Sunday, September 29, 2013

اسامہ بن لادن، سکھ پروفیسر، امریکی نوجوان اور ہمارا میڈیا


مسلمان بڑے انتہا پسند ہوتے ہیں۔ تہذیب سے عاری ہوتے ہیں۔ کسی ایک کا بدلہ دوسرے سےلیتے ہیں۔ تحقیق نہیں کرتے… غیر ذمہ دار ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن امریکی میڈیا اورحکمرانوں نے امریکیوں کو کیا بنادیا ہے اس کا اندازہ اب پڑھے لکھے امریکیوں کے رویہ سے بھی ہوتا ہے۔ ویسے یہ پتا نہیں کہ امریکا میں پڑھے لکھے کا معیار کیا ہے۔ پاکستان  میں منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولنے والے کو پڑھا لکھا سمجھ لیا جاتا ہے لیکن امریکا میں تو بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے اور خوب منہ ٹیڑھا کر کے بولتا ہے بلکہ انگریزی ہی کو ٹیڑھا کر ڈالتاہے۔ پھر بھی روشن خیال کہلاتا ہے۔ اتنی لمبی بات یوں کہی کہ چند روز قبل امریکی میڈیا اورحکومت کے پروپیگنڈے کے زیر اثر چند مشتعل نوجوانوں نے کولمبیا یونیورسٹی کے ایک اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر پربھ جوت سنگھ کو سرعام اسامہ بن لادن کہہ کر مار مار کر زخمی کردیا… بات صرف یہ تھی کہ سکھ پروفیسر نے پگڑی باندھی ہوئی تھی اور لمبی سی ڈاڑھی تھی بس یہی اس کا گناہ تھا۔

نعرہ بازی جاری ہے - جناب احمد شاہین کے قلم سے


چند روز قبل نعرے بازی سے متعلق ذاتی مشاہدات پر مبنی ایک ہلکی پھلکی تحریر لکھی تو جیسے "چپکے سے ویرانے میں بہار آجائے" یار دوستوں نے ایس ایم ایس، ای میلز اور کمنٹس کے ذریعے اپنی رائے کا خوب "ڈٹ" کر اظہار کیا۔ یہاں تک کہ چند جوشیلے جوا نوں نے تو اپنا قیمتی بیلنس اس "پھسڈی" سی تحریر پر قربان کر کے حاتم طائی کو بھی "للکار کے کہہ دو۔ ۔ ۔ زندہ ہے!" والا نعرہ سنا دیا۔ بیشتر احباب کا کہنا ہے کہ کالم میں تحریر کئے گئے نعرے بلاشبہ ان کی یادوں میں محفوظ ہیں لیکن کیا ہمارے نوجوان اتنے ہی" کند ذہن " ہو چکے ہیں کہ پچھلے 15،20 سالوں میں کوئی نیا نعرہ تخلیق نہ کرسکے۔  یا پھر آپ (یعنی کہ  راقم) نئے "ٹرینڈز" سے ناواقف ہیں۔ اور چیلنج کیا گیا کہ صاحب اگر صحافت یا کالم نگاری کا شوق ہے تو کچھ اچھوتا پیش کرو۔

Monday, September 23, 2013

یہودیوں کا قبضہ۔۔۔ایک اور نشانی پوری ہوگئی - عبداللہ طارق سہیل کے قلم سے


مصری حکمران جنرل سیسی کے یہودی ہونے کے دستاویزی ثبوت میڈیا پر آنے کے بعد عرب عوام میں ہلچل مچ گئی ہے لیکن حکمرانوں کی سطح پر بدستور سناٹا ہے۔ عرب حکمرانوں کا مسئلہ یہودی کبھی رہے ہی نہیں۔ عرب کنگڈم کی جماعت ’’النّور‘‘ کا ردّعمل بھی وہی ہے جو عرب حکمرانوں کا ہے۔ یعنی سب قبول ہے، بس اخوان قبول نہیں۔ جماعت النّور کا ویسے بھی کبھی یہودیوں سے ’’نظریاتی اختلاف‘‘ نہیں رہا۔

Tuesday, September 17, 2013

آج کے مسلمان نوجوان کے لیے آئیڈیلز - جناب سید ثمر احمد کے قلم سے


ہمیشہ اصلاحی اور بدی کی قوتوں کے ہر اول دستے کا کردار نوجوانوں نے نبھایا ہے۔کیونکہ ان میں نام نہاد مصلحت نہیں ہوتی۔ یہ جس چیز کو صحیح سمجھتے ہیں اسے کرنا چاہتے ہیں اور جس چیز کو غلط سمجھتے ہیں اسے مٹانا چاہتے ہیں۔ جو گلیوں کے نکڑوں پہ کھڑے ہو کر آتے جاتوں پر آوازے کستے ہیں، منشیات کا شکار ہیں، قبضے کرتے اور زندگیاں اجیرن کرتے ہیں وہ بھی نوجوان ہیں۔ اور جو صلاح و فلاح کی مجالس سجاتے ،مساجد کی رونق بڑھاتے ، رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں وہ بھی نوجوان ہیں۔ گویا ایک معاشرہ اتناہی ترقی یافتہ ہوگاجتنا اس کے نوجوان بامقصد ہوں گے۔ 

Monday, September 16, 2013

اک تاریخ نہاں ہے نعروں میں ۔ جناب احمد شاہین کے قلم سے


اگر آپ نے زمانہ طالبعلمی کسی سرکاری یونیورسٹی یا کالج میں گزارا ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کے کان نعروں سے محروم رہے ہوں۔ خوشی کا موقع ہو یا غمی و افسوس کا، انتظامیہ سے چپقلش پیدا ہوجائے یا ادارے کے دو برتن آپس میں ہی ٹکرا جائیں، سب سے پہلے بلند ہونے والی صدا یقینا ایک نعرہ ہوتی ہے اور اس کے بعد "دے مار، ساڑھے چار" خیر یہ مضمون کسی چٹ پٹے پھڈے کا احوال سنانے کیلئے تو تحریر نہیں کیا جارہا  بلکہ کوشش ہے کہ دور طالب علمی  کی یادوں کو کرید کر ذرا "نعرہ بازی" کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔

Monday, September 2, 2013

سیکولر ذہن کی سطح - جناب شاہنواز فاروقی کے قلم سے


پاکستان میں سیکولر اور لبرل طبقات نے تمام مذہبی لوگوں کو ”طالبان“ بنادیا ہے، اور طالبان بھی اپنی پسند کا۔ سیکولر اور لبرل عناصر کے طالبان انتہا پسند ہیں۔ دہشت گرد ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ہر وقت اسلحہ ہوتا ہے۔ وہ دستی بموں اور خودکش حملوں میں استعمال ہونے والی جیکٹس سے لیس ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں سے ہر وقت وحشت اور درندگی ٹپکتی رہتی ہے۔ وہ دائمی طور پر خون کے پیاسے ہیں۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی کو قتل کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...