Thursday, October 10, 2013

داستان بکرافروشوں کی - عمران زاہد کے قلم سے


پچھلی بڑی عید کا یہ  یادگار واقعہ ہمارے ماموں جان نے ہمیں سنایا۔ انہیں کی زبانی یہ واقعہ ہم آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

شیخ صاحب ہمارے ہمسائے ہیں ۔ اتنے زیادہ ذہین، موقعہ شناس اور کاروباری  ہیں کہ ان کی اس ذہانت کا خمیازہ اکثر ہمیں بھگتنا پڑتا ہے۔ ہماری بیگم اکثر ہمیں دق کرتی رہتی ہیں اور ہماری کاروباری  اور پیشہ وارانہ کامیابیوں کو ان کے مقابلے میں  ہیچ گردانتی ہیں۔  ہمارے سودا ، پھل اور دوسری چیزیں خریدنے کے ہنر کو بھی اکثر تنقید کا نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ شیخ صاحب گویا ان کے لیے ایک نمونہ ہیں جو گھر گرہستی کے معاملات سے لے کر مارکیٹ، بازار اور کاروباری دنیا کے معاملات تک کے ماہر ہیں ۔

پچھلی عید پہ شیخ صاحب بکرا خریدنے گھر سے نکلے۔ جیب میں خطیر رقم موجود تھی۔  شیخ صاحب بکرامنڈی پہنچے اور  بکرے دیکھنا شروع ہو گئے۔  کئی گھنٹے کی خواری، مغزماری اور مول تول کے بعد ایک بکرے پر ان کا دل ٹُھک گیا۔  ان کے بکرے سے واللہ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، سوائے اس کے کہ بعد میں ہماری بیگم دق کرتیں کہ ان کے بکرے سے بڑا بکرا خریدو۔۔ بکرے سے بڑا تو پھر بیل ہی ہو سکتا ہے۔ خیر۔۔ شیخ صاحب نے بکرے کے مالک سے ماہرانہ انداز میں بھاؤ تاؤ کرنا شروع کر دیا۔  بکرے والا چوبیس  ہزار سے شروع ہوا اور شیخ صاحب کے بحث مباحثہ کرنے پر بیس ہزار تک پہنچ گیا۔ شیخ صاحب  مسلسل اصرار کیے چلے جا رہے تھے کہ نہیں بھئی قیمت کچھ اور کم کرو۔۔۔ بہت زیادہ پیسے مانگ رہے ہو۔۔۔ ادھر بکرا مالک بیس ہزار سے ایک روپیہ نیچے آنے تو تیار نہیں تھا۔

شیخ صاحب کے خریدو فروخت کی کامیابیوں کے پیچھے جو ان کا اصل ہنر ہے وہ ہے لیچڑ ہو جانا۔۔۔ شیخ صاحب بلائے جان کی طرح دکاندار کو چمٹ جاتے ہیں اور اپنی مرضی کی رعایت حاصل کر کے ہی  اس کی جان چھوڑتے ہیں۔ ہماری طرح بہت سے دوسرے بھی اس طرح کے لیچڑپنے کو پسند نہیں کرتے اور تھوڑی بہت بحث و تمحیص کے  بعد چیز کو خرید لیتے ہیں۔ بکرا منڈی واپس چلتے ہیں۔۔!!

شیخ صاحب اور بکرا مالک کی بحث و تمحیص جب طول پکڑ گئی تو بکرا مالک نے بات ختم کرنے کے لیے ایک تجویز شیخ صاحب کے گوش گذار کی۔۔  اس نے شیخ صاحب کو دور کھڑاایک گدھا دکھایا۔۔ کہا کہ۔۔۔ میں وہ گدھا خریدنا  چاہتا ہوں۔۔ اس کا مالک وہ گدھا بیس ہزار میں بیچ رہا ہے۔۔ میں نے یہ بکرا بیچ کے ان پیسوں سے وہ گدھا ہی خریدنا ہے۔۔ آپ مجھے وہ گدھا لے دیں اور اس کو میرے حوالے کر کے یہ بکرا لے جائیں۔۔۔

شیخ صاحب کو یہ تجویز بھلی اور منافع بخش لگی۔ وہ بکرا مالک کو وہیں انتظار کا کہہ کر اس گدھا مالک کے طرف لپکے اور ان سے گدھے کی قیمت پوچھی۔۔۔ اس نے یقیناً  بیس ہزار یا اس سے کچھ زیادہ قیمت بتائی۔۔۔ شیخ صاحب نے  اس سے گدھے کا مول تول شروع کیا ۔۔ اور اس کو ایسا گھیرا کا وہ اٹھارہ ہزار میں گدھا شیخ صاحب کے حوالے کرنے پر راضی ہو گیا۔  شیخ صاحب نے  وقت ضائع کیے بغیر ڈیل فائنل کی اور جیب سے اٹھارہ ہزار نکال کر گدھا اس سے خرید ا اور اس کی رسی تھا م کے  فخریہ  انداز میں واپس اس بکرا فروش کی طرف چل دیے۔۔

واپس پہنچے تو نہ وہاں بکرا موجود پایا اور نہ ہی بکرا فروش۔

گھبرا کر واپس گدھے والے کی طرف لپکے تو وہ بھی گدھے کے سینگوں کے طرح رفوچکر ہو چکا تھا۔

شیخ صاحب نے وہاں گدھا بیچنا چاہا تو پتہ چلا کہ گدھے کی منڈی میں قیمت چار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ 

ناچار شیخ صاحب نے گدھے کی رسی تھامی اور گھر پلٹ آئے۔

اس دن کے بعد سے۔ بیگم نے ہمیں بری خریداری کا کبھی طعنہ نہیں دیا۔

دوستو، آپ کو بھی عید کے پرمسرت موقعہ پر بکرا خریدنا ہو گا۔ ٹھگوں، نوسربازوں اور فراڈیوں سے بچ کے رہیں۔ جہاں کوئی آپ کو غیر معمولی فائدے کے جھلک دکھلائے وہیں سمجھ جائیے کہ اس کے پیچھے کوئی گھپلا ہے۔   دھوکہ وہی کھاتا ہے جو لالچ کا شکار ہوتا ہے۔ 

ختم شد

No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...