Wednesday, June 12, 2013

طیب اردوغان بمقابلہ عالمی قوتیں - جناب عبدالغفار عزیز کے قلم سے



استنبول کا ایک چھوٹا سا پارک ختم کرنے پر شروع ہونے والا "ملک گیر" احتجاج ترکی میں تو ختم ہو رہا ہے، لیکن عالمی ذرائع ابلاغ اسے اب بھی مسلسل ہوا دے رہے ہیں۔ معروف برطانوی رسالے  اکانومسٹ  نے اپنے تازہ شمارے کے ٹائٹل پر وزیراعظم طیب اردوغان کی بڑی سی تصویر شائع کی ہے: عثمانی خلیفہ کا لباس پہنے، مسند لگائے بیٹھے وزیر اعظم اردوغان پر پھبتی کستے ہوئے سرخی جمائی ہے "ڈیموکریٹ یا سلطان؟"۔
مغربی پالیسیوں کا قطب نما سمجھے جانے والے اس معروف رسالے نے  انتخابات
سے پہلے ترک عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے صاف الفاظ میں لکھا تھا کہ وہ بائیں بازو کی ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں تاکہ حکمران جسٹس پارٹی کو لگام دی جا سکے۔ادھر جمعہ 7 جون کو امریکی روزنامے نیویارک ٹائمز نے طیب اردوغان کے خلاف ایک جہازی سائز کا اشتہار شائع کرتے ہوئے امریکی پالیسی سازوں کو اس کے خلاف اکسایا ہے۔  یہ اشتہار شائع کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے پانچ روزہ مہم چلا کر ایک لاکھ دو ہزار ڈالر کی خطیر رقم  جمع کی گئی تھی۔ اس مہم کا عنوان ہی Gezi Park Fund تھا۔  اسرائیلی اخبارات کو دیکھیں تو وہاں شادیانے بھی ہیں اور تشویش کی لہر بھی۔ شادیانے اس بات پر کہ بالآخر طیب اردوغان کے خلاف عوام سڑکوں پر آ نکلے۔ استنبول شہر کے معروف تقسیم سکوائر کو میدانِ تحریر قرار دیا جا رہا ہے۔ بائیں بازو کی پارٹیوں کو ہلا شیری دی جا رہی ہے کہ اب احتجاج کی لے میں کمی نہیں آنی چاہیئے۔ لیکن
New York Times Ad
تشویش یہ ہے کہ اس سب  کچھ کے باوجود اردوغان حکومت کو کوئی  خطرہ نہیں ہے۔ جمعہ 7 جون کو "اسرائیل ٹو ڈے" میں بوعز بسموٹ کے مضمون "ترکی کھول رہا ہے" میں یہی دو نکات نمایا ں ہیں۔ترکی "کھول  اٹھنے" پر بغلیں بجانے والے مضمون نگار کی تشویش مایوسی کی حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ لکھتا ہے : "اس کے باوجود میں نے جب سراپا احتجاج نوجوانوں سے پوچھا کہ "ووٹ کسے دو گے؟" تو 100 فیصد نوجوانوں کا جواب تھا : اردوغان کو"۔ اسرائیلی تجزیہ نگار کو تشویش تھی کہ  "اردوغان کچھوے کی چال سے چلتا ہوا اپنے مقاصد حاصل کرتا جا رہا ہے"۔


ترک حکومت کی پالیسیوں اور کارکردگی کو دیکھیں تو اعتراض و احتجاج کے کئی پہلو مل سکتے ہیں۔ خود دائیں بازو کی کئی پارٹیاں اس پر ضرورت سے زیادہ احتیاط اور مغرب پسندی  کا الزام لگاتی ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے دس سال سے زائد عرصہ  اقتدار  میں  اس  کی کارکردگی  مثالی ہے۔ اندرونی ہی نہیں بیرونی محاذ پر بھی انہوں نے مثالی عوامی پذیرائی حاصل کی ہے۔ یہی کارکردگی اور پذیرائی ان کے دشمنوں میں اضافے کا سبب بھی بنی ہے۔ حالیہ احتجاجی لہر ہی کو دیکھ لیں، پیالی میں طوفان کو کس کس شیطان کی سرپرستی مل رہی ہے۔ لیکن آئیے پہلے اصل مسئلے پر نگاہ ڈالیں۔
ڈیڑھ کروڑ آبادی پر مشتمل شہر استنبول جانے والے اکثر افراد  کو  تقسیم سکوائر جیسی پر رونق جگہ جانے کا موقع ضرور ملا  ہوگا۔ یہاں سے لاکھوں افراد کا گذر ہوتا ہے۔ حکومت نے تعمیر و ترقی کا جو حیران کن سفر شروع کیا ہےاس کے مطابق اس پورے علاقے کو ٹریفک سے پاک کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ گاڑیاں زیرِ زمین لے جانے اور پورے علاقے کو صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص کر دینے کا منصوبہ۔  وسیع و عریض خالی  جگہ کو بہتر طور پر مصرف میں لانے  کے لیے اس جگہ ایک تجارتی مرکز اور چوک میں واقع اتاترک کلچرل سنٹر کے قریب ایک عالی شان مسجد تعمیر کرنا بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔  عمل درآمد شروع کرتے ہوئے جب  "غازی پارک" کے 600  پودے اکھاڑے جانے لگے ، تو اسے ماحولیات کا ایشو بنا دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے اکثر اضلاع میں احتجاج شروع کر دیا گیا۔ ماحولیات کی بات کتنی بود ی یا کتنی مضبوط ہے؟ ترکی جانے والا پر شخص بخوبی جان سکتا ہے۔  بیب اردوغان حکومت نے ایک کروڑ سے زائد درخت تو صرف بیرون ملک سے منگوا کر لگائے ہیں۔ خود ملک کے اندر پیدا ہونے والے درختوں ، پودوں کی تعداد کئی چند ہے۔ رہا ر تقسیم چاک کا نیا چہرہ تو صرف استنبول ہی میں عنقریب ایسے مزید کئی تعمیراتی منصوبے مکمل ہونا ہیں۔  ان میں باسفورس پر ایک اور بڑا پُل اور استنبول میں تیسرا ایئر پورٹ تعمیر کرنا بھی شامل ہے، جو دنیا کا سب سے بڑا ائیر پورٹ ہو گا۔ یورپ اور ایشیا کا یہ سنگم اب مزید فضائی سہولیات چاہتا ہے۔ ان منصوبوں پر عمل درآمد کے وقت بھی کئی پارک اور گرین بیلٹس متاثر ہو سکتی ہیں اور ان کے متبادل بھی ابھی سے تیار کیے جا رہے ہیں۔ 

طیب اردوغان نے کہا ہے کہ ہم ہر چار برس بعد عوام کی عدالت میں جاتے ہیں، اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ ہماری پالیسیاں ٹھیک نہیں ہیں تو آئندہ انتخابات میں عوام سے فیصلہ کروا لے۔ یہی بات اپوزیشن کو مایوس کر دیتی ہے کیونکہ عوام نے ہر الیکشن میں اردوغان کو پہلے سے زیادہ اعتماد دیا ہے۔  بدقسمتی سے احتجاج کی یہ لہر بھڑکانے میں کئی عالمی قوتیں براہ راست فعال ہیں۔  وزیراعظم اردوغان کے بقول گرفتار شدہ مظاہرین میں کئی بیرونی عناصر شامل ہیں۔  یہ بیرونی عناصر کون کون ہو سکتے ہیں؟ قارئین کو یاد ہو گا کہ کچھ عرصہ قبل ہی اسرائیلی حکومت کو ترک حکومت سے باقاعدہ معافی مانگنا پڑی ہے کہ اس نے غزہ جانے والے فریڈم  فلوٹیلا پر حملہ کرتے ہوئے 9 ترک شہریوں کو شہید کر دیا تھا۔ ترک حکومت نے اس پر سکت موقف اپنایا۔ سفارتی عملے میں کمی کر دی گئی۔ اسرائیلی جہازوں کا ترک بندرگاہوں میں داخلہ بند کر دیا گیا۔  اسرائیلی باشندوں کو ترک ویزا دینے میں سختی شروع کر دی گئی۔اسرائیل کے ساتھ کئی فوجی اور ٹیکنالوجی میں تعاون کے معاہدے منسوخ کر دیے گئے۔  تُرک سرکاری اداروں میں اسرائیل کی کوئی بھی مصنوعات استعمال کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ تعلیم ، ثقافت اور کھیلوں میں تعلقات ختم کر  دیے گئے۔  ان پابندیوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے لگا تو اسرائیلی  وزیراعظم نے طیب اردوغان کو 22 مارچ 2013 کو خود فون کر کے ان سے باقاعدہ معافی مانگی۔  اس نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ ترک شہداء کو ان کی دیت ادا کرے گا اور غزہ جس سے اظہار ہکجہتی  کے لیے یہ فریڈم فلوٹیلا جا رہا تھا ، کے خلاف اپنے حصار میں بھی کمی لائے گا۔ معافی مانگ لینے کے باوجود   اسرائیلی ذمہ داران کے لیے تشویش کی اصل وجہ اپنی جگہ قائم ہے۔ طیب اردوغان نے فوری معذرت قبول کرنے کی بجائے ،  مصری صدر محمد مرسی، فلسطینی صدر محمود عباس، حماس کے سربراہ خالد المشعل اور غزہ کے منتخب وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ کو اعتماد میں لیا اور اس سے مشورے کے بعد معذرت قبول کی۔
اس پوری صیہونی ہلہ شیری کے علاوہ ان مظاہروں کی کامیابی کے سب سے ذیادہ متمنی وہ عرب حکمران ہیں، جو عرب بہار کے بعد نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں۔ ان کی جگہ انتخابات کے ذریعے برسر اقتدار آنے حکومتوں کو اردوغان حکومت مکمل تعاون دے رہی ہے۔ 
یہ حسن ِ اتفاق ہی تھا کہ ادھر استنبول میں مظاہرے عروج  پر تھے اور ادھر وزیر اعظم اردوغان پہلے سے طے شدہ دورے پر تیونس اور مراکش چلے گئے۔  خود ترک اپوزیشن  بھی ان واقعات سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ اسے ان عسکری سابق و موجودہ افسروں کی  پشتیبانی بھی حاصل ہے جنہیں اردوغان نے سیاست سے نکال کر اپنے اصل عسکری محاذ تک محدود کر دیا  تھا۔  اس وقت بھی وہ سینکڑو ں سابق اعلیٰ فوجی افسر جیلوں میں ہیں جنہوں نے مختلف ادوار میں سیاسی حکومتوں کا تختہ الٹا تھا۔  1924ء میں کمال اتا ترک نے خلافت کا خاتمہ کر نے کے بعد کو ترک ریاست قائم کی تھی، اس کی بنیاد و اساس  یہی فوجی جنتا تھی۔ نادان ترک نے صرف خلافت ہی نہیں اسلام و عقیدے کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر ساری قوت صرف کر دی۔  اگرچہ یہ ایک  الگ اور تفصیل طلب موضوع ہے، لیکن ترک شہریوں کی نئی نسل اس عہد تاریک کو نہیں بھول سکتی جب عربی میں اذان دینے ، نماز پڑھنے اور قران پڑھنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ خواتین کے سکارف پر اس وقت سے لگی پابندی اردوغان کے عہد تک جاری تھی اور اسے یہی فوجی جنتا "سیکولرازم کے دفاع" کا نام لے کر نافذ کروایا کرتی تھی۔  اردوغان کے آنے تک منتخب حکومتوں کو گرانے میں سب سے بنیادی کردار انہی فوجی جرنیلوں کا رہا ہے۔ 
اتاترک نے جس جدید ترکی کی بنیاد رکھی اس کی ایک یہ جھلک بھی ملاحظہ کیجیے کہ 1932ء میں استنبول سے ایک انسائکلوپیڈیا شائع کیا گیا جس میں لفظ اللہ کی تعریف یوں کی گئی: "مذاہب یہ نظریہ پھیلانا چاہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے اور اُسی نے یہ کائنات پیدا کی ہے، لیکن جدید سائینسی ترقی یہ ثابت کر رہی ہے کہ یہ سوچ یکسر باطل ہے۔ ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی جس کا نام اللہ ہے"۔ نقلِ کفر کفر نا باشد لیکن آج تقسیم  سکوائر میں اتاترک کی تصاویر اٹھائے نوجوانوں میں سے کوئی بھی یہ بات نہیں کر سکتا اور نہ ہی عالمِ اسلام میں بائیں بازو کی کوئی تحریک یہ دعویٰ کر سکتی ہے۔  اب صرف سیاسی اختلافات ہیں اور یہ سیاسی اختلافات رکھنے والے بھی دل سے مان رہے ہیں کہ اسلام پسند اردوغان نے ترکی کو حقیقی نجات کے راستے پر ڈال دیا ہے۔  2002ء میں طیب اردوغان اقتدار میں آیا  تو ترکی بیرونی قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ صرف IMF کو 23 ارب ڈالر دینے تھے۔ چند ہفتے قبل ترکی نے نہ صرف IMF کے قرضوں کی (412 ملین ڈالر) کی آخری قسط چکا دی ہے، بلکہ اب IMF  ترکی سے پانچ ارب ڈالر قرضہ لینے کی درخواست کر رہا ہے۔ ترکی کے پاس اس وقت 125 ارب ڈالر کا خزانہ جمع ہے۔ حالیہ احتجاج کی لہر کو کامیاب دیکھنے والوں میں یہ عالمی ساہوکار بھی پوری طرح شریک ہیں۔ وہ  نہیں چاہتے کہ ترکی ان کی مالیاتی گرفت س آزاد ہو جائے۔ یہی نہیں ترکی ایک ناقابلِ معافی جرم یہ بھی ہے کہ اس نے سابقہ ادوار کی طرح یورپی یونین کا رکن بننے کی بھیک مانگنی بند کر دی ہے۔  طیب حکومت مغرب کی بجائے مشرق کا  رخ کر رہی ہے۔ گذشتہ عرصے میں ترکی اور یورپ کے مابین تجارت پہلے سے آدھی رہ گئی ہے، جبکہ ترکی اور مشرقِ وسطیٰ ، جنوبی امریکہ اور افریقا کے مابین تجارت میں 400 فی صد اضافہ ہو گیا ہے۔ یورپی امور کے ترک وزیر نے بیان دیا ہے کہ اب ترکی کو یورپی یونین کی نہیں، یورپی یونین کو ترکی کی ضرورت ہے۔  اب ہم اس کی رکنیت کا زیادہ انتظار بھی نہیں کر سکتے۔ 

طیب اردوغان کے مخالفین میں وہ پوری عالمی لابی بھی فعال ہے جو شام کے بارے میں ترک پالیسی سے ناراض ہے۔ ترک حکومت قاتل بشار الاسد کے مقابلے میں  شامی عوام کی حمایت کر رہی ہے۔  دو لاکھ کے قریب شامی مہاجر ترک کیمپوں میں پناہ گزیں ہیں ۔ بدقسمتی  سے اس پورے المیے کو ایک  مہلک فرقہ وارانہ جنگ میں بدل دیا گیا ہے۔ ترکی کے حالیہ مظاہروں کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے میں بشار کی حامی لابی بھی بہت فعال ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو اس کی مزید  تفصیل میرے دوست اور میرے یار فرخ سہیل گوئندی  سے دریافت کر لے۔


مضمون: طیب اردوغان بمقابلہ  عالمی قوتیں
مصنف۔ عبدالغفار عزیز جماعتِ اسلامی کے ڈائیریکٹر خارجہ امور ہیں۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات  مورخہ 11 جون 2013  بروز منگل۔

1 comment :

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...