Tuesday, December 24, 2013

جماعت اسلامی پنجاب کا المیہ - جناب زاہد مصطفیٰ کے قلم سے



2013 کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی پورے ملک میں اور خاص طور پر پنجاب میں بدترین شکست اس کارکنان کے لیے  المیہ اور پارٹی کیلئے حادثہ سے کم نہیں . شاید جماعت اسلامی پنجاب کی تاریخ میں اس سے بدترین شکست شاید ہی ہو۔
انتخابات میں اتنی بری کارکردگی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جماعت اسلامی پنجاب کے امیر ڈاکٹر سید وسیم اختر صاحب  اپنی پوری ٹیم کے ساتھ مستعفی ہوجاتے اور جماعت کے کی شوریٰ اور اراکین کو موقع دیتے کہ وہ پنجاب کیلیے نئی قیادت سامنے لائیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور نہ ہی جماعت کی پنجاب قیادت سے کوئی معمولی سا اظھارِ افسوس سامنے آسکا. سیاست کا ایک ادنیٰ  سا طالبعلم بھی جانتا ہے کہ پاکستان میں مرکزی سیاست ، حکومت اور اقتدار کا راستہ بہرحال پنجاب سے گزر کر  جاتا ہے  اور جب تک پنجاب کو حصوں میں تقسیم نہیں کیا جاتا اس وقت تک بہرحال یہ حقیقت مسلمہ ہے۔  اور اس  بات کو پنجاب میں تحریک انصاف اور نون لیگ کی الیکشن سے پہلے اور بعد کی سیاسی لڑائی سے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ دونوں پارٹیوں نے پنجاب کو ہی سیاسی جنگ کا مرکز بنایا ہوا ہے . سوال پھر یہاں ابھرتا ہے کہ جماعت اسلامی پنجاب نے الیکشن کیلیے کتنی بھرپور تیاری کی اور الیکشن کے بعد پنجاب جماعت اپنی بدترین شکست کا کتنا تجزیہ کیا اور اگر کیا بھی ہے تو اس کے کے نتائج ابھی تک عوام اور کارکنان کے سامنے کیوں نہیں اسکے 
آکے اپنے اس تجزیے میں کچھ نکات سامنے لانا چاہتا ہوں جو شاید ہم سب جانتے ہیں لیکن جماعت کے نظام کی وجہ سے عام لوگوں میں زیرِ بحث نہیں آتے ۔

پہلا نقطہ جس پر سیاسی تجزیہ کار متفق ہیں کہ موجودہ الیکشن میں پاکستان جماعت کی طرح پنجاب جماعت بھی صوبہ میں اپنا سیاسی دشمن تخلیق ہی نہیں کرسکی . الیکشن کے آخری لمحوں تک نون لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان کس کی طرف جانا ہے یا بقول منور صاحب کے بات دونوں پارٹیوں کی طرف سے آگے نہیں بڑھ سکی تو پھر بروقت الیکشن میں اکیلے جانے کا فیصلہ کیوں نہ ہوسکا۔  کیا ایک پرانی اور ملکی سطح  کی پارٹی سے ایسی امید کی جاسکتی تھی .  الیکشن کے اس سارے منظر نامے میں پنجاب جماعت بری طرح ناکام رہی اور افسوس ناک حد تک کم تعداد میں ووٹ لیے۔ 

دوسری وجہ جو میرے نزدیک بہت اہمیت کی حامل  ہے کہ پچھلے سالوں میں  ضلعی قیادت جو پورے صوبے میں آئی ہے وہ پھر وہی پرانے اور بزرگ چہرے ہیں .  لاہور ، ملتان، مظفرگڑھ اس کی چند مثالیں ہیں دوسری طرف ملکی سیاسی منظر نامے میں دیکھیں تو جب پاکستان کی ساری اہم سیاسی جماعتیں نوجوان قیادت اور تازہ و جوان  چہروں کو سامنے لارہی ہیں وہاں پنجاب جماعت کا المیہ یہ ہے کہ وہ پھر انہی پرانے چہروں پر تکیہ کرہی ہے جو پہلے ہی آزماۓ ہوئے ہیں . کاش پنجاب جماعت کم از کم کراچی   جماعت سے کچھ سیکھ سکتی جس نے جہاں قیادت کیلیے بروقت فیصلے کیے وہیں پر جارحانہ سیاسی پالیسیوں کے ذریے آگے بڑھ رہی ہے . اور کیا پنجاب جماعت اتنا بھی رسک نہیں لے سکتی کہ کم از کم جماعت اسلامی لاہور کی قیادت ہی کسی نوجوان کے سپرد کردی جائے اور خالصتاً سیاسی ایجنڈے پر کام کرے اور اس کو آگے بڑھائے لیکن دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پنجاب کی قیادت، نوجوان قیادت کو آگے لانے کیلئے نہ ہی سنجیدہ ہے اور نہ ہی اس سمت کوئی قدم بڑھا رہی ہے . 

اور آخری نقطہ ڈاکٹر وسیم صاحب کیلئے ہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب پنجاب کے امیر تو بن گئے ہیں لیکن ابھی تک اپنے آپ کو بہاولپور کی سیاست سے صوبے کی سیاست پر لا ہی نہیں سکے اور پورے صوبے میں اپنی قیادت کے کوئی نقوش نہیں چھوڑ سکے ہیں صوبائی اسسمبلی کی ایک سیٹ اور اس کے ارد گرد پنجاب جماعت کی سیاست اور پالیسیاں جماعت کیلیے کتنی فائدہ مند ثابت ہورہی ہیں یہ پنجاب میں جماعت کے حالات سے سب کے سامنے ہے  

 میری راۓ کے مطابق جماعت اسلامی پنجاب کو آج ایک متحرک ، تخلیقی سوچ رکھنے والی،  نوجوان اور جدید خیالات رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے جو جماعت کو عام لوگوں کی سوچ کے قریب لا سکے اور موجودہ زمانے کی ضرورتوں اور سیاسی حالات و واقعات کے ساتھ بروقت ہم آہنگ کرسکے۔

----------------

جناب زاہد مصطفیٰ یہاں ملیں گے۔

1 comment :

  1. jamat sirf siasi jaamt to nahi k election ki shikst per istefa liay jaiy.ya diay jaiy..aolbata shikst ki ye wojhat ho gi jo ap nay biyan ki..per is say barh ker election basr honay ka naam hai..log basr shksiat ko vote datain hain chaiy wo in k kam k hoon ya nahi

    ReplyDelete

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...