Thursday, June 26, 2014

ایک واقعہ جس نے میری سوچ بدل دی - عمران زاہد کے قلم سے


یہ دو ہزار سات کی ایک صبح کی بات ہے۔ میں تیار ہو کر دفتر جانے کے لیے نکل رہا تھا۔ اسامہ اور حذیفہ، جو میرے جڑواں بیٹے ہیں، کی ڈھائی تین ماہ میں پیدائش متوقع تھی۔ مجھے  اہلیہ نے بتایا کہ کچھ دنوں سے انہیں دائیں جانب گردے کے مقام پہ ہلکی ہلکی درد محسوس ہو رہی ہے، گو ابھی اتنی سیریس نہیں ہے، لیکن پھر بھی کسی دن شام کو چیک کروا لیا جائے۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ آج شام کو ڈاکٹر کے ہاں چلیں گے۔ ابھی میں بیرونی دروازے کے پاس ہی پہنچا تھا کہ گھر سے لیجیو، پکڑیو، سنبھالیو کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔
 میں جلدی سے واپس پلٹا تو دیکھا کہ اہلیہ درد سے بے حال ہو رہی ہیں اور امی نے انہیں سنبھالا ہوا ہے اور وہ اونچی آواز میں گاڑی نکالنے کا کہہ رہی ہیں۔ قصہ مختصر، ہم ایک قریبی کلینک پہنچے۔ ایک لیڈی ڈاکٹر نے گھر میں ہی کلینک بنایا ہوا تھا۔ اہلیہ تھیں کہ وہ درد سے تڑپ رہیں تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے انہیں وہیں داخل کر لیا۔ انہوں نے گلوگوز کی بوتل میں درد کش ادیات شامل کر کے ڈرپ لگا دی۔ جب درد کچھ کم ہوا تو انہوں نے الٹرا ساؤنڈ لیا۔ جو نتائج نکلے وہ خاصے تشویش ناک تھے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ جڑواں بچوں  کے سبب گردے کے مقام پر دباؤ پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے گردہ سوزش کا شکار ہو کر سوج گیا ہے۔ بقول ان کے، اس کا علاج اس کے سوا کوئی نہیں کہ بچوں کی پیدائش ہو جائے۔ بچوں کی پیدائش تک اس درد کو چار و ناچار برداشت کرنا پڑے گا۔ زیادہ سے زیادہ دردکش ادویات استعمال کی جا سکتی ہیں۔ لیکن ان ادویات کے نتائج کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔

بہرحال، گیارہ بارہ بجے تک اہلیہ وہیں رہیں، اس کے بعد انہوں نے بوقتِ ضرورت درد کش ادویات کے استعمال کی ہدایت دے کے گھر جانے کا کہا۔ میں اہلیہ اور والدہ کو گھر چھوڑ کر دفتر چلا آیا۔ کوئی دو تین بجے کے نزدیک گھر سے پتہ چلا کہ درد کا ایک اور شدید حملہ ہوا ہے جو دردکش ادویات سے بھی کم نہ ہو سکا۔ امی اپنے طور پر ہی اہلیہ کو دوبارہ اسی کلینک میں لے گئیں۔ درد کی شدت سے اہلیہ کی جان لبوں پہ آئی ہوئی تھی۔ ان کی حالت دیکھ دیکھ کے سب  اہل خانہ دعائیں کر رہے تھے کہ اللہ خیر خیریت رکھے۔ ڈاکٹر نے دوبارہ وہی ڈرپ والا نسخہ استعمال کیا اور ایک ڈیڑھ گھنٹے میں درد کم ہونے پر گھر جانے کی اجازت دے دی۔ لیکن جاتے جاتے یہ بھی کہہ دیا کہ اب دوبارہ یہی مسئلہ ہو تو بجائے ان کے کلینک لانے کے کسی ہسپتال سے رجوع کیا جائے۔

دفتر میں جناب زاہد وڑائچ صاحب جو ہمارے ہیڈ ایڈمن اینڈ لاجسٹک تھے۔ ان سے تذکرہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہی مسئلہ ان کی اہلیہ کو بھی لاحق ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک لیڈی ڈاکٹر کا انہوں نے بتایا جنہوں نے ان کی اہلیہ کا علاج کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ کا نام تو اب یاد نہیں، لیکن وہ واقعی ایک قابل ڈاکٹر تھیں۔ انٹرنیٹ سے ان کا نمبر تلاش کیا۔ فون کرنے پر پتہ چلا کہ وہ شام کو ثریا عظیم ہسپتال میں مریضوں کا معائینہ کرتی ہیں۔

گھر پہنچا تو والد محترم،  جودفتر سے واپس تشریف لا چکے تھے، سے مشورہ کیا اور زاہد صاحب کی تجویز سے انہیں آگاہ کیا۔ یہ طے پایا کہ اہلیہ کو ثریا عظیم ہسپتال لیجایا جائے اور اسی لیڈی ڈاکٹر سے مشورہ کیاجائے۔

قصہ مختصر، ہم وہاں پہنچے۔ میرے سسر محترم بھی تشریف لے آئے تھے۔ میرے سسر اپنی بیٹیوں سے ازحد محبت کرتے ہیں۔ اور یہ محبت ان کے ہر رویے اور انداز سے ٹپکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے چیک کیا۔ ٹیسٹ وغیرہ لیے۔ انہوں نے معائینہ کر کے تقریباً وہی تشخیص کی جو ان سے پہلے والی ڈاکٹر نے کی تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ عموماً ڈیلیوری کے بعد یہ درد ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ صرف پین کلر ادویات ہی بچتی ہیں لیکن حالتِ حمل میں ایسی ادویات کا زیادہ استعمال نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ مریضہ کو چوبیس گھنٹوں کے لیے ان کی زیر نگرانی رکھا جائے تاکہ ساری صورتحال سامنے آ جائے۔ ہمیں وہیں ایک بیڈ الاٹ کر دیا گیا، جس کو پردے کھینچ کے ایک کمرے کی شکل دی جا سکتی تھی۔ اہلیہ کو تمام ادویات ڈرپ کی صورت میں لگائی جا رہی تھیں۔ ڈرپ لگانے سے درد میں کمی واقع ہو جاتی تھی لیکن ڈرپ اتارنے کے بعد ایک دو گھنٹوں میں ہی درد عود کر آتا تھا۔

میرے سسر محترم پریشانی میں اسی ہسپتال میں موجود ایک یورالوجسٹ کے پاس چلے گئے اور ان سے سارا معاملہ شئیر کیا۔ یورالوجسٹ نے اس کا علاج سرجری تجویز کیا لیکن یہ بھی بتا دیا کہ حالتِ حمل میں سرجری زچہ و بچہ کے لیے انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔ ہم ڈاکٹر کی اس بات سے مزید پریشان ہو گئے۔


مجھے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا تھا۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ صبح سے کیا ہو رہا ہے۔ ایک معمولی سا درد بڑھ کے اتنا بڑا مسئلہ بن جائے گا کہ ڈاکٹرز اس درد سے عاجز آ جائیں گے۔ یاخدا، ابھی تو پیدائش کے مرحلے میں دو ڈھائی ماہ باقی ہیں، کیسے کٹیں گے کہ یہ مہینے؟ قبل از وقت پیدائش ہو گئی تو اس کے زچہ و بچہ پہ کیا اثرات ہوں گے۔ ذہن سمندر میں پڑے ایک بہت بڑے بھنور کی طرح چکرا رہا تھا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ ہر کام الٹ ہو رہا ہے اور ہر چیز میرے خلاف چلنا شروع ہو گئی ہے۔ ایسے مواقع پہ جو عموماً کیا جاتا ہے وہی میں نے کیا کہ اپنی کشتی کو طوفانی لہروں پر چھوڑ دیا اور انتظار کرنے لگا کہ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔


جناب مظہر شاہ صاحب جو ہمارے اکأؤنٹس کے کرتا دھرتا تھے۔ ان کی رہائش پاس ہی تھی۔ وہ بھی خیر خبر لینے اپنی بیٹی کے ساتھ تشریف لے آئے۔ ان سے بھی رات گئے تک گپ شپ ہوتی رہی۔ رات میں نے ہی وہاں بطور تیماردار قیام کیا۔

صبح دفتر آ گیا اور میرے چھوٹے بھائی عرفان میری جگہ ہسپتال پہنچ گئے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ جمعے کا مبارک دن تھا۔ لیکن میرے ذہن میں مختلف سوچیں مسلسل گھوم رہی تھیں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بیٹھے بٹھائے اچانک کیا ہو گیا ہے۔ آگے بڑھنے کا کوئی بھی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس سارے علاج معالجے میں جیب بھی تقریباً خالی ہو چکی تھی۔ کوئی بچا کچھا آخری ہزار کا نوٹ سالم جیب میں رہ گیا تھا۔  اُدھر گھر میں والدہ اپنے معمول کے مطابق ایک کالے بکرے کا صدقہ دے چکی تھیں اور خواتین کو بلا کر قرانی آیات کا ورد کروا رہی تھیں۔ 

سوچتے سوچتے میرے ذہن کے ریڈار پر ہمارے ایک پروفیسر طاہر مشتاق صاحب کا چہرہ ابھرا اور میرے ذہن میں آیا کہ میرے اس مسئلے کے حل میں وہ ممد ثابت ہو سکتے ہیں۔ میں نے اپنے موبائل سے فوراً انہیں کال کی۔ وہ کہیں مصروف تھے، ان سے مختصر سے بات چیت ہوئی۔

عصر کے بعد کا وقت تھا کہ میرے موبائل فون پر ابو کا نمبر چمکا۔ دوسری طرف اہلیہ تھیں اور پریشانی میں اطلاع دے رہی تھیں کہ ڈاکٹر نے انہیں چھٹی دے دی ہے اور ساتھ ہی کسی بھی علاج سے معذرت کر لی ہے۔ ڈاکٹر کا خیال یہ ہے کہ دائیں طرف والا گردہ حمل کے بوجھ سے دب چکا ہے۔ اس کے لیے اب پیدائش کا انتظار ہی کرنا پڑَے گا۔ درد کش ادویات استعمال کر کے کوئی فرق پڑتا ہے تو ٹھیک ہے، نہیں تو صبر شکر کر کے یہ درد برداشت کرنا پڑے گا۔ اہلیہ روہانسی آواز میں پوچھ رہیں تھیں کہ وہ دو ڈھائی ماہ اس درد کو کیسے برداشت کریں گی؟ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ فکر نہ کریں اور گھر آ جائیں۔ آپ کا علاج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہو چکا ہے۔ انہوں نے کوئی دوسری بات نہیں کی اور ابو اور بھائی کے ساتھ ہسپتال سے واپس آ گئیں۔

رات کو سونے سے پہلے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحبہ نے صبح و شام درد کش گولی کھانے کا کہا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ درد محسوس کر رہی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ درد تو نہیں ہو رہا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر درد نہیں ہو رہا تو وہ دوا نہ کھائیں۔ تھوڑا انتظار کر لیں۔ جب درد ہونا شروع ہو، تب دوا لے لیں۔ انہوں نے اس پر صاد کیا۔

قصہ مختصر یہ کہ ساری رات بغیر درد کے گزری۔ صبح جب دفتر جانے لگا تو میں نے ان سے درد کی کیفیت پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ درد نہیں ہو رہا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر درد نہیں ہو رہا تو دوا لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ درد ہونے کی صورت میں ہی دوا لیں۔ اللہ کی بندی نے میرا یہ مشورہ تسلیم کر لیا۔

الحمدللہ ،  اس کے بعد انہیں وہ درد کبھی نہیں ہوا۔ بچوں کی پیدائش بھی بخیر و خوبی ہو گئی۔ سب معاملات معمول کے مطابق چلنے لگے۔

اس واقعے کے کافی عرصے بعد کا ذکر ہے کہ ایک رات سونے سے پہلے اہلیہ کو یاد آیا کہ میں نے ان کے گردے کے درد کے سلسلے میں نے کسی علاج کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے تجسس کے مارے مجھ سے پوچھ ہی لیا کہ وہ آخر کون سا جادوئی علاج تھا کہ بغیر کسی دوا کے ان کا وہ درد ختم ہو گیا۔ آخر وہ کونسا پیر بابا  تھا کہ اس کے دم درود سے سارا مسئلہ ہی ختم ہو گیا۔

میں نے جب انہیں ساری بات بتائی تو حیران رہ گئیں۔ 

ہوا کچھ یوں کہ طاہر مشتاق صاحب ،جو ہمارے ہاں پروفیسر تھے، وہ ٹاؤن شپ لاہور کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے وہاں پر غریب اور نادار لوگوں کے لیے جماعتِ اسلامی کے زیرِ انتظام ایک شفاخانہ کھولا ہوا تھا، جس کے لیے وہ اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں سے مالی تعاون کے طلبگار رہتے تھے۔ اس واقعے سے چند ماہ قبل ہی انہوں نے مجھے اس نیکی کے کام میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔ جو میں نے بخوشی قبول کر لی تھی۔ چند ماہ تو میں نے انہیں شفاخانے کے لیے طے شدہ رقم ادا کی۔ لیکن اُس مہینے میری نیت بدل گئی، وہ مالی تعاون مجھے بیگار لگنے لگا۔ میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ جو رقم میں انہیں ادا کرتا ہوں، اس سے میں اپنی کتنی ہی ضروریات پوری کر سکتا ہوں۔ طاہر صاحب ان دنوں میں ہمارا کالج چھوڑ کر جی سی جوائن کر چکے تھے۔ وہ میرے پاس مالی اعانت کے لیے تشریف لائے تو میں نے اخراجات میں اضافے کا کوئی بہانہ کر کے ان سے معذرت کر لی۔ وہ بے نیل و مرام میرے دفتر سے لوٹ گئے۔ گو جاتے جاتے میں نے ان سے کہہ دیا کہ کچھ انتظام ہوا تو میں انہیں مطلع کردوں گا۔

جب اہلیہ کے ساتھ درد والا سارا معاملہ ہوا تو اس جمعے والے دن، سوچتے سوچتے میرے ذہن میں اچانک یہ خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ سارا میری اس حرکت کی سزا ہے۔ میں نے طاہر صاحب سے وعدہ کیا تھا کہ میں ماہانہ ان کے شفاخانے کے لیے کچھ نہ کچھ رقم مختص کروں گا۔ لیکن میری کوتاہی کہ میں اس وعدے کو نباہ نہ سکا۔ میرے دل سے آواز ابھری کہ ہاں یہ میری اسی نالائقی اور کوتاہی کی سزا ہے۔ مجھے اپنے اندر ہی اندر اس بات پہ یقین سا آ گیا۔ میں نے اُسی لمحے طاہر صاحب کو فون کیا اور ان سے کہا کہ رقم کا انتظام ہو گیا ہے اور میں وہ انہیں پہنچانا چاہتا ہوں۔ طاہر صاحب مصروف تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں وہ رقم خرم صاحب، ہمارے اکاؤنٹس مینیجر، کے حوالے کر دوں، وہ آتے جاتے ان سے پکڑ لیں گے۔ میں نے اسی وقت اپنا ہزار کا آخری نوٹ ایک لفافے میں ڈال کر خرم صاحب کے حوالے کر دیا۔

اس کے بعد کے باقی واقعات کا میں اوپر تذکرہ کر چکا ہوں۔ مجھ پر اور میری اہلیہ پر اس واقعے کا یہ اثر ہوا کہ اب بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے تو وہ مجھ سے پوچھ لیتی ہیں کہ مجھ سے کوئی ذمہ داری ادا کرنے میں کوتاہی تو نہیں ہو گئی۔ کوئی کوتاہی ہو گئی ہو تو ہم دونوں میاں بیوی فوراً اس کی تلافی کی فکر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مشکلات میں سے مکھن میں سے بال کی طرح نکال لیتا ہے۔ اور بالفرض مشکلات کم نہ بھی ہوں تو ہمیں یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جو اجر ہے وہ محفوظ ہے، ہمیں مل کے رہے گا۔

یوں سمجھیے کہ ہمیں دائمی اور پائیدار خوشی کا نسخہ ہاتھ آ گیا۔ مال جمع کرنے سے دکھ ، تکلیف اور پریشانی ہی ملتی ہے۔ جبکہ خرچ کرنے سے کشادگی، خوشی اور طمانیت نصیب ہوتی۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ ہم جو رقم جوڑ جوڑ کر جمع کرتے ہیں وہ اِدھر اُدھر کے مصارف میں ہی نکل جاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا کہ جو پیسے میں نے بچائے تھے، اس سے دس گنا زیادہ علاج معالجے کی مد میں خرچ ہو گئے تھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اپنی ضروریات کے لیے پس انداز نہ کریں۔ ضرور کریں کہ ہمیں اس کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی سماجی ذمہ داریوں کا ادراک بھی رہنا چاہیئے۔ 

اہلیہ اس کے بعد مالی معاملات کا اتنا خیال رکھتی ہیں کہ مجھ سے دس بیس روپے بھی لے لیں تو اسے لکھ لیتی ہیں اور بعد میں ادا کر دیتی ہیں۔ اپنے زیورات پر ہر سال زکوۃ پابندی سے ادا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی مالی ایثار کرتی رہتی ہیں۔ ہمارے گھر میں جو کوئی کام کرنے والی عورت ملازم ہوتی ہے وہ ان مالی عطیات کی وجہ سے کبھی گھر چھوڑ کر نہیں جاتی۔ میں تو اہلیہ سے کہتا ہوں کہ آپ ان کام کرنے والیوں کی عادتیں خراب کر دیتی ہیں۔ بیچاریاں کہیں اور کام کرنے جوگی نہیں رہتیں۔

یہی معاملہ والدہ کا ہے۔ وہ حساب کتاب کا اتنا خیال رکھتی ہیں کہ اپنے کسی بیٹے سے کوئی خرچہ کروا دیں تو پیسے واپس کر کے دم لیتی ہیں۔ انہیں کسی کے پیسے خرچ کروا کے سکون ہی نہیں ملتا۔ وہ فطرتاً دینے والا ہاتھ رکھتی ہیں، کسی کا احسان اٹھانا انہیں بہت گراں گزرتا ہے۔ احسن انداز سے اس احسان کا بدل ضرور ادا کرتی ہیں۔ ایک دفعہ واپڈا ہسپتال کے ڈاکٹر نے ان کے کچھ ٹیسٹ تجویز کیے تو میں نے ان کے وہ ٹیسٹ ایک پرائیویٹ لیب سے کروا دیے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ اس کے لیے مجھے کتنا اصرار کرنا پڑا تھا۔ وہ مان ہی نہیں رہیں تھیں۔ جب مانیں تو یہ شرط رکھی کہ پیسے وہ خود ادا کریں گی۔ میں نے جب ان کو یقین دلایا کہ ٹیسٹ کے تمام پیسے مجھے اپنے دفتر سے واپس مل جائیں گے، تب مانیں۔ لیکن پھر بھی انہیں پورا اطمینان نہیں تھا۔ کسی شادی بیاہ میں کسی دوسرے شہر انہیں لے کے جاؤں گا تو چلتی گاڑی میں میری جیب میں پیسے ڈال دیں گی کہ مجھ پہ گاڑی میں پٹرول ڈلوانے کا بھی بوجھ نہ پڑے۔ میں انہیں بااصرار پیسے واپس کرتا ہوں۔ جب قبول نہیں کرتیں تو انہیں یہ کہہ کہ واپس کر دیتا ہوں کہ اچھا کسی غریب کو دے دیجیے گا۔ تب کہیں قبول کرتی ہیں۔ جب والد محترم بسترِ مرگ پر تھے۔ کومے کی حالت میں تھے۔ تب میں نے والدہ سے مالی معاملات کا ذکر کیا تو انہوں نے جہاں جہاں ابو نے پیسے دینے کے وعدے کیے تھے، یا جہاں باقاعدگی سے ادا کیا کرتے تھے لیکن بیماری کے باعث ایسا نہ کر پائے تھے تو ان سب کو حساب کتاب کر کے سب پیسے ادا کر دیے کہ والدِ محترم کے پہ ایک پیسے کہ ذمہ باقی نہیں رہا۔ اللہ میرے والد کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور جن کٹھنائیوں کی زندگی کا انہوں نے انتخاب کیا اور اس میں سے سرخرو ہو کر گزرے، اللہ انہیں اس کا بہترین نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین۔

طاہر صاحب اب ماشاءاللہ پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ اب بھی اس شفاخانے کو تندہی سے چلا رہے ہیں۔ جب وہ پی ایچ ڈی کے لیے بیرون ملک مقیم تھے، تب بھی کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرا کی مجھ سے اپنا وعدہ نباہنے میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو۔ اگر چند ماہ کسی وجہ سے میں وعدہ پورا نہ بھی کر پایا ہوں، تو ایک ہی دفعہ جا کے پچھلا سارا حساب کتاب بیباک کر دیتا رہا ہوں۔ مجھے پر جو کٹھنائی آئی یہ بھی طاہر صاحب کے کام کی قبولیت اور ان کے خلوص کی دلیل ہے۔ طاہر صاحب اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ مجھے بہت عزیز ہیں کہ ان سے دور ہونے کی سزا بھی بڑی سخت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔ آمین۔

اپنے اس مضمون کو چند احادیث پر ختم کروں گا۔ 

ترمذی کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایک بکری ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا گیا۔ آپؐ گھر میں تشریف لائے تو پوچھا بکری میں سے کیا باقی رہا؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا مَابَقِیَ الّا کَتِفُھا ’’ایک شانے کے سوا کچھ نہیں بچا’’ فرمایا بقی کلّھا غیر کتفھا ’’ ایک شانے کے سوا ساری بکری بچ گئی‘‘ یعنی جو کچھ خدا کی راہ میں صَرف ہوا وہی دراصل باقی رہ گیا۔


 ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ کس صدقے کا اجر سب سے زیادہ  ہے ؟ فرمایا اَنْتَسَدَّ قَ وا نت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأ مَلُ الغِنیٰ، ولا تُمْھِل حتّیٰ اذا بلغت الحلقوم قلت لفالان کذا ولفالن کذا وقد کان لفالن۔’’ یہ کہ تو صدقہ کرے اس حال میں کہ تو صحیح و تندرست ہو، مال کی کمی کے باعث اسے بچا کر رکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور اسے کسی کام میں لگا کر زیادہ کما لینے کی امید رکھتا ہو۔ اس وقت کا انتظار نہ کر کہ جب جان نکلنے لگے تو تو کہے کہ یہ فلاں کو دیا جائے اور یہ فلاں کو۔ اس وقت تو یہ مال فلاں کو جانا ہی ہے ‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔ 


ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : یقول ابن اٰدم مالی مالی، وھل لک من مالک الا ما اکلت فافنیت، او لبست فابلیتَ، او تصدیقت فامضیت؟ وما سویٰ ذٰ لک فذا ھب و تارکہ للناس۔ ’’آدمی کہتا ہے میرا مال، میرا مال۔ حالانکہ تیرے مال میں سے تیرا حصہ اس کے سوا کیا ہے جو تو نے کھا کر ختم کر دیا، یا پہن کر پرانا کر دیا، یا صدقہ کر کے آگے بھیج دیا؟ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے اور تو اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے ‘‘ (مسلم)۔


ایک روز نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے خدا کی حمدو ثناء اور انبیاء علیہم السلام پر درود بھیجنے کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو موجود ہیں انکے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگ جو موجود نہیں ان تک یہ بات پہنچا دیں کہ

اگر کوئی شخص اپنے پریشان حال مقروض کو مہلت دے تو جب تک اسکا مال واپس نہ مل جائے اس کے نامہ اعمال میں صدقہ دینے کے برابر ثواب (لکھنے) کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے۔

یعنی ہر وہ دن جس میں اس نے مہلت دی بالکل اسی طرح ہے کہ اس نے ہر روز وہ مال راہ خدا میں خرچ کیا ہو۔

و ما علینا الا البلاغ المبین

ختم شد

2 comments :

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...