Sunday, July 20, 2014

پاکستانی سیاست کا چہرہ بدلنے والے تین سیاستدان - عمران زاہد کے قلم سے

  پاکستان کی سیاست میں تین ایسے کردار ہیں ، جو پاکستان کے سیاسی ماحول میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا باعث بنے  ہیں۔ ان تبدیلیوں کے دور رس اثرات ہماری سیاست  کو ہر طرح سے متاثر کر چکے ہیں۔ ان سے نہ صرف سیاست، بلکہ ہمارا معاشرہ اور  پور ا نظام ِ حکومت ہی متاثر ہو چکا ہے ۔    ان میں سے کچھ اثرات مثبت ہیں اور کچھ منفی ہیں۔ میری کوشش ہے کہ ان اثرات کو مختصراً بیان کیا جائے۔

جناب ذوالفقار علی بھٹو:
ذوالفقار علی بھٹو تعلیم کے لحاظ سے ایک وکیل لیکن پیشے کے اعتبار سے ایک جاگیردار تھے۔ بھٹو ہماری تاریخ کے وہ سیاست دان ہیں جنہوں نے سیاست کو ہمارے معاشرے کے نچلے طبقوں تک پہنچایا۔ ان سے قبل ہماری سیاست کو "ڈرائینگ رومزکی سیاست" کہا جاتا تھا۔ متوسط طبقہ سیاسی معاملات میں دلچسپی لیتا تھا اور نچلا پسا ہوا طبقہ اپنے ووٹ کی طاقت سے بےخبر تھا۔  پہلی دفعہ تانگہ چلانے والے کو، ٹھیلا لگانے والے کو، مزدور اور کسان کو، سرکاری دفتروں کے چپڑاسیوں اور کلرک بابوؤں کو ، دیہاتوں میں کمی کمیں کہلائے جانے والے نائی، جولاہے، ترکھان اور  میراثی کو اپنی طاقت کا انداز ہ ہوا۔ 

جناب  رانا نذرالرحمٰن (مشہور سیاسی کارکن) کی آپ بیتی" صبح ہونا شام کا" میں لکھا ہے کہ 1970 کے الیکشن میں عوام نے  دعوتیں تو عام امیدواروں کی اڑائیں، ان سے کھانے کھائے ، حتٰی کہ ٹرانسپورٹ بھی انہی کی استعمال کی لیکن ووٹ بھٹو کے امیدوار کو دیا۔   کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ بھٹو نے اگر کہیں کھمبا بھی کھڑا کر دیا تو لوگوں نے دیوانہ وار اسے بھی ووٹ دیے۔ بلاشبہ پاکستانی سیاست کے حوالے سے یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔

نچلے پسے ہوئے طبقے کے الیکشن  میں شمولیت سے جہاں جمہوریت کو تقویت ملی وہاں ایک نقصان بھی ہوا۔ کسی بھی معاشرے میں متوسط طبقہ ہی ہوتا ہے جو اقدار کا حامل ہوتا ہے اور اس کو لے کے چلتا ہے۔ نچلے طبقے کا مسئلہ اقدار ہوتا ہی نہیں ہے۔ لہٰذا نچلے طبقے کی شمولیت نے  نقصان یہ پہنچایا کہ سیاست سے اقدار رخصت ہوتی گئیں۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے ایک نیا کلچر روشناس کروایا جسے "جیالا کلچر" کہتے ہیں۔ جیالا اسے کہا جاتا ہے جو اپنی جہالت پہ بھی  ناز کرے۔ ان جیالوں نے محلوں اور دیہاتوں میں شرفاء کا جینا محال کر دیا۔ جس سرکاری دفتر میں چاہتے دھاوا بول دیتے اور سرکاری افسران کو اپنے ناجائز کام کرنے پر مجبور کرتے۔ بھٹو صاحب نے ان جیالوں کو کھپانے کے لیے سرکاری دفاتر کے دروازے کھول دیے۔ سرکاری دفاترمیں بے محابا بھرتیاں کی گئیں۔ ان بھرتیوں کا ہی اعجازہے  کہ ہمارے  بیشتر ادارے خسارے میں جا رہے ہیں۔ ہر خسارے کے پیچھے وجہ یہی نکلتی ہے کہ ان اداروں میں گنجائش سے زیادہ بھرتیاں کر کے ان کی فعالیت کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ وہ ادارے اپنے بوجھ تلے ہی دب چکےہے۔  

ایک  اہم نقصان یہ ہوا ہے کہ سیاسی کارکن سنجیدہ بات کی سننے کی بجائے مولا جٹ کی بڑھک سننے کا عادی ہو گیا۔  لیڈر جتنا زیادہ جھوٹ بولتا ہے، جتنی اونچی بڑھک لگاتا ہے ان جیالوں کی نظر میں اتنا ہی مستند ہے۔   سیاسی تقریبات میں یہ رواج ہی ہو گیا ہے کہ جیالے کھانوں پہ اس طرح سے ٹوٹتے ہیں کہ ان کے کپڑے اور شوربہ آپس میں گچم گچ ہو  جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کی طرف سے جیالوں کی اس عمل کی ہمیشہ تحسین کی جاتی ہے اور اس عمل کو جیالاپن سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ 

سیاست کا ایک اہم مقصد قوم کو منظم کرنا اور منظم ہو کے ایک متفق مقصد کی طرف بڑھتے چلے جانا ہے۔ اس  جیالاپن کی سیاست میں  یہ مقصد پیچھے رہ گیا ہے اور ایک بازار ی پن ، سفلہ پن  اور گالی ہی سیاست کی پہچان  بن کے رہ گئی ہے۔

پیپلز پارٹی کی یہ بہت بڑی خدمت ہو گی کہ اگر وہ ہمارے معاشرے کے نچلے طبقات کو نہ صرف بلند آدرش سے روشناس کروائے  بلکہ  ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت بھی کرے۔ ان کو ایک بہتر شہری بننے میں مدد دے۔ ان کو حرام حلال کا فرق سکھائے۔ ذاتی اور قومی مفاد میں فرق کرنا سکھائے اور قومی مفاد کو ہمیشہ ترجیح دینا سکھائے۔

جناب میاں محمد نواز شریف :
میاں نواز شریف  بنیادی طور پر ایک کاروباری  خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سونے کا چمچ منہ میں لے کے پیدا ہوئے۔ سیاست کا آغاز  ائیر مارشل اصغر خان کی تحریکِ استقلال سے کیا۔ لیکن اس جماعت کے مستقبل سے مایوس ہو کر  جنرل ضیاءالحق کی مسلم لیگ میں شمولت اختیار کی اور اس کے بعد مقتدر طبقات کے منظورِ نظر بن کر مسلم لیگ پہ قبضہ کیا اور  اسے مسلم لیگ (ن) کا نا م دیا۔ 

میاں نواز شریف نے پاکستانی  سیاست کو پیسے سے آلودہ کیا۔  اس سے پہلے سیاست متوسط طبقے کے لوگ سیاست کر پاتے تھے۔ تھوڑا بہت چندہ کر کے کچھ  بلیک اینڈ وائیٹ پوسٹر چھپوا کر الیکشن لڑے جاتے تھے۔  کارکن جیپیں کرائے پر لے کر رابطہ عوام مہم چلاتے اور ووٹ کی پرچیاں بنا تے۔ کارکن ہی پولنگ ایجنٹ بنتے اور اس سب کو سیاسی عمل کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن میاں صاحب نے سیاست میں پیسے کو فروغ دیا۔ سب سے پہلے رنگین پوسٹرز کا رواج انہوں نے ہی ڈالا۔  رنگا رنگ کے ہورڈنگز اور تشہیر کے قیمتی ذرائع کو انہوں نے اختیار کیا۔ سیاسی کارکنوں کی جگہ بامعاوضہ کارکنوں نے لے لی جو کسی مقصد اور آدرش کے لیے نہیں بلکہ صرف تنخواہ کے لیے اپنی خدمات ایک سیاستدان کو فراہم کرتے ہیں۔  تشہیر کے لیے وسائل حاصل کرنے کے لیے جائز ناجائز ذرائع سب کے سب استعمال کیے۔ مقتدر حلقوں سے ان کے مقاصد کی تکمیل کے وعدے کر کے بھی وسائل حاصل کیے اور حکومت میں رہ کے حکومتی منصوبوں کی تشہیر کے پسِ پردہ اپنی ذات کی تشہیر کو بھی فروغ دیا۔  میاں صاحب نے سیاستدانوں کی خریدو فروخت   میں بھی نام گنوایا۔ نہ صرف سیاستدانوں بلکہ فوجی چیفوں، ججوں ، صحافیوں اور نمایاں عہدیداروں کو اپنا ممنونِ احسان رکھنا، تحفے تحائف کے ذریعے انہیں خریدنے جیسے اعمال بھی میاں صاحب کے کھاتے میں لکھے ہوئے ملتے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی اخراجات کے ایک حد مقرر کرتا ہے ۔ لیکن اپنی غیر فعالیت کے سبب کبھی بھی ان اخراجات کی تحدید کو یقینی نہیں بنا سکا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کل متوسط طبقے کا کوئی فرد الیکشن لڑ ہی نہیں سکتا۔ الیکشن لڑنے کے لیے آپ کا ایک نظریہ اور مقصد ہونا ضروری نہیں ہے،  باوسائل ہونا ضروری ہے۔ اب الیکشن  سرمایہ داروں، کاروباری لوگوں،  جاگیرداروں ، پیروں اور گدی نشینوں کا کھیل بن کے رہ گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے نتیجے میں ہر آنے والی حکومت پہلے سے زیادہ نااہل نظر آتی ہے۔ پیسے کا یہ کھیل عوام کے دل سے جمہوریت کی وقعت کو ختم کرتا جا رہا ہے۔  پیسے کے اس کھیل کا ہی نتیجہ ہے کہ ہر سیاستدان الیکشن جیتنے کے بعد عوامی خدمت کی بجائے، اپنا خرچہ پورا کرنے کی طرف دھیان دیتا ہے۔ اپنے حلقے کے تمام ٹھیکوں میں سے کمیشن لینا تو اب شاید کوئی برائی ہی نہیں سمجھا جاتا۔  اسی پیسے کی وجہ سے بیرونی طاقتوں کے لیے ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو خریدنا بہت آسان ہو چکا ہے۔ حرام کے پیسے کا یہ چکر ہماری سیاست کو ایک  پھنیر ناگ کی طرح نگلتا جا رہا ہے۔ پیسے کا یہ  مکروہ    چکر  نہ صرف سیاست بلکہ ہماری ریاست کے لیے بھی ایک شدید خطرہ ہے۔

میاں نواز شریف کو چاہیئے کہ وہ جمہوریت اور ملک کے بقا کی خاطر ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے،  سیاست کے باقی سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملاتے ہوئے نظامِ سیاست کو پیسے کے اس گھناؤنے چکر سے آزاد کروائے۔ ورنہ داستان بھی نہ ہوگی ، داستانوں میں ۔

جناب عمران خان :
میرا عمران خان کے متعلق پہلا تاثر یہی ہے کہ موصوف بہت بااصول اور نظم و ضبط کی پابندی کروانے والے ہیں۔  نوے کی دہائی کے اوائل سالوں کی بات ہے کہ  جمعیت کے پلیٹ فارم سے ہم نے ایک دفعہ انہیں گورنمنٹ کامرس کالج فیصل آباد میں مدعو کیا۔ مقصد ان کو شوکت خانم ہسپتال کے لیے چندہ دینا تھا۔ سٹیج پہ جا کے ہم نے انہیں طلبہ سے جمع ہونے والی ساری رقم تھمائی اور انہیں تقریر کے لیے مدعو کیا۔ خان صاحب کی تقریر کے دوران کسی طالبعلم نے نعرہ تکبیر بلند کر دیا۔ خان صاحب وہیں بدک گئے، اپنی ساری تقریر چھوڑ کر اس طالبعلم کے پیچھے پڑ گئے۔ فرمانے لگے کہ یار خدا کا خوف کرو، نعرہ تکبیر بڑا مقدس نعرہ ہے اس کا کوئی موقع محل ہوتا ہے۔  ہر جگہ یہ نعرہ نہیں لگانا چاہیئے۔ میں نے ان کی اس بات سے یہ تاثرلیا کہ خان صاحب اپنے اصولوں کے معاملے میں کافی سخت واقع ہوئے ہیں۔

خان صاحب  کی اصول پسندی کو ایک طرف رکھتے ہوئے ، پاکستانی سیاست میں خان صاحب کی اہم کنٹری بیوشن پر بات کرتے ہیں۔ خان صاحب نے اُس ووٹر کو سیاست کا شعور دیا جو سیاست کو شغل میلے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا اور کبھی ووٹ ڈالنے نہیں نکلتا تھا۔  خصوصاً نوجوانوں کو بہت متاثر کیا۔اس کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے کے بالائی طبقے  کے افراد کو  جنہیں ہم "برگر کلاس" یا "ممی ڈیڈی کلاس" کہتے ہیں ، انہیں بھی ووٹروں کی قطاروں میں کھڑا ہونا سکھا دیا۔ یہ بلاشبہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ وہ معاشرہ جہاں ہر بندہ یہ کہتا ہو کہ "چھڈو جی، سارے ہی چور ہیں، ووٹ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں" ، وہاں لوگوں میں اس شعور کا بیدار کر دینا کہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنی مرضی کی قیادت منتخب کر سکتے ہیں، بلاشبہ  ایک نیک شگون ہے۔

جماعتِ اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے بارہا اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ساٹھ فیصد لوگ تو ووٹ ڈالتے ہی نہیں، وہ الیکشن والے دن مایوس ہو کر گھر بیٹھے رہتے ہیں، اگر کسی طرح ان کو نکالا جائے تو تبدیلی آ سکتی ہے۔ انہوں نے اپنی کئی تقاریر میں کہا تھا کہ ناامیدی اور مایوسی کو ختم کرنے کی ضرورت  پر زور دیا تھا تاکہ  گھر بیٹھنے والے ووٹر بھی ووٹ ڈالنے نکل سکیں۔ خوشی کا مقام یہ ہے کہ قاضی صاحب کی یہ خواہش پوری ہوئی، یہ الگ بات ہے کہ اس کا سہرا عمران خان کے سر بندھتا ہے۔


عمران خان کی اس کاوش کی جہاں مثبت نتائج ہیں وہاں کچھ منفی نتائج بھی برامد ہوئے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے کارکنوں میں بھی جیالا ازم پایا جاتا ہے۔ مخالفین کی بات نہ سننا، مخالفت پہ انہیں دشنام کا نشانہ بنانا، غیر سنجیدہ مباحث میں الجھنا وغیرہ کے خصائل ان میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی شاید ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہو کہ پیپلز پارٹی کے مایوس کارکنوں کی ایک بہت بڑی  کھیپ تحریکِ انصاف میں شامل ہو گئی ہے۔ وہ کارکن پیپلز پارٹی کے کلچر کو بھی ساتھ ہی لیتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے کھانوں میں بھی وہی ہڑبونگ، افطاری سے پہلے روزہ  کھولنا  اور چھینا جھپٹی نظر آتی ہے جو پیپلز پارٹی کا خاصا ہے۔

عمران خان نے جب سے  عوامی سیاست شروع کی ہے، وہ ساری اصول پسندی اور نظم و ضبط کہیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔اب لوٹے بھی قبول ہیں اور بے کردار سرمایہ دار بھی قبول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک ِ انصاف کا کوئی ایک بھی وزیر صوبے میں اپنی کارکردگی کی دھاک نہیں بٹھا سکا۔ اس کے برعکس جماعتِ اسلامی کے وزراء نے اپنی کارکردگی کے نمایاں نقش ثبت کیے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ خان صاحب  تحریکِ انصاف کی نوجوانوں اور بالائی  طبقات میں قبولیتِ عام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی تربیت کا بیڑہ اٹھائیں اور انہیں شائستگی اور بردباری  کے رویے سکھائیں۔ انہیں اقدار کا مطلب اور اس کی حفاظت کرنے والا بنائیں۔ ورنہ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ایسے منہ زور کارکن پارٹی کے لیے ٹروجن ہارس کا کردار ادا کرتے ہیں اور بجائے پارٹی کی نیک نامی میں اضافے کے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ خان صاحب اس ضمن میں پیپلز پارٹی کے انجام سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔

ختم شد


No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...