Tuesday, November 25, 2014

جماعتِ اسلامی کے سالانہ اجتماع میں کچھ وقت - عمران زاہد کے قلم سے



کئی دوستوں کی معیت اور کشش کے سبب جماعت کے سالانہ اجتماع میں جانے کا پکا پروگرام تھا لیکن ہماری یونیورسٹی کے کانوکیشن نے، جو انہی تاریخوں میں منعقد ہوا، اسے تقریباً ناممکن بنا دیا۔   گو فیس بک کے ذریعے پتہ چلتا رہا کہ اجتماعِ عام میں لاکھوں لوگ جمع ہو چکے ہیں۔ بیرون ملک سے مندوبین کا اجلاس ہوا۔ خواتین کا ایک علیحدہ سے پروگرام ہوا۔ نوجوانوں کا ایک کنونشن بھی ہوا ،  جس میں  جمعیت والوں نے ایک ڈرامہ بھی پیش کیا۔ سوشل میڈیا کیمپ کا خاصا چرچا تھا۔ فیس بک پہ ہی اس میں موجود سہولتوں کے بارے میں پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اردو بلاگرز  جن میں ایم بلال بھی شامل ہیں ان کے سوشل میڈیا کیمپ کے وزٹ کی خبر بھی پہنچی۔  اسی طرح کی مزید کئی سرگرمیوں کی خبریں پہنچتی رہی تھیں لیکن ان میں عملاً شریک ہونا ناممکن تھا۔  تئیس نومبرکو اجتماع کا آخری دن تھا۔بائیس کی شام کو کانوکیشن سے فارغ ہوا تو  برادرم الیاس انصاری  نے  دعوت دی کہ آخری دن اکٹھے چلا جائے۔ میں نے ان کی دعوت پہ لبیک کہا۔ سوچا چلو اسی طرح سے انگلی کٹا کے شہیدوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔

Saturday, November 22, 2014

ایک تربیت گاہ کی یادیں - عمران زاہد کے قلم سے


سن 1992 کی بات ہے، مہینہ شاید نومبر کا ہی تھا کہ جمعیت صوبہ پنجاب کی ایک تربیت گاہ بہاولپور میں رکھی گئی۔ سفر میں زیادہ سامان سے مجھے ہمیشہ کوفت ہوتی ہے، لہٰذا والدہ سے کرایہ لیا اور خالی ہاتھ گھر سے نکل آیا۔ والدہ نے اصرار بھی کیا کہ ساتھ کوئی گرم کمبل لیجاؤ کہ وہاں رات کو ٹھنڈ ہو گی۔۔ لیکن کمبل کو اٹھانے کی کوفت سے بچنے کے لیے میں سنی ان سنی کرتا ہوا ویسے ہی گھر سے نکل آیا۔ ایک ہلکی سی چادر ضرور جماعتی سٹائل میں اوڑھ لی کہ سردی سے بچاؤ کے لیے کافی ہے۔ بار بار اتارنے اور پہننے سے بچنے کے لیے مجھے تسموں والے بوٹ بھی ہمیشہ سے اَن ایزی لگتے تھے لہٰذا عام گھریلو چپل ہی پہنے رکھی کہ اس میں پاؤں کو خاصا سکون ملتا ہے۔

Tuesday, November 4, 2014

عمران خان کے نواز شریفی ہتھکنڈے - عمران زاہد کے قلم سے


میاں نواز شریف ماضی میں اپنے اتحادیوں کی سبکی کا باعث بنتے رہے ہیں بلکہ یہ رویہ ان کی اہم سیاسی حکمت عملی بن چکا ہے۔ چانکیہ کوٹلیا کی فلاسفی کہیں یا میکاولی کے اصول کہیں، سیاسی کامیابی کے لیے ایسے ہی طریقے بیان کیے گئے ہیں کہ ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنا لو اور ضرورت نہ ہو تو باپ کو بھی گڑھے میں ڈال دو۔ عمران خان صاحب بھی اسی روش پر گامزن ہیں۔ موجودہ دھرنے  کے دوران قادری صاحب اور عمران خان صاحب کے درمیان طے شدہ باتوں سے خان صاحب کا نظریہ ضرورت کے تحت انحراف اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ اس ضمن میں بہت سی  باتیں تو علامہ طاہرالقادری کے حوالے سے میڈیا میں آ چکی ہیں۔ وہ بیچارے مایوس ہو کر خان صاحب کا ساتھ ہی چھوڑ گئے۔

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...