Tuesday, April 23, 2013

پیپلز پارٹی کے انجام کا آغاز ۔۔۔۔۔۔ عبداللہ طارق سہیل کے قلم سے


شاہ محمود قریشی نے بڑے افسوس کے ساتھ یہ بیان جاری کیا کہ تاریخ میں پہلی بار بھٹو کی برسی پر جلسہ نہیں ہوا۔ کراچی کے ایک اخبار نے ایک تصویر بڑے سائز میں شائع کی کہ بھٹو خاندان کی طرف سے بھٹو کی تصاویر کی نمائش کی گئی جسے دیکھنے کوئی نہیں آیا حتیٰ کہ پیپلزپارٹی کے رہنما بھی نہیں آئے۔ اس شاندار نمائش کا انتظام نمائش سے بھی زیادہ شاندار عمارت میں کیا گیا تھالیکن دونوں شانداریاں نظر خزاں ہوگئیں۔ خزاں یعنی راج نیتی میں اکیلے پن کی رت ۔

اسے ایک علامتی وقوعہ سمجھ لیجئے۔1970ء کی دہائی میں (بلکہ اس سے بھی دو تین سال پہلے) بھٹو نے جو طرز سیاست شروع کیا، لگتا ہے وہ انجام تک پہنچ چکا۔ یہ سیاست کیا تھی؟ مخالفوں کا تمسخر، تقریروں میں گالیوں کا فری لانس استعمال، تشدّد، عدم برداشت خزانے کا اپنے لئے استعمال۔ ملک توڑنے کے بعد بھٹو نے حکومت سنبھالی تو ایمر جنسی نافذ کر دی اور پورے پانچ سال شہریوں کے انسانی حقوق معطّل رکھے (اسے بعض دانشور جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔۔۔غلطی ہائے مضامین مت پوچھ والی بات ہے) آدھی اپوزیشن جیل میں، باقی گھروں میں نظر بند۔ جلسوں کی اجازت اوّل تو دیتے نہیں تھے اور کبھی دیتے تھے تویا تو سانپ چھوڑ دیتے تھے یا پیپلز گارڈز کے گولی باز۔ اخبارات پر سنسر ایسا لگا کہ بھٹو کے جانے کے بعد ہٹا، بے شمار اخبار ایڈیٹروں سمیت بند کر دیئے گئے۔ موصوف نے مخالفوں کی صحت ٹھیک کرنے کے لئے دلائی کیمپ بھی بنا رکھا تھا۔ اس سیاست کا ایک ہال مارک معیشت کی تباہی تھا۔ یہ سارے ہال مارک بھٹو کے وارثوں خوب نبھائے اور پھر زرداری صاحب آگئے تو نبھانے کی ساری حدیں ختم ہوگئیں اور حد کے حد سے گزر جانے کا یہ نتیجہ ہے کہ نہ تو جلسہ ہو سکا نہ نمائش دیکھنے کے لئے کوئی آیا۔ تباہی اور بربادی کادائرہ اب تحلیل ہو رہا ہے۔
زرداری صاحب جب کئی مصنوعی اور سطحی بحرانوں سے بچ نکلے (ان بحرانوں کی کہانی بھی مزیدار ہے اور ان سے بچ نکلنے کا ماجرا بھی پر لطف ہے) تو حلقہ خوشامدیاں نے ڈونگروں کا سونامی بہا دیا،ہمارا صاحب سیاست میں سب پر بھاری ہے۔ہمارے صاحب کے داؤ پیچ کا کوئی توڑ نہیں۔
سب پر بھاری کی سیاست کچھ بھی نہیں تھی۔ کوئی داؤ تھا نہ پیچ، بس ایک ہنر تھا سب کو خریدنے کا اور ایک مقناطیس تھا کہ روپیہ کسی جگہ ہو، کھنچا چلا آتا تھا۔اصل میں کچھ اور سہارے تھے جو اب موثر نہیں رہے۔ اب سیاست کی دھوپ ہے اور زرداری صاحب کی پارٹی کو کوئی شجر سایہ دار تک نہیں مل رہا۔ شجر کیا کوئی جھاڑی بھی اس لق دوق صحرا میں نہیں ۔ حیران کھڑی پارٹی کو بھٹو کا جلسہ کرنے کی طاقت بھی نہیں رہی۔
مشرف نے کارگل کی جنگ چھیڑ دی، یہ سوچے بغیر (جنگی اصول کے تحت ) کہ پسپائی کرنا پڑی تو راستہ کیا ہوگا۔ پھر سب نے دیکھا کہ نواز شریف کی منت سماجت کرنے جا پہنچے کہ اب راستہ نہیں مل رہا۔ امریکہ سے مدد مانگو۔ بالکل ویسے ہی سب سے بھاری نے تباہ کاری کا بلڈوزر تو ملک پر چھوڑ دیا(بلکہ بلڈوزروں کا لشکر چھوڑ دیا) لیکن یہ نہ سوچا کہ جب پانچ سال پورے ہوں گے تو پارٹی کا کیا بنے گا۔
شاید یہ سوچا ہو کہ تب پارٹی جانے !
بس اب یہی ہو رہا ہے۔ اور پارٹی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا جانے اور کیسے جانے!

(بشکریہ روزنامہ نئی بات، آٹھ اپریل دو ہزار تیرہ )

1 comment :

  1. جناب عبدللہ ، پی پی پی کا انجام دیکھنے کے متلاشی کوئی امریکن ہسپتالوں میں جا مرا ، کسی کی اولاد بھٹو کے جانشیوں کے در پر ہاتھ بندھے جا کھڑی ہوئی تھی ، کوئی فضا میں جل کر را کھ ہوا ، کسی کی میت کو مکھیوں نے نوچا کھسوٹا کوئی اپنے چک میں نظر بند ہے ، پی پی پی وہیں کی وہیں ہے اور رہے گی

    ReplyDelete

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...