گھر میں لاتعداد ایسے کھلونے بکھرے پڑے ہیں، جو بچوں کی توجہ سے محروم ہو چکے ہیں۔ اب ان کھلونوں سے جو چاہے کھیل سکتا ہے، کوئی بچہ بھی ان پہ اپنا حقِ ملکیت نہیں جتاتا۔ جو ذرا نئے کھلونے ہیں، بچوں کی ساری توجہ وہ کھینچ لیتے ہیں۔ لیکن وہ بھی صرف تب تک ہی مرکزِ نگاہ ہیں، جب تک کوئی اور نیا کھلونا ان کی جگہ نہیں لے لیتا۔
اسامہ اور حذیفہ مسلسل ایک ایسے کھلونے پر اصرار کیے جا رہے تھے، کہ جو میں جانتا تھا کہ وہ ان کے لیے مفید نہیں ہو گا کیونکہ وہ کھلونا ان کی آپی کے پاس پہلے سے ہی موجود ہے۔ ان کی آپی کو بھی جب وہ کھلونا ملا تھا تو دو دن میں ہی اس کا شوق اتر گیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ ان کی آپی اپنے بھائیوں سے وہ کھلونا ضرور شئیر کر لے گی۔ تو خوامخواہ ایک ہی جیسے تین کھلونوں کی کیا ضرورت؟ میں چاہ رہا تھا کہ اس سے بھی بہتر کھلونا ان کو دیا جائے۔
میں اپنے بچوں کی نفسیات کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔
میں ہی کیا، سارے والدین اپنے بچوں کی نفسیات سے اچھی طرح آگاہ ہوتے ہیں۔ مائیں اس کا اظہار کرتی رہتی ہیں، جبکہ باپ سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنے رہتے ہیں اور تماشائے اہلِ کرم سے محظوظ ہوتے رہتے ہے۔
ایک دن والدہ نے باتوں باتوں میں بتایا کہ انہیں (اور والد محترم کو) میری اپنی بیوی سے پہلی لڑائی کا اچھی طرح پتا ہے کہ وہ کب ہوئی تھی، کتنے دن رہی اور کب صلح ہوئی۔ میں والدہ کا یہ انکشاف سن کو دم بخود رہ گیا کہ کیونکہ میری اور میری اہلیہ کی کوئی لڑائی کبھی بھی اپنے کمرے سے باہر نہیں گئی تھی، نہ ہی کبھی ہم نے اپنی لڑائی میں کسی تیسرے فریق کو شامل ہونے کی دعوت دی۔ بلکہ چند سالوں کے بعد تو ہمیں وہ طریقہ ہی سمجھ آ گیا کہ لڑائی سے کیسے بچنا ہے اور کس طرح سے دو پڑھے لکھے سلجھے ہوئے افراد کی طرح ایک دوسرے سے اختلافِ رائے رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنی ہے۔ لیکن میرے لیے یہ بات ایک شاک سے کم نہیں تھی کہ میرے والدین میرے بارے میں اتنا کچھ جانتے تھے لیکن انہوں تب کبھی اظہار نہیں کیا۔
جب ہم اپنے بچوں کے متعلق اتنی کچھ جانتے ہیں تو ہمارا رب ہمارے متعلق کیا کچھ نہیں جانتا ہو گا؟
جب ہم اپنے رب سے گڑاگڑا کر اتنا کچھ مانگتے ہیں، اور وہ عطا نہیں کرتا تو ہم مایوس کیوں ہو جاتے ہیں؟ منہ کیوں لٹکا لیتے ہیں؟ رب سے شکوہ کیوں کرنے لگتے ہیں؟
ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ ہمارے متعلق ہم سے بھی بہتر جانتا ہے۔ اسی لیے تو وہ ہماری نامناسب دعا قبول نہیں کر رہا۔ وہ تو ہماری چاہت سے بھی بہتر چیز عنایت کرنا چاہتا ہے۔
ہم ہی ناداں ہیں کہ چند کلیوں پہ قناعت کرنا چاہتے ہیں۔
ہم ہی ناداں ہیں کہ چند کلیوں پہ قناعت کرنا چاہتے ہیں۔
میں جب اپنے ماضی سے حال کی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے میری بہت سے دعائیں رد کر دیں۔ میں کتنی چاہت سے کتنی ہی تمناؤں کے حصول کے لیے گڑگڑایا کرتا تھا اور میرے رب نے میری وہ تمنائیں پوری نہ کر کے مجھ پہ احسانِ عظیم کیا ہے۔ آج ان تمناؤں کا حشر دیکھتا ہوں تو شکر کرتا ہوں کہ میں بچ گیا۔ میں نے سنا کہ اللہ تعالیٰ سفر میں کی گئی دعا قبول کرتے ہیں۔ میں نے ہر سفر میں دعاؤں کو اپنا معمول بنا لیا۔ لیکن نہ وہ دعائیں قبول ہونی تھیں، نہ ہوئیں۔ کیونکہ میرا رب جانتا تھا کہ وہ تمنائیں میرے لیے مضر ہیں۔
وہ مجھے مجھ سے بھی بہتر جانتا ہے۔ اس لیے اس نے ان تمناؤں کے بہتر نعم البدل عطا فرمائے۔ لیکن یہ شعور حاصل کرنے کے لیے ایک عمر کا سفر طے کرنا ضروری ہوتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں دعاؤں کا سلیقہ ہی کہاں ہے۔ ہم نادان بچوں کی طرح ان چیزوں کے لیے مچلتے رہتے ہیں جن میں ہمارے لیے نفع نہیں نقصان ہوتا ہے۔ جب ہمارا رب ہمیں نادان جان کر وہ دعا قبول نہیں کرتا تو ہم دکھی ہو جاتے ہیں۔ واقعی کتنے نادان ہیں ہم۔
ہم جس سے مانگتے ہیں، وہ تو ہمیں بن مانگے ہی دیے جا رہا ہے۔ جب میری کوئی دعا قبول ہوتی نظر نہیں آتی تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ اس خواہش میں یقیناً میرے لیے بھلائی نہیں ہو گی۔ اسی لیے تو قبول نہیں ہوئی۔
طارق بھائی کہا کرتے تھے کہ بھلائی تو تسلیم کر لینے میں ہی ہے۔ یہ بات تب اتنی سمجھ نہیں آتی تھی، جتنی اب آتی ہے۔
اخبار میں ایک واقعہ پڑھا کہ ایک ٹریفک وارڈن نے ایک بڑے آدمی کی گاڑی روکی۔ قانون کی خلاف ورزی پر اس کو جرمانہ کیا اور چالان کاٹ کر اس کے حوالے کیا۔ کسی نے اس وارڈن سے پوچھا کہ کیا تمہیں ڈر نہیں لگا کہ تم کتنی بڑی بلا کو ہاتھ ڈال رہے ہو۔
وارڈن نے ہنس کر جواب دیا کہ جناب، ہم نے جب یہ تسلیم کر لیا کہ رزق اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے تو پھر کسی اور سے کیا ڈرنا؟
میری دعا ہے کہ اللہ ہمیں اپنی رضا میں خوش و خورسند رہنے والا بنائے۔ ہم اگر اس کی رضا میں راضی نہ بھی رہیں تو ہو گا وہی جو اس کی رضا ہے۔ جب وہی ہونا ہے تو پھر اس کی رضا کے آگے سر جھکا کے، تسلیم کر کے، اپنی زندگیوں میں سکون کیوں نہ پائیں؟
طارق بھائی کہا کرتے تھے کہ بھلائی تو تسلیم کر لینے میں ہی ہے۔ یہ بات تب اتنی سمجھ نہیں آتی تھی، جتنی اب آتی ہے۔
اخبار میں ایک واقعہ پڑھا کہ ایک ٹریفک وارڈن نے ایک بڑے آدمی کی گاڑی روکی۔ قانون کی خلاف ورزی پر اس کو جرمانہ کیا اور چالان کاٹ کر اس کے حوالے کیا۔ کسی نے اس وارڈن سے پوچھا کہ کیا تمہیں ڈر نہیں لگا کہ تم کتنی بڑی بلا کو ہاتھ ڈال رہے ہو۔
وارڈن نے ہنس کر جواب دیا کہ جناب، ہم نے جب یہ تسلیم کر لیا کہ رزق اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے تو پھر کسی اور سے کیا ڈرنا؟
میری دعا ہے کہ اللہ ہمیں اپنی رضا میں خوش و خورسند رہنے والا بنائے۔ ہم اگر اس کی رضا میں راضی نہ بھی رہیں تو ہو گا وہی جو اس کی رضا ہے۔ جب وہی ہونا ہے تو پھر اس کی رضا کے آگے سر جھکا کے، تسلیم کر کے، اپنی زندگیوں میں سکون کیوں نہ پائیں؟
ختم شد
No comments :
Post a Comment