے تو وہ اکنامکس تھے لیکن ساتھ ساتھ بر محل اقوال اور اشعار بھی سناتے جاتے تھے۔ ان کی ایک بہت خاص بات یہ تھی کہ وہ دو زبانوں میں لیکچر دیتے تھے۔ ایک فقرہ انگریزی میں ادا کرتے تھے، پھر اس کو اردو میں ادا کرتے تھے۔ ان کا ہر فقرہ نگینے میں جڑا ہوا ہوتا تھا۔ ہر جملہ اتنا ٹھہر ٹھہر کے ادا کرتے کہ اس کو آرام سے لکھا جا سکتا تھا۔ ان کا جملہ کہنے کا انداز اتنا دلکش ہوتا تھا کہ میں اکثر ان کے چہرے پر نظریں جمائے ان کو بولتا ہوا دیکھا کرتا تھا اور ان کو دیکھنے سے جی نہیں بھرتا تھا۔ ان کے چہرے پر گھنی مونچھیں (بالکل آفتاب اقبال کی مونچھوں جیسی) تھیں، جو ان پر بہت بھلی لگتی تھیں۔ میرا اللہ میرے استاد محترم کو خوش رکھے اور انہیں اپنی بے پناہ رحمتوں کے حصار میں رکھے۔ آمین۔

Monday, June 16, 2014

بجٹ والی مائی - عمران زاہد کے قلم سے


کچھ عرصہ ہوا کہ ہمارے اکاؤنٹس کے افسرِ اعلیٰ جناب ساجد صاحب سے بات چیت ہو رہی تھی۔ فرمانے لگے کہ ان کی فیلڈ میں  اس اکاؤنٹنٹ کو نااہل مانا جاتا ہے جو کھاتوں میں منافع دکھائے۔ خسارہ دکھانے والا اکاؤنٹنت ہی با صلاحیت مانا جاتا ہے۔ نہ تو ہمیں اکاؤنٹینسی کے شعبے سے کچھ لینا دینا ہے اور ظاہر ہے یہ ان کا پیشہ ہے اور وہ اس کے حسن و قبح کو ہم سے بہت بہتر جانتے ہیں، لہٰذا ہم نہ ہی ان کے اس خسارے والے اصول پہ علمی بحث کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں ان کی یہ بات اس وقت شدت سے یاد آئی جب ہمیں وفاقی و صوبائی وزراء خزانہ کے خسارے والے بجٹ سننے کو ملے۔

Thursday, June 12, 2014

آئی ایل ایم اور یو ایم ٹی میں میرے پندرہ سال - عمران زاہد کے قلم سے



شام کے وقت مجھے گھر سے کال آئی کہ کیا آپ نے گھر نہیں آنا؟
میں نے جواب دیا کہ نہیں، آج دیر ہو جائے گی کیونکہ آج ہماری سالگرہ ہے۔
بیگم بولیں کہ ہماری سالگرہ آج تو نہیں۔
میں نے کہا، بھئی، آج ہمارے آئی ایل ایم اور یو ایم ٹی کی سالگرہ ہے۔
بیگم جواباً بولیں، جناب، یو ایم ٹی کو موجودہ مقام پر پہنچانے میں میرا بھی بڑا حصہ ہے۔

Thursday, June 5, 2014

وہ ایک لمحہ - عمران زاہد کے قلم سے


نصر اللہ شجیع، جو اپنے ایک طالبعلم کی جان بچاتے ہوئے دریائے کنہار کی موجوں کی نذر ہو گئے،  کو میں نہیں جانتا۔ لیکن اتنا میں بے دھڑک کہہ سکتا ہوں کہ وہ بلاشبہ ایک عظیم شخصیت ہیں۔ ایسا میں ان کو اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...