Sunday, June 30, 2013

شکاری پرندوں اور ہم غلاموں کا قصّہءِ مشترک


چند دن ہوئے کہ میں بی-بی-سی پر پرندوں کے متعلق ایک معلوماتی پروگرام دیکھ رہا تھا۔ نہ جانے اس پروگرام کو دیکھتے ہوئے مجھے وہ سب کچھ جانا پہچانا سا کیوں لگنے لگا۔ غور کیا تو پتہ چلا کہ وہ سب کچھ اس لیے جانا پہچانا لگ رہا تھا کیونکہ اس سے ملتی جلتی کہانی ہماری اور ہمارے دیس پاکستان کی ہے۔گو کہانی وہی ہے، بس ان پرندوں کی جگہ ہم ہیں اور ان کے مالکوں کی جگہ ہمارے آقا ہیں۔ پچھلے چھیاسٹھ سالوں میں پاکستان میں یہی کھیل چلتا آ رہا ہے۔ مماثلتیں اتنی گہری تھیں کہ اور وہ سب کچھ اتنا صاف اور واضح تھا کہ مجھے اُن پرندوں میں پاکستان کی شبیہ نظر آنی شروع ہو گئی۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب نے تو صرف ایک ادبی استعارے کے طور پر لکھا تھا کہ "الو ہمارے بھائی ہیں"، لیکن اس ویڈیو کو دیکھ کر آپ کو اس پر یقین بھی آ جائے گا۔ چلیں الو نہ سہی، یہ شکاری پرندے ہی سہی۔

 اُس پروگرام کی تفصیل کچھ یوں ہے:

اس پروگرام میں دکھایا گیا تھا کہ بہت سے پرندے ایسے ہیں جو پانی کے اندر دُور تک غوطہ لگانے اور مچھلی کا شکار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اُن کی یہ صلاحیت جبلی ہے۔ چین میں کچھ مچھیرے نے ان پرندوں کی اس صلاحیت کو مچھلی کے شکار کے لیے استعمال کرنے کا سوچا۔اس مقصد کے لیے انہوں نے ان پرندوں کو پکڑا، اُن کو پالا پوسا اور خود سے مانوس کیا۔ اس سارے عمل کے بعد وہ پرندے اپنے مالکوں کے لیے مچھلی پکڑنے کا آلہ بن کر رہ گئے۔ وہ اپنے مالکوں کے حکم پر بہترین مچھلی شکار کر کے ان کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔

مچھیرے جانتے ہیں کہ  مچھلی ان پرندوں کا من بھاتا کھاجا ہے، لہٰذا وہ شکار سے پہلے ایک تو ان پرندوں کو بھوکا رکھتے ہیں اور دوسرا  ان کی گردنوں کے گرد ایک ڈوری کس کے باندھ دیتے ہیں (غلامی کا طوق ہی سمجھیے)۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پرندے شکار پکڑ تو سکتے ہیں لیکن نگل نہیں سکتے۔ ان کو سمندر کی لہروں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ وہ سمندر کی گہرائیوں میں غوطہ لگاتے ہیں۔ اچھی سے اچھی مچھلی کو اپنی خاصی بڑی چونچ سے شکار کرتے ہیں لیکن گردن میں ڈوری ہونی کی وجہ سے اس کو کھا نہیں سکتے۔ لا محالہ ایسے میں وہ بڑی فرمانبرداری کے ساتھ یہ شکار اپنے مالکوں کے حضور پیش کر دیتے ہیں۔ جسے وہ ان کی چونچوں سے نکال کر محفوظ کر لیتے ہیں۔ اُن کی یہ شکاری مہمیں تب تک چلتی رہتی ہیں جب تک مچھیرے مناسب مقدار میں مچھلیاں جمع نہیں کر لیتے۔

 مہم انجام پانے کے بعد، ان پرندوں کو انعام میں چوگا دیا جاتا ہے۔ جو بہرحال مچھلیوں پر ہی مشتمل ہوتا ہے لیکن ان کا معیار کمتر ہوتا ہے۔ ان پالتو پرندوں کو وہ مچھیرے پھر سے اپنی ساتھ واپس لے جاتے ہیں۔

مجھے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارا ملک پاکستان بھی بڑی طاقتوں کے ہاتھوں ایک پالتو شکاری پرندے کی طرح کھیل رہا ہے۔ وہ اس سے اپنے سارے مقاصد پورے کرواتے ہیں۔ گو اس شکارکا معاوضہ ضرور ملتا ہے لیکن بہت کمتر معیار کا۔ نیز یہ طاقتیں اپن مقاصد کے حصول کے لیے ہماری گردن دبانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتیں۔ استحصال کی سب سے بری شکل ہم پہ مسلط کی جاتی ہے۔ پوری قوم کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔ سب کی سب نعمتوں کے باوجود بجلی، گیس حتیٰ کہ پانی تک میں محتاج بنا دیا گیا ہے۔ بس اتنا ہی دیا جاتا ہے جس سے نہ تو ہم جی سکیں اور نہ ہی مر پائیں، بس نبض چلتی رہے۔

میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ان پرندوں میں صرف اتنا شعور آ جائے کہ وہ ایک دوسرے کی گردنوں سے وہ غلامی کے طوق اپنی چونچوں سے اتار سکتے ہیں تو ان کی غلامی کے دن بھی ختم ہو جائیں۔ ان کا وہ سب استحصال ختم ہو جائے۔ آخر ان کے مالک اُن کے اس جہالت کا ہی تو فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 

اس غلامی سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے شعور۔۔ اس غلامی کا شعور اور اس غلامی سے نکلنے کا عزم و یقین۔ علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ بھی تو یہی فرماتے ہیں کہ:
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

آئیے ہم بحیثیتِ پاکستانی، اپنے وطن کو اس غلامی سے نکالنے کی جدوجہد میں شریک ہوں۔ کرپشن، لاقانونیت، برائی سے لڑ جائیں۔ برائی کو ہاتھ سے روکیں، یا زبان سے برا بھلا کہیں یا کم از کم دل ہی سے برا جانیں۔ اچھائیوں کو فروغ دیں۔ الیکشن میں ذمہ داری سے شریک ہوں اور سب سے اہل امیدوار/پارٹی کو ووٹ دیں۔ ہم اپنے نام نہاد آقاؤں کے سب دوستوں کو مسترد کردیں اور صرف محبِ وطن لوگوں کو آگے لائیں۔ اس یقین کو آگے پھیلائیں کہ یہ غلامی ہمارا مقدر نہیں ہے۔ اس کے دن تھوڑے ہی ہیں۔ اسی یقین کے بارے میں علامہ فرماتے ہیں کہ:
یقیں ، مثل خلیل آتش نشینی
یقیں ، اللہ مستی ، خود گزینی
سن ، اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بتر ہے بے یقینی
گویا، غلامی سے بڑی مصیبت بے یقینی ہے۔ یقین آ گیا تو غلامی کے دن گنے گئے۔ آپ بھی یہ ویڈیو دیکھیے اور بتائیے کہ کیا آپ مجھ سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں۔



No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...