Tuesday, September 17, 2013

آج کے مسلمان نوجوان کے لیے آئیڈیلز - جناب سید ثمر احمد کے قلم سے


ہمیشہ اصلاحی اور بدی کی قوتوں کے ہر اول دستے کا کردار نوجوانوں نے نبھایا ہے۔کیونکہ ان میں نام نہاد مصلحت نہیں ہوتی۔ یہ جس چیز کو صحیح سمجھتے ہیں اسے کرنا چاہتے ہیں اور جس چیز کو غلط سمجھتے ہیں اسے مٹانا چاہتے ہیں۔ جو گلیوں کے نکڑوں پہ کھڑے ہو کر آتے جاتوں پر آوازے کستے ہیں، منشیات کا شکار ہیں، قبضے کرتے اور زندگیاں اجیرن کرتے ہیں وہ بھی نوجوان ہیں۔ اور جو صلاح و فلاح کی مجالس سجاتے ،مساجد کی رونق بڑھاتے ، رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں وہ بھی نوجوان ہیں۔ گویا ایک معاشرہ اتناہی ترقی یافتہ ہوگاجتنا اس کے نوجوان بامقصد ہوں گے۔ 
اسی بنا پہ خیر و شر کی طاقتوں کا اصل ہدف نوجوان رہے ہیں۔NIKEکے نام سے تو ہم واقف ہی ہیں۔ یہ کبھی ایک ناکام برانڈ ہوتا تھا۔ پھر اس کے منصوبہ ساز سرجوڑ کر بیٹھے ۔ انہوں نے اپنی ٹارگٹ آڈینس نوجوانوں کو قرار دیا۔ مشہور باسکٹ بال پلئیر مائیکل جارڈن کو اپنا برانڈ ایمبیسیڈر قرار دیا۔ اور NIKEدنیا کا لیڈنگ برانڈ بن گیا۔ پاکستان میں صرف ایک مہم کے ذریعے صارفین کا رجحان بیوٹی سوپ
سے طبی سوپ (Medicated Soaps) کی طرف منتقل کر دیا گیا۔ اس مہم کا نام ’’کمانڈر سیف گارڈ ‘‘ تھا۔ LG کبھی Gold Star کے نام سے ایک ناکام برانڈ تھا۔ نوجوانو ں کو ہدف بنا کر اختیار کی گئی پالیسیز نے اس کمپنی کو صفِ اول میں لا کھڑا کیا۔ تجارتی حکمتِ عملی بنانے والے جانتے ہیں کہ نئی نسل
کو ہاتھ میں لینے کا مطلب ہے مستقبل کو ہاتھ میں لے لینا۔ ان کو تبدیل کرنا اور قائل کرنا بڑوں کو تبدیل کرنے سے بدرجہا آسان ہوتا ہے۔
آج اسلام دشمن طاقتوں نے بھی انہی نوجوانوں کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ ایک نہایت موثر طریقِ کار اختیار کیا گیا کہ ان کے آئیڈیلز تبدیل کر دو۔ ان کی مثالیں بدل دو۔ ان سے جنگوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ کیونکہ انسان ویسا ہی بننے کی کوشش کرتا ہے جیسے اس کے آئیڈیلز ہوتے ہیں۔ اگر آئیڈیلز الٹی عینک لگائے گا۔ پہننے اوڑھنے ،گفتگو کرنے کا انداز تبدیل کرے گا تو یہ بھی ویسا ہی کرنے کی کوشش کرے گا۔ 
دوسری طرف اصلاحی طاقتوں کا ہدفِ اول بھی نوجوان رہے ہیں۔ حضرت موسیٌ کا شروع میں ساتھ دینے والے کوئی بوڑھے لوگ نہیں بلکہ نوخیز نوجوان تھے ۔ بڑوں نے پیار سے، دھمکا کے، مستقبل خراب ہونے کی جھلک دکھا کے صحیح راستے سے ہٹانا چاہا۔ فرعون کے جبر و قہر سے ڈرایا ، بے شرم مصلحت اختیار کرنے کا مشورہ دیا لیکن یہ نو جوان قائم رہے۔ اصحابِ کہف کون تھے؟ جنہوں نے جابر سلطان کے خلاف کلمہءِ حق کہا۔ حضرت عیسیٌ کے حواری آخر نوجوان نہیں تھے تو کون تھے؟ خود حضورِاعلیﷺ کے ابتدائی ساتھیوں میں صرف ایک شخص کا تذکرہ ملتا ہے جو آپ سے دو سال بڑے تھے یعنی عبیدہ بن حارث المطلبیؓ۔ صرف ایک شخص کا ذکر ملتا ہے جو عمر میں آپ کے برابر تھے یعنی عمار بن یاسرؓ ۔ صرف ایک شخصیت نظر آتی ہے جو دو سال چھوٹے تھے یعنی ابوبکر صدیقؓ ۔ صرف دو نام ملتے ہیں جن کی عمریں تیس پینتیس سال کے درمیان تھیں یعنی حضراتِ عمرؓ و عثمانؓ۔ بقیہ تمام لوگ باشعور پرجوش نوجوان تھے جیسے حضراتِ علیؓ، جعفر بن ابی طالبؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، زید بن ارقمؓ، مصعب بن عمیرؓوغیرہ۔ ہم آج کچھ مثالی شخصیات کا تذکرہ کرتے ہیں تاکہ نوجوانوں کے سامنے ان کے اصل آئیڈیلز آ سکیں۔ اوروہ صحیح سمت اختیا ر کرنے کے قابل ہوجائیں۔

مصعب بن عمیرؓ:
جیسے آج خوشبویات کا مرکز پیرس ہے اس دور میں یہ حیثیت چائینہ کو حاصل تھی۔ پرفیوم وہاں سے چلتے اور مکے میں مصعبؓ کے پاس پہنچتے ۔ یہ بیالیس طرح کی خوشبو استعمال کیا کرتے تھے۔ خوشبویات استعمال کرنے والے باذوق حضرات جانتے ہیں کہ ہر وقت اور موسم کی خوشبو الگ ہوتی ہے۔ عام لوگ بھی ایک خوشبو کو پانچ چھ میں سے انتخاب کرتے ہیں۔ مصعبؓ نے بیالیس کو ایک سو بیالیس میں سے تو منتخب کیا ہوگا۔ فضائیں گواہی دیتی تھیں کہ مصعبؓ گزر کے گئے ہیں۔ ہر لڑکی کی خواہش ہوتی کہ مصعبؓ کا رشتہ اس کے لیے آئے۔ عام زندگی کی ایک محال بات پہ بھی ان کا عمل رہتا کہ ایک کپڑے پہ اگر کچھ لوگوں کی نظر پڑ جاتی تو شاید ہی دوبارہ اسے پہنتے ۔ ناز و نعم اور عیش کے ماحول میں تربیت ہوئی۔وہ ایک بہت بلند معیارِزندگی سے آشنا تھے۔ 
لیکن جب اسلام اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو فضا بدل گئی۔ زمین آسمان بدل گئے۔ اپنے اجنبی بن گئے۔ چچا نے پالا تھا۔ اس نے پیا ر اور غصے دونوں سے سمجھایا۔ آخرکار کہنے لگا کہ نہیں مانتے تو جائیداد سے عاق کرتا ہوں۔ اور یہ کپڑے بھی اتارو کہ تمہارے باپ کی حرام کمائی کا نتیجہ ہیں۔ مصعبؓ ننگے پن کی حالت میں ماں کے سامنے آئے تو سخت ماں کا دل بھی پسیج گیا۔ اس نے ٹاٹ پھینکا کہ اپنا برہنہ پن چھپا سکیں۔ یہ اسی حالت میں حضورِ اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اکثر آپ کی آنکھوں میں ان کو دیکھ کے آنسو آ جاتے کہ یہ نوجوان خدا کی راہ میں چلنے کے الزام میں ستایا گیا۔ بدر و احد میں مسلم فوج کےعلم بردار تھے۔ مدینے میں ابتدائی تبلیغ کے لیے آنحضرت ﷺ کی نظر کسی بزرگ صحابی پر نہیں بلکہ اس نوجوان پر پڑی۔ جو ایک سال بعد اَسی سے اوپر افراد ساتھ لایا۔ اور مدینے کی زرخیز مٹی کو اسلامی ریاست بننے پر آمادہ و تیار کیا۔احد میں شہید ہوئے تو جسم چھپانے کے لیے چادر بھی پوری نہ تھی۔ پاؤں چھپاتے تو سر ننگا ہو جاتا۔ اور سر چھپاتے تو پاؤں۔ آخر حضور ﷺنے فرمایا کہ پیروں پر اذخر گھاس ڈال دو۔ یوں یہ عظیم الشان نوجوان دفن ہوا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ نقصان اور خسارے کا سودا تو کم عقل بھی نہیں کرتے ۔ ہم ایک چیز چھوڑ کر دوسری کی طرف اسی وقت منتقل ہوتے ہیں ۔ جب ہمیں کچھ زیادہ فائدہ یا منافع دکھائی دیتا ہے۔ تو عقل تقاضا کرتی ہے کہ اس نوجوان نے اپنی پچھلی زندگی سے بہتر کوئی فائدے اور منافع والی زندگی دیکھی ہوگی تو ہی اس طرف لوٹ کے آیاہوگا۔

معاذبن جبلؓ:
ابو مسلم خولانی دمشق کی مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا۔۔۔ کہ ایک نوجوان کے گرد بہت سارے پختہ عمر لوگ حلقہ بنائے بیٹھے ہیں۔ وہ خاموشی سے ان کی گفتگو سنتا ہے۔ جب کسی معاملے پر ان کا اختلاف ہوتا ہے۔ یہ اس کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ اور وہ نوجوان جب بولتا ہے تو سب خاموش ہوجاتے ہیں۔ اس کے دانت چمکتے ہیں۔ اس کی پیشانی یقین کے نور سے دمکتی ہے۔ اس کی گفتگو متانت لیے ہوتی ہے۔ اور وہ باوقار انداز میں آہستہ آہستہ ہر معاملے کی تشریح اتنے دلکش انداز میں کرتا ہے۔ کہ مسئلے کا کوئی پہلو تشنہ نہیں رہتا۔
یہ نوجوان وہ ہیں جنہیں نبیءِ محترم نے خود اس امت میں حلال اور حرام کا سب سے بڑا جاننے والا کہا ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں ایمان لائے اور بتیس تینتیس سال میں انتقال ہو گیا۔ ان سے امت کو علم و حکمت کے خزانے ہاتھ آئے ۔ ہر دور میں جدید چیلنج کے حل کے لیے حضورﷺ کی دی گئی عملی ہدایت انہی کے ذریعے امت کو نصیب ہوئی۔ حضورﷺ نے انہیں یمن کا گورنر بنا کے بھیجا۔ پوچھا کہ معاذ فیصلے کیسے کرو گے؟۔ عرض کی ’’قرآن دیکھ کے‘‘۔ اگر وہاں نہ پاؤ تو؟۔ ’’پھر آپ کی سنت میں تلاش کروں گا‘‘۔ اگر وہاں بھی موجود نہ ہو تو؟ ۔ ’’تو پھر میں اجتہاد کروں گا‘‘۔ یعنی اصولوں کی روشنی میں حل تک پہنچنے کی پوری کوشش کروں گا۔ حضور ﷺ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ آپ نے ڈھیر ساری دعائیں دے کے معاذؓ کو رخصت کیا۔

حسن البنا:
اب بیچ کی تمام صدیوں کا تذکرہ کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں اور براہِ راست بیسویں صدی سے بات کرتے ہیں۔ دریائے نیل میں ایک کشتی کھڑی تھی۔ جس پر ایک برہنہ عورت کا مجسمہ نصب تھا۔ ایک معصوم بچہ کھیلتا ہوا اس طرف آ نکلا۔ مجسمہ کو دیکھ کے اس نے نظریں جھکا لیں۔ لیکن ایک پختہ عز م کر کے پولیس سٹیشن کی طرف بھاگا۔ چوکی انچارج کو اس نے اس ہمت و جرات سے داستان سنائی اور معاشرے پراس بے حمیتی کے مہلک اثرات سے آگاہ کیا کہ پولیس کا مقامی سربراہ فوراً مطلوبہ جگہ کی طرف نکلا اور سخت تنبیہ کے بعد وہ مجسمہ وہاں سے اتروا دیا۔ 
یہ معصوم بچہ حسن البنا تھا۔ جس نے عرب دنیا میں مسلم بیداری کی سب سے بڑی تحریک اخوان المسلون برپا کی۔ سکول ہی کے زمانے میں سوسائٹی کے برے کردار کے حامل لوگوں کو اصلاح کی طرف راغب کرنے کی اور برائی سے بچنے کی اور دوسروں کو تکلیف سے بچانے کی ایک مکمل مہم اپنے کلاس کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بنائی اور چلائی۔ اس معصوم جماعت کو جونہی خبر ہوتی کہ کوئی کسی غلط حرکت کا مرتکب ہوا ہے۔ یہ خاموشی سے ایک خط اس فرد تک پہنچاتے جس میں اس کے غلط عمل پر سرزنش ہوتی۔ اور خالق کی اطاعت کی محبت بھری دعوت ہوتی۔ یہ تحریک مشہور ہو گئی۔ لوگ برائی کرتے ہوئے ہچکچاتے۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ یہ خطوط لکھنے اور پہنچانے کا کام کون کرتا ہے۔ معاشرے میں ملا جلا رد عمل ظاہر ہوا۔ گو کہ کچھ عرصے کے بعد ان بچوں کا سراغ لگا لیا گیا۔ یہ اخوان ہی تھے جنہوں نے عرب دنیا میں تحرک پیدا کیا۔اسرائیل کے حملوں کا بہادرانہ دفاع کیا۔ ڈکٹیٹرز کا سامنا کیا۔ ان کے قائدین کو پھانسی چڑھادیا گیا۔ خود امام البنا کو شہید کر دیا گیا۔ اٹھارہ سال تک ہزاروں کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ لیکن ان کا پر امن سفر آگے بڑھتا گیا۔ آخر کار آٹھ دہائیوں کی محنت کے بعد آج اخوان نے تیونس مصر اور فلسطین میں اقتدار حاصل کیا تو پوری قوم نے سجدہءِ شکر ادا کیا۔ تحریر سکوائر سجے ۔ وہ جنہیں زمین کے خدا ہونے کادعوی تھا پسِ دیوارِ زنداں ہوئے۔ گو آج کے فرعون پھر سے الاخوان کا حوصلہ آزمانا چاہتے ہیں مگر رات آخر کب تک صبح کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
کیٹ اسٹیونز:
یہ مائیکل جیکسن کی ٹکر کا گلوکار تھا۔ ستر کی دہائی میں اس کے البم لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئے۔ ایک دفعہ اپنی بینک سٹیٹمنٹ دیکھنے گیا تو فہرست میں دولت مند لوگوں میں اس کا نام دوسرے نمبر پہ تھا۔ اور شیخ آف برونائی کا پہلے نمبر پر۔ دل میں ایک ہوس جاگی کہ میرا نام پہلے نمبر پہ ہونا چاہیے۔ آتے ساتھ ہی اس نے حکم دیا کہ صبح و شام ، دن رات کنسرٹس کرو۔ امریکہ یورپ افریقہ میں بڑی بڑی محفلیں سجنے لگیں۔ اتنی مشینی جدوجہد کے بعد بیمار پڑ گیا۔ آخر کو انسان تھا۔ اس کا بھائی ڈریوڈ کہیں سے قرآنِ حکیم کا انگریزی ترجمہ بھی اٹھا لایا۔ کہنے لگا کہ تم پڑھتے تو رہتے ہو اسے بھی پڑھ لو ۔ سنا ہے یہ الہامی کتا ب ہے۔ 
ترقی یافتہ قوموں کی پسندیدہ ترین عادت مطالعہ ہوتی ہے۔ ہماری طرح وقت کی کمی کے بہانے ان مصروف لوگوں کے پاس نہیں ہوتے۔ اس نے سورہ ءِ الناس سے پڑھنا شروع کیا۔ اور جب التکاثر تک پہنچا تو اچھل کے بیٹھا۔ اپنے بھائی کو بلند آوازیں دیں۔ بھائی نے گھبرا کے دریافت کیا تو کیٹ نے کہا کہ یہ کتاب کس نے لکھی ہے۔ مجھے بتاؤ۔ اس نے تو میرے دل کی بات لکھی ہے۔ الھکم التکاثر(زیادہ سے زیادہ حاصل کر لینے کی خواہش نے تمہیں ہلاکت میں مبتلا کر دیا ہے)۔ حتی زرتم المقابر(یہ تو تمہیں قبر میں پہنچا کے ہی چھوڑے گی)۔ ارے میں ما ل و دولت کی اسی کثرت کو حاصل کرنے کے لیے ہی تو بیمار پڑ ا ہوں۔ پھر وہ پڑھتا چلا گیا۔ اس کا سینہ منور ہوتا چلا گیا۔ آنکھوں سے غفلت کے پردے ہٹتے چلے گئے اور وہ کیٹ اسٹیونز سے یوسف اسلام بن گیا۔ آج وہ پوری دنیا میں اچھائی کے مبلغ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے فینز ،دولت، شہرت کو ٹھکرا کے اگر کوئی آیا تو اس نے پہلے سے بڑا فائدہ دیکھا ہوگا تبھی تو آیا ہوگا۔ نقصان کا سودا کون کرتا ہے؟ 

فلپائن کی فلم انڈسٹری کا سہارا پیڈیلاز کا خاندان ہو۔ مس جنوبی افریقہ ہو۔ فرانسیسی گلوکارہ ہو۔ لندن کی جج ہو، وزیرِ اعظم کی بہن ہو یا ائیر فورس کا تربیتی سربراہ۔ خود پاکستا ن میں سعید احمد سے شروع ہونے والا سلسلہ ذوالقرنین ، انضمام، سعید انور، محمد یوسف، ثقلین مشتاق ، مشتاق احمد،شاہد آفریدی تک پہنچا ہو۔ یا جنید جمشید ، سارہ چودھری، سحرش خان کا قافلہ ہو۔ یوآن ریڈلے جیسی صحافی ہو یا امریکی ترقی یافتہ معاشرہ چھوڑ کے پاکستان میں ہمیشہ کے لیے بس جانے والی سنت نگر کی اعلی تعلیم یافتہ سابق یہودی مریم جمیلہ۔یہ سب کے سب مسلمان نوجوانوں کے آئیڈیل بننے کے لائق ہیں۔ 

یہ آج کے پرفتن دور میں جل اٹھنے والی شمعیں ہیں۔ جو نعرے لگا رہی ہیں کہ آؤ اس شمعِ رحمت کی طرف ۔ باقی ہر طرف اندھیرا جنگل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان سب لوگوں نے گھاٹے کا سودا کیا ہوگا۔ اگر نہیں تو ہم غور کیوں نہیں کرتے کہ تعیش بھری زندگی کو ٹھکرا دینے کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ کوئی تو ایسا فائدہ اور سکون ملا ہوگا کہ یہ ’’ستارے‘‘ پلٹ گئے۔ اور پھر دنیا نے ان کو اخلاقی کردار کا نمونہ بنتے دیکھا۔ کوئی تو ایسا مزا ہوگا جس نے پچھلے مزوں کو بھلا دیا ہو اور ایک نئے جہان سے آشنا کر دیا ہو۔ لہذا آج کے نوجوان کا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد پھیلے ہوئے روشنی کے پیامبروں کو کھوج نکالیں۔ تا کہ ہم انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی مزید پستیوں میں گرنے سے بچ جائیں۔

آج کثرت کے ساتھ وطنِ عزیز کے ناکام ریاست ہونے کا پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ اور مایوسی پھیلانے کی سنگین کوشش ہو رہی ہے۔ اگر مایوسی پھیل جائے تو لوگ دل ہار بیٹھتے ہیں۔ کسی کام کے نہیں رہتے۔ لہذا ہر جگہ سے بدی کی طاقتیں پاکستانی نوجوان کو مایوس کرنے کو کوشاں ہیں۔ یہ ہوم ورک ہے کہ ہم روشن پہلو اجاگر کریں۔ پاکستانی معاشرے کی مثبت باتیں پھیلائیں۔ غیر جانبداری ترک کر دیں ۔ برائی کو دبانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ورنہ اگر بیماری پوری گلی میں موجود ہو تو گھر میں ضرور ہی آئے گی۔ خواہ آپ اپنے گھر کو کتنا ہی صاف رکھیں۔امید پیدا کریں۔ روشنی کے مزید چراغ جلاتے جائیں۔ یہاں تک کہ نظامِ عدل کا وہ سورج طلوع ہو جائے جس کے سامنے ساری تاریکیاں کافور ہو جائیں۔ یہ ملک عقلی اور روحانی طور پر مستقبل کی روشن بشارتیں رکھتا ہے۔ معاشی وسائل ، افراد کی قوت اور ٹیلنٹ سے مالا مال ہے۔ دنیا میں بہت کم ایسے ممالک موجود ہیں۔ جن میں ترقی کرنے کی اتنی صلاحیت پائی جاتی ہے جتنی پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ اللہ کے اس انعام کی 
قدر کریں ورنہ جب نعمتیں چھنتی ہیں تو پھر پچھتاوے کی آگ ہی باقی رہتی ہے۔

آؤ مل کے اس جہاں میں کہکشاں ترتیب دیں
اک سے اک بڑھ کر ستارا خاک میں مو جود ہے


ختم شد


مصنف:
سید ثمر احمد
یوتھ کنسلٹنٹ ، ٹرینر، کمیونی کولوجسٹ
samarahmed_pk@yahoo.com
آپ فیس بک پہ یہاں ملیں گے۔

1 comment :

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...