میاں نواز شریف ماضی میں اپنے اتحادیوں کی سبکی کا باعث بنتے رہے ہیں بلکہ یہ رویہ ان کی اہم سیاسی حکمت عملی بن چکا ہے۔ چانکیہ کوٹلیا کی فلاسفی کہیں یا میکاولی کے اصول کہیں، سیاسی کامیابی کے لیے ایسے ہی طریقے بیان کیے گئے ہیں کہ ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنا لو اور ضرورت نہ ہو تو باپ کو بھی گڑھے میں ڈال دو۔ عمران خان صاحب بھی اسی روش پر گامزن ہیں۔ موجودہ دھرنے کے دوران قادری صاحب اور عمران خان صاحب کے درمیان طے شدہ باتوں سے خان صاحب کا نظریہ ضرورت کے تحت انحراف اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ اس ضمن میں بہت سی باتیں تو علامہ طاہرالقادری کے حوالے سے میڈیا میں آ چکی ہیں۔ وہ بیچارے مایوس ہو کر خان صاحب کا ساتھ ہی چھوڑ گئے۔
تھوڑا ماضی میں جائیں تو یہ بات سب جانتے ہیں کہ ججز بحالی کی تحریک میں نوازشریف نے جماعتِ اسلامی اور عمران خان کو دھوکہ دیا تھا۔ طے یہ پایا تھا کہ لانگ مارچ میں عمران خان اسلام آباد سے شریک ہوں گے اور جماعت اسلامی والے ہائی کورٹ سے شریک ہوں گے لیکن میاں نواز شریف نے عوامی جوش و خروش دیکھتے ہوئے دونوں اتحادیوں کو نظرانداز کرنا مناسب سمجھا اور نہ صرف طے شدہ راستہ چھوڑ دیا بلکہ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی لانگ مارچ کو ختم کر دیا۔ اس طرح ججوں کی بحالی کا سارا کریڈٹ اکیلے خود ہی بٹور لیا۔
یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے 2008 کے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا تھا لیکن نواز شریف نے اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر الیکشن میں حصہ لے لیا۔ اتحادی اس ساری گیم میں خسارے میں ہی رہے۔ جماعت والے نواز شریف کی کہہ مکرنیوں کے پرانے واقف ہیں اور اس پر اعتماد نہیں کرتے۔ اسی لیے بہت سے جماعتِ اسلامی کے ہمدرد بھی "گو نواز گو" کے قائل ہیں اور دل سے اس سے نفرت کرتے ہیں۔ نواز شریف اپنا اعتماد اس طرح کھو چکا ہے کہ اب دھرنے کے بعد مزاکرات کے نتیجے میں جو بھی وعدے اس کی طرف سے ہوتے ہیں ، عمران خان انہیں تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ عمران خان سمجھتا ہے کہ نواز شریف کی حکومت میں الیکشن دھاندلی کے خلاف کسی بھی قسم کی تحقیقات بے نتیجہ ہی رہیں گی، اس لیے اس کا استعفیٰ بہت ضروری ہے۔ یہ بداعتمادی میاں نواز شریف کی اپنی بوئی ہوئی ہے جس کی فصل اسے آج کاٹنی پڑ رہی ہے۔
عمران خان صاحب بھی نوازشریف کے طور طریقوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ماضی میں ججز بحالی تحریک کے دوران عمران خان نے پنجاب یونیورسٹی میں طلباء کی ریلی کی قیادت کرنے کا اعلان کیا جو اس تحریک کے ضمن میں تشکیل شدہ متحدہ طلباء محاذ کی طے شدہ پالیسی کے خلاف تھا، جس کے تحت اس تحریک کے لیے کسی بھی سیاسی لیڈر کو تعلیمی اداروں میں دعوت نہیں دی جائے گی اور تعلیمی اداروں کے اندر ججز بحالی تحریک کے حوالے سے تمام تر احتجاجی کاروائیاں طلبہ خود ہی انجام دیں گے۔ جمعیت نے طے شدہ پالیسی کے تحت خان صاحب کو آنے سے منع کیا، لیکن خان صاحب سستی شہرت کے حصول پر تلے ہوئے تھے، انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں قدم رنجہ فرمایا اور جمعیت نے اس کی مزاحمت کی۔ اس دوران خان صاحب نے اپنی خان صاحبی کے ہاتھوں مجبور ہو کر دست درازی کی اور جواب میں بھی خاصے ناخوشگوار واقعات پیش آئے۔ خان صاحب کی شاید پہلی (اور ابھی تک آخری) گرفتاری وہیں سے ہوئی۔ جمعیت کے پرانے حریفوں نے میڈیا کے خلاف میڈیا میں طوفان برپا کر دیا۔ جمعیت والے چیختے چلاتے رہ گئے کہ جناب عمران خان صاحب طلباء تنظیموں (جن میں انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن بھی شامل تھی) کے باہمی رضامندی سے ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں، لیکن اس بات کو بالکل ہی پس پشت ڈال دیا گیا اور توپوں کا رخ اس طرف مڑ گیا کہ جمعیت والوں نے خان صاحب ہاتھ کیوں لگایا۔ جماعتِ اسلامی کی لیڈرشپ نے بھی باقی باتوں کو پس پشت ڈال کر اس بات کا انتہائی برا منایا۔ قاضی حسین احمد اسی شام جماعت کی دوسرے کئی لیڈروں کی معیت میں عمران خان کے گھر چلے گئے اور اس واقعے پر معذرت کی۔ ناظم اعلٰی جمعیت نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔ جمعیت کے اندرونی احتساب کے نظام کے تحت پنجاب یونیورسٹی جمعیت کے بہت سارے ذمہ داران کی چھٹی ہوئی۔ ان میں سے ایک حافظ فرحت بھی تھا۔ جو اس احتساب کے تحت فارغ کیا گیا اور وہ ردعمل میں تحریکِ انصاف میں شامل ہوا اور پچھلے الیکشن میں ایم پی اے کی ٹکٹ بھی حاصل کی۔ شنید یہی ہے کہ موصوف وہی شخص تھا جس نے عمران خان پر دست درازی کی تھی۔ جماعت اور جمعیت مختلف الزامات کے تحت نکالے گئے افراد کو بھی تحریکِ انصاف میں ہی پناہ ملی ہے۔ بہرحال یہ خان صاحب کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ اپنی ٹیم میں دوسری جماعتوں سے مختلف الزامات کے تحت فارغ کیے گئے افراد کو شامل کرتے ہیں یا کچھ اور کرتے ہیں۔
دوسرا واقعہ حال ہی میں پیش آیا۔ عمران خان صاحب نے ڈان نیوز کی ایک جھوٹی خبر (جس پر ڈان نے معذرت بھی کی) پر سراج الحق پر چڑھ دوڑے اور بغیر کسی تحقیق کے تنقید کا نشانہ بنایا۔ خان صاحب نے کہا کہ "سراج الحق وکٹ کے دونوں طرف سے کھیلنا بند کریں" ۔اس تنقید کے بعد تحریک انصاف کے پیجز سے انصافی کارکنوں کی توپیں جماعت اسلامی اور سراج الحق کے خلاف گندگی اور غلاظت کا سونامی اگلنے لگیں۔ اس غلاظت کے سونامی نے جو جو کچھ کہا وہ نقل تو نہیں کیا جا سکتا لیکن پھر بھی حوالے کے لیے بیان کیے دیتا ہوں۔۔۔ جماعتِ اسلامی کو جماعتِ حرامی، جماعت المنافقین اور امیرِ جماعتِ اسلامی کو امیرالمنافقین اور پتہ نہیں کیا کیا کہا گیا۔
ڈان نیوز کی یکم نومبر 2014 کو چھپنے والی معذرت |
جماعت والوں نے بھی جس قدر ہو سکتا تھا اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے انہیں جواب دیا۔ اور عمران خان سے خود معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ عمران خان کی تقریر پر سراج صاحب اور جماعت کی لیڈرشپ نے انتہائی شستہ اور چست انداز میں تبصرے کیے اور تنازعہ کو بڑھانے کی بجائے غلط فہمی کو رفع کرنے پر زور دیا، سراج صاحب نے فرمایا کہ میں کرکٹ کھیلتا ہی نہیں، میں فٹ بال کا کھلاڑی ہوں اور ایک ہی طرف سے کھیلتا ہوں۔ لیاقت بلوچ نے بھی کہا کہ کپتان بہت زیادہ بالز کرانے کی وجہ سے نو بال کروا بیٹھا ہے، جواب میں ہم فری ہٹ کا حق رکھتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کا بیان |
شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک نے فون کر وضاحت پیش کی |
عمران خان کی معذرت پر نیوزٹرائب کی خبر |
عمران خان صاحب نے اس سارے واقعے پر ٹیلی فون کر کے معذرت کی۔ اس سے پہلے شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک ٹیلی فون کر کے معذرت کر چکے تھے۔ خان صاحب نے معذرت تو کی ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ تحریکِ انصاف والے اور جماعت کے کارکن یک جان دو قالب ہیں۔
عمران خان جماعت اسلامی اور اپنے کارکنوں کو یک جان دو قالب سمجھتے ہیں۔ |
جماعت والے تو ایسی باتوں پر ہنس پڑتے ہیں۔ ابھی انہیں پرانے کزن کے حالات اچھی طرح یاد ہیں۔ لیکن شرمندگی کا مقام تحریکِ انصاف کے کارکنوں کے لیے ہے کہ انہیں ان کے ہی لیڈر کی طرف سے "جماعتِ المنافقین"، اور "جماعتِ حرامی" کے کارکنوں کے ساتھ "یک جان دو قالب" قرار دے دیا گیا ہے۔ اور ان کا پاک صاف لیڈر "امیرالمنافقین" سے معافی مانگنے پر مجبور ہو چکا ہے۔
امید ہے کہ تحریکِ انصاف کے کارکنان آئندہ سے اپنے اخلاق کو کچھ بہتر کر لیں گے اور مہذب انداز میں تنقید کرنا بھی سیکھ لیں گے، اور عمران خان صاحب اپنے اتحادیوں کے ضمن میں "نوازشریفی" ہتھکنڈے چھوڑ دیں گے۔
ختم شد
No comments :
Post a Comment