Thursday, June 12, 2014

آئی ایل ایم اور یو ایم ٹی میں میرے پندرہ سال - عمران زاہد کے قلم سے



شام کے وقت مجھے گھر سے کال آئی کہ کیا آپ نے گھر نہیں آنا؟
میں نے جواب دیا کہ نہیں، آج دیر ہو جائے گی کیونکہ آج ہماری سالگرہ ہے۔
بیگم بولیں کہ ہماری سالگرہ آج تو نہیں۔
میں نے کہا، بھئی، آج ہمارے آئی ایل ایم اور یو ایم ٹی کی سالگرہ ہے۔
بیگم جواباً بولیں، جناب، یو ایم ٹی کو موجودہ مقام پر پہنچانے میں میرا بھی بڑا حصہ ہے۔



یہ واقعہ محترم عابد ایچ کے شیروانی حاضرینِ مجلس کو سنا رہے تھے اور یہ مجلس یوایم ٹی (پرانا نام آئی ایل ایم) کی چوبیسویں سالگرہ (10 جون 2014) کے دن ایک مقامی ہال میں منعقد کی جا رہی تھی اور اس تقریب کو Long Service Acknowledgement Award Distribution Ceremony کا نام دیا گیا تھا یعنی طویل خدمات کے اعتراف میں تقریبِ پذیرائی۔ میں ذرا تاخیر سے وہاں پہنچا، عابد صاحب اپنی تقریر شروع کر چکے تھے۔

اس سالگرہ کے دن بیس سال، پندرہ سال اور دس سال کی خدمات ادا کرنے والوں کو شیلڈ اور سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ بیس سال کی خدمات کا ریکارڈ رکھنے والوں کو سٹیج پر بلا کر ان سے کیک بھی کٹوایا گیا۔

مجھے ان اعداد و شمار پر حیرت ہوئی کہ چھ (6) لوگ ایسے ہیں جو یو ایم ٹی میں بیس سال سے کام کر رہے ہیں۔ بیس سال والے ناموں میں جناب عابد شیروانی صاحب، رانا افتخار صاحب، ظفر صدیق صاحب، چچا بشیر صاحب، احمد عبداللہ صاحب اور یٰسین خان صاحب شامل ہیں۔

بیالیس (42) لوگ ایسے ہیں جنہیں پندرہ سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ خاکسار بھی اسی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ جناب عثمان ناگی صاحب کو انیس سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، وہ چند مہینوں کے فرق سے بیس والوں کی صف میں شامل ہونے سے رہ گئے۔ تحسین بٹ صاحب بھی چند مہینوں کے مارجن سے بیس والے نہ بن سکے۔
انہتر (69) افراد ایسے ہیں جنہیں یو ایم ٹی میں دس سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔

یہ کل ایک سو سترہ (117) افراد بنتے ہیں جو دس سال سے پرانے ہیں۔

میں حیرت کی بات کر رہا تھا، تو یہ واقعی مقامِ حیرت ہے کہ لوگ اتنے عرصے سے اس ادارے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ یقیناً اس ادارے کی خوبی ہے کہ لوگ اس میں آکر ایسے مدغم ہو جاتے ہیں کہ من و تو کا فرق ہی مٹ جاتا ہے۔

مجھے یہ اعتراف کرنے میں باک نہیں کہ بہت سے لوگوں کو میں نے پہلی دفعہ "غور" سے دیکھا۔ وہ ویسے تو روز دکھائی پڑتے تھے لیکن وہ کبھی نظر نہیں آئے تھے۔ آج وہ نظر بھی آئے۔ بہت سے آفس بوائز، مالی، سیکورٹی گارڈز جو دس، پندرہ اور بیس کا سال سے زیادہ کا عرصہ یہاں کامیابی سے گزار چکے ہیں وہ بلاشبہ ہمارے زیادہ اعزاز اور اعتبار کے مستحق ہیں۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ ان میں ایک آفس بوائے ایسے بھی ہیں جنہیں میں نے ایک دفعہ امتحانات میں اس لیے واپس بھجوا دیا تھا کہ وہ امتحانی سوالنامہ فوٹو کاپی کروانے آئے تھے۔ یہ چیزیں آفس بوائزکے ہاتھ میں دینا منع ہے۔ ان کی صاف شفاف خدمات کے طویل عرصہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اغماض بھی برتا جا سکتا تھا۔ اسی طرح مالیوں کو میں نے پہلی دفعہ دیکھا۔ سیکورٹی گارڈز گاہےبگاہے نظر تو آتے تھے، آج اس تقریب میں ان کو دیکھ کے اندازہ ہوا کہ میں ان کو کتنے عرصے سے دیکھ رہا ہوں۔

اپنے گذشتہ پندرہ سال کے متعلق سوچ رہا تھا کہ پندرہ سال میں ایک بچہ پیدا ہو کر میٹرک تک پہنچ جاتا ہے۔ کتنا طویل عرصہ ہے یہ۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ جیسے کل کی بات ہو۔ یقین نہیں آتا۔

جب میں تقریب میں پہنچا تو عابد ایچ کے شیروانی صاحب خطاب فرما رہے تھے۔ اپنے ماضی کو کھنگال رہے تھے۔ یہ واقعات میں ان سے پہلے بھی سن چکا تھا لیکن آج سنے تو بہت اچھا لگا۔

جب نیا نیا آئی ایل ایم بنا تو عابد صاحب اور حسن صہیب مراد صاحب نئے نئے ٹریننگ پروگرام بناتے تھے اور ان کی مارکیٹنگ بھی خود ہی کرتے تھے۔ عابد صاحب بتا رہے تھے کہ وہ ایک بہت بڑے ادارے کے سی ای او سے ملنے گئے تاکہ انہیں اور ان کے ادارے کے افراد کو آئی ایل میں ٹریننگ کروانے پر آمادہ کیا جا سکے۔ آگے الفاظ عابد صاحب کے ہیں، انہی کی زبانی سنیے۔

"میرے پاس ایک پرانی سی موٹر سائیکل ہوتی تھی۔ اسی پہ میں ان سے ملنے گیا لیکن اسے میں اس ادارے سے دور کھڑا کیا تاکہ وہ یہ نہ جان سکیں کہ میں موٹر سائیکل پہ آیا ہوں۔ سی ای او اور اس ادارے کے دوسرے اکابرین سے میٹنگ بہت کامیاب رہی۔ انہوں نے ہمارے شارٹ ٹرم ٹریننگ پروگرامز میں بہت دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ جب میں ان سے ہاتھ ملا کے واپسی کے لیے مڑا وہ مجھے بیرونی دروازے تک چھوڑنے آگئے۔ اب مجھے مصیبت پڑ گئی کیونکہ میں یہ ظاہر نہیں کرنا چاہ رہا تھا کہ میں موٹر سائیکل پہ آیا ہوں۔ خیر میں نے دروازے پہ پہنچ کے دائیں بائیں دیکھا اور کہا ۔۔ اوہ ہو۔۔ پتہ نہیں ڈرائیور کہاں چلا گیا ہے۔۔۔ (قہقہہ) ۔۔ اس پر اس کمپنی کے مالک نے کہا ۔۔ عابد صاحب کوئی بات نہیں، ہماری کمپنی کی گاڑی آپ کو چھوڑ آتی ہے۔ جس کے بعد ان کی مرسیڈیز مجھے آفس چھوڑ کے آئی۔ موٹر سائیکل بعد میں چچا بشیر کے ذریعے و اپس منگوائی۔"

معذرت چاہتا ہوں کہ عابد صاحب کے الفاظ کو نقل کرنے کی جسارت کی ہے لیکن ان کا انداز، چہرے کے تاثرات، وہ ایک شرارتی سی مسکراہٹ نقل نہیں کی جا سکتی۔ جو لوگ عابد شیروانی صاحب کو جانتے ہیں، انہیں یہ چیزیں اپنے تصور میں لا کے ہی اس گفتگو کا مزہ لینا پڑے گا۔

ایک اور واقعہ شئیر کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

"ایک دفعہ حسن صاحب اور میں ایک بہت بڑے بینک کے ریجنل ہیڈ سے ملنے گئے، تاکہ انہیں اپنے پروفیشنل ٹریننگ پروگرامز کی افادیت کا قائل کیا جا سکے ۔ ہمارا یہ اندازہ تھا کہ وہ اپنے ہر شعبے میں سے ایک ایک دو دو افراد کو بھی ہمارے پاس ٹریننگ کے لیے بھجوائیں تو ہمارا پروگرام اچھا چل جائے گا۔ ہمارے پاس ایک کھٹارہ قسم کی سوزوکی ایف ایکس تھی۔ شدید گرمی کے دن تھے۔ ایف ایکس میں اے سی بھی نہیں تھا۔ ہم پسینے سےشرابور ریجنل ہیڈ کے آفس پہنچے۔ پورا کمرا اے سی کی ٹھنڈک سے چِل ہو رہا تھا۔ وہاں جا کے ٹھنڈے کمرے میں اے سی کی ہوا کھائی تو ہمیں کچھ ہوش آئی۔ خیر جب ہم نے ان کو اپنے بروشرز وغیرہ پیش کیے اور اپنے پراگرامز کے متعلق بتایا تو انہوں نے بڑی اونچی آواز میں کہا کہ ۔۔ جناب، یہ پاکستان ہے، یہاں پہ یہ سب پروگرام نہیں چل سکتے، بالکل نہیں چل سکتے۔۔۔ آپ اگر ہمارے بینک میں نوکری کرنا چاہیں تو اپلائی کر سکتے ہیں ۔۔ ہم غور کریں گے۔ باقی وہ دروازہ باہر کو جا رہا ہے، آپ تشریف لے جا سکتے ہیں۔۔۔ ایک طرح سے انہوں نے ہمیں دھتکار کے نکال دیا تھا۔ "

عابد صاحب خطاب کرتے ہوئے۔
عابد صاحب نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انہیں تب تو نہیں پتہ تھا لیکن انہوں نے بعد میں Entrepreneurship کے کورس میں پڑھا کہ کچھ Pull فیکٹر ہوتے ہیں اور کچھ Push فیکٹر ہوتے ہیں۔ وہ دونوں قسم کے فیکٹر کچھ اس انداز سے اس بینک کے ریجنل ہیڈ کے آفس میں ان پر اثر انداز ہوئے کہ انہوں نے نوکری کی آفر پر اس ریجنل ہیڈ کا شکریہ ادا کیا اور اس عزم سے وہاں سے اٹھے کہ وہ اپنے پروگرامزکو کامیاب بنا کے ہی رہیں گے۔ اور یہ بات اب تاریخ کا حصہ ہے کہ وہ سارے پروگرام کامیاب ہوئے اور ایسے کامیاب ہوئے کہ اب پاکستان بھر کی ٹریننگ کمیونٹی انہیں پروگرامز کو فالو کرتی ہے۔

یادش بخیر، میں جب ہیڈ آئی ٹی تھا تو ایک بزرگ میرے پاس تشریف لائے، ان کے ساتھ ایک نوجوان تھا۔ ان کا کوئی عزیز بیرونِ ملک رہائش پزیر تھا۔ اس کی خواہش تھی کو وہ بزرگ یہاں پہ چند ایک سافٹ وئیر ڈویلپرز اکٹھے کر کے ایک چھوٹا سا سافٹ وئیر ہاؤس کھولیں، کیونکہ اس نوجوان کے پاس کچھ آرڈرز تھے۔ وہ بزرگ میرے پاس عابد صاحب اور حسن صاحب کے ریفرنس سے تشریف لائے اورمدد کی درخواست کی۔ بعد میں وہ حسن صاحب سے بھی ملے۔ حسن صاحب شاید مصروف تھے اس لیے وہ زیادہ وقت تو نہ دے سکے لیکن بہرحال انہیں اپنے مشورے سے ضرور نوازا۔ وہ بزرگ وہی بینک کے ریجنل ہیڈ تھے، جو کہ اب ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ میں اپنی آئی ٹی کی ٹیم ان کو دے دوں۔ اس ضمن میں، میں ان کی کوئی مدد تو نہ کر سکا لیکن ان کو مخلصانہ مشورے ضروردیے۔

چچا بشیر دی گریٹ
چچا بشیر کی عابد صاحب کے خاص طور پر تحسین کی۔ کہنے لگے کہ بشیر نہ صرف ہمارا سیکورٹی گارڈ تھا، بلکہ ہمارا مالی، کک اور ڈرائیور بھی تھا۔ حتیٰ کہ ہمارا سٹیٹ بنک بھی یہی تھا۔ ہم بڑی سے بڑی رقم بغیر گنے اس کے حوالے کر جاتے، جو اگلے دن اسی حالت میں ہمیں واپس مل جاتی تھی۔ بھوک لگتی تو اس سے کہہ دیتے تو مزیدار کھانا بھی تیار کر دیتا تھا۔

چچا بشیر کے لیے خاص طور پر عابد صاحب نے اپنی تقریر میں سفارش کی کہ ان کو ایک مزید کمرے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کا فیملی سائز بڑھ چکا ہے تو ان کو 12*12 کا ایک کمرہ مزید بنوا دیا جائے۔ حسن صاحب نے بیٹھے بیٹھے اس کی منظوری دے دی اور چچا بشیر کو اسی تقریب میں یہ خوشخبری مل گئی کہ ایک کمرہ انہیں اور مل جائے گا۔ یاد رہے چچا بشیر وہ واحد شخص ہیں جنہیں یو ایم ٹی نے یونیورسٹی میں ایک رہائشی کوارٹر عنایت کیا ہے۔ یہ ان کی خدمات کے اعتراف کا بہت ہی دلبرانہ انداز ہے۔

عابد صاحب کی تقریر کا اختتام بہت جذباتی تھا۔ کہنے لگے کہ بہت سے ساتھی جنہوں نے آئی ایل ایم / یو ایم ٹی میں شمولیت اختیار کی تھی، وہ ہمارے ساتھ یہاں موجود ہیں، کچھ احباب ہیں جو راستہ بدل کے دوسری منزلوں کی جانب نکل گئے ہیں، کچھ احباب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ میں ان سب کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یوایم ٹی آج جو کچھ بھی ہے، انہی کی بدولت ہے۔ یہ سب آپ لوگوں کی بدولت ہے۔ آپ کی محنت اور خلوص کا نتیجہ ہے۔ یہاں پر عابد صاحب کی آواز میں نمی گھلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔

چچا بشیر کیک کاٹ رہے ہیں
عابد صاحب کی تقریر کے بعد کیک کاٹا گیا۔ کیک کاٹنے کے لیے بیس سالہ خدمات والے احباب کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔ حسن صاحب نے چھری چچا بشیر کے ہاتھ میں پکڑائی اور یوں چچا بشیر نے بڑے فخر اور مان سے کیک کاٹا۔ سارا ہال مسلسل تالیوں سے گونجتا رہا۔

کیک کے بعد ایوارڈز کی تقسیم کا منظر ہے۔ ایک ایک کا نام پکارا گیا اور ان کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ میں جب ایوارڈ وصول کرنے گیا تو حسن صاحب نے آہستہ سے کہا، "تھینک یو" ۔۔۔ ان کا اتنا کہنا اس وقت اتنا اچھا لگا کہ بقول پروین شاکر، روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی۔

پرانے لوگوں میں بہت سے ہیں جن کا نام میں اس مضمون میں لینا تو چاہوں گا لیکن خدشہ ہے کہ اگر کسی کا نام سہواً رہ گیا تو اسے شکایت ہوگی۔ اس لیے بہتر ہے کہ میں کسی کا نام نہ لوں۔ آخر میں تصاویر کا لنک دے دیا گیا ہے، وہاں سب لوگوں  کی تصویریں شئیر کر دی گئی ہیں۔

ایوارڈز کے بعد حسن صہیب مراد صاحب کو تقریر کی دعوت دی گئی۔ حسن صاحب شلوار قمیض میں ملبوس تھے اور اپنے مخصوص دھیمے انداز میں دھیمی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ انتہائی مسجع و مقفیٰ اردو میں خطاب کرتے رہے۔ اسے خطاب کم اور گفتگو زیادہ کہنا چاہیئے۔

حسن صاحب ماشاءاللہ جتنا مطالعہ رکھتے ہیں، ان کا ہر خطاب، گفتگو اور تحریر خاصے کی چیز ہوتا ہے۔ سیکھنے والوں کے لیے اس میں بہت مواد موجود ہوتا ہے۔ ہمارے ایک ڈائریکٹر دوست ایسے بھی ہیں، جو ہیں تو ہماری طرح اردو میڈیم لیکں انہوں نے حسن صاحب کی انگریزی تقریروں کے ٹوٹوں کے ٹوٹوں کو رٹا مارا ہوا ہے اور طلباء کے ہر فنکشن میں وہی فقرے آگے پیچھے کرکے ادا کردیتے ہیں اور خوب داد پاتے ہیں۔

حسن صاحب خطاب فرماتے ہوئے
حسن صاحب نے سب سے پہلے اللہ سبحان و تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے یہ دن دکھایا جب سب پرانے ساتھی مل بیٹھے ہیں اور اپنی کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔ اس کے بعد تمام ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا۔ ساتھیوں کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ماضی کے اوراق پلٹنے شروع کیے ۔ بہت سے واقعات بہت سے لوگوں کو پہلی دفعہ پتہ چلے۔ مثلاً انہوں نے بتایا کہ آئی ایل ایم صرف تین لاکھ کی رقم سے شروع کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے آئی ایل ایم کی ترقی میں بورڈ آف ٹرسٹیز کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ حسن صاحب ان کا نام لے لے کے شکریہ ادا کرتے رہے۔ اے زیڈ فاروقی صاحب (اگر میں نام بھول نہیں رہا)، سابق بیوروکریٹ، کے بارے میں بتایا کہ وہ بورڈ میٹنگز میں بہت سخت ہوتے تھے اور ان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے دانتوں پسینہ آ جاتا تھا۔ لیکن جب پیار کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے پیار کا بھی ایسا اظہار کیا کہ کوئی دوسری مثال ملنا مشکل ہے۔

پروفیسر خورشید صاحب کا ذکر بہت ادب اور احترام سے کیا۔ فرمانے لگے کہ ہم تو کوئی چھوٹا موٹا کام کرنے کا سوچ رہے تھے، لیکن یہ پروفیسر خورشید صاحب ہیں جنہوں نے ہمیں اس بحرِ بے کنار میں دھکیلا اور ہر قدم پر راہنمائی اور حوصلہ افزائی کی۔ ہماری پہلی فیزیبلٹی کو انہوں نے مسترد کر دیا تھا۔ اور ہمیں ایک دوسری فیزیبلٹی بنانے کا کہا۔ حسن صاحب نے ان کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں آپ لوگوں کی فیزیبلٹیز کو کبھی قبول کرتا ہوں کبھی کوئی تبدیلی کا کہہ دیتا ہوں لیکن میری اپنی پہلی فیزیبلٹی ریجیکٹ ہوئی تھی۔

اپنے والد محترم، جناب خرم مراد مرحوم کا ذکر خاص طور پر کیا۔ کہنے لگے کہ آئی ایل ایم کا نام انہی کا تجویز کردہ تھا۔ اس نام کی تعریف ایک دفعہ جناب عبدالرزاق داؤد نے بھی کی۔ کہنے لگے کہ آئی ایل ایم ، میں لیڈرشپ بھی آ جاتی ہے، مینیجمنٹ بھی آ جاتی ہے اور اس سے علم بھی بنتا ہے۔ یو ایم ٹی کے نام میں ٹیکنالوجی کا لفظ شامل ہونے سے ہمارا سائینس و ٹیکنالوجی کے شعبے کا بھی احاطہ ہو جاتا ہے۔

یادش بخیر، پرانی بات ہے کہ ایک دوست نے سوال کیا کہ تمہیں پتہ ہے کہ آئی ایل ایم کی کامیابی کا کیا راز ہے۔ میں نے انہیں روایتی جواب دینے کی کوشش کی تو کہنے لگے کہ۔۔ نہیں۔۔ آئی ایل ایم کی کامیابی کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایک درویش کی اس کو دعا ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ کہنے لگے، خرم مراد صاحب کی اس ادارے کو دعا ہے۔ یہ ادارہ کبھی ناکام نہیں ہو گا۔ بلکہ ہمیشہ پھلے پھولے گا۔

حسن صاحب بات آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے کہ آئی ایل ایم بنانے کے کچھ عرصے کے بعد اسی نام سے انگلینڈ میں ایک ادارہ بنا۔ اس ادارے کے سربراہان سے رابطہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ نام پہلے سے ہی رکھا جا چکا ہے ، اس نام سے ویب ڈومین اور سارے حقوق لیے جاچکے ہیں، لہٰذا کوئی اور نام رکھ لیں، لیکن انہوں نے انگلینڈ کے روایات کے پسِ منظر میں ہماری اس دلیل کو ماننے سے انکارکر دیا اوراسی نام کو رکھنے پر اصرار کیا۔ حسن صاحب نے کہا کہ آپ ہمارا نام تو ضرور لے سکتے ہیں لیکن ہماری سوچ اور ذہن تو ہمارے پاس ہی ہے۔ وہ آپ ہم سے نہیں چرا سکتے۔

اسی طرح حسن صاحب نے مالی وسائل پیدا کرنے کے مختلف تجربات کا بھی تذکرہ کیا۔ فرمانے لگے کہ حسین داؤد صاحب نے بھی آئی ایل ایم کے پراجیکٹ میں دلچسپی لی۔ کافی زیادہ فنڈ مختص کرنے، بہت بڑی بلڈنگ بنوا کے دینے کی پیشکش کی، لیکن شرط یہ تھی کہ حسن صاحب اس میں چند ایک سال ایک ملازم کے طور پر کام کریں گے، اس کے بعد وہ اپنی مینیجمنٹ لائیں گے۔ علاوہ ازیں، یہ سب بورڈ کی صدارت کی تبدیلی، بورڈ ممبرز میں تبدیلی سے مشروط ہو گا۔ حسن صاحب نے مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ میں تو کافی حد تک مان ہی چکا تھا کہ میرا مقصد یہی تھا کہ کوئی بھی ہو، مقصد پورا ہونا چاہیئے لیکن ہمارا بورڈ اس معاملے پر نہیں مانا۔ بورڈ کا کہنا تھا کہ ہم اپنا ادارہ ایک طشتری میں رکھ کے کسی کو پیش نہیں کر سکتے۔

سو باتوں کی ایک بات حسن صاحب نے یہ کی کہ جب بھی کسی صنعت کار نے تعاون کی پیش کش کی اس کے پیش نظر اپنا کاروباری مفاد ہی ہوتا تھا، لہٰذا ہم ایسی کسی بھی پیش کش کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔

حسن صاحب نے اپنی تقریر میں مستقبل کے عزائم کا بھی احاطہ کیا۔ کہنے لگے کہ ہمیں پہلے ارب تک پہنچنے میں چوبیس سال لگے ہیں، اگلے ارب تک ہم تین چار سالوں تک ہی پہنچ جائیں گے (ان شاءاللہ)۔ مزید کہنے لگے کہ اب میں کوئی کام نہیں کروں گا۔ کام آپ کریں گے، میں صرف دیکھوں گا۔ اب مجھے آپ کی طرف سے اطلاع آنی چاہیئے کہ یہ کام ہو گیا ہے، یا یہ کام اِس طرح سے ہونا چاہیئے یا اُس طرح سے۔ یہ سب آپ کا ذمہ ہیں۔ میرا کام صرف یہ ہے کہ آپ کو کام سونپوں اور باقی آپ پہ چھوڑ دوں۔

حسن صاحب نے سیکورٹی گارڈز کے لیے ایک خصوصی اعلان فرمایا کہ ان سب کی ڈیوٹی بارہ گھنٹے سے کم کر کے آٹھ گھنٹے کی جاتی ہے۔ کیونکہ بارہ گھنٹے بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے ہیڈ او ایف ایم (OFM) سے کہا کہ ان کا ڈیوٹی روسٹر کچھ اس انداز سے بنایا جائے کہ ان کو ہر چند گھنٹوں کے بعد آرام کرنے کا موقعہ مل جائے۔ ان کے اس اعلان پر ہمارے سیکورٹی گارڈز کی خوشی دیدنی تھی۔ تالیوں سے ہال گونجتا رہا۔

ایک تجویز بھی حسن صاحب نے پیش کی کہ ایک حج کمیٹی ڈالی جائے جس سے ہر سال بیس افراد حج کر سکیں۔ اس طرح کی سکیم ملیشیا، چائنہ اور بہت سے دوسرے ملکوں میں رائج ہے۔

اس تجویز کی افادیت یہ ہے کہ ہم سب جوانی میں ہی حج کر سکیں گے وگرنہ حج کے لیے وسائل جمع کرتے پوری عمر گزر جاتی ہے اور جب بندہ چلنے پھرنے سے بھی آوازار ہو جاتا ہے تب حج کے پیسے جمع ہو پاتے ہیں۔ میں ذاتی طور پہ چاہوں گا کہ اس تجویز پر فوری طور پر عمل شروع کر دیا جائے۔

آخر میں جو بات فرمائی اس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ فرمایا کہ میری دعا ہے کہ میں اور آپ سب روزِ جزا بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہوں۔ ایک ہی مقام پر ہوں۔ میں آپ کی گواہی دوں اور آپ سب میری گواہی دیں۔

(آمین)

جب تقریر کر کے واپس لوٹے تو عابد صاحب نے راستے میں ہی ان سے کوئی بات چیت کی۔ جس پر حسن صاحب واپس پلٹے اور تمام ایوارڈ والوں کے لیے بونس کا بھی اعلان کیا۔ جس پر لوگ کافی دیر تک تالیاں مارتے رہے۔

اس ساری تقریب کی ایک بہت بڑی خوبصورتی عقیل بلوچ تھا جو سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ اس نے حسن صاحب کو بلانے سے پہلے اس تقریب کے خیال پر روشنی ڈالی۔ عقیل نے حاضرین کے معلومات بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس ایوارڈ کے انعقاد کا خیال تین سال پہلے آیا تھا اور اس کے بعد مختلف مرحلوں سے گزرتا ہوا یہ ایوارڈ آج انعقاد پزیر ہو رہا ہے۔

عقیل نے حسن صاحب کو بلانے سے پہلے کچھ اشعار بھی پڑھے لیکن چونکہ عقیل بندہ نثر کا ہے، لہٰذا اس نے شاعری کو بھی نثری انداز میں پڑھ کے ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی۔ اشعار تو یاد نہیں ہیں۔ لیکن ان کا تِھیم یاد ہے۔۔ ملاحظہ فرمائیے۔

جب یہ ہوتا ہے، جب وہ ہوتا ہے
پھر یہ ہوتا ہے، پھر وہ ہوتا ہے
تو لوگ کہتے ہیں کہ بارش ہو رہی ہے

جب یہ ہوتا ہے، جب وہ ہوتا ہے
پھر یہ ہوتا ہے، پھر وہ ہوتا ہے
تو لوگ کہتے ہیں کہ حسن صاحب بول رہے ہیں

"یہ ہوتا ہے"، "وہ ہوتا ہے" میں وہ الفاظ ہیں جو مجھے یاد نہیں آ رہے۔

عقیل بلوچ کمپیرنگ کرتے ہوئے
عقیل بلوچ کی تحسین میں اس لیے بھی کرنا چاہوں گا کہ اس کی وجہ سے میں یہ ایوارڈ حاصل کرنے کے قابل ہو سکا۔ کسی کلرکانہ غلطی کے سبب میری ڈیٹ آف جائننگ 2010 کی ڈالی گئی تھی، جو کہ فی الحقیقت 1999 کی ہے۔ پچھلے جمعے کو یہ بات میرے علم میں آئی تو میں بہت سٹ پٹایا۔ بہرحال، عقیل نے اس سارے معاملے کو بحسن و خوبی حل کر دیا اور شام تک مجھے برقنامے کے ذریعے اطلاع بھی دے دی۔

عقیل ماشاءاللہ، ایک منجھا ہوا منتظم ہے۔ تقریبات کا انعقاد اس کے لیے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ دوسروں سے کام لینا اور جو کام کوئی نہ کر سکے اس کو خود اس طرح سے انجام دینا کہ اس سے بہتر کرنا ناممکن نظر آئَے، اس کی خاص بات ہے۔ میری رائے میں وہ اپنی موجودہ پوزیشن سے بہت اوپر جا سکتا ہے اور ان شاءاللہ جائے گا بھی۔ عقیل سے میں یہی کہوں گا جاؤ تجھے آج سے بابوں کا آشیر باد ہے۔

عقیل کی سوچ میں راست بازی نظر آتی ہے۔ مجھے چند ایک میٹنگز میں عقیل کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ عقیل سیدھی بات کرتا ہے اور بغیر کسی رو رعایت کے کرتا ہے۔ ایسی باتوں سے دل خوش ہو جاتا ہے۔ میری ساری نیک تمنائیں عقیل کے ساتھ ہیں۔ جیتے رہو۔

کھانا کھولنے سے پہلے۔۔۔ کھانا کھولنے کی ترکیب بھی عقیل بلوچ نے ہی استعمال کی تھی، لہٰذا اس کو ایسے ہی استعمال کروں گا۔۔ تو کھانا کھولنے سے پہلے عقیل نے دعا کے لیے اسلامک تھاٹ اینڈ سولائزیشن کے چئیرمین ڈاکٹر ممتاز سالک صاحب کو مدعو کیا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ سالک صاحب کو کان میں کہہ دیا جاتا کہ کھانا کھلنے کے اشارے تک دعا جاری رکھی جائے۔۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہو سکا اور سالک صاحب نے دعا کچھ جلدی ختم کر دی۔ اس لیے باقی ٹائم کو کِل (kill) کرنے کے لیے عقیل کو ادھر ادھر کی باتیں کرنا پڑیں لیکن بہرحال۔۔ کھانا کچھ دیر میں ہی کھل گیا اور حاضرین عقیل کی خوش گفتاری سے زیادہ دیر محظوظ نہ ہو سکے۔

یادش بخیر، چند ہفتے پہلے ہماری ذہین طلباء کے لیے ایوارڈ کی تقریب منعقد ہوئی تو اس کے دوسرے حصے میں قومی ترانے کی ریکارڈنگ آئی ٹی والے واپس لیجا چکے تھے۔ قدیر بٹ صاحب نے قاری صاحب کو لمبی تلاوت کا اشارہ کیا اور دوسری طرف احتشام کو آئی ٹی والوں کی طرف دوڑایا۔ قاری صاحب نے ایک سورۃ ختم کر کے پھر سے بسم اللہ پڑھ کے اگلی سورۃ شروع کر دی۔ اتنے میں آئی ٹی والے قومی ترانے کی ریکارڈنگ بھی لے آئے اور قاری صاحب نے صدق اللہ العظیم پڑھی۔ کسی کو پتہ نہیں چل سکا کہ اصل گڑبڑ گھٹالا کیا ہوئی۔ قدیر بٹ صاحب نے اتنے شاندار طریقے سے اس معاملے کو سنبھالا کہ کہنا پڑتا ہے کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔

اگلا دن:
عثمان ناگی صاحب کا ایوارڈ لینے پہ خوشی کا اظہار
آج صبح جب دفتر آیا تو چچا بشیر چھاتی چوڑی کر کے پھر رہے تھے اور ان کے انداز میں ایک عجیب ہی بانکپن نمایاں تھا۔ میری جس بھی ایوارڈ یافتہ شخص سے ملاقات ہوتی وہ گلے مل کے مبارکبادیں دینے لگتا۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے چھوٹی عید رمضان سے پہلے ہی آ گئی ہو۔ خوشی ایسی کہ سنبھالی نہ سنبھلے۔ بہرحال ، ایسی تقریبات ہوتی رہنی چاہیئے کہ اس سے ایک نیا جوش اور ولولہ ملتا ہے اور حوصلے جوان ہو جاتے ہیں۔ سب کی بیٹری ری-چارج ہو جاتی ہے۔

ہاں جو ایک کنسرن بہت زیادہ نوٹ کیا گیا کہ چند ایک ایسے احباب بھی تھے جو بیس، پندرہ اور دس سال سے کام کر رہے ہیں لیکن چونکہ ان کا سٹیٹس جزوقتی کام کرنے والوں کا ہے اس لیے ان کو اس اعزاز میں شامل نہ کیا گیا۔ پندرہ بیس سال تک ایک ہی ادارے میں جز وقتی کام کرنا بھی دیرینہ رفاقت کی دلیل ہے۔ یہ لوگ بھی اپنے کاموں کے حساب سے اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہیئے۔ امید کی جانی چاہیئے کہ اگلے سال کی تقریب میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ ان شاءاللہ۔

آج تقریباً سارا دن اس سوچ بچار میں گزرا کہ کسی ادارے میں بہت زیادہ وقت گزارنے سے ادارے اور افراد دونوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اپنے تجربے سے جن باتوں کو سمجھ سکا ہوں، وہ آپ دوستوں سے شئیر کرتا ہوں۔

کسی ادارے میں لوگ جب ایک خاص حد سے پرانے ہو جاتے ہیں تو وہاں ان کی وفاداری، ان کا اخلاص اور ان کا تجربہ تو شک و شبہ سے بالاتر ہو جاتا ہے۔ سب ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہائر مینیجمنٹ بھی ان کی بات کو وزن دیتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان میں ایک کمزوری بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ کسی بھی نئے خیال کی، نئے نظام کی یا کام کرنے کے نئے طریقے کی مزاحمت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس طریقے سے انہوں نے وہاں کام کیا ہوتا ہے، اس کو حرفِ آخر سمجھ لیتے ہیں اور تبدیلی کی راہ میں اپنی معصومیت کے سبب روڑے اٹکاتے ہیں۔ ادارے ہمیشہ نئے خیال سے آگے بڑھتے ہیں۔ کچھ نیا سیکھنے کے لیے تجربہ کرنا پڑتا ہے، تب ہی آپ جان سکتے ہیں کہ کون سا راستہ درست ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کام کرنے کے طریقے بدلتے ہیں۔ ٹیکنالوجی بدل جاتی ہے۔ کل کو اگر لینڈ لائن فون تھے، تو آج بات سمارٹ فون سے بھی آگے جا چکی ہے۔ کل اگر ٹوکن والے چیک سے پیسے نکلوائے جاتے تھے اور لائن میں لگ کے یوٹیلیٹی بل ادا کیے جاتے تھے تو اب انٹرنیٹ پے ایک بٹن دبانے سے یہ سارے کام ہو جاتے ہیں۔ بینکوں کی موبائل ایپ کے ذریعے آپ کہیں سے بھی اپنا بل ادا کر سکتے ہیں۔ فون میں بیلنس بھر سکتے ہیں۔ کسی دوسرے اکاؤنٹ میں پیسہ ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔ ایک بٹن دبانے سے جتنی مدت کا چاہیں اپنا بینک کا کھاتہ دیکھ سکتے ہیں۔ گویا یہ ساری ماحول کی تبدیلیاں ہیں جن کے مطابق ہم خود کو نہیں ڈھالیں گے تو پیچھے رہ جائیں گے۔

کسی بھی ادارے میں نیا خون اسی لیے شامل کیا جاتا ہے کہ وہ ایک تازہ سوچ کے ساتھ آتا ہے اور ان مسائل کا آؤٹ آف باکس حل نکال لیتا ہے جسے ہم لوگ ایک روٹین کے چکر کی وجہ سے نہیں دیکھ پاتے۔

تو عرض یہ ہے کہ اپنے کام کرنے کی جگہ کو ہر روز ایک نئی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کافی عرصہ ایک جگہ کام کرنے سے نئی چیزیں ذہن میں آنا بند ہو جاتی ہیں۔ ذہن ایک چیز کا عادی ہو جاتا ہے اور وہ نئے خیالات کی جانب متوجہ ہونا اپنی سہولت کے خلاف سمجھتا ہے لہٰذا کوئی نیا خیال ہمیں متاثر نہیں کر پاتا۔ یوں لگتا ہے کہ ماضی نے ہمارے دماغ کی ساری کھڑکیاں بند کردی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے، خود کو اس سہولت کا عادی نہ بنایا جائے۔ مشکل حالات سے خود کو گزارا جائے اور اپنی سوچنے سمجھنے اور تبدیلی کو قبول کرنے کی صلاحیت کو نہ صرف جانچا جائے، بلکہ اس میں مسلسل ترقی لائی جائے تاکہ آپ کی سوچوں کا کٹّرپن آپ کے ادارے کی کامیابی میں رکاوٹ نہ بن پائے۔ اداروں میں عموماً جاب روٹیشن کا ایک عمل کیا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ذہن اس قسم کی جکڑ بندی سے محفوظ رہتا ہے، اور آپ خود تبدیلی کے گھوڑے کی باگ سنبھال کر اسے ایک مثبت رخ دیتے ہیں۔ بہرحال، اس بات کے رخ تو بہت سے ہیں، لیکن فی الحال ان مختصر الفاظ کو ہی بہت جانیے-

مضمون کا اختتام میں اپنی والدہ محترمہ کے ذکر سے کروں گا۔ میری امی ہی وہ ہستی ہیں کہ جو اس ادارے میں میرے پندرہ سال گزروانے کی ذمہ دار ہیں۔ اس ادارے میں میرا آنا بھی والدہ کی دعا سے ہوا تھا۔ تفصیل نہیں بتاؤں گا لیکن میرے قریبی احباب یہ بات جانتے ہیں۔

ایک دفعہ میرا جرمنی جانے کا پروگرام تقریباً فائنل ہو گیا تھا۔ بلکہ میرے ساتھ کے دو لوگ وہاں جا کے کمپنی میں جائننگ دے بھی چکے تھے۔ میری والدہ مسلسل کہہ رہی تھیں کہ میری طرف سے تمہیں کوئی اجازت نہیں ہے۔ تم نہیں جاؤ گے۔ لیکن میں جانے پہ بضد تھا۔ ساہیوال سے آئی ڈی کارڈ بنوایا، فیصل آباد سے پاسپورٹ بنوایا۔ ملتان سے اپنی ڈگری نکلوائی۔ گویا پورا ہفتہ اسی تگ و دو میں لگ گیا۔ روز جرمنی میں موجود دوستوں سے چیٹ پہ بات ہونی تو وہاں جانے کے عزم کو پھر سے مہمیز لگ جاتی۔ گھر میں والدہ مجھے سمجھا سمجھا کے تھک گئیں تھیں تو چپ چپ رہنا شروع ہو گئیں تھیں۔ میری بھاگ دوڑ کو وہ دیکھتی رہیں۔ لیکن ان کے چہرے سے ہی ڈس اپروول جھلک رہا ہوتا تھا۔ جب میرے سارے کاغذ جمع ہو گئے تو پتہ چلا کہ میں جرمن کمپنی کے جس پراجیکٹ میں ہائر ہوا تھا، اس کا سپانسر ہی بھاگ گیا ہے۔ برادر طارق ، جو میرے لیے بڑے بھائیوں سے بڑھ کر ہیں، انہوں نے چھوٹا سمجھ کر میرے اس ایڈونچر سے اغماض برتا اور کام جاری رکھنے کا کہا۔ لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ والدہ جو چاہتی تھیں، وہی ہوا۔ افسوس صرف اتنا ہوا کہ میری اس ضد میں اس جرمن کمپنی کا خوامخواہ نقصان ہو گیا۔ میں اگر وہاں جانے کی ضد نہ کرتا تو والدہ بھی مجھے روکنے پر اصرار نہ کرتیں۔ اس کے بعد کا کافی عرصہ میں نے والدہ سے اختلاف کی جرأت نہ کی۔

اس کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ والد صاحب کی وفات کے بعد میں تقریباً ٹوٹ کے رہ گیا تھا۔ دفتری ذمہ داریوں میں بھی بے بس ہو کر رہ گیا تھا۔ جو کام کرتا تھا، الٹ ہوتا تھا۔ دفتر جانا میرے لیے ایک بیگار بن کے رہ گیا تھا۔ مجھے دفتر جا کے کوئی خوشی نہیں ہوتی تھی۔ میرا بلڈ پریشر 160/100 150/110 تک رہنے لگ گیا تھا۔ ایسے میں ایک دوست نے ایک کاروباری منصوبہ بنایا اور مجھے اس میں شمولیت کی دعوت دی۔ میں نے والدہ سے گزارش کی کہ مجھے بذریعہ استخارہ بتائیں کہ میں جاؤں یا رہوں۔۔۔ تو والدہ نے بغیر استخارہ کے مجھے رہنے کا مشورہ دیا۔ کہنے لگیں۔۔ بیٹا، یہ جماعتِ اسلامی والے لوگ ہیں۔ یہ اچھے اور شریف لوگ ہیں۔ انہوں نے تمہیں نوکری کے دوران ہی ایم بی اے کرنے کی اجازت دی۔ بھلا بتاؤ کون ایسا کرتا ہے؟ پھر تمہیں اپنے والد کی ہسپتال میں مسلسل چار ماہ تک تیمارداری کی اجازت دی۔ کوئی اور ادارہ ہوتا تو تمہاری ایک دن کی فالتو چھٹی گوارا نہ کرتا، ان کو چھوڑنا شرافت کا شیوہ نہیں ہے۔ مت چھوڑو انہیں۔ لیکن میں کیا کرتا۔۔ میں تو نفسیاتی شکست و ریخت کا شکار تھا۔

میرے اصرار پر انہوں نے استخارہ کیا اور یہ بھی بتا دیا کہ دونوں آپشنز بہتر ہیں۔ دونوں کا مستقبل روشن ہے۔ لیکن انہوں نے پھر ایک طویل لیکچر دیا جس میں یو ایم ٹی میں رہنے کا اصرار بلکہ حکم دیا۔ میں نے بے بسی سے عرض کیا کہ مجھے کوئی خوشی نہیں ہوتی۔ میں کیا کروں۔ والدہ نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا کہ چند ماہ میں حالات بہتر ہو جائیں گے، تم فکر نہ کرو۔

میری تسلی کے لیے انکل سلیم ارشد کو میری کونسلنگ کے لیے بلوایا۔ انہوں نے میرے ساتھ تین چار گھنٹے گزارے اور اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں میری راہنمائی کی۔

بہرحال۔۔ قصہ مختصر کہ دو مہینوں کے اندر اندر میرا تبادلہ شعبہ امتحانات میں ہو گیا۔ اور جس جس طرح والدہ نے ارشاد فرمایا تھا ویسا ویسا میں دیکھ لیا۔ بلڈ پریشر بغیر کسی دوا کے خود بخود ٹھیک ہو گیا۔ الحمد للہ۔ میری والدہ ہمارے گھر میں یو ایم ٹی کی سب سے بڑی وکیل ہیں۔ مجھے حسن صاحب کی بات کبھی کبھی یاد آتی ہے، وہ یہ کہا کرتے ہیں کہ یو ایم ٹی والوں کے گھر والے بھی ہمارے لیے دعا کرتے ہیں۔ تو حسن صاحب سے عرض کروں گا۔۔ جناب ، یہ بالکل سچ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

اللہ ان کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ اور سب دوستوں، ساتھیوں، اوپر والوں، نیچے والوں، برابر والوں اور ہمارے ادارے کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔

ختم شد
تقریب کی تصویری جھلکیاں

اگر نیچے تصویری البم نظر نہیں آرہا تو تقریب کی تصویری جھلکیوں کو دیکھنے کے لیے یہاں پر کلک کریں 



Post by UMT.

4 comments :

  1. Mashallah very thought privoking writing. I miss absence of AG Ghaffari Sahib and Ilyas Ansari. If UMT could have manage to invite ex employees who have served long then it would be more delighting. Any how congratulations to all award winners.

    ReplyDelete
    Replies
    1. عامر بھائی، آپ کی تجویز بہت صائب ہے۔ میں ان شاء اللہ ایچ آر والوں تک آپ کی تجویز پہنچا دوں گا۔

      Delete
  2. رفیق اعوان صاحب کا ذکر سننے کو نہیں ملا عمران بھائی۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. بدقسمتی سے اعوان صاحب کے یو ایم ٹی میں قیام کا تسلسل تسلیم نہیں کیا جا سکا۔ اس لیے وہ ان میں سے کسی بھی ایوارڈ کی صف میں جگہ نہ پا سکے۔

      Delete

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...