Wednesday, March 5, 2014

خرم مراد میموریل لیکچر 2014 - چند تاثرات - عمران زاہد کے قلم سے



جناب خرم مراد مرحوم جو جماعتِ اسلامی پاکستان کے ایک نمایاں راہنما تھے۔ زمانہ طالبعلمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظمِ اعلٰی رہے اور اپنی قران فہمی کے لیے بہت جانے پہچانے جاتے تھے۔ جماعتِ اسلامی میں فکرِ تازہ کا ایک استعارہ تھے۔ لیکن خدا نے ان کو مہلت نہ دی کہ وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا سکتے۔ اُن کی وفات بلا شبہ تحریکِ اسلامی کے لیے بھاری نقصان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُن کی وفات کے بعد، 2008 سے "خرم مراد میموریل لیکچر" کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ہر سال کسی نہ کسی سکالر کو بلایا جاتا ہے اور اسلام اور اسلامی تحریکات، موجودہ دور کے چیلنجز اور متعلقہ موضوعات پر عالمانہ خطبہ پیش کیا جاتا ہے۔  

اس سلسلے کے پہلے لیکچر میں ڈاکٹر سعید رمضان تشریف لائے تھے۔ اگلے سال ڈاکٹر عمر چھاپرا تشریف لائے۔ اس سال ڈاکٹر احمد مراد ،جو کہ خرم مراد صاحب کے بڑے صاحبزادے بھی ہیں، امریکہ سے تشریف لائے اور انہوں نے "قران کے پیغامِ انقلاب" پر لیکچر دیا۔ یہ تحریر اس تقریب کے بارے میں میرے مجموعی تاثر پر مبنی ہے۔ اس میں لیکچر کی تفصیلات شامل نہیں کی گئیں۔

ڈاکٹر احمد مراد کا لیکچر بہت جامع انداز میں قران کے پیغامِ انقلاب کا خُلاصہ تھا۔  انہوں نے قران میں سے بہت سی آیات سے استدلال کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تاریخ سے مثالیں بھی پیش کیں۔ امام ابو حنیفہ رح کا بھی تذکرہ کیا۔ ان کے کام کا خلاصہ بیان فرمایا۔  خاصا علمی لیکچر تھا۔ علمی لیکچر سے مراد یہ ہے کہ نہ تو پروفیشنل مقررین کی طرح گھن گرج تھی، نہ ہی ہاتھ ہلا ہلا کے اور جسم کی حرکات سے سامعین کو متاثر کرنے کی کوشش تھی۔ بلکہ ٹھنڈے میٹھے انداز میں رواں دواں انداز میں گفتگو تھی۔ اور اس ساری گفتگو پہ ایک عالمانہ وقار اور تحمل حاوی تھا۔   ڈاکٹر احمد نے اپنی تقریر کے آغاز میں ہی یہ بتا دیا تھا کہ وہ پبلک سپیکر نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اپنے لیے یا اپنے متعلقین اتنی توجہ کے عادی  یا خواہش مند ہیں۔

آخر میں سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔ کافی اچھے سوال پیش کیے گئے۔ایم فل/پی ایچ ڈی سکالرز، مہمانان گرامی اور پروفیسر حضرات کے سوال خاصے عملی اور فلسفیانہ پہلو لیے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر احمد نے انتہائی تحمل اور خوبصورتی سے ان کے جوابات دیے۔  مجھے ان کی جو بات بہت اچھی لگی وہ یہ کہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اچانک مسجد سے عصر کی اذان ہونا شروع گئی۔ ڈاکٹر احمد وہیں پہ چپ ہو گئے اور اذان ختم ہونے کے بعد اپنی بات شروع کی۔ اذان کا یہ احترام مجھے بہت اچھا لگا۔ بزرگوں سے یہ سنا ہے کہ اذان کے دوران باتیں کرنے اور اذان کا احترام نہ کرنے سے مرتے وقت کلمہ نصیب نہیں ہوتا۔ میں خود بھی اس عمل کی کوشش کرتا ہوں کہ اذان کے دوران بات چیت ختم کر کے صرف اذان سنی جائے۔

جہاں علمی سوالات ہوئے وہاں ایک سوال موقعہ کی مناسبت سے ہٹ کے تھا ۔۔ وہ یہ تھا کہ قران میں اماں حوا کا تذکرہ کتنی دفعہ ہوا ہے۔ اب یہ سوال ایسا تھا کہ بڑے سے بڑا عالم بھی بھول چوک کا شکار ہو سکتا ہے۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر احمد اس سوال کا جواب دینے سے معذرت کر لیں گے لیکن ڈاکٹر احمد نے رواں دواں جواب دیا کہ "ایک دفعہ بھی نہیں"۔ اس پر سوال کنندہ نے خود ہی مزید وضاحت کر دی کہ قران میں صرف ایک خاتون کا نام لے کے ذکر ہوا ہے اور وہ ہے حضرت مریم علیہا السلام کا۔ ایک صاحب نے قران و حدیث اور ان کے تقابل پر تبصرہ نما سوال کیا لیکن وہ سوال کو زیادہ واضح نہ کر سکے جس پر ڈاکٹر احمد نے ڈاکٹر حسن سے مدد لی کہ سوال کنندہ کیا پوچھنا چاہ رہا ہے۔ اس کے بعد جو مفہوم قرین قیاس لگا اس کے مطابق بہت اچھا جواب دیا۔ 

اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ اس تقریب کی نظامت ڈاکٹر حسن صہیب مراد کی صاحبزادی مریم مراد نے کی۔ اور سچ تو یہ ہے حق ادا کر دیا۔ اس علمی خانوادے کی سچی وارث ہونے کا ثبوت دیا۔ 


لیکچر سے پہلے ڈاکٹر حسن صہیب مراد نے بیٹا ہونے کی حیثیت سے خرم مراد مرحوم کا تذکرہ کیا اور ان کی یادیں شئیر کیں۔ جو چیز مجھے سب سے زیادہ پسند آئی اور جس چیز نے مجھے عمل کے لیے بہت زیادہ اُبھارا وہ یہ تھی کہ خرم مراد صاحب۔۔ ساری زندگی ہر حالت میں رات کی عبادت کے پابند تھے اور کئی کئی گھنٹے اللہ تعالٰی سے مناجات اور آہ و زاری میں گزارتے تھے۔ بلاشبہ یہ عمل ایسا ہے کہ جسے ہر مسلمان کو اپنانا چاہیئے۔ حسن صاحب نے جو الفاظ استعمال کیے تھے وہ یہ ہیں کہ وہ راتوں کو جاگ کر اللہ تعالٰی سے کئی کئی گھنٹے"گفتگو" کرتے تھے اور تنہا وقت بِتانا پسند کرتے تھے (ترجمہ کر رہا ہوں) ۔۔۔ یہ تجربہ ہم سب میں سے کئیوں کو ہوا ہو گا کہ بعض اوقات دعا کرتے وقت ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے ہم اللہ تعالٰی سے گفتگو کر رہے ہیں اور اپنے دل کے سارے دکھڑے اس سے سانجھے کر رہے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جو نماز میں مطلوب ہے کہ نماز ایسے پڑھی جائے گویا ہم اللہ کو دیکھ رہے ہیں یا کم از کم یہ احساس ہو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ مجھے خرم مراد صاحب کے اس عمل سے بہت زیادہ تحریک ملی ہے۔

دوسری جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ خرم صاحب کا نہ صرف اپنے دن کا تلاوتِ قران سے آغاز بلکہ بچوں کو بھی سکول جانے سے پہلے تلاوتِ قران کی عادت ڈالنا ہے۔ مجھے اپنی حد تک یاد ہے کہ ہم خود سکول جانے سے پہلے مسجد میں قران پڑھنے جایا کرتے تھے لیکن آج کل بچوں کو اس چیز کی عادت ڈالنا خاصا مشکل کام ہے۔ میں نے یہی عزم کیا کہ میں بھی اس طرز کو اپنے گھر میں رواج دوں۔ 

خرم صاحب کے بارے میں حسن صاحب نے ایک اور بات شئیر کی کہ وہ پابندیءِ وقت کے بہت زیادہ قائل تھے۔ بات طے کر کے پورا کرتے تھے۔ جس سے جو کمٹمنٹ کر لیتے اس کو پورا کر کے چھوڑتے۔ یہ چیز بھِی آج کل خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔ نہ صرف خال خال دکھائی دیتی ہیں بلکہ ایسا کرنے والے کو لوگ بیوقوف سمجھتے ہیں۔ جھوٹ، مکاری اور دغابازی معاشرے کے لیے قابلِ قبول اقدار بنتی جا رہی ہیں۔

آخری بات جس نے مجھے ازحد متاثر کیا وہ ڈاکٹر حسن مراد کا یہ کہنا تھا کہ خرم مراد تنہائی میں بھی ویسے ہی تھے، جیسے کہ باہر تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ انسان باہر نکلتے ہوئے اپنے اوپر خول چڑھا سکتا ہے۔ میک اپ سے اپنا آپ بدل سکتا ہے۔ لیکن گھر والوں کے سامنے وہ کچھ نہیں چھپا پاتا۔ ڈاکٹر حسن نے کہا کہ وہ ایک بیٹے ہونے کی حیثیت سے یہ گواہی دیتے ہیں کہ خرم مراد مرحوم تنہائی میں بھی ویسے ہی تھے جیسے مجلس میں ہوتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خرم مراد  مرحوم "اللہ کے نوکر (Servant of Allah)" تھے۔ اللہ کے دین کی سرفرازی کے لیے ہر دم کوشاں تھے۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خرم مراد مرحوم کو اپنی بیش بہا جنتوں میں جگہ عطا فرمائے۔ ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔ ان کی اولاد، پیروکاروں اور ساتھیوں کو سیدھے راستے پر گامزن فرمائے۔ آمین۔ ثم آمین۔

4 comments :

  1. سعید رمضان صاحب 1994 میں انتقال فرما گئے تھے.ممکن ہے ان کے صاحبزادے ڈاکٹر طارق رمضان لیکچر کے لئے تشریف لائے ہوں.
    شکریہ

    ReplyDelete
  2. سعید رمضان کا انتقال ۱۹۹۵ میں ہوا....تصحیح

    ReplyDelete
  3. سعید رمضان کا انتقال ۱۹۹۵ میں ہوا....تصحیح

    ReplyDelete

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...