Saturday, November 22, 2014

ایک تربیت گاہ کی یادیں - عمران زاہد کے قلم سے


سن 1992 کی بات ہے، مہینہ شاید نومبر کا ہی تھا کہ جمعیت صوبہ پنجاب کی ایک تربیت گاہ بہاولپور میں رکھی گئی۔ سفر میں زیادہ سامان سے مجھے ہمیشہ کوفت ہوتی ہے، لہٰذا والدہ سے کرایہ لیا اور خالی ہاتھ گھر سے نکل آیا۔ والدہ نے اصرار بھی کیا کہ ساتھ کوئی گرم کمبل لیجاؤ کہ وہاں رات کو ٹھنڈ ہو گی۔۔ لیکن کمبل کو اٹھانے کی کوفت سے بچنے کے لیے میں سنی ان سنی کرتا ہوا ویسے ہی گھر سے نکل آیا۔ ایک ہلکی سی چادر ضرور جماعتی سٹائل میں اوڑھ لی کہ سردی سے بچاؤ کے لیے کافی ہے۔ بار بار اتارنے اور پہننے سے بچنے کے لیے مجھے تسموں والے بوٹ بھی ہمیشہ سے اَن ایزی لگتے تھے لہٰذا عام گھریلو چپل ہی پہنے رکھی کہ اس میں پاؤں کو خاصا سکون ملتا ہے۔


بہاولپور کی بس پکڑنے کے لیے بسوں کے اڈے پر ابھی پہنچا ہی تھا کہ پیچھے سے ہمارا ایک ملازم سائیکل پہ آ پہنچا۔ اس نے ایک کمبل شاپر میں لپیٹا ہوا تھا۔ بڑی جان چھڑائی لیکن اس نے وہ شاپر میرے حوالے ہی کر کے چھوڑا۔۔۔ سچی بات ہے کہ آج بھی جب اپنی والدہ کے اس عمل کے بارے میں سوچتا ہوں تو ان کی محبت کا سوچ کر آنسو آ جاتے ہیں۔ میں اپنی دھن میں موسم کی ٹھنڈک کو زیادہ سنجیدہ لینے پر آمادہ نہیں تھا لیکن انہوں نے میری حماقت کے باوجود بھی مجھے ٹھنڈک سے بچانے کے لیے جو ہو سکتا تھا وہ کر دیا۔

ایک بوجھ کی طرح اس کمبل کو اٹھا کر بہاولپور پہنچے۔ کسی مدرسے میں رہائش کا انتظام تھا۔ سارے پروگرامات بھی وہیں انجام پانے تھے۔تربیت گاہ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ تربیت گاہ کے پروگرامات کی تو ایک علیحدہ ہی کہانی ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل شئیر کرنے کا موقعہ نہیں۔ لیکن پھر بھی مختصراً شئیر کیے دیتا ہوں۔ مقرر یا مدرس جو کسی موضوع پہ تقریر یا درس دیتے ہیں جمعیت کی زبان میں انہیں مربّی کہا جاتا ہے۔ اب اس کا کیا مطلب ہے، اس کے لیے کسی ڈکشنری سے رجوع کیجیے۔ مربین عموماً سابقین جمعیت ہوتے ہیں، یا نامور سکالر ہوتے ہیں۔ سیاسی شخصیات بھی ہو سکتی ہیں جو سیاسی معاملات سے طلبہ کو آگاہی بخشتے ہیں۔ حاضرین کے بیٹھنے کے لیے کوئی خصوصی انتظام نہیں ہوتا، فرش پر بچھے کارپٹ کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے اور تمام حاضرین اسی کو رونق بخشتے ہیں۔ مربین کے لیے کرسی کا انتظام ہوتا ہے۔ بعض جوشیلے مربین کھڑے ہو کر ہی تقریر کرنا پسند کرتے ہیں۔ ایک آدھ گھنٹے کی بات ہو تو فرش پر بیٹھا جا سکتا ہے لیکن زیادہ دیر بیٹھنے کے نتیجے میں ٹانگوں کے پٹھوں میں تھکن اترنا شروع ہو جاتی ہے۔ آغاز میں اکثر افراد التحیات پوز میں بیٹھتے ہیں۔ جب پاؤں تھکاوٹ کا اظہار کرتے ہیں تو پھر چوکڑی مار لی جاتی ہے (یعنی آلتی پالتی پوز)۔ اس میں بھی بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے تو پھر سب لوگ دیوار کی طرف کھسکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پہلے تو بازو پیچھے فرش پر ٹکا کر نیم دراز پوزیشن اختیار کی جاتی ہے، جب بازو بھی بوجھ سہارنے سے انکار کر دیں تب دیوار سے ٹیک لگا کر ٹانگیں آگے کو پھیلا لی جاتی ہیں۔۔ اللہ اللہ خیر صلیٰ۔ اگر تو مقرر کی تقریر میں جان ہو تو لوگ دلجمعی سے سنتے ہیں۔ بعض ساتھی تو ساتھ ڈائری لے کے آئے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ مقرر کی باتیں نوٹ کرتے رہتے ہیں۔ اگر تقریر جاندار نہ ہو تو بعض اوقات خراٹوں کی آواز بھی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسا وقوعہ عموماً دوپہر کھانے اور نماز کے بعد ہونے والے پروگراموں میں ہوتا ہے۔ ایک ایسے ہی وقوعے میں جب مولانا اسلم صدیقی صاحب خطاب فرما رہے تھے اور حاضرین خمارِ گندم کے نشے میں ڈوبنا شروع ہو گئے تھے اور سہارے کے لیے دیواروں سے ٹیک لگا چکے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے خطاب بند فرما دیا اور ایسی ڈانٹ پلائی کے سب سوئے ہووں کی آنکھیں کھل گئیں۔ فرمانے لگے کہ سب دیوار سے ٹیک ختم کرو۔۔ آگے ہو کے بیٹھو۔۔۔ بار بار کہہ کے آگے کرویا۔۔ سب کی ٹیک ختم کروائی۔۔پھر فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے نعرے لگاتے ہیں اور ڈھنگ سے بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ انقلاب کیا خاک لاؤ گے۔ جو لوگ جانتے ہیں کہ وہ کس جلالی طبعیت کے مالک ہیں وہ ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت ہم سب کی ڈھائی تین سو کی وہ حالت ہو گئی تھی جیسے کسی شیر کے سامنے بکری کے بچوں کی حالت ہوتی ہو گی۔ اگر کسی مربی کی تقریر میں کوئی بوریت کا لمحہ آ جائے تو جمعیت کے سمجھدار لوگ نعرہ بازی بھی شروع کر دیتے ہیں۔ نعرہ تکبیر اللہ اکبر۔ زندہ ہے جمعیت زندہ ہے۔ انقلاب انقلاب اسلامی انقلاب۔۔۔۔ نعروں کی ورائیٹی اور طوالت کا انحصار بوریت کی مقدار پر ہوتا ہے۔ ان نعروں کا مثبت اثر یہ ہوتا ہے کہ بوریت اور یبوست ختم ہو جاتی ہے طبعیت دوبارہ ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔

خیر، رات کو کچھ دیر کے لیے چوکیداری کی ڈیوٹی لگی۔ تو چند ساتھی مدرسے کے گیٹ پر چارپائیاں ڈال کر بیٹھ گئے۔ رات کا وقت، نومبر کا مہینہ، صحرائی علاقہ۔۔ سردی کا عالم آپ خود ہی سوچ لیں، تب والدہ کی فکرمندی کا احساس ہوا۔ عام سے کپڑوں میں عام سے چپل اور اوپر عام سے چادر اس ٹھنڈک کو روکنے میں ناکام ہو چکی تھی۔ یاروں نے آگ کا الاؤ جلایا۔۔ اور حقیقتاً یہ دل کر رہا تھا کہ اس الاؤ میں گھس جائیں۔۔۔ ٹھنڈ تھی کہ ہڈیوں میں گھستی چلی جا رہی تھی۔ گپ شپ، جذبات کی گرمی اور قوتِ ایمانی سے خود کو گرمایا۔۔۔ کچھ ساتھی شرفاء تھے۔۔۔ ورنہ سردی کا ایک علاج نعرہ بازی بھی ہوتا ہے۔۔۔ لیکن خیر نعرہ بازی سے پرہیز ہی رہا۔ خدا خدا کر کے ڈیوٹی ختم ہوئی۔ اپنے سونے والی جگہ پہ پہنچے تو ہمارا گرم کمبل ایک اور ساتھی بھائی اوڑھے مزے سے سو رہے تھے۔ اب نہ میں انہیں جانتا تھا، اور یقیناً وہ بھی ہمیں نہیں جانتے ہوں گے۔۔۔ لیکن موسم کے تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ بھی ویسے ہی خالی ہاتھ گھر سے نکل آئے ہوں گے اور سردی میں اپنے ہی کسی ساتھی کا کمبل دیکھ کے وہ رہ نہ پائے ہوں گے۔۔ ایک تو دل کرے کہ کمبل کھینچوں اور موصوف کو کھلی فضا میں مزے کرنے دوں، لیکن یہ سوچتے ہی دل میں اخوت، بھائی چارے، ہمدردی، ایک دوسرے کے کام آنے اور اسی قبیل کے دوسرے خیالات اجاگر ہونا شروع ہو گئے۔۔۔۔ خرم مراد مرحوم کی "کارکنوں کے باہمی تعلقات" کی تعلیمات ذہن میں آنے لگیں۔۔۔ دوسری صورت تھی کہ ایسے ہی رات بھر بیٹھا رہوں۔۔ فجر میں بھی دو تین گھنٹے ہی بچے تھے۔۔۔ لیکن ذہن نے ایک درمیانہ راستہ یہ نکالا کہ تھوڑا سا کنارا اپنے کمبل کا لیا اور تھوڑا سا کنارہ اپنے دوسری طرف لیٹے ساتھی بھائی کے کمبل کا لیا۔۔ اور ان کو اپنے سینے پر جوڑ کے درمیان میں لیٹ گیا۔۔۔ دونوں طرف کے ساتھی بھائی ماشاءاللہ باقی ساری رات زور آزمائی کرتے رہے۔۔۔ کبھی ایک کنارہ نکل جائے اور کبھی دوسرا کنارا۔۔۔۔ بس اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی والا حال تھا۔

فجر کا وقت ابھی شروع نہیں ہوا تھا کہ کسی ساتھی نے جگانا شروع کر دیا۔۔ بہرحال اٹھتے اٹھتے فجر کا ٹائم ہو گیا۔۔ اب اٹھے تو دیکھا کہ جوتے غائب۔۔۔ وہی کمبل والی بے تکلفی پھر کسی ساتھی بھائی نے دکھائی۔ خدا خدا کر کے جوتے ملے۔ ساتھی بھائی سے پوچھا کہ بھائی آپ کا تعلق کس علاقے سے ہے۔ کہنے لگے، گجرات سے۔

اس وقت مجھے نہیں پتہ تھا کہ گجرات والے کس معاملے میں بدنام ہیں۔ یہ تو مجھے برادر محبوب الزماں بٹ نے بتایا کہ گجرات والے جوتا چھپائی میں بہت نامور ہیں۔ بعد والی زندگی میں گجرات کے دوستوں سے کئی دفعہ ان کی اس شہرت پہ بات ہوئی لیکن انہوں نے اسے ایک الزام قرار دیا۔ بلکہ کچھ دوستوں نے ناگفتنی قسم کی وضاحتیں بھی پیش کیں جو بندہ آپ لوگوں کو بتانے سے قاصر ہے۔

بہرحال۔۔۔ جمعیت کی تربیت گاہوں کا جواب نہیں ہے۔ وہاں سب لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ نظریاتی پہلوؤں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ قران و حدیث کے دروس ہوتے ہیں۔ قومی و عالمی سیاست کی فہم کے در وا کیے جاتے ہیں۔ جو ساتھی منتظم ہوتے ہیں انہیں مفت میں ایونٹ مینیجمنٹ کی تربیت مل جاتی ہے۔ ناظمِ مطبخ کا بھی ایک عہدہ ہوتا ہے۔ یہ وہ ناظم ہوتا ہے جو تمام حاضرین کے کھانے پینے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ دیگیں پکوانی ہوں، یا روٹیاں لگوانی ہوں، ساتھیوں کو کھانا کھلوانے سے لیکر برتن سمیٹنے اور انہیں ٹھکانے لگانے تک کی کاروائی ناظمِ مطبخ کی ہوتی ہے۔ وقت بے وقت کھانے کے لیے ساتھی ناظم مطبخ پہ ڈورے ڈالتے رہتے ہیں۔ ہاسٹل میس کے عادی سپلی لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ خیر سب مل جل کر کھاتے ہیں اور ایک دوسرے کو صلح مارنے میں نہیں ہچکچاتے۔ زیادہ بے تکلف ساتھی صلح مارنے کا بھی انتظار نہیں کرتے اور خود سے ہی دوسرے ساتھی کی پلیٹ سے رجوع کرنے سے نہیں شرماتے۔ مہمان زیادہ ہو جائیں یا کھانا کم پڑ جائے تو پھر بھی ایک دوسرے سے شئیر کر کے گزارہ کر لیتے ہیں۔ کھانا کھانے کا سٹائل وہی دیہاتی شادیوں والا ہوتا ہے۔ دو دو قطاروں میں سب بیٹھ جاتے ہیں اور درمیان میں دسترخوان بچھا کر کھانا رکھ دیا جاتا ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ ناظم ہو، ناظمِ اعلیٰ ہو، یا کوئی عام کارکن ہو۔۔۔ سب ایک ہی قطار میں بیٹھ کر ایک ہی کھانا کھاتے ہیں۔ سب کو ساتھ ساتھ بیٹھے دیکھ کر پہچاننا مشکل ہو جاتا کہ ان میں سے ناظم کون ہے اور کارکن کون ہے۔ ناظم کی ایک نشانی یہ ضرور ہوتی ہے کہ اپنی پلیٹ میں سے بوٹی نکال کر ساتھ والے ساتھی کی پلیٹ میں ڈال دیتا ہے۔ اور کھانا کھانے کی نسبت ساتھیوں کو کھلانے پہ زیادہ ابھارتا ہے۔

وہاں بہت سا ایسا وقت بھی میسر آتا ہے کہ ساتھی دوسرے شہروں سے آنے والوں سے متعارف ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور ایسے اییسے تعلقات پروان چڑھتے ہیں جو تاعمر ساتھ نبھاتے ہیں۔ "جامعہ ہندسیہ" کی اصلطلاح بھی میں نے سب سے پہلے وہیں پڑھی تھی۔ سارے ساتھی علاقہ وار تقسیم ہوئے ہوئے تھے، ایک کمرے کے باہر لکھا ہوا تھا "جامعہ ہندسیہ"۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کون سی جامعہ ہے۔ ساتھیوں سے تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ انجیرنگ یونیورسٹی کا ترجمہ "جامعہ ہندسیہ" ہے۔ ایسے ہی ایک دفعہ زرعی یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں بہت سارے کلیے دیکھے۔۔ "کلیہ فوڈ ٹیکنالوجی"، کلیہ فلاں اور کلیہ فلاں۔۔ اللہ بہتر جانتا ہے اس کلیے سے کیا بنتا ہے اور کلیاتِ میر اور شاعروں کے کلّیات سے یہ کس طرح مختلف ہیں۔

لکھنے کو تو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن فی الحال اتنے لکھے کو ہی بہت جانیے۔ اگر جماعت کے اجتماع عام میں آ رہے ہیں تو بھاری بستر لانے کے بجائے ایک اچھا سا سلیپنگ بیگ لایا جا سکتا ہے۔ اسی میں ایک دو سوٹ رکھ لیں (اگر ضرورت ہو تو )۔ اللہ اللہ خیر صلیٰ۔ اگر پھر بھی کوئی مسئلہ ہو تو جو بھی ساتھی قریب موجود ہو، اس سے مدد مانگ لیجیے گا۔ جماعت کے اجتماعِ عام جو چکری میں منعقد ہوا تھا اس کی بھی بہت سے یادیں ہیں۔ ان شاءاللہ پھر کبھی شئیر کروں گا۔


ختم شد

No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...