Monday, June 16, 2014

بجٹ والی مائی - عمران زاہد کے قلم سے


کچھ عرصہ ہوا کہ ہمارے اکاؤنٹس کے افسرِ اعلیٰ جناب ساجد صاحب سے بات چیت ہو رہی تھی۔ فرمانے لگے کہ ان کی فیلڈ میں  اس اکاؤنٹنٹ کو نااہل مانا جاتا ہے جو کھاتوں میں منافع دکھائے۔ خسارہ دکھانے والا اکاؤنٹنت ہی با صلاحیت مانا جاتا ہے۔ نہ تو ہمیں اکاؤنٹینسی کے شعبے سے کچھ لینا دینا ہے اور ظاہر ہے یہ ان کا پیشہ ہے اور وہ اس کے حسن و قبح کو ہم سے بہت بہتر جانتے ہیں، لہٰذا ہم نہ ہی ان کے اس خسارے والے اصول پہ علمی بحث کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں ان کی یہ بات اس وقت شدت سے یاد آئی جب ہمیں وفاقی و صوبائی وزراء خزانہ کے خسارے والے بجٹ سننے کو ملے۔


ہم نوکری پیشہ شخص کی حیثیت سے ہمیشہ اپنا بجٹ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر ہر مد کے لیے کچھ نہ کچھ رقم مختص کرتے ہیں، لیکن پھر بھی ہمیشہ کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے۔ مہینے کے درمیان میں ضرور کوئی نہ کوئی سرپرائز ہمارا منتظر ہوتا ہے۔ اب تو ہم نے اس سرپرائز کے لیے بھی رقم مختص کرنا شروع کر دی ہے۔ لیکن بات پھر بھی نہیں بنتی۔

ایک چیز سمجھ میں نہیں آتی کہ اچھے بھلے لباس کے ہوتے ہوئے، ہر شادی کے موقعہ پر خواتین اور بچوں کو نئے لباس کی کیا ضرورت پڑ جاتی ہے، ۔ اور وہ بھی ایک ایک نہیں، کم از کم تین تین چار چار۔ ہر تقریب کے لیے ایک نیا لباس چاہیئے۔ اگر آپ کی ایک عدد بیگم اور تین عدد بچے ہوں تو آپ خود حساب کر لیں کہ کتنے جوڑے بنتے ہیں۔ اگر فی سوٹ بہت بچت کی جائے اور سب کا ایوریج لیا جائے تو پھر بھی پچیس سو دو ہزار کے لگ بھگ تو ایک سوٹ پڑتا ہے۔ بارہ سوٹوں کا خرچ آپ خود نکال لیں۔

ہم بچپن سے دو ہی موسم سنتے آئے ہیں اور ہمارے کپڑے انہی موسموں کے لیے بنائے جاتے رہے ہیں۔ یعنی سردیوں کے کپڑے اور گرمیوں کے کپڑے۔ لیکن شادی کے بعد ہماری معلومت میں اضافہ ہوا کہ موسم دو نہیں چار ہوتے ہیں۔ گرمی ، سردی اور دو موسم جنہیں "مکس موسم" کا نام دیا جاتا ہے۔ چلیں ان موسموں سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں، لیکن ہر موسم کے لیے الگ الگ جوڑا (بلکہ جوڑے) بنانا لازم ہے۔ نہ صرف اپنے، بلکہ بچوں کے بھی۔ اب یہ ایک الگ سے مد ہے جس پہ ہر سہ ماہی میں آپ نے کچھ نہ کچھ خرچ کرنا ہی ہے۔ بچوں کا اس لیے اہم ہو جاتا ہے کہ ماشاءاللہ سب کے سب بڑے ہوتے جاتے ہیں اور ان کے کپڑے تنگ پڑتے جاتے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ والد محترم کی تنخواہ خاندان کے سائز اور ضروریات کے لحاظ سے کافی کم ہوتی تھی۔ کہنے کو ابو جی ڈائریکٹر، ایس ای، چیف اور حتٰی کہ سی ای او (لیسکو) بھی رہے ہیں لیکن تنخواہ ان کی محدود ہی رہی ہے۔ انہوں نے نوجوانی سے ہی قسم کھا رکھی تھی کہ وہ رزقِ حلال کے علاوہ کوئی لقمہ اپنے گھر والوں کو نہیں کھلائیں گے۔ ان حالات میں والدہ محترمہ نے ہمیں اپنے ہاتھوں سے کپڑے سی سی کے پہنائے۔ ویگن یا رکشے پہ بیٹھ کے وہ فیصل آباد کی ارشد کلاتھ مارکیٹ چلی جاتیں اور تھوک کی قیمت پر سستا کپڑا خرید کر ہم سب کے لیے لباس سیتیں۔ لنڈے سے جرسیاں خرید کے لے آتیں اور اس کی اون کو ادھیڑ کر ہمارے لیے اور والدِ محترم کے لیے جرسیاں، سویٹر اور ٹوپیاں بناتیں۔ سردیوں میں ہم بچوں کا ایک شغل ان لندن پلٹ جرسیوں کو ادھیڑ کر گولا بنانا بھی ہوتا تھا۔ والدہ سادہ کپڑا خرید خود ہی بستر، تکیے اور رضائیاں بناتی تھیں۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہم کوئی چیز ریڈی میڈ لیں گے۔ یونیورسٹی تک میں  اور سارے بہن بھائی امی کے ہاتھ کے سلے ہوئے کپڑے ہی پہنتے رہے ہیں۔

لیکن آج کی خواتین گھر میں سلائی کرنا بیگار جانتی  ہیں۔ جب ہر چیز ریڈی میڈ لی جائے گی یا درزی میڈ ہو گی تو صاف ظاہر ہے خرچ تو بڑھے گا ہی۔ اب کہاں سے لائیں وہ بیس سال پہلے والا سادہ طرزِ زندگی۔

بچپن کی ایک اور بات مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم ہمیشہ گھر کا پکا کھانا کھاتے تھے۔ صبح صبح پراٹھا ضرور ملتا تھا۔ ڈبل روٹی تو کوئی کھاتا ہی نہیں تھا۔ ڈبل روٹی تب کبھی گھر میں آتی تھی جب کوئی بیمار ہوتا تھا اور اس کو "نرم غذا" دینا مقصود ہوتا تھا۔ مجھے لاہور میں آ کر پتہ چلا کہ اندرونِ لاہور کے باسی ناشتہ دکان سے خرید کے کرتے ہیں تو میں کئی دن اس پر یقین نہ کر پایا۔ ایک طرح کے کلچرل شاک والی کیفیت ہی تھی۔ اب یہ کیفیت ہے کہ صبح کا ناشتہ مشتمل ہی ڈبل روٹی پہ ہوتا ہے۔ کیا بچے کیا بڑے سب یہی ناشتہ کر رہے ہیں۔ بیگم صاحبہ کے سامنے دنیا جہاں کی میڈیکل ریسرچ رکھ دیں کہ صبح صبح ایک بھرپور ناشتہ صحت مند زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ لیکن وہ ساری ریسرچیں بیگماتی سائینس کے آگے دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ اُن کی سائینس کے آگے دنیا جہاں کے افلاطون بھی پانی بھرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ ہر مہینے کسی نہ کسی ریسٹورنٹ میں مہنگا کھانا نہ کھائیں تو گویا کوئی کمی رہ جاتی ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ بڑے ریسٹورنٹ کی نسبت کسی تنور والے کے ہاں تازہ تازہ روٹی کسی بھی سالن کے ساتھ کھانا زیادہ مزیدار اور ہائی جینک ہے۔

میں اس مضمون کو بیگم کے خلاف شکایت نامہ نہیں بنانا چاہتا کیونکہ آپ کی طرح میں بھی ایک شریف خاوند ہوں۔ لیکن کیا کہیے بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر والی بات ہے۔ ایک بہت بڑی بیماری کارپٹ، پردے وغیرہ بھی ہیں۔ کمرے میں تو کارپٹ بہت ضروری ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ کارپٹ لاتعداد بیماریوں کا سبب ہے۔ لیکن جی نہیں، کمرہ اس کے بغیر بھلا نہیں لگتا۔ اب کارپٹ سے نجات چاہیئے تو سارے کمرے میں ٹائلیں لگوائیے ورنہ کارپٹ تو بچھے گا ہی۔ اب یہ بات کون سمجھے کہ ایک کمرے میں ٹائلیں لگوانا کوئی اتنا آسان تھوڑا ہی ہے۔ یہ تو سارے گھرمیں ٹائلیں لگیں تو بات بنے۔ لیکن ان کارپٹوں کے جہاں اور بہت نقصان وہاں ایک نقصان یہ بھی کہ گرمی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اب گرمی ختم کرنے کے لیے اے سی چلاؤ یا کچھ اور کرو۔۔۔ کہ اس کے بغیر گھر قابلِ رہائش نہیں بنتا۔

جب تک شادی نہیں ہوئی، بلکہ شادی کے بعد بھی کافی عرصہ تک ہم نے گھر میں اے سی نہیں لگوایا تھا۔ گرمیوں میں چھت پہ یا صحن میں سوتے۔ ٹھنڈی کرنے والی واحد مشین کولر ہوتی تھی۔ ورنہ پنکھے سے ہی کام چل جاتا تھا۔ تب نہ جانے  کیوں، اتنی گرمی لگتی بھی نہیں تھی۔ جون جولائی کے روزوں میں ساری نمازیں مسجد میں پڑھتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ تولیہ گیلا کر کے سر پر رکھ لیا کرتے تھے۔ سکول کے  زمانے میں گرمیوں میں سر منڈوانا عام تھا۔ صاف شفاف سر پر جب ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پڑتا تو اس کی تاثیر پاؤں تک جاتی۔ گرمیوں میں تخمِ ملنگاں، شربتِ بادام، اور نہ جانے کیا کیا بنتا اور پیاس مٹاتا۔ لسی، خاص طور پر گرمی کا توڑ ہوتی تھی۔ لیکن آج یہ ساری چیزیں قصہ پارینہ ہو کر رہ گئیں ہیں۔

سر منڈوانے سے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ غلام مرتضیٰ بودلہ جمعیت گورنمنٹ کالج ساہیوال کے روحِ رواں تھے۔ ماشاءاللہ کھلی ڈلی طبعیت اور دوستانہ مزاج رکھتے تھے۔ حلقہ احباب وسیع ہی نہیں بہت وسیع تھا جس میں طلباء اور غیر طلباء سب شامل تھے۔ موصوف ہوسٹل کے بادشاہ تھے۔ ایک دفعہ رمضان میں انہوں نے حجام ہاسٹل بلوایا اور ہاسٹل کے صحن میں بیٹھ اپنے سر کو بالوں کے بوجھ سے آزاد کر دیا۔  اپنے ساتھ اپنی کابینہ کا بھی سر ہلکا کروایا۔ اس کے بعد جو بھی ان کے ہتھے چڑھتا، اس کی ٹنڈ کروا دیتے۔ جس کی ٹنڈ ہو جاتی وہ بھی ان کی منڈلی کا حصہ بن کے نئے شکار کی تلاش میں ساتھ ہو لیتا۔ ہوتے ہوتے پیتیس چالیس افراد اپنا ننگا گنج لے ساہیوال میں گھومتے پھرتے رہے۔ بعد میں سب نے اجتماعی افطاری بھی کی۔ ساہیوال کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ تھا۔ آج کل پتہ نہیں کہاں ہوتے ہیں۔ اللہ کرے جہاں بھی ہوں، خیریت سے ہوں۔

ہم وہ احمق قوم ہیں جو دوسروں کا منہ لال دیکھ کر چپیڑوں سے اپنا منہ بھی لال کر لیتے ہیں۔ کسی بھی اہم میٹنگ میں یا کانفرنس میں جب تک آپ کوٹ پینٹ پہن کے نہیں جائیں گے آپ کو مہذب تسلیم نہیں کیا جائے گا، چاہے جون جولائی کا موسم ہی کیوں نہ ہو۔ بڑوں بڑوں کو پسینوں میں بھیگتے ہوئے دیکھا ہے لیکن جناب کوٹ کی جان کو چمٹے رہیں گے۔ کسی اور کی کیا بات کریں، ہم خود بھی اس خوامخواہ کی سزا کو بھگت چکے ہیں۔ ہم پہ تو سادہ کپڑے بھی بھاری ہوتے ہیں، اوپر سے کوٹ پینٹ پہن کے تو برا حال ہو جاتا ہے۔ لیکن کیا کیجیے شرما شرمی پہننا پڑتا ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ سب لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی گرمیوں میں گرم کپڑے پہنے رکھتے ہیں۔ وہی معاملہ ہے کہ "لوگ کیا کہیں گے؟"

انگریز جب اس علاقے میں آیا اور اس نے یہاں کا موسم دیکھا تو اس نے یہاں کی عمارات میں دو چیزیں شامل کیں، ایک برامدے اور دوسرا روشن دان۔ پرانے جتنے مکان آپ کو ملیں گے ان میں یہ دونوں چیزیں آپ کو ملیں گی۔ روشن دان اور برامدے گھر کے اندر موسم کو معتدل کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گرم ہوا اوپر کو اٹھتی ہے اور روشن دان سے باہر نکل جاتی ہے۔ برامدے سورج کی کرنوں کا براہ راست اندر آنے سے روکتے ہیں۔ لیکن ہم نے عقل کی ان چیزوں کو چھوڑ کے انٹرنیٹ سے ایسے نقشے کاپی پیسٹ کرنے شروع کر دیے جو ہمارے علاقوں کے لیے بنے ہی نہیں۔ جو بھی مکان آپ دیکھ لیں، گرمیوں میں تنور کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ گرم ہوا کے نکاس کا کوئی رستہ ہی نہیں ہوتا۔۔ اب جتنا بھی اے سی چلا لو۔۔ کمرہ ٹھنڈا تو ہو جاتا ہے، لیکن اے سی بند ہوتے ہیں ٹھنڈی ہوا درزوں اور رخنوں میں سے بہت جلد باہر نکل جاتی ہے اور کمرہ پھر گرم کا گرم۔ عرض یہ ہے کہ اپنی مٹی اور دھرتی کی بات تو ہم کرتے ہیں لیکن اپنی دھرتی کی ضروریات کے مطابق اپنے طرزِ زندگی کو بدلنے سے شرماتے ہیں۔ لباس میں لے لیجیے، تہمد کرتا ایسا لباس ہے جو ہمارے موسم اور دھرتی کے عین مطابق ہے لیکن کیا کیجیے کہ سب سے پہلا پتھر گھر سے پڑتا ہے کہ جی آپ اس میں پینڈو لگتے ہیں۔ آئندہ سے آپ نے تہمد نہیں پہننی۔ یار اب بندہ "شہری" بننے کے چکر میں گرمی کھاتا پھرے۔ اللہ بھلا کرے شارٹس اور پائجاموں کا کہ انہوں نے تہمد کا کچھ نعم البدل فراہم کر دیا۔ شروع شروع میں شرم آتی ہے پھر سب سیٹ ہو جاتا ہے۔ پینڈو و شہری جو بھی ہیں، تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔

چند سال ہوئے، اخبار میں پڑھا کہ جاپانی وزیرِ اعظم نے گرمیوں میں خود ٹی شرٹ پہن کر دوسروں کے لیے مثال پیش کی۔ انہوں نے لوگوں کو ترغیب دی کی سوٹ کوٹ اتار کر ٹی شرٹ پہنی جائے حالانکہ جاپانی قوم کارپوریٹ کلچر میں سر تا پا رنگی ہوئی ہے لیکن انہوں نے اپنے وزیرِ اعظم کی اس بات کا خیر مقدم کیا اور بڑی بڑی کارپوریشنوں کے سربراہوں تک نے ٹی شرٹ پہننا شروع کر دی۔ ساتھ ساتھ انہوں نے یہ ہدایت بھی کی کہ اے سی کو 24 کی بجائے 26 ڈگری سینٹی گریڈ پہ سیٹ کیا   جائے۔ وہاں کے ماہرین نے صرف ان دو چیزوں کی تبدیلی سے ہی اربوں ین کی بچت کا حساب کتاب لگایا تھا۔ میں جاپانی قوم کو اور اس کی قیادت کو سلام پیش کرتا ہوں کہ وہ خوامخواہ کی نقالی سے باہر نکلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اسی لیے عظیم ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ، ہمارا طرزِ زندگی ہے جو ہمارا سارا بجٹ ہی خسارے میں بدل دیتا ہے۔ میاں نواز شریف صاحب پہلے تو شلوار قمیض پہنتے تھے لیکن اب انہوں نے بھی کوٹ پینٹ پہننا شروع کر دیا ہے۔ سارے وزراء کوٹ پینٹ ڈاٹ کے پھر رہے ہوتے ہیں۔ اس کوٹ پینٹ کو مینٹین کرنے کے لیے گھر گاڑی اور دفتر ہر جگہ کا اے سی 18 ڈگری پہ سیٹ ہوتا ہے۔ اور اس کا بل سب کا سب عوام کے کھاتے میں جا رہا ہوتا ہے۔ ہمارے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تو مشہور ہی اپنے سوٹوں کی وجہ سے ہوئے تھے۔ ہر روز کرارے کرارے سوٹ پہن کر ٹی وی سکرین کو روشن کر دیا کرتے تھے۔ مجھے لباس کے حوالے سے شہباز شریف صاحب سب سے بہتر لگتے ہے کہ عوامی قسم کا لباس پہن کے سب جگہوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس لباس میں جدت بھی ہے اور سہولت بھی ہے۔ ویسا لباس میں نے حسن صہیب صاحب کو بھی پہنے دیکھا ہے۔ اور اپنے لالہ سراج الحق تو سر تا پا دیسی آدمی ہیں، انہیں کبھی بدیسی رواجوں میں مبتلا نہیں دیکھا۔

بات بجٹ کی ہو رہی تھی، جو پتہ نہیں کہاں سے ہوتی ہوئی کہاں تک جا نکلی۔ ذرا حکومت کی بات بھی کر لیں۔ بچپن میں معاشرتی علوم کی کتاب میں پڑھا کرتے تھے کہ کشمیر میں ڈوگرہ راجہ ہری سنگھ بہت ظلم کیا کرتا تھا اور مسلمانوں کو بہت تنگ کرتا تھا جس کی وجہ سے مسلمان ڈوگرہ راج سے آزادی چاہتے تھے۔ ان مظالم کی فہرست میں مختلف قسم کے ٹیکس گنوائے جاتے تھے مثلاً چولہا ٹیکس، داڑھی ٹیکس، آٹا ٹیکس، حقہ ٹیکس اور اسی طرح کو اور بہت سے ٹیکس، جو مسلمانوں کو دینا پڑتے تھے۔ اُن بے تحاشہ اور احمقانہ قسم کے ٹیکسوں کا پڑھ کر کشمیری مسلمانوں سے ہماری ہمدردی اور بھی گہری ہو جاتی تھی اور ڈوگرہ شاہی سے نفرت مزید بڑھ جاتی تھی۔ لیکن ہمیں یہ نہیں پتہ تھا کہ وہی ڈوگرہ راج ہم اپنے ملک میں دیکھنے والے ہیں۔

آج کون سے چیز ہے جس پر عوام ٹیکس نہیں دیتی؟ ماچس کی ڈبی بھی لینے جاؤ تو اس پر سولہ فیصد سیلز ٹیکس بھرنا پڑتا ہے۔ آٹا، گھی، مصالحہ، دالیں، کوئی ایک بھی چیز اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ صابن لیے لیجیے، شیمپو لے لیجیے، کپڑا خریدیے، کتابیں خریدیے، جوتے خریدیے، پٹرول خریدیے، بجلی خریدیے یا موبائل فون میں بیلنس بھروائیے۔ سو روپے ڈلواتے ہی بیس پچیس روپے ود ہولڈنگ ٹیکس کے ضمن میں کٹ گئے اور باقی تھوڑے تھوڑے ہر کال اور ایس ایم ایس کے ساتھ کٹتے جاتے ہیں۔ سو روپے دے کے بمشکل چالیس پنتالیس روپے کا بیلنس ہی بچتا ہے۔ ظلمِ عظیم یہ ہے کہ یہ تمام ٹیکس غریب امیر سب کے سب لوگوں کے لیے برابر ہے۔ جو دکان پہ جائے گا وہ یہ ٹیکس ادا کر کے ہی چیز خریدے گا۔ کمپنیوں نے ستم ظریفی یہ کی ہوئی ہے کہ اپنی پراڈکٹ کے اوپر اپنی قیمت اور ٹیکس دونوں ہی چھاپ دیے ہیں تاکہ آپ اس چیز کو خرید کر بھی جلتے بھنتے رہیں۔ 

انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے ٹیکس آمدن کے حساب سے ہو۔ کم آمدنی والا کم ٹیکس دے اور زیادہ آمدنی والا زیادہ ٹیکس دے۔ میں ذاتی طور پر تمام اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کو ظلم سمجھتا ہوں، ان کو ختم کر دینا چاہیئے اور صرف ڈائریکٹ ٹیکس وصول کرنا چاہیئے اور اس میں کسی سے کوئی رو رعایت نہیں کرنی چاہیئے۔ امیر شخص تو ٹیکس دیتا ہی نہیں خاص طور پہ اگر وہ کسی نہ کسی طرح سیاست سے بھی وابستہ ہے۔ رہا غریب اور درمیانے درجے کا آدمی وہ ٹیکس اس لیے نہیں دینا چاہتا کہ وہ کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ اس کا ادا کردہ ٹیکس بیوروکریسی اور حکمران بے دردی سے اپنی عیاشیوں اور سیر سپاٹوں پہ خرچ کرتے ہیں، جن کا عوام کو ایک ٹکے کا فائدہ نہیں ہوتا۔ جہاں ٹیکس لینے میں سختی کرنی چاہیئے وہاں ٹیکس کے بے جا استعمال پر بھی سزا ہونی چاہیئے۔ یہ کیا ظلم ہے کہ آپ عوام کو تو صحت کی سہولتیں میسر نہ کریں اور خود علاج کے لیے باہر چلے جائیں۔ مجھے جماعت اسلامی کے سراج الحق جو صوبہ خیبر کے وزیر خزانہ بھی ہیں کا یہ بیان بہت اچھا لگا جس میں انہوں نے صوبے کے وزراء، سپیکر، وزیر اعلیٰ اور دوسرے عہدے داروں پر حکومتی خرچ پر بیرونِ ملک علاج پر پابندی عائد کر دی ہے۔ صحت کی سہولتیں یا تو عوام کو بھی خواص والی دی جائیں ورنہ  جس نے باہر جانا ہے اپنے خرچ پر جائے۔

ہمارے یہ بابو، جو خسارے کا بجٹ بنا کر پھولتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے دیا۔ حالانکہ وہ قوم کو قرضوں کی دلدل میں مذید دھنسانے کا باعث ہوتے ہیں۔ میری رائے میں کوئی بینکر، اکاؤنٹنٹ یا کاروباری شخص اچھا بجٹ نہیں بنا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسحاق ڈار سے کہا گیا کہ وہ بارہ ہزار روپے میں ایک درمیانے گھر کا بجٹ بنا کر دکھائے تو وہ جواب ہی نہ دے سکا۔ یہ منشی لوگ اس فہم سے عاری ہوتے ہیں جو اچھا بجٹ بنانے کے لیے چاہیئے ہوتا ہے۔ 


ظاہر ہے آپ کا سوال یہ ہو گا کہ اچھا بجٹ کون بنا سکتا ہے تو میں اپنے اکنامکس کے استاد داتو مشتاق احمد خان کا جملہ کوٹ کروں گا۔ وہ فرماتے تھے کہ گھر میں چولہے پہ روٹیاں پکانے والی عام دیہاتی عورت سب سے اچھا بجٹ بنا سکتی ہے۔ کم از کم وہ قرضہ لینے سے پہلے یہ تو سوچ کے رکھے گی کہ میں نے اس قرضے کو خرچ کہاں پہ کرنا ہے اور اس کو واپس کیسے کرنا ہے۔ جبکہ ہمارے حکمران صرف قرضہ لینا جانتے ہیں واپس کرنا انہیں نہیں آتا اور بے غیرتوں کی طرح وہ کشکول پھیلائے پھرتے ہیں۔ 


داتو کی بات ہوئی تو ان کی ایک اور بات یاد آگئی۔ ان کی اسی بات پہ مضمون کا اختتام کروں گا۔ کہنے لگے کہ وہ ایک دوست کے ہمراہ ایک اور دوست سے ملنے اس کے دفتر تشریف لے گئے۔ کھانے کا وقت تھا۔ اس نے کھانے کے لیے کسی ریسٹورنٹ سے تین لنچ باکس منگوا لیے۔ ابھی کھانا شروع ہی کیا تھا کہ ایک اور دوست بھی تشریف لے آئے۔ اب اتنا وقت نہیں تھا کہ ایک لنچ باکس مذید منگوایا جائے۔ لہٰذا سب نے اپنے اپنے لنچ باکس میں سے کچھ نہ کچھ انہیں پیش کر دیا۔ کسی نے روسٹ پیس شئیر کر لیا، کسی نے نان اور کسی نے بریانی۔  مل بانٹنے کا فائدہ یہ ہوا کہ کسی کو بھی کوئی کمی نہیں آئی اور تین بندوں کا کھانا چار کو بھی کافی ہو گیا۔ فرماتے ہیں کہ اسلام بھی ہمیں مل جل کے کھانے کی تلقین کرتا ہے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد کا مواخات کا واقعہ دیکھنے کو کچھ نہیں لیکن حقیقت میں معاشی مسائل کا کتنا آسان، سادہ اور سامنے کا حل ہے۔ یہ حل اتنا سادہ ہے کہ ہماری نظر ہی اس کی طرف نہیں جاتی۔ جہاں جہاں فلاحی نظام قائم ہے وہ مسلمانوں کی ہی خوشہ چینی ہے۔ مسلمان تو اسلام چھوڑ بیٹھے ہیں لیکن اسلام میں ان کے لیے کل بھی فلاح تھی اور آئندہ بھی اسلام ہی انسانیت کی فلاح کا ضامن ہے۔ ان شاءاللہ۔

ختم شد





No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...