دنیا کے پانچ ممالک نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی اقتصادی اجارہ داری سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ’برکس ترقیاتی بینک کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ BRICS کا نام بھی ان پانچ مالک کے پہلے حروف تہجی پر رکھا گیا ہے۔ B برازیل ، Rروس ، Iانڈیا، C چین،Sسے ساؤتھ افریقہ کے پہلے حروف تہجی پر مشتمل ہے۔ جنوبی افریقہ کی شمولیت سے پہلے اس بینک کا مجوزہ نامBRICتھا ۔ ان پانچ ممالک کی مجموعی آبادی تین ارب اور اس کی مجموعی پیداوار 16.39کھرب ڈالر ہے جبکہ فارن کرنسی کے ذخائر چار کھرب ڈالرسے زیادہ ہیں۔اس نئے ترقیاتی بینک نے حادثاتی فنڈ بھی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ برازیل کے شہر فورٹی لیزا میں ممبر ممالک کے رہنماؤں کے اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ کے مطابق ابتدائی طور پر ترقیاتی بینک کے لیے سرمایہ کا حجم 50 ارب ڈالر رکھا گیاہے۔جسے بعد میں سو ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ اس کے علاوہ سو ارب ڈالر کا ایک ایمرجنسی فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے جس میں چین 41 ارب ڈالر‘ بھارت، برازیل اور روس اٹھارہ ،اٹھارہ ارب ڈالر اور جنوبی افریقہ پانچ ارب ڈالر کا سرمایہ لگائے گا۔
نئے اقتصادی بلاک برکس کے رکن ممالک کی آبادی، دنیا کی کل آبادی کا چالیس فیصد ہے۔ ان ممالک کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کی پچیس فیصد ہے۔برکس ترقیاتی بینک کا ہیڈکوارٹر چین کے شہر شنگھائی میں ہو گا ۔ ایک علاقائی دفتر جنوبی افریقہ میں بھی ہو گا۔ بینک کا پہلا چیف ایگزیکٹو بھارت سے لیا جائے گا ۔برکس بینک 2016سے فنڈز کی فراہمی شروع کرے گا۔ اس بینک کے مراکز بتدریج بھارت، روس اور برازیل میں بھی کام شروع کر دیں گے۔رپورٹس کے مطابق اس بینک کے قیام میں سابق بھارتی وزیر اعظم اورممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ جون2009 کو روس میں ہونے والے تاسیسی اجلاس میں شریک تھے۔اس اجلاس میں انہوں نے ورکنگ پیپر پیش کیا۔
برکس میں شامل ان پانچ ممالک نے جو اقتصادی منصوبہ بندی کی ہے ۔ وہ ہم سب کے لیے قابل رشک ہے۔ ان ممالک کی تاریخ، جغرافیہ ، ثقافت، مذہب اور ریاستی مفادات الگ الگ ہیں لیکن انہوں نے برکس کے ذریعے عالمی اقتصادی منظر نامے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے ممالک کہ جن کا ایمان توحید پر اور معیشت کی بنیاد ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود پر ہے وہ کب خواب غفلت سے اٹھیں گے۔
ہمارے دین نے تو غریب، نادار اور ضروت مندوں کے لیے اپنی ذاتی کمائی میں سے اڑھائی فیصد مختص کرنے کا حکم دیا ہے۔ بیت المال اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ریکٹس کے ذریعے اس مد سے ارب ہا روپے سیاسی بنیادوں پر تقسیم کیے جاتے ہیں۔دوسرے اسلامی ممالک میں کھربوں روپے اس طرح کی" کھیل تماشوں"(معذرت کے ساتھ) میں صرف کیے جا رہے ہیں۔
عرب ممالک اگر تیل اور سونے کی دولت سے مالا مال ہیں تو دوسرے مسلم ممالک کے پاس قدرت نے کئی اہم معدنیات اور ایسے قدرتی وسائل دئیے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک للچائی ہوئی نظروں کے دیکھتے ہیں۔پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے پاس جس قسم کی افرادی قوت اور ذہانت موجود ہے وہ دنیا کے کم ہی ممالک کو حاصل ہے پھر ہم کیوں دست نگر اور خوف زدہ ہیں۔ اہم بین الاقومی معاملات پر بھی مسلم امہ کویک زبان نہیں کر سکے۔
عرب ممالک کی اکثریت اسلامی یک جہتی کی بجائے عرب قومیت کا پرچار کرتی ہے۔ یہ ممالک فلسطین کے معاملے میں زبانی بیان بازی تو کمال کی کرتے ہیں۔لیکن اپنی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں انہی ممالک کی آشیرباد سے بناتے ہیں۔ جو فلسطین کو اسرائیل کے زیر نگیں رکھنا چاہتے ہیں ۔ کشمیری اور میانمار کے مسلمانوں کی حالت زار کے معاملے پر عرب ممالک نے چپ کیوں سادھ رکھی ہے۔
میں یہاں یورپی پارلیمنٹ میں پاکستانی نژاد ممبر پارلیمنٹ کے برطانیہ میں دئیے جانے والے اس بیان کا حوالہ بھی دینا چاہوں گا جس میں انہوں نے غزہ اور کشمیر کی صورتحال کا تقابل کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح فلسطینیوں کے مصائب کو دنیا بھر کی ٹی وی سکرین پر دکھایا جاتا ہے اس طرح کشمیریوں کی اذیب ناک صورتحال کیوں اجاگر نہیں کی جاتی۔انہوں نے کہا کہ عرب دنیا اور عالمی برادری کشمیر اور میانمار کے حوالے سے اپنے ضمیر کی آواز کو کیوں نہیں سنتی، فلسطین اور غزہ کے معاملے پر احتجاج کرنے والے پاکستانیوں سے انہوں نے یہ سوال
بھی پوچھا کہ مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے متعلق عرب ممالک کا سرکاری موقف کیا ہے؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسئلہ فلسطین اگر اتنا اہم ہے تو اب تک کسی عرب ملک نے اسے یورپی پارلیمنٹ میں اٹھانے کے لیے ہم سے کیوں رابطہ نہ کیا ہے۔یہ سب باتیں ان مسلم عرب ممالک کے دوہرے معیار کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ سجاد کریم وہی شخصیت ہیں جنہوں نے پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور کے ساتھ مل کر پاکستان کو یورپی منڈیوں میں جی ایس پی پلس سٹیٹس دلوانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ سجاد کریم کا یہ بیان حکومت پاکستان اور ہمارے دانشوروں ،کالم نگاروں اور ٹی وی اینکرز کے لیے ایک food for thoughtہے۔
مسلم امہ کا اتحاد او ر" نیل سے لے کر تابخاک کاشغر "کا خواب تب ہی شرمندہ تعبیر ہو گا جب او آئی سی اور دولت مند اسلامی ممالک کے حکمران برکس کی طرز پر ایک اسلامک بینک بنانے پر آمادہ ہو ں گے۔ورلڈ بینک اور برکس دونوں جو بھی قرضے دیں گے وہ یقینا سود کی بنیاد پر ہوں گے۔ ملت اسلامیہ کا نظریہ تو سودی کاروبار کے خلاف ہے پھر ہم اس جانب کیوں توجہ نہیں دیتے۔ کیا منموہن جیسے ماہر اقتصادیات پاکستان میں نہیں ہیں؟ اگر ہم بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں جوہری طاقت بن سکتے ہیں تو کیا ایٹمی دھماکہ کرنے والے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور اسحاق ڈار پاکستانی ماہر اقتصادیات کے ساتھ مل کر عالمی بینک یا برکس کی طرز پر حقیقی اسلامی بینک کاتصور پیش نہیں کر سکتے۔ سعودی عرب ، قطر ، کویت، برونائی دار السلام، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور پاکستان کیوں ایسے اسلامی بینک کی بنیاد نہیں رکھتے جو ورلڈ بینک اور برکس کے متبادل کے طور پرملت اسلامیہ کے ممالک میں معاشی انقلاب کا سبب سکے۔اس بارے میں ملائیشیا کے سابق صدر مہاتیر محمد نے جو تجاویز تیار کی تھیں اگر ہمارے ماہر اقتصادیات ان کا سنجیدگی سے مطالعہ کرلیں تو یقینا آگے بڑھنے کی راہیں نکل سکتی ہیں ۔۔۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ختم شد
No comments :
Post a Comment