Tuesday, April 30, 2013

جماعتِ اسلامی کی کامیابی - سجاد میر کے قلم سے



ارادہ تھا کہ اس مسئلے پر انتخابات کے بعد لکھوں گا۔ اب بھی یہی خیال ہے۔ یہ ایسا اتھلا مسئلہ نہیں ہے کہ اسے الیکشن کے طوفانوں کی نذر کیا جا سکے۔ جو بھی اٹھتا ہے جماعت اسلامی کی حکمت عملی پر لب کشائی کرنے لگتا ہے۔ بعض تو وہ ہیں جو بڑے دکھ کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی حالات میں جماعت نے درست سیاسی چالبازی کا مظاہرہ نہیں کیا، اس لئے وہ اب گویا ایک کٹی پتنگ کی طرح ڈول رہی ہے۔ ان کی بات الگ ہے۔
کچھ ایسے میں جو بتاتے ہیں کہ جماعت کی تعمیر ہی میں اک صورت خرابی کی تھی جو اب ظاہر ہونے لگی ہے۔ ان میں جو تو ویسے ہی اسلام دشمن یا مذہب بیزار ذہن ہیں، ان سے تو خیر الگ مباحثہ ہو سکتا ہے، مگر وہ بھی ہیں جو دین داری کا دعویٰ کرتے ہیں، ان میں اکثر ایک زمانے میں جماعت سے وابستہ رہے ہیں یا اب بھی ان کا تانا بانا جس تار سے بنا جا رہا ہے وہ جماعت اسلامی ہی کی تیار کردہ ہے۔ وہ گویا جماعت اسلامی کی تعبیر کی غلطیاں بتانے نکلے ہیں۔ ان کا سب سے بنیادی مو ¿قف یہی ہے کہ جماعت اسلامی کو سیاست میں حصہ ہی نہیں لینا چاہئے تھا۔ ماچھی گوٹھ سے لے کر غامدیوں کی فوج ظفر موج تک اسی نوع کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے۔ اوربغلیں بجاتی ہے کہ دیکھا جماعت ناکام ہوگئی ہے۔ ہمارے بتائے ہوئے راستے پر چلتی تو آج اسے یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔
میرے خیال میں یہ لوگ شدید مغالطے میں مبتلا ہیں اور اپنی فکری کجی کی وجہ سے غلط نتائج نکالنے پر مجبور ہیں۔ جہاں تک سیاسی میدان میں کامیابی اور ناکامی کا سوال ہے تو میں بلا تردد یہ اعلان کرتا ہوں کہ جماعت اسلامی اپنے مشن میں کامیاب جا رہی ہے۔ سیاسی اتار چڑھاﺅ دوسری بات ہے اور یہ کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ نہیں ہوتے۔ اس وقت ہماری قومی سیاست ایک جوار بھاٹا سے گزر رہی ہے۔ بھنور کی آنکھ مگر بہت کچھ دیکھ رہی ہے۔ ہمیں اس کو اس تناظر میں پرکھنا ہوگا۔
کہانی مختصر کرتا ہوں۔ ابھی کل چند اہل دانش بیٹھے بات کر رہے تھے کہ ہم مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیں یا تحریک انصاف کو۔ دونوں میں کیا فرق ہے۔ دونوں نظریاتی طور پر رائٹ آف سنٹر کی پارٹیاں ہیں۔ دونوں پاکستان یا نظریہ ¿ پاکستان اور پاکستان کے اسلامی تشخص پر یقین رکھتی ہیں ۔ دونوں میں اتنی لبرل ازم پائی جاتی ہے جو شہر کی مڈل کلاس کا طرہ ¿ امتیاز ہوا کرتی ہے۔ ویسے اس مڈل کلاس کی لبرل ازم بھی خاصی مذہبی ہوا کرتی ہے۔ ان میں کسی کا انتخاب کیوں کیا جائے۔
انتخاب کرنے والوں کے پاس اپنے دلائل ہوں گے، مگر ان دونوں جماعتوں کا بنیادی کریکٹر ایسا ہی ہے، دائیں طرف جھکاﺅ، اسلام سے محبت، اقبال سے محبت، اخلاقی قدروں پر ایمان۔ وہ دن گئے جب پاکستان میں مقابلہ رائٹ آف سنٹر اور لیفٹ آف سنٹر یعنی مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی میں ہوا کرتا تھا۔ اب پیپلزپارٹی غائب ہے، اس کی جگہ تحریک انصاف نے لے لی ہے۔ یعنی لیفٹ غائب ہے، رائٹ ہی رائٹ ہے۔ دونوں مگر سنٹر میں، انتہائی شکلوں میں نہیں۔شاید یہی وجہ تھی کہ اسلامی انقلاب کی داعی جماعت نے دونوں ہی سے رابطے رکھے۔ کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے میں تذبذب کا شکار تھے تو اس لئے کہ دونوں میں کچھ نہ کچھ اپنی ہی خوبو تھی۔ رنگ ڈھنگ الگ الگ بھائیوں میں ہوا کرتے ہیں اور بعض اوقات تصادم بھی۔
کیا یہ جماعت کی آئیڈیالوجی کی فتح نہیں ہے کہ اسلام، پاکستان، اخلاقیات کا نام لینے والی پارٹیاں میدان میں ہیں، لیفٹ قدرے پیچھے ہٹ چکاہے۔
ہو سکتا ہے یہ بات دل کو نہ لگتی ہو۔ دیکھیں ترکی میں اربکان کی سعادت پارٹی اب بہت پیچھے ہے۔ وہ وہاں کی دراصل اصل جماعت اسلامی تھی۔ ان کی جگہ اردگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے لے لی ہے۔ سیاسی طور پر دونوں میں سخت تناﺅ ہے، مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ موجودہ حکمران جماعت دنیا بھر میں سیکولرزم پر اسلام کی فتح گنی جاتی ہے۔ یہ سعادت پارٹی ہی سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ اربکان اس سیاسی علیحدگی پرناراض بھی تھے، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اربکان جنہیں وہاں ایک مرشد کا درجہ حاصل ہے اور خواجہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، ان کے جنازے کو کندھا دینے والوں میں اردگان اور عبداللہ گل پیش پیش تھے انہوں نے اعتراف کیا، ہم جو کچھ ہیں، وہ خواجہ نجم الدین اربکان کی وجہ سے ہیں۔ سیاسی جدوجہد ایک طویل عمل ہے۔ بریع الزماں سعید نورسی سے لے کر فتح اللہ گولن اور وہاں سے نجم الدین اربکان تک جدوجہد کی کئی پرتیں ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے کبھی خاتون ٹانسو چبلر کو وزیراعظم مانا کبھی سیکولر بلند اہلجوت کے ساتھ کام کیا۔ ترکی میں کوئی نہیںکہتا، سعادت پارٹی ہار گئی ہے اس لئے تحریک اسلامی پٹ گئی ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے ترکی کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ فوج کو واپس اپنے خول میں بھیج دیاہے ، عدلیہ کو ڈھب پر لے آئے ہیں اقتصادی ترقی کی نئی راہیں استوار کی ہیں۔ترکی کے سیکولر آئین میں اسلامی اقدار کے لئے گنجائش نکالی ہے۔ کیا یہ نورسی، گولن یا اربکان کی ناکامی ہے۔ اور کیا ان تینوں کے بغیر یہ انقلاب آسکتا تھا۔
سید مودودی کی تحریک کو سمجھنے کے لئے بھی بہت سی باتوں کا جائزہ لینا پڑے گا۔ اب تو اخوان المسلمین ، مصر میں بھی اپنے نام سے انتخاب نہیں لڑ رہے۔ تحریک اسلامی کے کئی اتار چڑھاﺅ ہیںجن کو تاریخ بہ نظر غائردیکھ رہی ہے۔ پاکستان میں بھی اس تحریک کے ماتھے پر کامیابیوں کے کئی جھومر لٹکے ہوئے ہیں۔ مایوس ہونے اور مایوس پھیلانے کی ضرورت نہیں۔ یہ جو پدی پدی سے بونے امام وقت بنے بیٹھے ہیں، یہ سب نہ ہوتے، گر سید مودودی نہ ہوتے۔ میں نے عرض کیا اس وقت میرا مقصد اس کا تفصیلی جائزہ لینا نہیں، نہ اس بات پر پریشان ہوں کہ جماعت اسلامی نشستوں کی دور میں مار کھا جائے گی یا بقول کسی کے الیکشن سے پہلے ہی مات کھا گئی ہے۔70ءمیں جب لگتا تھا ہر طرف جماعت ہی جماعت ہے، اسے صرف چار نشستیںملی تھیں، وہ بھی گویا مشرق و مغرب دونوں طرف سے۔ کیا اس کی قوت کم ہوگئی تھی، کیا وہ ملکی سیاست میں بے معنی ہوگئی تھی۔ اس سے پہلے تو جماعت کے بغیر کسی سیاسی جدوجہد کا سوال ہی نہ تھا، اس کے بعد77تک جو جنگ لڑی گئی، کیا اس میں جماعت کو نظر انداز کر دیا گیا۔ عین ہنگاموں میں بھٹو نے کسی دروازے پر خود جا کر دستک دینے کی ضرورت محسوس کی تو وہ سید مودودی کا دروازہ تھا۔ آئی جے آئی بنی تو اس کا بنیادی نظریاتی محور جماعت اسلامی ہی تھی۔ یہ جسے مغرب والے سیاسی اسلام کہتے ہیں اور میں تحریک اسلامی کہہ رہا ہوں، وہ اس وقت بھی اس اتحاد کی روح رواں تھی۔93ءکا تجریہ وقت سے پہلے کئی جانے والا تجربہ تھاجو شاید اس سے پہلے کی ان پالیسیوں کا ردعمل تھاجنہوں نے اقتدار کے سر چشموں پر قابض ہو کر اسلامی انقلاب لانے کی خواہش کے طور پر جنم لیا تھا۔ اگرچہ اس میں بھی کئی عالمی حالات کا عمل دخل تھا۔ لوگ کہتے تھے 93ءکے بعد جماعت اٹھ نہ پائے گی۔ ایسا تو نہ ہوا۔ میں نے اس وقت قاضی حسین احمد سے عرض کیا تھا۔ آپ ان کو پرایا نہ سمجھیں، انہوں نے ووٹ مسلم لیگ کو دیئے ہیں، مگر جماعت کی شکست پر روتے ہیں۔یہ جماعت کی سیاسی حکمت عملی پر احتجاج تھا، مگر نظریے سے دوری نہ تھی۔ یہ ایک بہت نازک اور حساس مرحلہ تھا۔ بعد میں ایم ایم اے کی کامیابی نے سارے داغ دھو ڈالے۔ اب میں ہر مرحلے کی داستان لکھنے سے رہا۔ نہ مجھے کسی سیاسی حکمت عملی کا جواز لکھنا ہے نہ اس کی نفی کرنا ہے۔ تجزیہ بھی مقصود نہیں۔ بس اتنی بات یاد رہے کہ اس ملک کی فضاﺅں میں شاہینوں کی جو پروازیں نظر آتی ہیں، وہ اقبال کی فکر کے بعد سید مودودی کے فلسفہ حیات کے طفیل ہے۔ ہو سکتا ہے، آپ اسے مبالغہ سمجھیں، مگر جس قدر و روغ گوں اور کوتاہ نظری سے آپ کام لے رہے ہیں، اس میں گرززنی بھی ضروری ہے۔
میں اس دن پریشان ہوں گا جب اس ملک پر کمیونسٹ اور فاشسٹ پارٹیوں کی فکر کو فروغ ملے گا۔70ءمیں یہ مرحلہ آیا تھا، پھر اسے کس کی فکر اور جدوجہد نے شکست دی۔ جب تک اس ملک کی جماعتیں اسلام اور نظریہ ¿ پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں اس بات کی پروا نہیں کہ ان انتخابات میں جماعت اسلامی کتنے ووٹ لیتی ہے۔ اس کی فکر کامیاب ہے تو جماعت بھی کامیاب ہے۔
میرا مخمصہ تو بس اتنا ہے، کیا اربکان سے ٹوٹنے والا آئی جے آئی سے الگ ہونے والا ”اردگان“ ہی چلے گا، یا کوئی نیا لیڈر اس کی جگہ لینے آگیا ہے۔ جگہ یہی ایک ہے، منصب یہی ایک ہے جس پر کسی نے فائز ہونا ہے۔ کسی دوسرے مقام کی اس ملک میں گنجائش ہی نہیں۔ پیپلزپارٹی اس دوسرے مقام کی جستجو میں تھی۔ وہ تو خاصی پٹ چکی ہے، ہو سکتا ہے وہ اچھی خاصی نشستیں بھی لے لے، مگر وہ پٹ چکی ہے۔ میرا مطلب ہے، وہ فکرہار گئی ہے، سمجھے کہ نہیں سمجھے۔
یہی جماعت اسلامی کی فتح ہے۔ اس پر جم کر بات انتخاب کے بعد کسی وقت کریں گے۔


بشکریہ روزنامہ نئی بات ۳۰ اپریل ۲۰۱۳

No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...