Sunday, December 22, 2013

پاکستان میں بجلی کے بحران پر ہلکی پھلکی گپ شپ - عمران زاہد کے قلم سے



سعید صاحب ہمارے فیملی فرینڈ ہیں۔ وہ میرے والد صاحب مرحوم کے ساتھ ہی واپڈا میں کام کرتے تھے۔ ہم کافی عرصہ ایک ہی کالونی میں ساتھ ساتھ رہتے رہے ہیں۔ اس وجہ سے ان کا تعلق ہمارے گھرانے سے ایک دوست اور رشتہ دار کا تھا۔ وہ ابھی پچھلے سال ہی واپڈا سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ کافی سالوں بعد ہمارے ہاں بمعہ اہلیہ تشریف لائے۔

ان سے بجلی کے مسئلے پر بات چیت ہوئی، اس کا خلاصہ یہ ہے:

۱ - اسی کی دہائی میں تربیلا کے بعد کوئی بھی بڑا ڈیم نہ بن سکا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ تربیلا کے فوراً بعد ایک اور بڑا منصوبہ شروع کر دیا جاتا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ پانی جو کہ سستی بجلی کے علاوہ آبپاشی کا بھی بڑا ذریعہ ہے، اس کے علاوہ کوئی بجلی بنانے کا کوئی بھی طریقہ اتنا مہنگا ہے کہ ہماری قوم اس سے اپنی لاگت پوری نہیں کر سکتی۔ آج ہم پانی کے علاوہ ذرائع سے بجلی بنانے کا پھل چکھ رہے ہیں۔ اس وقت بھی مختلف غیر ملکی طاقتوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے آبی ڈیموں کو متنازعہ کیا، اور صوبائی و نسلی منافرت کی ایسی فضا بنائی کہ پچھلے تیس سال سے ایک بھی بڑا ڈیم نہیں بنا۔

۲ - گیس سے بجلی بنانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی کرنسی نوٹوں کو جلا کر گرمی حاصل کرے۔ گیس بجلی سے بھی زیادہ قیمتی ایندھن ہے۔ اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال صنعتوں کے لیے ہونا چاہیئے تھا۔ بجلی کے لیے پانی پر ہی انحصار کرنا چاہیئے تھا۔ گیس ختم ہو گئی تو ہمارے پاس اس کو حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ گیس میں بھی پچھلے سات آٹھ سال سے کوئی نئی ڈسکوری نہیں ہوئی۔ 

۳ - بے نظیر بھٹو نے جو آئی پی پی کے معاہدے کیے تھے وہ صریحاً غداری کے ذمرے میں آتے ہیں۔ ان معاہدوں نے پاکستان کو ایسا جکڑا کہ آج تک قوم اس کو بھگت رہی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ پی پی پی کی پچھلی حکومت نے کرائے کے بجلی گھروں کا ایسا چکر چلایا کہ جس کا مقصد ہی کمیشن کھانا اور کرپشن کرنا تھا۔ کوئی سنجیدہ حکومت نجلی کے حصول کے لیے ایسا منصوبہ نہیں بنا سکتی۔


۴ - آئی پی پی کے بعد جو بڑا سب سے بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے وہ ڈیسکوز کی پرائیویٹائزیشن کا ہے۔ پرائیویٹائزیشن پہ ان سے ذرا تفصیل سے بات ہوئی:

فرماتے ہیں کہ:
ایک گھر میں پانچ چھ بھائی اکٹھے رہتے ہیں، ان میں سے کوئی غریب ہے اور کوئی امیر ہے۔  ان کی آمدنی اکٹھی استعمال ہوتی ہے اور اس گھر کا بھرم اور اتحاد قائم ہے۔ اب اگر امیر بھائی اپنی آمدن کی سانجھ بند کر دیں تو غریب بھائیوں میں  بے چینی اور خاندان میں انتشار پھیلے گا۔ حکومت صرف، لیسکو، فیسکو، آئیسکو، میپکو اور گیپکو کو ہی پرائیویٹ کرے گی کیونکہ یہ دودھ دینی والی بھینیسں ہیں۔ اب جو بندہ  بھی ان کو خریدے گا وہ صرف اور صرف اپنے منافعے کی غرض سے خریدے گا۔ اس کے نتیجہ یہ ہو گا کہ چھوٹے صوبے جہاں لوگوں کی قوتِ خرید زیادہ نہیں ہے۔ غربت بے انتہا ہے۔ ان کے ڈیسکوز نہیں چل سکیں گے یا اس پر صوبائی حکومتوں کو بے انتہا پیسہ خرچ کرنا پڑے گا۔  کہتے ہیں کہ کل کلاں کے پی کے کی حکومت  تربیلا پر اپنا حق جتاتے ہوئے وہاں سے بجلی کی ترسیل روک دے تو آپ کیا کریں گے؟ ایک دو گرڈ سٹیشن اور دو چار ٹاور گرانا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔  مختصراً ان کے کہنا یہ ہے کہ ڈیسکوز کی پرائیویٹائزیشن  تباہی کا فارمولہ ہے۔ وہ طاقتیں جو پاکستان کی تباہی کی خواہاں ہیں وہی پاکستانی حکومت کو ان کی پرائیویٹائزیشن پر اکسا رہی ہیں۔ اس سے صوبوں میں نفاق کا ایسا بیج بویا جائے گا کہ دشمن کو حملہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اس سے پہلے ہی پاکستان کی دفاعی قوتیں نفسیاتی شکست کا سامنا کر رہی ہوں گی۔


۵ – ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو بڑے پانی کے ڈیم بنانے چاہئیں، دو چار سال کی مشکل برداشت کرنی چاہیئے اور دیرپا بنیادوں پر فیصلے کرنے چاہئیں۔ انہوں نے نواز شریف حکومت سے امیدوں کا اظہار کیا۔ کہنے لگے کہ نواز شریف نے بہت غلطیاں بھی کی ہیں اپنے پچھلے ادوار میں اس نے بجلی پر بالکل دھیان نہیں دیا۔ اب بھی اس کو چاہیئے کہ سڑکوں وغیرہ پر کم توجہ دے اور بجلی کے منصوبوں کو اولیت دے۔ دو چار سال سڑکوں کی تعمیر کو موخر کر دے۔ ان شاءاللہ چند سالوں کے بعد جب بجلی کے منصوبے کسی منزل پر پہنچ چکے ہوں گے تب سڑکوں کے لیے وافر پیسہ موجود ہو گا۔

۶ – حکومت کو چاہیئے کہ وہ بجلی پر سبسڈی دے اور مہنگی بجلی سے اجتناب کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ غربت کے باعث لوگ بجلی کے بل نہیں بھر پاتے۔ لامحالہ وہ چوری پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط مان کر بجلی کو سستا کرنے سے نہیں رکنا چاہیئے۔۔ آئی ایم ایف کی شرائط مان کر آج تک کوئی ملک ترقی نہیں کر سکا۔۔ ہمیں بھی ایسی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیئے۔

۷ – انہوں نے انکشاف کیا کہ واپڈا کے قیام کا مقصد ہی بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے نظام کو دیکھنا تھا اور اس کے لیے نت نئے منصوبے بنانا تھا، لیکن مشرف دور میں واپڈا کو نئے منصوبے بنانے سے روک دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے واپڈا کے اختیار سلب کر لیے گئے اور وزارتِ بجلی کو زیادہ اختیار دے دیے گئے۔  واپڈا کے حکام نے بارہا اپنے مراسلوں میں حکومت کو بتایا کہ اگر بجلی کے نئے منصوبے نہ بنائے گئے تو آنے والے سالوں میں بجلی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن حکومت کے کارپردازان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اس سلسلے میں شوکت عزیز کی حکومت کا کردار بہت گھناؤنا ہے۔ وہ تو یوں لگتا ہے جیسے کسی غیر ملکی ایجنڈے پہ ہو۔  بہرحال۔۔ بجلی کی قلت تو وہی ہے جو کہ واپڈا کے حکام آج سے دس سال پہلے حکومت کو آن ریکارڈ بتا چکے ہیں۔ اس میں کیلکولیشن کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ لیکن حکومت کی بجلی کے نئے منصوبوں کے حوالے سے بے جا  تاخیر  کی ذمہ دار حکومت خود ہے نہ کہ واپڈا۔

۸ ۔ مزید انہوں نے فرمایا کہ   ہر قوم کو اتار چڑھاؤ  کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پاکستانی قوم بھی گزر جائے گی۔ لیکن قوم کو اس کرائسس میں نکالنے کے لیے ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو قوم کو متحد رکھے اور ان کو فتح کی جانب گامزن رکھے۔ انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ جیسے کوئی ڈرائیور اونچے نیچے راستوں بیابانوں اور جنگلوں میں سے گاڑی کو آگے پیچھے کر کے ہوشیاری سے ڈرائیو کرتا ہوا نکال لیتا ہے ویسا ہی لیڈر چاہیئے جو کہ قوم کو ایسی ہی مہارت سے اس دلدل میں سے نکال لے جائے۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ میں بیس سال  بعد پاکستان کو بہت ہی طاقتور، باوقار اور باعزت دیکھتا ہوں، لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ الیکشن ہوتے رہیں اور فوج مارشل لاء کا رخ نہ کرے۔ پچھلے الیکشن میں قاف لیگ کا کافی حد تک صفایا ہو گیا تھا۔ اگلے الیکشن میں مزید صفائی ہو جائے گی۔ اور یہ عمل جاری رہنے سے پاکستانی قوم بہتر قیادت چننے کے قابل ہو جائے گی۔ ان شاءاللہ۔


No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...