Thursday, May 15, 2014

سونے کے دل والا آدمی - عمران زاہد کے قلم سے


ایک ایسا شخص جس کا دل سونے کا ہے۔ خالص سونے کا۔ 
اسے کسی کی تکلیف کا پتہ چلتا ہے تو وہ تڑپ اٹھتا ہے۔ جو بن پڑتا ہے وہ کر گزرتا ہے۔ سب سے پہلے اپنی جیب میں جو ہوتا ہے نکال کے سامنے رکھ لیتا ہے اس کے بعد وہ اپنے دوستوں، عزیزوں، شاگردوں کو کہتا ہے کہ بھئی فلاں مصیبت زدہ کی مدد کرنی ہے۔ اللہ تعالٰی نے ایسی تاثیر دی ہے کہ پل بھر میں رقم جمع ہو جاتی ہے۔ ایک شخص کا آپریشن ہونا تھا، چالیس ہزار کی رقم چاہیئے تھی۔ ایک دوست نے سوشل میڈیا پہ اس مریض کی ضرورت کے بارے میں شئیر کیا تو چند لمحوں میں ہی ایک بیرون ملک پرانے شاگرد نے پیسے بھجوا دیے۔ مون مارکیٹ میں دھماکہ ہوا تو نادار زخمیوں کے علاج معالجے کی ذمہ داری سنبھالی۔ ہوپ والوں سے مصنوعی اعضاء کا بندوبست کروایا۔



بے شمار غریب و نادار خواتین کو جدید سلائی مشینیں خریدوا کے دیں۔ اُ ن کی جدید ڈیزائنوں کے بارے راہنمائی کی اور اپنی نگرانی میں ان سے اچھے سے اچھا کام کروایا۔ ان کے کام کو اپنے دوستوں کے نیٹ ورک سے مارکیٹ بھی کروایا اور بیرون ملک تک بھجوایا۔ کورئیر کا خرچ بچانے کے لیے باہر جاتے ہوئے اپنے دوست احباب کے ساتھ اس سامان کو بھجوا دیا کہ غریب خواتین کا منافع کچھ بڑھ جائے۔ اور تو اور ان کی مشینوں میں خرابی پیدا ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو ذاتی دلچسپی لے کے ان کے مسائل کو حل کروایا۔ وہ نادار خواتین اب برسرروزگار ایک باوقار زندگی گزار رہی ہیں۔

سیلاب آیا تو دور دراز کے علاقوں میں گر جانے والے مکانوں کے لیے فنڈ ریزنگ شروع کر دی۔ نقشے بنوائے۔ اپنے شاگردوں کی نگرانی میں مکان بنوا کے دیے۔ بے گھر لوگوں کو ان میں بسایا۔ لوگوں کا یقین و اعتبار اتنا کہ لوگ آنکھیں بند کر کے پیسے پھینک جاتے۔ حساب کتاب اتنا سخت کے ان پیسوں میں سے ایک چونی بھی اپنی ذات پہ نہ لگتی۔

بے شمار ضرورت مند طلباء کی فیس ادا کرنا تو گویا معمول کی بات ہے۔ 

بے نفسی اتنی کہ اپنے کام کی تشہیر کو بزور روک دیں گے۔ تشہیر، نام و نمود، حبِ جاہ، فخر و غرور ان کے پاس سے بھی نہیں گزرے۔ کوئی شخص دیکھے تو ایک عام سا آدمی سمجھ کے دوسری دفعہ دیکھنا گوارا نہ کرے۔ 

صرف یہ ہی چند واقعات نہیں ہیں۔ بے شمار واقعات ہیں۔ لکھنا شروع کروں تو ایک کتاب بن جائے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں ان کو جانتا ہوں، ان کو دیکھتا ہوں، ان سے بات کرنے کا اعزاز رکھتا ہوں۔ 

یہ وہ لوگ ہیں جو زندہ ہیں، جو زندگی کو گزار رہے ہیں۔ باقی جو ہم جیسے ہیں وہ زندگی کے نام پہ ایک تہمت ہیں اور زندگی انہیں گزار رہی ہے۔

جب وہ اپنا نام نمایاں نہیں کرتے تو میں بھی ان کا نام نہیں بتاؤں گا۔ لیکن اتنا اشارہ ضرور دوں گا کہ ان کا اور یو ایم ٹی کا گہرا تعلق ہے۔

اللہ انہیں خوش و خرم رکھے اور ان کے تمام مسائل حل فرمائے اور ان کو ان کی نیکیوں کا بہترین اجر عطا فرمائے آمین۔ ثم آمین۔

No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...