Thursday, June 5, 2014

وہ ایک لمحہ - عمران زاہد کے قلم سے


نصر اللہ شجیع، جو اپنے ایک طالبعلم کی جان بچاتے ہوئے دریائے کنہار کی موجوں کی نذر ہو گئے،  کو میں نہیں جانتا۔ لیکن اتنا میں بے دھڑک کہہ سکتا ہوں کہ وہ بلاشبہ ایک عظیم شخصیت ہیں۔ ایسا میں ان کو اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں۔


عبدالرؤف گل صاحب -  ایک قابلِ فخر انسان
زمانہ طالبعلمی کی بات ہے کہ یونیورسٹی میں ہماری کلاس جاری تھی کہ اچانک زلزلہ آ گیا۔ تمام طالبعلم اور ہمارے استاد گھبراہٹ میں بھاگ کر کمرے سے باہر نکل گئے۔ میں خود بہت عجلت میں بھاگا تھا۔ واپسی پہ دیکھا تو عبد الرؤف صاحب وہیں اطمینان سے کمرے میں تشریف فرما تھے۔ کسی نے نوٹس نہیں لیا، لیکن مجھے یہ بات معمول سے ہٹ کر لگی۔ کلاس ختم ہونے کے بعد میں نے عبدالرؤف صاحب سے زلزلے کے باوجود کمرے میں بیٹھے رہنے کی وجہ پوچھی تو ان کے یقین اور ایمان نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ کہنے لگے کہ موت کا ایک دن معین ہے۔ جو رات قبر میں آنی ہے، باہر نہیں آئے گی، تو میں کیوں خوامخواہ اس سے بھاگوں۔ 

عبدالرؤف صاحب کے اس جواب نے میری نظروں میں ان کی شخصیت کو بہت بلند کر دیا۔ اور الحمد اللہ وہ اب بھی ایسے کہ ایسے ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انہیں دنیا و آخرت کی مزید کامیابیاں ملیں، ان کے سب مسائل حل ہوں۔ اللہ ایسا ایمان، یقین اور اطمینان ہم سب کو عطا فرمائے۔

دوسرا واقعہ جو 8 اکتوبر 2005 کو پیش آیا۔ یہ وارداتِ قلب میں نے کسی سے شئیر نہیں کی۔ آج شاید پہلی دفعہ کسی جگہ اس کو شئیر کر رہا ہوں۔

 صبح کے وقت، میں ابھی بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ میری اہلیہ اور میری چند ماہ کی بیٹی شمائم بتول ذرا گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ اچانک زلزلہ آ گیا۔ بیڈ بری طرح سے ہلنے لگا۔ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ یوں لگ رہا تھا کہ چھت ٹوٹ کے نیچے آ گرے گی اور ہم اس کے ملبے تلے دب جائیں گے۔ میں چھلانگ مار کر بیڈ سے اٹھا اور باہر کو بھاگا۔ دروازہ کھولتے ہی میری نظر اپنی اہلیہ اور بچی پر پڑی۔ پہلی سوچ تو یہ تھی کہ ان کو جگانے میں وقت ضائع نہ کروں اور بھاگ کے اپنی جان بچاؤں۔ زندگی ہو گی تو اللہ اور بیوی بچے بھی عطا فرما دے گا۔ دوسری سوچ یہ آئی کہ نہیں،  جب دکھ سکھ کا ساتھ قبول کیا ہے تو اس طرح انہیں یہاں مرنے کے لیے چھوڑ جانا اور اپنی جان بچا لینا بزدلی ہے، منافقت ہے۔  

شاید یہ کشمکمش چند لمحوں پر ہی محیط ہو گی لیکن اس دوران بلاشبہ بے شمار خیالات میرے ذہن میں دوڑ گئے۔ اس انتہائی نازک وقت میں میرے ذہن میں عبدالرؤف صاحب سے کی گئی وہ گفتگو بھی دوڑ گئی۔ میرا سارا ہیجان ختم ہو گیا۔ میں وہیں دروازے سے پلٹا اور انتہائی اطمینان سے اپنہ اہلیہ کو جگایا اور بیٹی کو اٹھا کر مکان سے باہر صحن میں آ گئے۔

مجھے اپنے اس عمل سے اتنا اطمینان اور سکون محسوس ہوا کہ بیان سے باہر ہے اور میں نے بعد میں کئی دفعہ سوچا کہ اگر میں اس دن اہلیہ اور بیٹی کو سوتا چھوڑ کر بھاگ جاتا تو کیا مجھے ضمیر کی خلش کا سامنا کرنا پڑتا؟ سچی بات ہے کہ میں اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوں کہ فطری طور پر انسان ہنگامی حالات میں اپنی جان بچانے کے لیے بہت دفعہ دوسروں کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔ لیکن انسان کی عظمت یہی ہے کہ وہ پہلے دوسروں کا سوچے پھر اپنا۔

عبدالرؤف صاحب میرے تصورات میں ایک ستارے کی طرح ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے کہ میں نے ان سے زندگی کا ایک بہت اہم سبق سیکھا۔

نصر اللہ شجیع صاحب کی بات ہو رہی تھی۔ جب ان کے سامنے ان کا ایک طالبعلم دریا میں ڈوب رہا تھا، کیا ان کے ذہن میں بھی یہ خیالات آئے تھے کہ جو ڈوب رہا ہے اسے بچانا تو ممکن نہیں ، اس کی خاطر میں کیوں اپنی جان گنواؤں؟ کیا انہوں نے ایسا بھی سوچا ہو گا کہ اس بچے کو بچاتے ہوئے میرے اپنے بچے یتیم ہو سکتے ہیں، لہٰذا چھوڑو اسے۔۔۔ ویسے بھی اپنی جان بچانا فرض ہے۔ 

ان کے ذہن میں کیا خیالات آئے تھے اور کیا نہیں آئے تھے، ہمیں نہیں پتہ۔ لیکن ہمیں یہ پتہ ہے کہ وہ اپنے فرض کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بے دھڑک دریا کی خونی موجوں میں کود گئے۔ ان کے اس فیصلے نے میرے دل میں ان کی اتنی عظمت بڑھا دی ہے کہ میں ان کو نہ جاننے کے باوجود بھی ان کا تذکرہ بچشمِ نم کر رہا ہوں۔ اپنے ذاتی واقعات کی روشنی میں ان کو یاد کر رہا ہوں۔ ان کے جذبات اور وارداتِ قلب کو اپنے اوپر گزرتا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔ بلاشبہ انہوں نے دلیری اور شجاعت کی ایک اعلٰی مثال قائم کی ہے۔ ایسے لوگوں کا خمیر اس مٹی سے اٹھتا ہے جس سے سچے لیڈر بنائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ کسی بھی معاشرے کا نمک ہوتے ہیں۔ یہ سوسائٹی کے وہ اشراف ہیں کہ فرشتے بھی ان کی ہمسری کی خواہش کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کا شاہین تو ایک تصور تھا، اس تصور کا عملی پیکر ہیں یہ۔

جس معاشرے میں لوگ پچاس روپے کی خاطر خونی رشتوں کو خون میں نہلانے سے گریز نہیں کرتے وہاں محض ایک طالبعلم کے لیے اپنے سب فائدوں کو بالائے طاق رکھ کر جتنے خسارے تھے ان کو مول لینا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ نسیم حجازی کے ناولوں میں کردار خیالی ہوتے ہیں، ہوتے ہوں گے، لیکن ان کرداروں میں ایک کردار شجیع کا بھی تو ہے، جسے ہم نے چلتے پھرتے ہوئے اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھا ہے اور اس کے عمل کو اخلاق و کردار کے سارے پیمانوں سے ناپا ہے اور اسے کھرا پایا ہے۔ مسلمانوں کے تاریخ کو لوگ افسانہ قرار دیتے ہیں اور نام نہاد تاریخ دان، جنہیں تاریک دان کہنا مناسب ہوگا، دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی تاریخ میں عظمتِ کردار کا سارے واقعات خیالی ہیں ، من گھڑت ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم ایسے کرداروں کو آج بھی چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں، چھو کر محسوس کر سکتے ہیں۔

شجیع بھائی، اللہ آپ کی بے لوث قربانی کو قبول فرمائے اور شہادت کے اعلیٰ ترین مدارج سے نوازے۔ یقیناً آپ اپنے مقام سے اپنے لیے سوگوار لوگوں کو یہ کہہ رہے ہوں گے کہ نادانو، میرے لیے کیوں اداس ہوتے ہو کہ میں تو فلاح پا گیا، میں تو اللہ کی رحمتوں میں شرابور ہو گیا۔ موت تو میرے لیے تھی ہی نہیں، مجھے شہادت کی زندگی عطا ہوئی ہے۔




7 comments :

  1. ایک زوال پذیر معاشرے میں جہاں تمام قابل فخر اقدار دم توڑتی نظر آرہی ہیں ہیں نصر اللہ شجیع کا یہ قدم سونے میں تولنے کے مترادف تھا۔ تحریر نے متاثر کن انداز میں اس قربانی کا احاطہ کیا ہے۔
    جزاک اللہ خیر

    ReplyDelete
  2. عینی شاہد کے طور پر میرا اپنا بیٹا وہیں موجود تھا جو کہتا ہے سفیان سر نصراللہ کی پچھلی سایڈ پر بیٹھا تھا تصویر بنوانے کے لیے سب اسی ایک پتھر پر تھے کہ اچانک سفیان کا پیر پھسلا اور وہ دریا میں گر گیا اور اسی لمحے ایک ریلا اسے بہا لے گیا سر کو نہیں معلوم ہوا کہ وہ گرا جب بچوں نے چیخنا شروع کیا سر سفیان سر سفیان تو وہ مڑے اور سفیان سفیان پکارتے لمحہ بھر میں دریا میں چھلانگ لگادی ۔۔۔۔۔۔۔ ایسے لوگ لمحہ بھر میں فیصلہ کر لیا کرتے ہیں وہ کبھی کسی تذبذب کا شکار نہیں ہوتے اور یقینا شجیع بھائی ایسے تھے ۔۔۔ اللہ ان کے لیے بہترین فیصلہ فرمائے ۔۔آمین

    ReplyDelete
    Replies
    1. بلاشبہ، انہوں نے ایک عظیم کردار کا نمونہ پیش کیا ہے۔
      مختار مسعود صاحب نے اپنی کتاب آوازِ دوست میں "قحط الرجال" کا رونا روتے ہیں، شجیع بھائی کی مثال یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہاں رجالِ کار بھی کم نہیں ہیں۔

      Delete
  3. Yeah he was a great leader

    ReplyDelete
    Replies
    1. ان کے حوالے سے اپنی کوئی یاد شئیر کیجیے۔ شکریہ۔

      Delete

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...