Monday, August 19, 2013

پیارے انقلابیو، منہ مت کھلواؤ - جناب سجاد میر کے قلم سے


ہمارے انقلابی بھائی مجاہد بریلوی نے کیا لکھ دیا کہ ٹیلیفون لائنوں کا تانتا بندھ گیا کہ اب کی بار جانے نہ پائے۔ خیر اس عزیز کو کیا کہنا، مگر دو چار تاریخی مغالطے ہیں جنہیں رفع کرنا ضروری ہے۔ ہمارے بائیں بازو کے ڈنڈی مار تاریخ کو ضیاء الحق سے شروع کرتے ہیں اور ایسی گرد اڑاتے ہیں کہ بھٹو شاہی کے کرتوت اس دھول میں چھپ جاتے ہیں۔
میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ اپنی نگاہوں کے سامنے تاریخ کو مسخ ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ ضیاء الحق تو ایک فوجی تھا، مگر بھٹو ایک سویلین ڈکٹیٹر تھا۔ یہ سویلین ڈکٹیٹر شپ، فوجی ڈکٹیٹر شپ سے بھی خطرناک ہوتی ہے۔ اسے فاشزم یا فسطائیت کہتے ہیں۔ وہی جو ہٹلر کا طرۂ امتیاز تھا اور بھٹو کے تو اجزائے ترکیبی بھی ہو بہو وہی تھے۔ نیشنل سوشلزم، یہ ہٹلر کا فلسفہ تھا۔ کیا خیال ہے، بھٹو کے بارے میں اس نے ہماری نیشنلزم کو کیسے جگایا۔ سو سال تک لڑیں گے، ایٹم بم بنائیں گے چاہے گھاس کھانا پڑے۔ کیسے ولولہ انگیز انداز میں سلامتی کونسل میں پولینڈ کی قرار داد پھاڑ کر قومی ہیرو بنا اور کس طرح روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ لگا کر اس نے عوام کے دکھ درد کی تجارت کی۔ ہٹلر اور سویلین کے فلسفے کی ہوبہو تصویر ۔اگر کوئی ایک شخص ملک کی تباہی کا ذمہ دار قرار پا سکتا ہے تو وہ دنیا کی تاریخ کا یہ منفرد سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار بھٹو تھا جس نے سویلین کو بھی وردیاں پہنا دیں۔ عہدوں کے لحاظ سے الگ الگ بینڈ بھی سجا ڈالے۔ اس کے ذہن کی ساخت پر تو ہمارے ہاں کوئی کام ہی نہیں ہوا۔
ہمارے ملک میں سوخرابیاں تھیں، مگر معیشت ہماری درست جا رہی تھی۔ دنیا کے لئے رول ماڈل تھی۔ سوشلزم کے نام پر اس نے صنعتوں کوقومیانے کا عمل اس طرح شروع کیا کہ قومی اثاثے نوکر شاہی کے حوالے کر دیئے۔ افسوس کے بیچارے کو سوشلزم کا بھی مطلب نہ آتا تھا۔ آتا تھا تو بدنیت تھا۔ بدنیت تو ایسا تھا کہ انتقام کی آگ میں خود تو جلتا تھا، ملک کو بھی جلا ڈالا۔ کسی اصول کے تحت مثال کے طور پر چاول صاف کرنے کی فیکٹریاں قومیائی نہیں جانا چاہئے تھیں۔ اس نے یہ بھی کر دیا ، کیونکہ اس کے سیاسی مخالفین میں سے بعض ان کے مالک تھے مثلاًظہور الٰہی۔ ایسا منتقم مزاج کہ تاریخ نے نہ دیکھا ہوگا۔
صنعتیں نوکر شاہی کے حوالے کرنے کے بعد اس نے اس نوکر شاہی پر بھی قبضہ کرنے کی ٹھانی۔ ایسا قانون بنایا کہ سارا ڈھانچہ تلپٹ کر دیا۔ براہ راست بھرتی کا اصول منظور کرایا، لیٹرل انٹری۔ سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری، جائنٹ اور ڈپٹی سیکرٹری ایک ہی ہلے میں براہ راست بھرتی کر ڈالے۔ اپنے چہیتوں کے سپرد بڑی بڑی صنعتیں کر دیں۔صنعتیں بھی تباہ ہوئیں، انتظامیہ بھی ملیا میٹ ہوئی اور اس کی بادشاہی قائم ہوئی۔ رہ گئے انسانی حقوق، شہری آزادیاں اور جمہوری قدریں تو جیسا ان کا جنازہ اس نے نکالا، اس کی تو نظیر نہیں ملتی۔
میرے پیارے انقلابی، یاد کرو، ان دنوں کو۔ پہلی ہی پریس کانفرنس میں اس نے ایک صحافی کو برطرف کیا تھا، زیڈ اے سلیری کو۔ الطاف حسن قریشی، مجیب نظامی، حسین نقی اس کے اگلے شکار تھے۔ میں نے وہ جنگ اللہ کے فضل سے، پہلی صف میں کھڑے ہو کر لڑی ہے۔ کہاں تھے اس وقت وہ نام نہاد آزادیءِ صحافت کے علمبردار ، منہ نہ کھلواؤ ۔ ٹریڈ یونین والوں کو چھوڑو، جوش، فیض، فراز سب سرکاری ملازم تھے۔ اگر ان میں سے کوئی ملک سے بھاگا تھاتو ضیاء کے ڈر سے نہیں اس کرپشن کی وجہ سے جو انہوں نے بھٹو کے دور میں کی ہوگی۔ چلئے اپنی نااہلی کی وجہ سے ان سے ہوگئی تھی۔ یہ سبط حسن اس وقت کہاں تھے۔ روشن جی، بھیم جی کے نوکر ،کیوں ماضی کے چراغ جلوا رہے ہو۔ ایک ایک کہانی ازبر ہے۔ جزو یات تک یاد ہیں۔
خیر اسے چھوڑئیے، میں بھٹو کے انسانی حقوق کے کارنامے یاد کر رہا تھا۔ یاد ہے، ایک دلائی کیمپ تھا۔ یوں سمجھو اس زمانے میں پاکستان کا گوانتاناموبے ۔ جی ہاں، آزاد کشمیر میں قائم کیا گیا تھا۔ اپنے ہی لوگ اغوا کرکے وہاں پہنچائے جاتے تھے۔ افتخار نازی، چوہدری ارشاد، اپنے اخبار مساوات کے پبلشرز میاں اسلم، طالب علم رہنما ذوالفقار زلفی۔ عدالت کی پوری کارروائی موجود ہے۔ ابھی برادرم سعود ساحر سے بات ہو رہی تھی۔ وہ کیسے ان گمشدہ افراد کی تلاش میں وہاں تک پہنچے۔ سارا قصہ چھپا، عدالت حرکت میں آئی۔ آپ کو تو اپنا انقلابی بھائی مختار رانا بھول گیا ہوگا۔ بھٹو کے ظلم و ستم کا پہلا نشانہ، ایم این اے تھا، فیصل آباد سے پیپلزپارٹی کا، بالآخر جلا وطنی پر مجبور ہوا۔ ہاں ہاں جے اے رحیم یاد ہے، پارٹی کاسیکرٹری جنرل بزرگ قائد جس نے گویا ساری پارٹی اپنے ہاتھ سے بنائی۔ ایک کھانے میں تاخیر کی شکایت کر بیٹھا۔ رات کو دیوار پھلاند کر سرکاری غنڈہ نے دھنائی کر ڈالی۔ ایک نیم فوجی تنظیم بنا رکھی تھی نا اس نے جس کے پاس فوج جیسا اسلحہ تھا اور یہ وزارت دفاع کے ماتحت نہ تھی۔ اس کی ایک کارروائی مجھے یاد ہے، کراچی میں پی آئی اے کی یونین نے نعتیہ مشاعرہ کرایا۔ وزیر داخلہ خان قیوم خاں، جی ہاں ڈبل بیرل خاں کو مہمان خصوصی بنایا۔ این ایس ایف کیا نام تھا غنڈوں کی اس تنظیم کا۔ انہوں نے باقاعدہ گولیاں چلا کر دھاوا بول دیا۔ اپنے ہی وزیر داخلہ کے خلاف تھے ۔سوہنے منڈے حفیظ پیرزادہ نے حکم دیا تھا۔یونینوں کی لڑائی تھی۔ کراچی کے ادیبوں سے پوچھ لیجئے، کیسے میں انہیں ایک طرف گائیڈ کرتا گولیوں کی اس بوچھاڑ سے نکالنے میں کامیاب ہوا۔
یہاں مجھے لیاقت باغ کا سانحہ یاد آرہا ہے۔ برادرم سعود ساحر اور میں وہاں سے بھی گولیوں کی بوچھاڑ میں سے نکلنے میں خدا کے فضل سے کامیاب ہوئے۔ چالیس لاشیں اٹھی تھیں۔ ولی خاں لاشیں لے کر تو سرحد چلے گئے اور اجمل خٹک نے افغانستان کی راہ لی۔ شام کو ڈیفنس آف پاکستان کے تحت حکمنامہ آگیا کہ اس کی خبر بھی چھاپی نہیں جا سکتی۔ تاجپورہ بھی یاد آرہا ہے جہاں ضمنی انتخاب ہو رہے تھے۔ جلسہ گاہ میں سانپ چھوڑ دیئے گئے۔ بھٹو نے کیا کیا نہیں کیا۔ شاہی قلعے کے عقوبت خانے آباد اس نے کئے، اگرچہ عرصے سے قائم تھے۔ ملک سلمان یاد آئے، سیالکوٹ سے پیپلزپارٹی ہی کے ایم این اے تھے۔ ان کی بیوی پر لحاف چوری کا مقدمہ بنا۔ بیٹیوں تک کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ میاں طفیل کا معاملہ آپ بھول گئے۔ لاہور کے ایک نامور وکیل جو ایک بڑے سیاستدان تھے، انہیں دھمکی دی گئی، تمہاری بیٹیاں فلاں فلاں وقت کالج جاتی ہیں۔ کیا کیا باتیں یاد آ رہی ہیں۔ اور چھوڑو، اپنے معراج محمد خاں سے پوچھ لیجئے بھٹو نے انہیں اپنا جانشین قرار دیا تھا۔ ولی خاں کے ساتھ ان پر بھی غداری کا مقدمہ بنایا گیا۔ ایسے عذاب سے گزرے کہ عمر بھر صحت بحال نہ ہو سکی۔ یہ تو اپنے منہاج برنا کے بھائی ہیں۔ زخم مت کریدو، بہت کچھ یاد آرہا ہے۔ ہم نے بڑی جدوجہد کی ہے، اس ظالم کے خلاف۔
ہاں یاد آیا، کس نے کہابھٹو کو مغربی پاکستان میں اکثریت تھی۔ اس نام کی کوئی چیز اس وقت موجود ہی نہ تھی۔ ون یونٹ ٹوٹ چکا تھا۔ بھٹو کو صرف پنجاب میں اکثریت ملی تھی۔ سندھ میں بھی جام صادق علی کے بارہ لوگ شامل ہوئے تو یہ اکثریت میں آیا۔ سندھ اسمبلی کے ساٹھ میں سے28نشستیں پیپلزپارٹی کے پاس تھیں۔ ان میں بکاؤ مال بھی بہت تھا۔ ہاں، وہ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے گا کا واقعہ یاد ہے۔ اس سے پہلے لانڈی میں مزدوروں پر بلڈوزر چڑھا دیئے گئے تھے۔ میرے پیارے بھولے بادشاہ، سب کچھ بھولے جا رہے ہو۔
یہ دکھ بھری کہانی بہت طویل ہے، اب چھڑ گئی ہے تو کسی وقت جم کر رکھوں گا۔ ان انقلابیوں کی کہانیاں ہیں جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹ مچار رکھی تھی اور ظلم کے ساتھی تھے۔ ہاں چلتے چلتے، عرض کرتا چلوں کہ ہمارے سلیم احمد کبھی ضیاء الحق کے مشیر نہ تھے۔ وہ ریڈیو پاکستان کے ایک ’’ادنیٰ‘‘ ملازم تھے۔ اور اسی مجبوری میں انہیں وزارت اطلاعات نے طلب کر لیا تھا، پی این اے کے زمانے میں۔ وہ بھی اس لئے کہ یہ خیال پایا جاتا تھا کہ وہ الیکٹرانک میڈیا پر تخلیقی انداز میں رہنمائی کرنے کے بادشاہ ہیں۔ وہاں بھی وہ چند دن رہ پائے اور واپس آگئے۔ انہوں نے کبھی ضیاء الحق کی تقریر نہیں لکھی۔ ان ادبی کانفرنسوں کا حال بھی لکھوں گا جن میں ضیاء الحق نے یہ تقریر کی تھی۔ اس کے بھی اصل الفاظ پڑھتے جاؤ۔ میں صدیق سالک کو چھیڑتا تھا کہ میں ضیاء الحق کے ادبی نظر یے پر مضمون لکھنے والا ہوں۔ وہ جواب میں پاکستانی اور جانے کن کن ادیبوں کے حوالے دے کر میرامنہ بند کرنے کی کوشش کرتے۔ مگر بھائی یہ بھی خیال رہے کہ اس بہتی گنگا میں کون کون ہاتھ دھوتا رہا ہے۔ ان سے تو اتنا ہی کہنا ہے کہ:
اتنی نہ بڑھا پاکئِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
اس وقت موڈ ہے تو ذرا تعلّی کے انداز میں دوسرا شعر بھی سہی۔
تردامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
فی الحال اتنا ہی۔۔۔ تاریخ مسخ ہوتی دیکھی نہیں جاتی۔

ختم شد

5 comments :

  1. زیڈ اے سلہری ، مجید نظامی صحافی ہیں / تھے ؟ نہیں یہ بکاؤ انسان تھے ، پیسہ کے لالچی ، زیڈ اے سلہری نے فوجی آمر کے جتنے تلوے چاٹے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے ، بابا مجید نظامی ، یہ وہ استحصالی بوڑھا ہے جو آج بھی قبر میں پاؤں لٹکاۓ بیٹھا ہے مگر صحافیوں کے استحصال سے باز نہیں آرہا ، ویج بورڈ پر کبھی عمل نہیں کیا ، اپنے ورکرز کا حق کھاتا ہے نہیں یقین تو نواۓ وقت کے کسی بھی ورکر کو پکڑ کر معلوم کر لو ، جھوٹ ہو تو میرے منہ پر تھوک دو

    بھٹو سے پہلے مصنوی معشیت صرف سرد جنگ میں امریکا کی غلامی اور کراۓ کے ٹٹو کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے مضبوط تھی ، ٹوٹے پھوٹے ملک اور اربوں ڈالرز کے قرضہ جات بھی بھٹو نے ادا کئے وہ قرضہ جس سے اسلام آباد بنا کر عیاشی کی گئی اور بائیس خاندان پالے گئے .

    آج پاکستان میں ہر شعبہ میں جو ادارے قایم ہیں اردو بورڈ سے اولڈ ایج بینفٹ سے ، اٹامک انرجی سے سٹیل ملز یہ سب بھٹو کی دین ہیں

    سیاسی طور پر بھٹو مخالفین کے اتنا دشمن ہوتا تو ٹکے ٹکے کے نو لعنتی سڑکوں پر نہیں قبر میں ہوتے ، نظام مصطفیٰ کے نام پر نکلنے والے ڈالرز سے خرید کردہ بھونکتے کتے مرگ بر امریکا کے نعروں کے ساتھ گولیوں سے بھون ڈالے گئے ہوتے

    سجاد میر ، تم نے ضیاء دور میں جو رنگبازیاں کی ہیں ان پر منہ نہ کھلواؤ ، آمریت کے سہارے پروان چڑھنے والے بکاؤ مال تمہاری یہ غلیظ چھینٹیں جنھیں تم تحریر کہتے ہو سورج کو گہنا نہیں سکتیں ہاں تمہاری حسرتوں کو لو دیتی رہیں گی ان کی تپش سے تم اپنے مردہ ضمیر کی سرد لاش کو چاہو گرماتے رہو ، مگر آمریت کی دلدادہ لاش لاش ہی رہتی ہے بے گور کفن

    ReplyDelete
    Replies
    1. closed the bhutto CHAPTER NOW now mr zardaree ne bhutto ko dafan ker dia he ----log ub tabdeelii chahte hain -----tum log draMMA BAZ HO KABEE ZARDAREE, KABEE NAWAZ SHAREEF ---

      Delete
  2. چار پانچ سال کے مختصر عرصہ میں ایک ایسا ملک جو دنیا کی پانچویں بڑی ریاست سے چونتیسویں نمبر پر آگئی ، جو تباہ حال تھی جس کی فوج دنیا بھر میں اپنی حرکتوں سے رسوا اور آخری سانسوں پر تھی کو سنبھالنا اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا یہ معجزہ شہید بھٹو جیسا کوئی کرشماتی شخصیت ہی دیکھا سکتی تھی ، یہ بھٹو تھا جس نے فوج کی نا اہلی اور فوج کی لونڈی جماعت اسلامی اور فوج کے بستر کی ہر مارشل لا میں زینت بننے والی مسلم لیگ کے کرتوتوں سے مغربی پاکستان اندرا کے انتقامی جذبے سے بچا کر باقی ماندہ پاکستان یہاں کی آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ رکھا
    سجاد میر جیسے بکواسی کتے جتنی مرضی بکواس کرتے رہیں آخری فیصلہ عوام کا تھا کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے اور یہ فیصلہ بحیرہ عرب کے ساحل سے ہمالیہ کی چوٹیوں تک گونج رہا ہے گونجتا رہے گا سجاد میر جیسے کتے اس چمکتے چاند کی طرف منہ اٹھا کر بھونکتے رہے ہیں بھونکتے رہیں گے

    ReplyDelete
    Replies
    1. SHARAM ANEE CHAHEA --APP LOGON KO IS TARA KE COMMENTS DETE HUE----LAST 5 YEARS DEKH LIA APP KAA DRAMMA ---CLOSED THIS TOPIC ---BHUTTO BHUTTO

      Delete

  3. تاریخ تو یہ ہے کے بھٹو کے خلاف امریکی غلاموں کا ٹولہ ڈالرز سے لیس ہو کر نظام مصطفیٰ کے نام سے عوام کو پھدو بنانے نکلا اور کامیاب ہو کر عوام کو کلاشنکوف اور ہیروئن کا نشہ لگا کر افغانستان جا گھسا مال غنیمت لوٹنے . سجاد میر اس تاریخ کو مسخ نہ کرنا ، تم اور تمھارے جیسے وطن دشمنوں نے اسلام کا نام لیکر اس ملک کے ساتھ جو کھیلواڑ کیا ہے وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ہر گزرتا دن تمھارے جیسوں کے منہ سے نقاب نوچتا ہے اور تمہاری نوٹنکیوں کو بے نقاب کرتا ہے

    ReplyDelete

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...