Monday, September 23, 2013

یہودیوں کا قبضہ۔۔۔ایک اور نشانی پوری ہوگئی - عبداللہ طارق سہیل کے قلم سے


مصری حکمران جنرل سیسی کے یہودی ہونے کے دستاویزی ثبوت میڈیا پر آنے کے بعد عرب عوام میں ہلچل مچ گئی ہے لیکن حکمرانوں کی سطح پر بدستور سناٹا ہے۔ عرب حکمرانوں کا مسئلہ یہودی کبھی رہے ہی نہیں۔ عرب کنگڈم کی جماعت ’’النّور‘‘ کا ردّعمل بھی وہی ہے جو عرب حکمرانوں کا ہے۔ یعنی سب قبول ہے، بس اخوان قبول نہیں۔ جماعت النّور کا ویسے بھی کبھی یہودیوں سے ’’نظریاتی اختلاف‘‘ نہیں رہا۔

جنرل سیسی کی والدہ مراکش کی یہودی خاتون تھی جس کا نام ملیکہ تیتانی تھا۔1958ء میں اُس نے مصر کی شہریت لی۔ اس کا بھائی عوری صباغ اسرائیل کا وزیر تعلیم رہا ہے۔ صدر عدلی منصور کے بارے میں تو یہ پہلے ہی آچکا ہے کہ وہ عیسائیوں کے سبطی نام کے ایسے فرقے کا رکن ہے جسے عیسائی تعلیم نہیں کرتے۔ یہ فرقہ خود کو عیسائی بتاتا ہے لیکن عیسائی کہتے ہیں کہ یہ یہودیوں کی شاخ ہے۔ یہ بات زمانۂ آخر ہی کی نشانی لگتی ہے کہ عربستان کے سب سے بڑے ملک پر یہودیوں کی حکومت کسی یلغار ،کسی جنگ کے بغیر ہی بن گئی ہے۔ سیسی اور عدلی تو چلئے یہودی ہوئے لیکن باقی عرب ممالک کے سربراہ تو مبینہ طور پر مسلمان ہیں، وہ کیوں سوائے قطر اور تیونس کے سارے کے سارے یہودیوں پر جان چھڑکنے لگے۔ اس حد تک کہ بڑی عرب کنگڈم کی اخوان سے پہلی ناراضی اس وقت شروع ہوئی تھی جب مرسی نے فلسطینیوں کی ناکہ بندی ختم کی۔ کنگڈم کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو گندم کا ایک دانہ بھی نہیں ملنا چاہئے۔ گویا دو ایک ملکوں کو چھوڑ کر تمام عالم عرب اسرائیل نے گولی چلائے بغیر فتح کر لیا ہے تو اسے قیامت کی نشانی کیوں نہ سمجھا جائے۔ نشانی یہ ہے کہ قیامت سے پہلے عراق و اردن سے لے کر حجاز و مصر تک یہودیوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ صورتحال دیکھ لیں، نشانی بتا دے گی کہ وہ پوری ہوگئی۔

جنرل سیسی نے چار سے پانچ ہزار اخوان قتل، پچیس ہزار زخمی کر دیئے جن میں بہت سے معذور ہو چکے ہیں، دس ہزار گرفتار کر لئے اور کئی ہزار لاپتہ ہیں۔ مان لیجئے کہ یہ سب ’’قدرتی‘‘ ہے۔ کوئی بھی آمر اپنے مخالفوں کے ساتھ یہی کرتا لیکن سیسی نے کچھ اور اقدامات بھی کئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ معاملہ کچھ اور بھی ہے۔ اور یہ معاملہ یوں کھلا کہ والدہ کے نام کا پتہ چل گیا اور موصوف کے ماموں کا بھی جو اسرائیل کا وزیر رہا اور یہ بھی علم ہوگیا کہ کیوں اسرائیل نے کہا تھا کہ سیسی یہودی قوم کا ہیرو ہے۔ یہ اقدامات ملاحظہ ہوں:

اس نے 45 ہزار علمائے کرام کے مساجد میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ مصر کی تیرہ ہزار سے زیادہ مساجد میں جمعے کی نماز روک دی ہے (اسرائیل ایک مسجد میں نماز روکتا ہے تو مسلمان دنیا بھر میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں)۔ اب اس نے نعوذ باللہ قرآن پاک کی پیروڈی کرتے ہوئے ایک سورۃ ’’السیسی‘‘ کے نام سے بنائی ہے جس کے الفاظ یوں ہیں۔سیسی اور تمہیں کیا پتہ کیا ہے سیسی، ہلاک ہوگئے اخوان جوشیطان ہیں۔ وغیرہ اور اس ’’سورۃ‘‘ کے آخر میں سیسی کو فرعونوں کی اولاد کہہ کر اسے انسانیت پر خدا کا انعام بتایا گیا ہے۔ قرآن پاک کی ایسی توہین کی یہودی سے بالکل توقع ہے لیکن اس پر خاموشی نئی بات ہے۔
یہودی فلسطینیوں سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اس نفرت کی تاریخ اسرائیل کے قیام اور اس کی وجہ سے ہونے والی لڑائی تک محدود نہیں۔ یہ نفرت بڑی پرانی ہے اور سیسی نے اس نفرت کو کبھی چھپایا نہیں۔

اس نے برسراقتدار آکر فلسطینیوں کی پہلے سے بھی سخت ناکہ بندی کر دی۔ غزہ کو دنیا سے ملانے والا واحد راستہ وہ سرنگیں ہیں جو سینائی کے شہر رفاہ کو غزہ سے ملاتی ہیں (غزہ کی پٹی کے ساتھ سمندر بھی لگتا ہے لیکن یہ چھوٹا سا ساحل اسرائیل کے قبضہ میں ہے) سیسی نے یہ سرنگیں تباہ کر دیں اور فلسطینیوں کی مصر آمدورفت روک دی۔
نفرت کا جنون دیکھئے۔ پانچ فلسطینی ماہی گیر مچھلیاں پکڑتے ہوئے مصر کی حدود میں داخل ہوگئے۔ انہیں پکڑ کر مقدمے چلائے گئے اور کئی سال قید سنا دی گئی۔ ماہی گیر سمندری حدود کی خلاف ورزی پر دنیا بھر میں پکڑے جاتے ہیں اور پھر یہ تصدیق ہونے پر کہ وہ ماہی گیر ہی ہیں، بھیس بدلے دشمن کے ایجنٹ یا سمگلر نہیں ہیں، رہا کر دیئے جاتے ہیں۔ دنیا کے کسی ملک میں انہیں سزا نہیں دی جاتی۔ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ماہی گیر اکثر پکڑا کرتے ہیں اور پھر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ پہلی مثال ہے کہ غلطی سے سمندری حدود کی خلاف ورزی پر کسی ملک نے مقدمہ چلایا اور سزا سنا دی ۔

سیسی نے پورے ملک میں پابندی لگا دی ہے کہ کسی دیوار یا اخبار رسالے یا اشتہار پر مسجد اقصیٰ کی فوٹو نہیں چھپے گی۔ صرف تصویر ہی نہیں، کوئی شخص کسی بھی جگہ بیت المقدس، مسجد اقصیٰ یا القدس کا لفظ بھی نہیں لکھ سکتا۔ جو لکھتا ہوا پایا گیا، اس پر دہشت گردی کا مقدمہ چلے گا۔ مسجد اقصیٰ سے اتنی نفرت دنیا میں صرف دو ہی مذہب کرتے ہیں۔ ایک یہودی اور دوسرے ایونجلیکل چرچ۔ یہ عیسائیوں کا وہ فرقہ ہے جو یہودیوں کا اس بارے میں ہم عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ کی آمد ثانی تب تک ممکن نہیں جب تک مسجد اقصیٰ گرا کر ہیکل سلیمانی تعمیر نہیں کر دیا جاتا۔ باقی مسیحیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہیکل سلیمانی بنتا ہے یا نہیں۔ بیت المقدس سے سیسی اور عدلی کی نفرت کی وجہ سمجھ میں آگئی۔ یہ سوچنا باقی ہے کہ جامعۃ الازہر کا شیخ اور جماعت النور سلفی کا سربراہ بھی ان لوگوں کے ہم عقیدہ ہے اور اسی لئے خاموش ہے یا چپ رہنے کی وجہ کچھ اور ہے۔مثلاً صحت کا کوئی مسئلہ، کوئی اچانک لاحق ہو جانے والا عارضہ! 

پورے عربستان میں صرف تیونس اور قطر ہیں جو مسجد اقصیٰ کی حرمت کے قائل ہیں، باقی سارے عرب حکمران، شیوخ، رؤسا، بیوروکریٹ، جرنیل، صنعتکار، میڈیا، علمائے کرام ہیکل سلیمانی پر ایمان لا چکے۔ اقرار باللّساننہ سہی، اقرار بالقلب ہی سہی مگر ان کے ’’مومنینِ ہیکل ‘‘ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ جو بات یہ ایمان لانے والے نہیں سمجھتے ، وہ یہ ہے کہ ہیکل اب کبھی نہیں بن سکتا۔ دجّال جب آچکے گا، تب بھی نہیں بن سکے گا۔ ایک مزے کی بات یہ معلوم ہوئی کہ سیسی نے اپنی یہودیانہ مکاری سے کام لیتے ہوئے اخوان کی قیادت کو باور کرایا کہ وہ تو شروع ہی سے اخوان کے بانی امام حسن البناؒ کا معتقد اور مرید ہے۔ اخوان کی قیادت اس مکاری میں آگئی اور اس پر بھروسہ کر لیا ۔ ایسا ہی ماجرا پاکستان میں بھی ہو چکا ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت سے مشرف نے بھی یہی کہا تھا کہ وہ مسلمان ہے اور جہاد کشمیر کا حامی ہے اور جماعت اس کے جال میں پھنس گئی۔ مشرف کیسا مسلمان تھا، اس کا پتہ تب چلا جب دنیا بھر کے یہودیوں نے مشرف کی صحت اور سلامتی کے لئے اپنے سناگاگوں(معبدوں) میں دعائیں کیں اور اس کے لئے اپنے مذہبی شبینے کئے اور دیوار گریہ پر گریہ کیا۔ مشرف ایسا مسلمان تھا جس نے جہاد کو دہشت گردی قرار دلوایا اور وہ ایسا مسلمان تھا جس نے اپنے راستے میں آنے والی ہر مسجد مسمار کر دی۔ وہ ایسامسلمان تھا جو حدیث رسول کا کھلم کھلا اور تکرار کے ساتھ مذاق اڑاتا تھا اور اس کے قاف لیگی قافیے زبان حال سے اسے داد دیتے اور رقصِ سرمستی کرتے۔ اس نے رنگیلا شاہی کا نام تصّوف رکھا اور تجربہ کار، ادھیڑ عمر بلکہ عمر رسیدہ رال ٹپکاتے شوقین صوفیوں کی جماعت بنائی۔ مشرف ایسا مسلمان تھا جس کے دور میں ’’ریاست‘‘ ایک قحبہ خانے کی محافظ بنی اور قحبہ خانے کے لئے پریشانی پیدا کرنے والی لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو صفحہ ہستی سے اسی ریاست نے مٹایا۔ اس سے پہلے کہ پورا پاکستان’’رنگیلستان‘‘بنا دیا جاتا، خدائی مشیت حرکت میں آئی اور جسٹس افتخار محمد چوہدری میدان میں آگئے۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ افتخار چوہدری اٹھ کھڑا ہوا اور رنگیلے اور شوقین صوفیوں کا طائفہ شیخ الطائفہ سمیت بھاگ کھڑا ہوا۔

No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...