کراچی کے حالات دیکھ دیکھ کر جو دل کڑھتا ہے اس کو میں نے اس مضمون میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرح سے اپنا کتھارسس ہی کیا ہے۔ میرے کسی کراچی کے دوست کو برا لگے تو میں دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں۔ میں خود جو ہوں شاید دوسروں کو بھی ویسا ہی دیکھ رہا ہوں۔۔۔ بالکل آئینے کے عکس کی طرح۔ پھر سے معافی کا خواستگار ہوں۔
میری تو سوچی سمجھی رائے یہی ہے کہ کراچی رہنے کے قابل جگہ نہیں رہی۔ اندھیروں کی بستی میں رہنے کی نسبت کسی جنگل میں رہنا ذیادہ موزوں ہے۔ کراچی کے لوگ تعلقات اور رشتے ناتوں کے لیے موزوں ہی نہیں رہے۔ کراچی والوں سے تو کوسوں دور سے گزر جانا چاہیئے۔ ان لوگوں کو تو منہ ہی نہیں لگانا چاہیئے۔ نہ یہ جگہ رہنے قابل ہیں ناں یہ لوگ ملنے کے قابل ہیں۔ یہ کوڑھ خانوں میں رہنے والے کوڑھیوں سے ذیادہ کوڑھ زدہ ہیں۔ ان کوڑھیوں سے تو دور ہی رہنا چاہیئے۔ کوڑھ کے مرض میں مبتلا لوگوں کی طرح ان کو باقی لوگوں سے الگ تھلگ رکھا جانا چاہیئے۔ پاکستان کے باقی لوگوں کو ان کے کوڑھ سے بچانے کے لیے ان پر پابندی عائد کر دینی چاہیئے کہ یہ کسی اور سے نہ ملیں ۔ باقی لوگوں کو بیمار نہ کریں۔
کراچی ایک ایسی جگہ ہے جہاں انصاف، دیانت، امانت، عدل، سچائی ، بہادری سب کے سب بے معنی الفاظ بن چکے ہیں۔ طالبعلم نقل مارنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ سرکاری امتحانات میں لوگ نقل مارنا اپنا فرضِ منصبی گردانتے ہیں۔ ایماندار ممتحن کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ممتحن کی جان لینا کوئی بڑی بات نہیں۔ استاد کی کوئی عزت نہیں۔ استاد شاید اپنی عزت کی توقع بھی نہیں کرتے۔
ایک دیانتدار شخص کے لیے جینا مشکل ہے۔ عوام کے لیے لٹنا ایک عام سے مانی ہوئی حقیقت بن کے رہ گئی ہے۔ ہر شخص برضا و رغبت لٹتا ہے۔ اور اس پر آواز بھی بلند نہیں کرتا۔ قتل ہونا بھی عام ہے اور قتل کرنا بھی عام ہے۔ جو اس پہ آواز بلند کرے وہ بھی مارا جاتا ہے۔ کوئی گواہی دینے کی کوشش کرے وہ بھی سرِ عام بھون دیا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے یہ کوئی قبائلی علاقہ ہے۔ جہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قبائلی علاقے کراچی سے ہزار درجے زیادہ پُرامن ہیں۔ وہاں انصاف ہے اور بہت سستا انصاف ہے۔ ظلم کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ لیکن کراچی تو اس دنیا کی بستی لگتا ہی نہیں ۔ انسانوں سے ذیادہ ، حیوانوں اور درندوں کی بستی لگتا ہے۔ ازمنہ قدیم کے جابر جاگیردار بھی کراچی کے ظالموں سے زیادہ انصاف پسند اور متحمل مزاج ہوتے تھے۔
کاروباری لوگ، ٹیکس دینے کو جنجال گردانتے ہیں لیکن تقریباً اتنی ہی یا اس سے زیادہ رقم بھتہ کی مد میں بھتہ مافیا کو دے دیتے ہیں۔ اگر بھتہ نہ دیں تو ان کے کاروبار کو تباہ کر دیا جاتا ہے۔ فیکٹری کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ اہلِ خانہ کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ حتٰی کے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ انسان ہیں یا درندے ہیں یہ کراچی والے۔ ان کو دیکھ کر انسانیت سے ایمان ہی اٹھ جاتا ہے۔ شرفِ انسانی کی اتنی تذلیل تو شیطان بھی نہ کر پاتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شیطان بھی کراچی والوں سے نئے نئے حربے سیکھتا ہے۔
پولیس جرائم کی بیج کنی کرنے کی بجائے جرائم کی پرورش کرتی ہے۔ مجرم کو سہولت دیتی ہے اور معصوم کو الٹا ٹانگ دیتی ہے۔جرم کرنے کی سہولت دیتی ہے۔ مجرم سے پیار کرتی ہے۔ مجرم طاقتور ہو تو وفادار کتے کی طرح دُم ہلاتی ہے۔ انسانی حد سے گری ہوئی اسفل السافلین کے درجے پر اترے ہوئی لوگوں کا مکروہ ٹولہ ہے کراچی پولیس۔
وہاں کے عوام گو بہت پڑھے لکھے ہیں لیکن بہت ناحق پرست ہیں۔ عجیب لگتا ہے کہ وہ اتنی گھٹن کیسے برداشت کرتے ہیں۔ اتنی گھٹن تو طالبان کے افغانستان میں بھی نہیں تھی۔ انصاف تو تھا کم از کم۔ عوام نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ ازمنہ قدیم کی قاہر ریاستوں کے باجگذاروں کی طرح سر جھکا کر زندہ رہنا سیکھ لیا ہے کراچی والوں نے۔ وقار کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک کے مصلحت کوشی کو ہی زندگی کا قرینہ سمجھ لیا ہے۔ گیدڑ کی سو سالہ زندگی کو شیر کی ایک دن کی زندگی پر ترجیح دے بیٹھے ہیں میرے نادان کراچی والے۔ ان کی کس کس بات کا نوحہ لکھوں۔
کراچی کے میڈیا والے جھوٹ بولتے ہیں۔ صر صر کو صبا اور ظلمت کو ضیاء کہتے ہیں۔ پورا ملک سچ جان چکا ہوتا ہے لیکن کراچی کا میڈیا جھوٹ کو پھیلا رہا ہوتا ہے۔ نیوز اینکرز، تبصرہ کرنے والے اور جھوٹ کو خوشنما بنانے والے دانشوروں کے مکروہ چہرے دیکھ کر کراچی کے لوگ برے لگنے لگتے ہیں۔ میڈیا میں سے جو بھی سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے وہ مارا جاتا ہے۔ گواہ بھی مارے جاتے ہیں۔ پولیس والے بھی مارے جاتے ہیں اور جج بھی شہید کر دیے جاتے ہیں۔
کراچی ایسی بنجر زمیں ہے جہاں پھولوں کی جگہ کیکر اور تھوہر ہی پیدا ہوتی ہے۔ جہاں شاہراہیں اور گلیاں صحرا کا منظر پیش کرتی ہیں۔ درختوں اور سبزے کو کراچی کی زمیں سے ہی بیر ہے۔ کراچی آکر تارکول کی پتھریلی سڑکوں اور مشینی لوگوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ کوئی سمندر کو کب تک دیکھے اور صرف سمندر کی خاطر اپنے انسانی وقار کو کہاں تک مجروع ہوتا دیکھے۔ ان مردہ روحوں کو کوئی کتنا جگائے جنہوں نے ذلت و رسوائی کو ہی عزت سمجھ لیا ہے۔
کراچی کے دانشور جھوٹی زندگی جی رہے ہیں۔ جہل کو ہی دانش سمجھ کر اپنی جعلی دانش کا بھرم قائم کیے ہوئے ہیں۔ جھوٹ کو اپنا چکے ہیں۔ سر تا پا جھوٹ کا مرقع ہیں۔ جھوٹی تعریفوں سے ان کے جہل کی پرورش ہوتی ہے۔ شاعری میں، مصوری میں، ادب میں۔۔ جھوٹ ہی جھوٹ بھر کے رکھ دیا ہے۔ سچ بولنے کی جرات نہیں رکھتے یہ لوگ۔ اندھے، بہرے اور گونگے ہیں یہ دانشور۔ یہ وہ شہر ہے جو حکیم سعید جیسے درویش اور صلاح الدین جیسے فقیر کی جان لے کے ٹلتا ہے۔ یہاں کے سیاستدان اتنے ذہنی بیمار ہیں کہ "جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے" جیسے فلسفے پہ یقین رکھتے ہیں۔ دم گھٹتا ہے ایسی شہری زندگی سے۔
میں مکرر عرض کروں گا کہ کراچی رہنے کے قابل جگہ نہیں رہی۔ اندھیروں کی بستی میں رہنے کی نسبت کسی جنگل میں رہنا ذیادہ موزوں ہے۔ کراچی کے لوگ تعلقات اور رشتے ناتوں کے لیے موزوں ہی نہیں رہے۔ کراچی والوں سے تو کوسوں دور سے گزر جانا چاہیئے۔ ان لوگوں کو تو منہ ہی نہیں لگانا چاہیئے۔ نہ یہ جگہ رہنے قابل ہیں ناں یہ لوگ ملنے کے قابل ہیں۔ یہ کوڑھ خانوں میں رہنے والے کوڑھیوں سے ذیادہ کوڑھ زدہ ہیں۔ ان کوڑھیوں سے تو دور ہی رہنا چاہیئے۔ کوڑھ کے مرض میں مبتلا لوگوں کی طرح ان کو باقی لوگوں سے الگ تھلگ رکھا جانا چاہیئے۔ پاکستان کے باقی لوگوں کو ان کے کوڑھ سے بچانے کے لیے ان پر پابندی عائد کر دینی چاہیئے کہ یہ کسی اور سے نہ ملیں ۔ باقی لوگوں کو بیمار نہ کریں۔
لیکن کراچی کے جماعتِ اسلامی والو۔۔۔۔ آپ عجیب لوگ ہو۔ آپ کی وجہ سے میری سب سوچیں ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ آپ لوگوں نے اعلٰی کردار کی ایک دو نہیں سینکڑوں مثالیں پیش کی ہیں۔ آپ کی طرف میرا دل کھنچتا ہے۔ آپ کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ کراچی وہ نہیں جو نظر آتا ہے۔ اصل کراچی وہ ہے جو آپ لوگ ہو۔ کراچی بھیڑیا نما گیدڑوں کا شہر نہیں ، آپ جیسے فرشتہ صفت شجاع لوگوں کا ہے۔ کراچی کی پہچان بھتہ مافیا، بوری مافیا اور ٹھپہ مافیا نہیں ۔۔۔ آپ جیسے باکردار لوگوں کا گروہ ہے جو اعلائے کلمہ حق کے لیے اپنی جان کا نذرانہ ہنسی خوشی د ے دیتے ہیں۔
آپ بہادر ہو۔ ایمانداری میں اپنی مثال آپ ہو۔ حق پرست ہو۔ ظلم و زیادتی سے نفرت کرتے ہو۔ انسانیت سے محبت کرتے ہو۔ اعلٰی انسانی خواص سے آراستہ ہو۔ آپ کی وجہ سے میں پھر کراچی سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ مجھے کراچی میں اپنا ئیت محسوس ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ مجھے کراچی پورے پاکستان سے ذیادہ اچھا لگنے لگتا ہے۔ لگتا ہے آپ لوگوں سے تعلق رکھنا دنیا وی زندگی کا حاصل ہے اور روزِ قیامت بخشش کا باعث ہے۔ اتنے پاکیزہ کردار ہو آپ لوگ۔
کراچی کی جماعت والو۔ مجھے آپ لوگوں سے محبت ہے۔ بہت عقیدت ہے۔ آپ کی وجہ سے میرا ایمان انسانیت پر بڑھ جاتا ہے۔ آپ کی وجہ سے مجھے کراچی والے ایماندار اور دیانتدار لگنے لگتے ہیں، معصوم اور بھولے بھالے لگنے لگتے ہیں۔ آپ کی وجہ سے کراچی بھی اچھا لگتا ہے اور کراچی والے بھی اچھے لگنے لگتے ہیں۔
کراچی جماعت والو۔۔مجھے یقین ہے۔ جب تک آپ ہو۔۔ کراچی وحشی درندوں کا جنگل نہیں بن سکتا۔ آپ لوگ ہی کراچی والوں کی آخری امید ہو۔ آپ پاکستان کی آخری امید ہو۔ آپ ہو تو امید زندہ ہے۔ اللہ آپ کو استقامت عطا فرمائے۔ اور کراچی والوں کے دل آ پ کے لیے کھول دے۔ آمین۔
ختم شد
Agree Imran ... This is land totally neglected by our authorities. Now as soon as PML-N comes in to power MQM is going to join them, sad part is Nawaz Sharif Will take him on board "Mulk Kay wassee tar Qoomi maffad main" At least when every thing is clear against MQM all parties will have to stand together.My check is if govt conducts election again in Karachi PMLN will do something for country only they have to to is free and fair under army one election in karachi
ReplyDeletejaisi eman-afrooz aqeedat apki jamaat waloon ke saath hey buss kuch aisi hi lagta hey Bhai ke aqeedat-mandoon ko unn se hey..
ReplyDeleteبجا ارشاد فرماتے ہیں آپ۔
Deleteشعلے کے گبر سنگھ کے ساتھیوں کو بھی اپنے لیڈر سے بہت محبت تھی۔محبت و عقیدت کا ہم انکار کب کرتے ہیں۔