پہلا ٹی وی جو ہم نے دیکھا وہ ہمارے ہمسائیوں کا تھا۔
بات بہت پرانی نہیں ہے، یہی کوئی اَسّی کی دہائی کی بات ہے۔
اس دور میں ہم ریڈیو سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ہمیں روزانہ شام کو بچوں کی کہانی سننے کا لپکا تھا۔ کہانی کے بعد بچوں کا گیت ضرور لگتا تھا۔ چندا ماما دور کے، بڑے پکائے بور کے ریڈیو پہ ہی سنا تھا۔ ہم بہن بھائیوں میں ریڈیو پہ قبضہ جمانے کا مقابلہ چلتا تھا۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ریڈیو کو اپنی گود میں رکھ کر کہانی سنے۔ اس طرح سے آواز صاف سنائی دیتی تھی۔
رات کو سوتے ہوئے چچا جان ریڈیو سنتے تھے۔ اس دور میں کئی ریڈیائی ڈرامے سنے۔ آج کل کے ایف ایم چینل اگر سارا دن گانے سنانے اور فون کالز لینے کے علاوہ ریڈیو ڈرامے بنانا شروع کریں تو یقیناً ان کی ساکھ مزید بڑھ جائے گی۔ جمعے کے دن صبح صبح انکل جیدی کا پروگرام لگتا تھا۔ جو اپنی مثال آپ تھا۔ انکل جیدی مزاح ہی مزاح میں بڑے پتے کی باتیں کرتے تھے۔ آج کل مزاح کے نام پر پھکڑ پن باقی رہ گیا ہے، دانش رخصت ہو گئی ہے۔ جیدی کے پروگرام کے بعد بچوں کا پروگرام لگتا تھا جس میں بھائی جان اور باجی بچوں کے ساتھ باتیں کرتے تھے۔ بچے نظمیں ،کہانیاں اور پہیلیاں سناتے تھے۔ بھائی جان اور باجی اچھی اچھی باتیں بتاتے تھے۔ اس دور کے بچوں میں ان پروگراموں کا بہت اثر ہوتا تھا۔ اشفاق احمد کا تلقین شاہ معروف تھا جس میں وہ لدھیانوی سٹائل کی پنجابی میں باتیں کرتے تھے۔ اور اس میں بھی چھوٹے چھوٹے مکالموں میں سماجی زندگی سے لیکر عالمی سیاست کے معاملات کو سمیٹ لیتے تھے۔ نظام دین کا پروگرام بھی بہت معروف تھا۔ مجھے اس لیے بھی اچھا لگتا تھا کہ میرے داد جان کا نام نظام الدین تھا۔ چچاجان تو کئی دفعہ مذاق میں اپنے نام کے ساتھ نظامانی کا لاحقہ بھی لگا لیا کرتے تھے۔ نظام دین کا پروگرام بڑی عمر کے لوگ دلچسپی سے سنتے تھے۔ یہ پروگرام تو سرحد پار بھی بہت معروف تھا۔ سنا ہے کہ پینسٹھ کی جنگ میں انڈین آرمی کو پاک فوج کے ساتھ ساتھ نظام دین نے بھی بہت تکلیف دی تھی۔ مثلاً بھارتی بمباری کا اپنے مخصوص انداز میں مذاق اڑاتے ہوئے نظام دین صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں بھارتی جہازوں نے بم پھینکے۔ کوئی اِدھر گرا کوئی اُدھر گرا ۔ نشانے پہ کوئی نہ لگا۔ مجھے سگریٹ سلگانی تھی، تو ایک بم کے پاس جا کے میں نے اس سے سگریٹ سلگا لی۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بھارتی بمبازوں کو نظام دین کے اس تبصرے سے کتنی تکلیف پہنچی ہو گی۔ والد محترم کبھی کبھی صبح صبح ریڈیو آن کرتے تھے تو اس میں نہایت خوش الحانی کے ساتھ تلاو ت و درود پڑھا جاتا تھا۔ وہ درود ایسے آہنگ میں پڑھا جاتا تھا کہ پورے ماحول میں پاکیزگی کی چادر سی تن جاتی تھی۔ آج کل کے نعت خواں نعتیں پڑھنے میں بھی ایسا ماحول بنادیتے ہیں کہ جوش تو پیدا ہوتا ہے لیکن ٹھنڈی ٹھنڈی سکینت آمیز پاکیزگی نہیں ملتی۔ اس کے بعد قران و سیرت میں سے مختصر ٹکڑے سنائے جاتے تھے جو ایمان کو تازہ کر دیتے تھے۔ خالد حمید خبریں پڑھا کرتے تھے۔ قومی خبروں سے "یہ ریڈیو پاکستان ہے" کا فقرہ بولا جاتا تھا۔ رات کو بی بی سی ضرور سنی جاتی تھی۔ اس کا پروگرام سیر بین کافی مشہور تھا۔ ملکی اخباروں پر سنسر کی پالیسی کی وجہ سے بی بی سی کی خبروں کا خاصا موقر جانا جاتا تھا۔
سارا دن گانے اور فلمیں لگتی تھی۔ جی ہاں، ریڈیو پر فلمی پروگرام ہوتے تھے۔ فلموں کے ڈائلاجگ ریڈیو سے نشر ہوتے تھے۔ انعامی پروگرام ہوتے تھے۔ شعر و شاعری کے مقابلے ہوتے تھے۔ کیا کیا نہیں ہوتا تھا۔ میری دادی جان جو چچا جان کی پڑھائی کے بارے میں فکرمند ہوتی تھیں وہ چچا کی پڑھائی میں دل نہ لگنے کا ذمہ دار ریڈیو کو ہی ٹھہراتی تھیں، گو اس دور میں سینما بھی بچوں کو خراب کرنے کا موجب قرار دیا جاتا تھا۔ آج کل والدین کمپیوٹر اور موبائل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ مشتاق یوسفی کے دور میں تلذذ آمیز کہانیوں اور رسالوں پہ الزام دھرا جاتا تھا۔ ہر دور میں بچوں اور نوجوانوں کا دھیان بٹانے والی کوئی نہ کوئی چیز ضرور ہوتی ہے۔
ریڈیو پاکستان لاہور کے بارے میں ابوالحسن نغمی ،جو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بچوں کے پروگرام میں بھائی جان بنا کرتے تھے، نے ایک کتاب " یہ لاہور ہے" لکھی ہے۔ خاصے کی چیز ہے۔ پڑھنے لکھنے سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیئے۔
بات ہو رہی تھی ٹی وی کی۔
ہمارے ہمسائے میں آنٹی نصرت رہا کرتی تھیں۔ شام کو صحن میں ٹی وی لگایا کرتی تھیں۔ اپنی چھت سے ہم بخوبی ٹی وی دیکھ پاتے تھے۔ میں خود کئی بار چھپ چھپ کے چھت کی منڈیر میں بنے سوراخوں سے ٹی وی دیکھا کرتا تھا۔ آنٹی کو پتہ تو ہوتا تھا لیکن وہ منع نہیں کرتی تھیں۔ اللہ کرے وہ جہاں ہوں، خوش و خرم ہوں۔ والدہ کسی کو بھیج کے بلاتیں تو مجبوری سے نیچے جانا پڑتا۔ اس دور میں سکولوں میں بچے ڈراموں کی باتیں کرتے تو عجیب سا لگتا تھا ۔ کیونکہ ہمارے گھر میں ٹی وی نہیں تھا۔ والد صاحب پسند نہیں کرتے تھے۔
پہلا ٹی وی جو خاندان میں آیا وہ ماموں امین کے پاس آیا۔ انہوں نے بھی خریدا نہیں تھا، بلکہ ٹی بی فاؤنڈیشن ریفل ٹکٹ کی قرعہ اندازی میں ان کا انعام نکلا تھا۔ اس ٹی وی کو ہمارے گاؤں کے پہلے ٹی وی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ا س دور میں ٹی وی تو دور کی بات ہےبجلی بھی کم ہی دیہاتوں میں ہوتی تھی۔ ہمارے گاؤں میں شروع میں ہی بجلی آ گئی تھی، اور اس کی ایک وجہ ہمارے والد صاحب کا واپڈا میں ہونا بھی تھا۔ بلیک اینڈ وائیٹ ٹی وی کیا آیا کہ ہمارے لیے بار بار گاؤں جانے کی ایک اور وجہ پیدا ہو گئی۔ آج کل تو پلاسٹک کی باڈی والے ٹی وی آتے ہیں، لیکن وہ لکڑی کی باڈی اور چار ٹانگوں پر مشتمل انتہائی شاندار ٹی وی تھا۔ ٹی وی کے لیے کپڑے کے کور سیے جاتے۔ گھر کی بچیاں اس پہ پھول بوٹے کاڑھ دیتیں۔ ٹی وی کے اوپر پھولوں کا چھوٹا سے گلدان لازمی رکھا جاتا تھا۔
شام ہوتے ہی، صحن میں ٹی وی رکھ دیا جاتا۔ چارپائیاں بچھا دی جاتیں، تکیے اور کھیس رکھے جاتے، سامنے زمین پر دریاں بچھائی جاتی۔ گاؤں کے بہت سے لوگ ٹی وی دیکھنے آتے تھے (زیادہ تر خواتین و بچے، کبھی کبھار کوئی جاننے والے بزرگ بھی)۔ بزرگ افراد چارپائیوں پر بیٹھتے اور ٹی وی کے ساتھ ساتھ حقے کا لطف بھی اٹھاتے تھے۔ خواتین ذرا پرے برامدے میں بچھی چارپائیوں پر براجمان ہو جاتیں۔ بچے بالے دریوں پر بیٹھ جاتے۔ گاؤں میں اکثر گھروں کی چھتیں آپس میں ملی ہوتی ہیں۔ بہت سی خواتین چھتوں پر سایوں کی مانند چپ چاپ بیٹھی ٹی وی دیکھتی رہتیں۔ اس دور میں ہمارے گاؤں میں ٹی وی کو عیاشی اور امارت کی علامت سمجحا جاتا تھا۔ الف نون، سونا چاندی، سمندر، الف لیلٰی بہت معروف ڈرامے تھے۔ سونا چاندی کے ڈاکٹر ڈھنکنا، اور مسٹر ٹیں پٹاس بہت مشہور تھے۔ لطیفی مرحوم کمال کے اداکار تھے۔ الف نون تو کمال کا ڈرامہ تھا، مزاح ہی مزاح میں سماج سدھار ہوتا تھا۔ ہر کہانی میں ایک نصیحت ہوتی تھی۔ میں نے تو الف نون کی بہت سی قسطیں ڈاؤن لوڈ کر کے گاڑی میں رکھی ہوئی ہیں۔ سفر وغیرہ کرتے اسے دیکھنے میں اب بھی مزا آتا ہے۔ افسوس ناھک جلدی چلے گئے اور کمال احمد رضوی دوبارہ کوئی ویسا ساتھی نہ ڈھونڈ سکے۔ سمندر کی مکھی (عارفہ صدیقی)، خیر ہو آپ کی فیم (عابد کشمیری)، وجیہہ و جمیل آصف رضا میر بہت مشہور تھے۔ اس دور میں ڈرامے لکھنے والے زندگی سے قریب ترین کہانیاں لکھتے تھے اور اس میں معاشرے کے لئے اچھا پیغام ہوتا تھا۔ اب ڈراموں میں ساس بہو کی چخ چخ، طلاقوں کی بھرمار، خانگی سازشوں کے انبار باقی رہ گئے۔ موجودہ ڈرامے معاشرے کو تباہ کرنے کاکام کر رہے ہیں ۔ بہت کم اچھے ڈرامے ہیں جو معاشرے میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ ایک وجہ شاید یہ بھی ہے اب حقیقی ادیب ڈرامے سے دور ہو گیا ہے۔ غیر سنجیدگی اور پھکڑ پن کو تفریح کا ذریعہ سمجھ لیا گیاہے۔
اس دور میں انور مقصود کے پروگرام بہت مشہور تھے۔ بنجمن سسٹرز اسی دور میں معروف ہوئیں۔ آنگن ٹیڑھا جیسا ڈرامہ تب پیش کیا گیا۔ شکیل اور بشریٰ انصاری ، چوہدری صاحب، اور چوہدری صاحب کی چھوٹی بہن، اس ڈرامے کے اہم کردار تھے۔ سلیم مرحوم نے اس میں نوکر کا یادگار کردار ادا کیا تھا۔ تب نشانِ حیدرکے نام سے چند ڈرامے بنے تھے۔ نہ جانے کیوں بعد میں یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ ورنہ پاکستان کے نشانِ حیدر شہداء اور ان کے کارناموں سے عوام کو متعارف کروانا بہت مفید ہے۔ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ تو اپنے مشاہیر پر فلمیں بناتی ہیں اور ان کے کارناموں کو دوام بخشتی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ اپنے ہیروز کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔ وارث کا ڈرامہ ہماے دورِ ٹی وی سے پہلے ہی چل چکا تھا۔ بعد میں اس کا نشرِ مکرر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس دور میں ڈرامہ چل رہا تھا، بچوں کی کاپیوں کے کورپر اس ڈرامے کی تصاویر اور مکالمے چھاپے جاتے تھے۔ لاہور کی سڑکیں ڈرامہ لگنے سے پہلے ہی سنسان ہو جاتی تھیں۔
تنہائیاں کی مرینہ خان اور شہناز شیخ نے تو ایک نیا ٹرینڈ دیا تھا۔ اس دور میں کالجوں میں لڑکیاں مرینہ خان کا ہئیر سٹائیل کاپی کرتی تھیں۔ لیڈی ڈیانا کے ہئیر اسٹائیل سے خاصا ملتا جلتا تھا۔
گاؤں کی بات ہو رہی تھی۔ ہاکی یا کرکٹ کے میچ کے دوران ٹی وی بیٹھک میں منتقل ہو جاتا تھا اور دلچسپی رکھنے والے حضرات جمع ہو جاتے تھے۔ تمام کرسیاں، چارپائیاں بھر جاتی تھیں۔ حقہ ہر دم گردش میں رہتا تھا۔ کھیل میں پاکستان کے حالات نازک ہو جاتے تو سنجیدہ مزاج لوگ بیٹھک سے اٹھ کر مسجد کا رخ کرتے۔ 1989 کا شارجہ کپ مجھے ڈگری سندھ کی ایک گوٹھ میں ٹی وی پر دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس جوش و جذبے کا بیان مشکل ہے۔ اسٹیڈیم سے زیادہ ولولہ ہماری بیٹھک میں بھرا ہوا تھا۔ تب ایک بزرگ ساتھ والے کمرے میں جا کر مصلٰی بچحا کر مسلسل سجدے میں پڑے رہے اور فتح کی نوید سننے تک نہیں اٹھے۔ جب پاکستان میچ جیت گیا تب کوئی انہیں اٹھانے گیا کہ چچا پاکستان میچ جیت گیا ہے۔ پاکستان کی جیت ہمیں اپنی جیت ہی لگتی تھی۔
کسی خاص موقعے عموماً شادی بیاہ پر گاؤں میں وی سی آر کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ ہمارے گھر کے سامنے لوہاروں کا وسیع احاطہ موجود تھا جہاں ان کی ورکشاپ قائم تھی۔ رنبے، کسیاں، ہل، درانتیاں، فرنیچر وغیرہ کا کام وہاں پر ہوتا تھا۔ چند نوجوانوں پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جاتی۔ جو تانگے کے ذریعے مین سڑک تک پہنچتی۔ وہاں سے لوکل بس پہ بیٹھ کر کھرڑیانوالہ نامی نزدیکی قصبے کا رخ کیا جاتا۔ وہاں سے کرائے پر وی سی آر اور ٹی وی لیا جاتا اور جانبازوں کی وہ ٹیم ان جدید آلات کو حفاظت سے لوکل بس کی چھت پر بیٹھ کر اور پھر تانگے پر لاد کر گاؤں میں لے آتی۔ ادھر گاؤں والی ٹیم جگہ تیار کرتی۔ پانی کا چھڑکاؤ کرتی۔ دو چار گھروں سے چارپائیاں جمع کرتی اور اس کھلےاحاطے میں بچھاتی۔ حقے کا انتظام بھی ہوتا۔ عشاء کی نماز کے بعد وی سی آر لگایا جاتا۔ لڑکے بالے تو پہلے ہی جمع ہو جاتے تھے۔ ادھیڑ عمر حضرات اور بزرگ حضرات بھی ٹہلتے ٹہلتے چند لمحوں کے لئے تشریف رکھتے تھے۔ حقے کے دو چارکش لگاتے تھے اور اگر مناسب کمپنی مل جاتی تو بیٹھے رہتے ورنہ اٹھ کے چل پڑتے تھے۔ خواتین منڈیروں پر بیٹھ کے وی سی آر دیکھ لیتی تھیں۔ رات بھیگنے تک وی سی آر پر ایک یا دو فلمیں دیکھی جاتیں تھیں۔ فلموں کی کوالٹی بہت گھٹیا ہوتی تھی۔ بلکہ بعض مشہور فلموں کی رِیل تو گھسی ہوتی تھی۔ بار بار پھنس جاتی تو ماہرِ وی سی آر کوزحمت دی جاتی جو اسے ریوائنڈ اور فارورڈ کر کے دوبارہ چالو کرتا۔
چند سالوں کے بعد ہمارے گھر میں بھی ٹی وی آ گیا تھا۔ عموماً آٹھ بجے کا ڈرامہ ختم ہوتے ہی ہم بچہ لوگ اٹھ جاتے تھے لیکن والد صاحب کو خبریں سننے کا بہت شوق تھا۔ ہم حیران ہوتے تھے کہ ان خبروں سے انہیں کیا ملتا ہے۔ بچپن میں تو بچوں کے کارٹون، اور بچوں کے ڈرامے شوق سے دیکھتے تھے۔ ذولقرنین حیدر کا کوشش کے نام سے ایک سلسلہ وار ڈرامہ چلا تھا۔ ذولقرنین حیدر کو شہرت اسی ڈرامے سے ملی تھی۔ اس میں یہ نوکر بنتا ہے اور گھر کے بچوں کے ساتھ جاسوسی اور سراغرسانی کا کام کرتا ہے۔ بچوں کے لئے کافی دلچسپ کہانی تھی۔ اس کو لکھنے والے بھی ذولقرنین حیدر ہی تھے۔ ویک اینڈ پہ رات دس بجے انگریزی فلم لگا کرتی تھی۔ جب ذرا بڑے ہوئے تو وہ فلم لازمی دیکھتے تھے۔ ایک انگریزی ڈرامہ سیریزدی فال گائے (The Fall Guy) کے نام سے لگا کرتی تھی۔ اس کا ہیرو جس طرح سے پستول اپنی پینٹ میں اڑستا تھا، ہمارے سکول میں بچے اسی طرح پٹاخوں والی پستول اڑستے تھے۔ سچ ہے کہ ٹی وی بچوں پر بہت اثر ہوتا ہے۔ ایک دفعہ رات کو ٹی وی بند کرنے لگے تو موسیقی کا پروگرام لگ گیا۔ زندگی میں پہلی دفعہ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کو تب سنا تھا۔ اس کی آواز اور شاعری سن کر ایسے مبہوت ہوئے کہ ٹی وی بند کرنا بھول گئے ۔ سال میں دو تین موقعوں پر طویل دورانیے کا خصوصی کھیل لگتا تھا۔ جسے ہم بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی تب ہی دیکھا تھا۔ معین اختر مرحوم کا روزی بھی تب ہی کی بات ہے۔ ان ڈراموں کو تقریباً سب ہی شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ والد صاحب کو کوئی خاص شوق نہیں ہوتا تھا وہ تو سو جاتے تھے باقی تقریباً تمام گھر والے ہی ڈرامہ بھی دیکھتے اور چائے کا دور بھی چلاتے رہتے۔ ایک ان ڈور سی پکنک ہو جاتی تھی۔ طویل ڈراموں کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی ایوارڈز کی تقریبات بھی گھروں میں شوق سے دیکھی جاتی تھیں۔ سب سے یادگار شو وہ تھا جس میں معین اختر نے میزبانی کی تھی۔ پاکستانی ہاکی ٹیم نئی نئی ہار کے آئی تھی تو اس پر خالد عباس ڈار نے بہت مشہور خاکہ پیش کیا تھا۔ تقریب میں جب ارونا لیلٰی گانا گانے آتی تھیں ، تب کمرشل بریک کر دی جاتی تھی۔ چونکہ یہ پروگرام لائیو چلا کرتا تھا، لوگ ایسے وقفوں پہ بڑا تلملاتے تھے۔ "انتظار فرمائیے" اس دور کی خاص یاد ہے۔ عموماً جب پی ٹی وی میں کوئی ٹیکنکیل خامی آتی تھی تو یا مواصلاتی سیارے سے رابطہ منقطع ہوتا تھا، ایک سوگوار موسیقی کے ساتھ "انتظار فرمائیے" کی تحریر ٹی وی پہ آ جاتی تھی۔ لوگ انتظار کرتے رہتے تھے۔
خالد عباس ڈار گورنمنٹ کالج کے تعلیم یافتہ ہیں اور کالج کے دور سے ہی ون مین شو کرتے رہے ہیں۔ اس دور میں ان کا ایک پنجابی شو بھی لگا کرتا تھا جس میں وہ مختلف شعبوں سے لوگوں کو بلایا کرتے تھے اور ان کے انٹرویو لیے کرتے تھے۔ ایک پروگرام اب بھی یاد ہے جس میں انہوں نے ایک الیکٹریشن کو بلایا تھا جس نے بجلی سے گھومنے والا پیچ کس بنایا تھا۔ اسی طرح اس نے ایک بال پین بنایا تھا جس کی نب کے پاس چھوٹا گھڑیوں والا بلب لگا ہوا تھا۔ اندھیرے میں اس بلب کو آن کر کے آسانی سے لکھا جا سکتا تھا۔
دلدار پرویز بھٹی کا پنجابی پروگرام میلہ بھی اسی دور کی یادگارہے۔ دلدار پرویز بھٹی ویسے تو انگریزی کے پروفیسرتھے لیکن مشہور پنجابی زبان کے پروگراموں کی وجہ سے ہوئے۔ ان کی برجستگی اور حاضر جوابی کمال کی تھی۔ ویسے ان کا ایک اردو پروگرام جوان فکر بھی اس دور میں لگا کرتا تھا۔ اس سے پہلے ٹاکرا کے نام سے شو کرتے تھے۔
طارق عزیز ان دنوں سیاست میں نہیں آئے تھے۔ ان کا نیلام گھر ای کوئز شو کے طور پر بہت پسندکیا جاتا تھا۔ طلبہ کی بیت بازی اس کا بہت مقبول حصہ تھا۔" اہلِ جہاں کہتے ہیں کہ کشمیر ہے جنت، جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی " والا شعر بھی پہلی دفعہ ایک تیز طرار سی طالبہ سے بیت بازی میں ہی سنا تھا۔
اس دور میں عشاء کی نماز کا خاص مسئلہ ہوتا تھا۔ سال کے جن جن دنوں میں عشاء کی نماز آٹھ اور نو بجے کے درمیان ہوتی تھی، ایمان والوں کے لئے وہ واقعی ہی آزمائش ہوتی تھی کہ ڈرامہ چھوڑیں یا نماز ۔ پکے ایمان والے تو ڈرامہ چھوڑ کر نماز کے لئے اٹھ جاتے تھے۔ لیکن ہم جیسے دل کو تسلی دے لیتے تھے کہ چلو ڈرامہ ختم ہونے کے بعد گھر میں ہی پڑھ لوں گا۔ ہمارے ایک انکل تو اما م مسجد صاحب سے نماز کا وقت آگے یا پیچھے کروانے کے لئے لڑا کرتے تھے کہ نماز بھی پڑھی جائے اور ڈرامہ بھی نہ چھوٹے۔
بعد میں کالج اور یونیورسٹی دور میں خصوصاً ہاسٹل لائف میں ٹی وی سے کافی دوری ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سویت یونین کے آزاد ریاستوں میں بٹنے کے تمام مراحل سے بے خبر رہا۔کب سویت یونین کب ختم ہوا اور کب آزاد ریاستیں وجود میں آگئیں، پتہ ہی نہیں چلا۔ صرف اتنا علم تھا کہ ہاں ایسا ہوا ہے، لیکن کیسے ہوا، کچھ خبر نہیں۔ گو کافی سالوں بعد میں اس پر کتابیں ، مضامین پڑھ کے ساری معلومات ضرور اکٹھی کیں، لیکن بریکنگ نیوز کے طور پہ اس خبر کو نہیں سن پائے۔
اس دور میں جب صدر یا وزیرِ اعظم قوم سے ٹی وی پر خطاب کیا کرتے تھے تو سب لوگ گھروں میں بیٹھ کر خطاب سنا کرتے تھے۔ اگلے دن کی گفتگوؤں میں اس خطاب کا تذکرہ ہوتا تھا۔ آج کل تو خطاب ہونے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کوئی خطاب ہوا تھا۔ لوگ اتنی توجہ نہیں کرتے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا ہے کہ ضیاء الحق شہید کا کوئی خطاب ہوا ہو اور میں نے نہ سنا ہو۔ بلکہ ان کی شہادت کی خبر بھی ٹی وی سے ہی ملی تھی۔ میں ان دنوں دسویں جماعت کا طالبعلم تھا ۔ اس دور میں ٹی وی کو باہر صحن میں رکھ لیا جاتا تھا کیونکہ سب لوگ گرمیوں میں صحن میں سوتے تھے۔ کمروں میں سونا کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔ شام تقریباً آٹھ بجے کا ٹائم تھا۔ ابو دفتر کا کام کر رہے تھے اور میں اپنی پڑھائی میں مصروف تھا کہ اچانک ٹی وی میں جنرل ضیاءالحق کی شہادت کی خبر آئی۔ یوں لگا جیسے آسمان گر پڑا ہو۔ ابو کے منہ سے انا للہ و انا الیہ راجعون نکلا اورانہوں نے اپنی فائل بند کر دی۔ میں ایسا دلگرفتہ ہوا کہ اپنی کتاب بند کر کے سیدھا مسجد چلا گیا اور وہاں قران کی تلاوت کرتا رہا۔ اگلے دن کا جنازہ گاؤں میں جا کر ٹی وی پر دیکھا۔ اتنے بڑے جنازے نے ثابت کر دیا تھا کہ پاکستان کی کتنی بڑی آبادی اسے پسند کرتی تھی۔
نواز شریف کی وہ تقریر، جس میں اس نے کہا تھا کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا، میں استعفیٰ نہیں دوں گا، بھی میں نے گھر میں ہی ٹی وی پر دیکھی تھی۔ مشرف کی تقریر بھی رات جاگ کر اور انتظار کر کے دیکھی تھی۔ اس کی بحیثیت صدر آخری تقریر بھی براہ راست دیکھی تھی۔
اب پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں تو آج کا کل کا بڑا واضح فرق نظر آتا ہے۔ ہمارے بچپن میں گھر میں ایک ہی ٹی وی ہوتا تھا۔ الگ الگ کمروں میں ٹی وی کا رواج نہیں تھا۔ گھر کی تعمیر میں ٹی وی لاؤنج کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ گھر کے سب لوگ ٹی وی لاؤنج میں جمع ہوتے تھے، مل بیٹھ کر گپ شپ بھی کرتے تھے، باتیں بھی کرتے تھے ، کھانا پینا، پڑھائی لکھائی، سب وہیں ہوتا تھا اور ساتھ ساتھ ٹی وی بھی دیکھتے رہتے تھے۔ خاندان میں سے کوئی ملنے جلنے والا آ جاتا تو وہ بھی ٹی وی لاؤنج میں ہی بٹھایا جاتا تھا۔ کافی عرصہ تک تو ہم نے ٹی وی لاؤنج میں کرسیوں کے علاوہ بڑی چارپائی بھی بچھائے رکھی تاکہ کسی نے لیٹنا ہو یا رات کو سونا ہو تو بھی مسئلہ نہ ہو۔ سردیوں کی وہ راتیں مجھے اب بھی یاد ہیں ، جب ہم سب بچے وغیرہ چارپائی پر پیروں پہ ایک ہی رضائی اوڑھے، ڈرائی فروٹ کھاتے ہوئے ، ویک اینڈ سپیشل یا طویل دورانیہ کے ڈرامہ دیکھا کرتے تھے۔
لاہور کی یادوں میں ایک یاد انڈیا کے دور درشن کی بھی ہے۔ ویک اینڈ پہ ہندی فلم لگا کرتی تھی۔ ہمارے ایک حفیظ انکل تھے، جن کے ہاں اس دور میں ٹی وی نہیں ہوتا تھا۔ ان کی خواتین سے امی کی بہت دوستی تھی۔ امی مجھے ان کے گھر بھیج کے انہیں بلوا لیتی تھیں۔ آنٹی، انکی شادی شدہ بیٹی بمعہ ان کا شیرخوار نومولود، اور دوسرے چھوٹے بڑے بچے آ جاتے تھے اور اکٹھے ہندی فلم دیکھی جاتی تھی۔ ہم بچے کھیل کود میں لگ جایا کرتے تھے۔ خواتین آپس میں خانگی و معاشرتی موضوعات پر باتیں کرتی رہتی تھیں۔ خاصا بے تکلف ماحول ہوتا تھا۔ دور درشن کے سگنل کیچ کرنے کے لئے انٹینے کو خاص انداز سے گھمانا پڑتا تھا۔ یہ بھی ایک دلچسپ مرحلہ ہر گھر میں انجام پاتا تھا۔ ایک فرد چھت پر چڑھ جاتا اور انٹینے کے بانس کو دائیں بائیں گھماتا، ایک فرد سیڑھیوں کے پاس کھڑا ہوجاتا اور نیچے ٹی وی کے پاس بیٹھے ہوؤں کا فیڈ بیک بانس والے کو نشر کرتا رہتا۔ عموماً اس قسم کی آوازیں آتی تھی، سجے، ہور سجے، نئیں نئیں، کھبے، واپس واپس۔۔۔ اور ایہہ فیر زیادہ کُما تا، واپس کر واپس کر۔۔۔۔ (دائیں، اور دائیں، نہیں نہیں، واپس واپس۔۔۔ یہ پھر زیادہ گھما دیا، واپس کرو واپس کرو۔۔۔)
مشرف دور میں جب نئے نئے چینلوں کا رواج ہوا تو ٹی وی دلچسپی بہت بڑھ گئی۔ سیاستدانوں کو لائیو پروگرام میں بیٹھے دیکھتے اور لڑاکا مرغوں کی طرح ایک دوسرے پر حملے کرتے دیکھتے تو لطف ہی آ جاتا۔ علماء دین کو لائیو سوالات کے جوابات دیتے دیکھتے تو مزہ ہی آ جاتا۔ یاد ہے کہ الیکشن کے دنوں میں تجزیاتی پروگرام دیکھتے۔ رات رات جاگ کر مختلف حلقوں کے نتائج کا اعلان سنتے اور بیچ بیچ میں مزاحیہ پروگرام بھی دیکھتے۔ صحافی حضرات کو سیاسی موضوعات پر بات چیت کرتے دیکھتے تو بہت اچھا لگتا۔ چھوٹی چھوٹی خبروں کو "بریکنگ نیوز" کے طور پر دیکھتے تو لگتا کہ میڈیا کا یہ انقلاب معاشرے میں تبدیلی کا باعث بنے گا۔ کچھ عرصہ یہ سب ڈرامہ دیکھتے رہے۔ پھر پتہ چلا کہ ٹی پی آر نامی ایک چیز ہوتی ہے، جس کو حاصل کرنے کے لئے مختلف ہوسٹ مختلف ڈرامے کرتے ہیں۔ پرڈیوسر اینکر کو بار بار سیاسی لیڈروں کو آپس میں لڑانے کا کہتے رہتے ہیں۔ اینکر آر اینڈ ڈی کر کے آنے کی بجائے بغیر تیاری کے آتے ہیں اور متنازعہ موضوعات کو چھیڑتے ہیں۔ معاشرے کی ان ان موضوعات کو ان ٹی وی اینکرز نے چھیڑا کہ جسے کوئی فیملی میں بیٹھ کر ڈسکس نہیں کرتا چہ جائیکہ کھلے عام اس پر بات کی جائے۔ دل ایسا بیزار ہوا کہ اب ان نیوز چینلوں کو دیکھنے کا دل ہی نہیں کرتا۔ کبھی لگا بھی ہو تو گھما کے کوئی اور چینل لگا دیتا ہوں۔
آج جب کہ گھر کے ہر کمرے میں ٹی وی ہے۔ ڈرامے اور دوسرے پروگرام بار بار نشر ہوتے ہیں کہ کوئی اگر مِس کر دے تو نشرِ مکرر میں دیکھ سکے، چینل بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی بھی جدید آ گئی ہے۔ ٹی وی کو کمپیوٹر اور موبائل پہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ٹی وی کے ساتھ جو خاندان بھر سے جڑے ہونے کا احساس تھا، وہ احساس ختم ہو گیا ہے۔ بارہا ہوا کہ پاکستان انڈیا کا میچ لگا ہے اور سب اپنے اپنے کمروں میں بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔ نہ کوئی جوش نہ کوئی ولولہ۔ بلکہ مسلسل گرتے معیار کی وجہ سے کھیلوں سے بھی ایسی بیزاری آ گئی ہے میچ دیکھنے کی بجائے کچھ دیر بعد ویب سے سکور کا اپ ڈیٹ لے کے گزار کر لیتے ہیں۔ کئی دفعہ دوست احباب کسی خاص پروگرام کے بارے میں بات کرتے ہیں تو میں جواباً یہی کہتا ہوں کہ میں ٹی وی نہیں دیکھتا۔ انہیں حیرت تو ہوتی ہے لیکن میرے دھوپ میں سفید کیے گئے بالوں کا لحاظ کر کے تسلیم کر لیتے ہیں۔
ختم شد
اپ نے تو ٹیلی وژن کی پوری تاریخ ہی لکھ دی
ReplyDeleteبہت خوب
میں اس آخری نسل کا فرد ہوں جس نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور برتا۔ اُس وقت ٹی وی دیکھنا کتنی بڑی فرحت تھی، آج کے ٹی وی سے تو اس کا اندازہ لگانا ہی محال ہے۔
Deleteیاد ماضی خوشگوار ہے یارب
ReplyDeleteچھین نہ لینا حافظہ میرا
ابھی بعض اوقات ملنے والوں کا نام بھول جاتا ہوں۔ بچوں کے نام آپس میں گڈ مڈ کر دیتا ہوں۔ بہن بھائیوں کے نام بھی ادل بدل کر ڈالتا ہوں۔ اہم تواریخ بھول جاتا ہوں۔ ہاں ماضی خوب یاد رہتا ہے۔
Delete:-)
ہر داغ ہے اس دل میں بمع داغِ ندامت
کتنے اچھے تھے میرے ماضی کے دن
ReplyDeleteشکر الحمداللہ آج کے دن بھی بہت اچھے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ان دنوں کی یاد میں لکھا کریں گے۔
Delete