Monday, September 16, 2013

اک تاریخ نہاں ہے نعروں میں ۔ جناب احمد شاہین کے قلم سے


اگر آپ نے زمانہ طالبعلمی کسی سرکاری یونیورسٹی یا کالج میں گزارا ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کے کان نعروں سے محروم رہے ہوں۔ خوشی کا موقع ہو یا غمی و افسوس کا، انتظامیہ سے چپقلش پیدا ہوجائے یا ادارے کے دو برتن آپس میں ہی ٹکرا جائیں، سب سے پہلے بلند ہونے والی صدا یقینا ایک نعرہ ہوتی ہے اور اس کے بعد "دے مار، ساڑھے چار" خیر یہ مضمون کسی چٹ پٹے پھڈے کا احوال سنانے کیلئے تو تحریر نہیں کیا جارہا  بلکہ کوشش ہے کہ دور طالب علمی  کی یادوں کو کرید کر ذرا "نعرہ بازی" کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔

تاریخ میں سب سے پہلا نعرہ نہ جانے کس نے اور کیا لگایا ہولیکن یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ نعرہ کسی درسگاہ سے بلند نہیں ہوا ہوگا (اگرچہ بعد میں درس گاہوں نے ہی "نعرہ بافی و نعرہ شناسی" کو بام عروج پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا) شائد یہ نعرہ کسی یونانی دیوتا کے جوشیلے پیروکاروں نے لگایا ہو (ساڈا دیوتا۔۔۔۔زندہ باد) یا پھر میدان جنگ میں کسی سورما کے کارناموں کے اعتراف میں اس کے ساتھیوں نے جوش بڑھانے کیلئے نعرے کا سہارا لیا ہوگا۔  ہاں البتہ تاریخ میں ایک انفرادی نعرے کا  بہت چرچا ہوا اور یہ تھا یونانی سائنسدان ارشمیدس کا نعرہ  "مستانہ"،  "یوریکا" جو احباب اس نعرہ کے ظہور کا "محل و  وقوع" اور  پس منظر جانتے ہیں یقینا  وہ  اس نعرے کو نعرہ "مستانہ" لکھنے پر زیرِ لب مسکرائیں گے۔ باقی دوستوں سے "پوگو" دیکھنے کی گزارش ہے۔
تو صاحب بات ہو رہی تھی نعرہ بازی اور  تعلیمی اداروں میں اس کی دھمک کی۔ایک بات کا اعتراف تو کرنا پڑے گا۔ جس طرح یہ حقیقت مسلّم ہے کہ پاکستان میں سیاست بھٹو اور اینٹی بھٹو کے مابین ہوتی ہے اسی طرح طلبہ سیاست یا سٹوڈنٹ پالیٹکس، جمعیت اور اینٹی جمعیت طاقتوں کے مابین ہوتی ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی کے بعد بھی اسلامی جمعیت طلبہ اپنی اسی قوت اور تعداد کیساتھ تعلیمی اداروں میں موجود ہے جبکہ اینٹی جمعیت تنظیمیں ، "شعیہ سنی۔۔بھائی بھائی" یا "پختون، پنجابی اتحاد۔۔۔زندہ باد" کے نعروں کیساتھ جمعیت کے مقابلے پر ہیں۔ چلو اسی بہانے سہی، یہ متحد تو ہوئے اور اس کا ثواب بھی جمعیت والوں کے کھاتے ہی میں جائے گا تو کیا مذائقہ ہے؟ خیر دلچسپ پہلو ان اینٹی جمعیت عناصر کی نعرے بازی ہے۔ ذرا تصور کیجئے آپ کسی کالج میں اپنے یا کسی رشتہ دار کے داخلے کیلئے قدم رکھتے ہیں اور اچانک ہی کسی کونے سے نعرہ لگتا ہے 
" نس (یعنی بھاگ) جماعتی، گولی آئی۔۔۔۔اے ٹی آئی، اے ٹی آئی" یا پھر " ٹھاہ جماعتی ٹھاہ" تو ایک بار تو آپ ضرور ان زرخیز دماغوں کو شاباش دیں گے ناں؟ لیکن گھبرائیے نہیں جمعیت والے بھی منہ میں زبان، پھیپھڑوں میں ہوا اور چھاتی میں دل رکھتے ہیں چناچہ اس قسم کے نعروں کا فوری ری-ایکشن، " وحدت کا پرچار۔۔۔۔جمعیت، کلیوں کی چٹخار۔۔۔۔۔جمعیت" کی صورت میں سامنے آئے گا اور "ٹھاہ ٹھاہ" والے بھائی کسی گلی کی نکڑ پر "ٹھاہ ٹھاہ والی بوتل" پیتے نظر آئیں گے۔ 
قارئین میں سے وہ احباب جو زمانہ طالب علمی میں کسی بھی "جائز" وجہ سے طلبہ کے ان بیش بہا نعروں سے محروم رہے ہیں ، ان کیلئے چند کرارے اور دلچسپ نعرے پیش خدمت ہیں۔ طلبہ سیاست میں کسی وقت خوف و دہشت کی علامت پی ایس ایف (پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن)  پیپلز پارٹی کے روایتی نعروں کیساتھ "بھٹو دا پاوا۔۔۔پی ایس ایف" تنظیمی "عقیدت و احترام" کیساتھ لگاتی رہی ہے اور اب بھی وسطی پنجاب کے ہر بڑے شہر میں چلنے والی ٹرانسپورٹ اس نعرے کو سینے سے لگاکر چلتی ہے۔  
پی ایس ایف سے یاد آیا کسی دور میں سرخے، معاف کیجئے گا سوشلسٹ و کمیونسٹ و ترقی پسند طلبا کا بڑا چرچا تھا۔ان لوگوں کا من پسند نعرہ " سرخ ہے سرخ ہے۔۔۔ایشیا سرخ ہے" تھا جس کے جواب میں اسلامسٹ طلبہ (ارے وہی جماعتی یار) "سبز ہے سبز ہے۔۔۔ ایشیا سبز ہے، گنبد رسول سے۔۔۔ ایشیا سبز ہے، چادر بتول سے۔۔۔ ایشیا سبز ہے" کی گردان سنا کر سرخ سویرے کو سبز روشنی دکھا دیا کرتے تھے۔ 
 مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی ایم ایس ایف کا یہ نعرہ "قوت ہی قوت۔۔۔ایم ایس ایف، اک چڑھتا سورج۔۔۔ایم ایس ایف، کردار کی غازی ۔۔۔ ایم ایس ایف، بے داغ ہے ماضی۔۔۔ایم ایس ایف" کسی زمانے میں طلبا میں بہت مقبول تھا اور باقاعدہ اس نعرے کو بحر کیساتھ زیادہ دیر تک لگانے کا مقابلہ بھی کیا جاتا تھا۔ لیکن ایم ایس ایف کی قضائے الہی سے وفات کیساتھ ہی اس کے نعرے بھی دیگر طلبہ تنظیموں نے مالِ غنیمت سمجھ کر اپنا لئے۔ آج کل یہ نعرہ اے ٹی آئی (انجمن طلبا اسلام)  دیواروں پر اپنے نام کیساتھ لکھ کر خوش ہوتی رہتی ہے ۔دیواروں پر اس لئے کیونکہ نعرے کو منہ سے لگانے کیلئے  لوگ چاہئیں۔ اگرچہ "لوگ" کرائے پر بھی مل جاتے ہیں لیکن یہ اے ٹی آئی ہے، پی ٹی آئی نہیں چناچہ "لوگ خریدنا" اس کے بس سے باہر ہے۔
ہاں کرائے کے نعرہ بازوں سے یاد آیا، کراچی کی ایک ویڈیو تو یقینا آپ نے دیکھی ہوگی اور اگر یو ٹیوب پر بین کی وجہ سے محروم رہے ہیں تو ہم آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ آج ہی کسی فیس بکئے فرینڈ سے کہیں وہ ضرور تلاش کردے گا۔ ویڈیو کراچی کے مینڈیٹ کا دعوی کرنے والی "مڈل کلاس جماعت" کے ایک مظاہرے کی ہے۔ حالات کے "جبر" کے باعث شائد زیادہ "ساتھی" اکٹھے نہ ہوسکے تو "بھائی لوگ" کرائے پر نعرے لگانے والے لے آئے۔ ان میں سے ایک صاحب شائد اس مظاہرے سے چند دن قبل اسی جماعت کی مخالفت میں منعقد ہونے والے ایک مظاہرے میں نعرے لگا کر داد اور دام دونوں وصول کرچکے تھے چناچہ جونہی نعرہ لگانے کا حکم صادر ہوا، صاحب کی زبان سے فورا "قائد محترم" کا نام اور ساتھ میں ایک دم ہلانے والی مخلوق (ہاں یار وہی جو وفاداری کیلئے بھی مشہور ہے) کا" ذکرِ خیر" ہوا ۔ بس پھر کیا ہوا؟ یہ تو آپ بھی بخوبی جان سکتے ہیں ورنہ کراچی کے کسی دور کے دوست سے پوچھ لیجئے۔ یہاں بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نعرے بازی کیلئے بھی جوش کیساتھ ہوش کی ضرورت ہے جناب۔ سو لگائیے میرے ساتھ الوداعی نعرہ اور مجھے اجازت دیجئے۔ ساڈا لیڈر۔ ۔۔ ۔ ؟؟؟؟
(مضمون پسند آئے تو دوستوں سے شئیر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور فیڈ بیک دینے میں کنجوسی اچھےلوگوں کا شیوہ نہیں)

ختم شد

مصنف:
احمد شاہین سوشل سائنسز کے گریجویٹ ہیں اور میڈیا اینڈ کمیونیکیشن میں سپیشلائزیشن کر رکھی ہے۔ آج کل ایک این جی او میں شامل ہو کر معاشرتی سدھار کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ اگرچہ کیمرہ سے دور ہیں لیکن قلم سے گدگدی کرتے رہتے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم رہے ہیں۔ ان سے یہاں پر ملا جا سکتا ہے۔ 

31 comments :

  1. Ma sha Allah
    Allah kry zor e qalam aur ziadah.
    Malik Muhammad Azam
    Islamabad

    ReplyDelete
  2. Great Bro... Ubhrta hua Writer... "Mustansar Hussain Tarar, Dr. Younis Butt main sy kis ki shagirdi main aaye ho bhai"

    ReplyDelete
  3. بہت خوبصورتی سے اچھی یادوں کے در کھول دیے ۔۔۔
    ماشاءاللہ

    ReplyDelete
  4. میں کالم کے تکنیکی پہلوؤں پر تو کچھ کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا مگر ویسے کالم جاندار ہے...

    ReplyDelete
  5. میں کالم کے تکنیکی پہلوؤں پر تو کچھ کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا مگر ویسے کالم جاندار ہے...

    ReplyDelete
  6. بہت ہی اچھے انداز میں تعلیمی اداروں کی سیاست کی تاریخ اور ساتھ نعروں کی تاریخ بیان کر دی، ہم کو بھی اپنا زمانہ طالبعلمی یاد کروا دیا

    ReplyDelete
  7. بہت خوب
    ان نعروں میں کبھی ہماری آواز بھی شامل ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گویا ہمارا خوں بھی شامل ہے ۔۔۔۔۔۔ !!!!

    ReplyDelete
  8. آخری جملے میں "مذائقہ" شاید غلط ہے ۔ اصل لفظ "مضائقہ" ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. اصلاح کا شکریہ۔ فقرے میں ترمیم کر دی گئی ہے۔

      Delete
    2. جزاک اللہ عمران بھائی

      Delete
  9. اگر کمنٹ کرنے کیلئے نیم یو آر ایل آن کر دیں تو بہتوں کا بھلا ہو جائے گا

    ReplyDelete
    Replies
    1. بلاگسپاٹ میں شاید اس طرح کی سہولت موجود نہیں ۔

      Delete
  10. اسلم بھائی۔ ایڈمن سے گزارش ہی کی جاسکتی ہے۔ میں تو خود مہمان ہوں یہاں۔ :-P

    ReplyDelete
    Replies
    1. بھائی آپ یہاں پہ مہمان نہیں۔۔۔ میزبان ہیں۔

      Delete
    2. شکریہ :-)
      پھر تو سب کمنٹ کرنے والے دوستوں کو چائے پانی بھی اپنی جیب سے ہی پلانا پڑے گی :-P

      Delete
  11. ZABARDAST KIA YAAD DILA DIA AAP NAY

    ReplyDelete
  12. Very good effort but very much angled. Should have been neutral.

    ReplyDelete
  13. مزیدار ہے، مجھے مصنف کے وہ نعرے بھی یاد آگئے جو پاک انڈیا بارڈر پر رینجرز کے جوانوں کے شانہ بشانہ لگائے گئے تھے۔۔۔ مصنف کو اپنے بارے میں یہ بتانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے تھا کہ نعروں کے اس جہاں میں ان کا اپنا ذاتی طور پر کتنا حصہ رہا ہے۔ تا کہ مستقبل کا مورخ جب نعروں کی تاریخ مرتب کرے تو وہ مصنف کے قد کاٹھ کا بھی تعین کر سکے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. ہا ہا ہا آپ بھی شرارتوں سے باز نہیں آسکتے۔ ذاتی تجربات کی روشنی میں تو کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
      "فرصت کے اوقات میں نعرے خود بنائیے"
      ؛-)

      Delete
  14. Nice! reflected blogger's soul's inclination.

    ReplyDelete
  15. دیگر تمام احباب اور قارئین کا بھی شکریہ۔ یہ ایک تجرباتی کوشش تھی جو کہ کسی حد تک کامیاب رہی۔ ماضی کے دریچوں کو ہلکے پھلکے پیرائے میں کھولنا تو آسان ہے سمیٹنا نہیں۔

    ReplyDelete

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...