دنیائے سائنس کے سب سے بڑے موجد تھامس ایلوا ایڈیسن نے پرل سٹریٹ، لوئر مین ہٹن میں 4 ستمبر 1882ء کو پہلا مکمل کمرشل الیکٹرک لائٹنگ اینڈ پاور سسٹم قائم کیا۔ ایڈیسن کے بلب کی کامیابی نے پاور کے سورس کے لئے طلب پیدا کردی تھی اور یہ طلب ہی پرل سٹریٹ (Pearl Street)سٹیشن کی تعمیر اور جدید الیکٹرک یوٹیلٹی انڈسٹری کے قیام کا سبب بنی۔ قابل انحصار مرکزی پاور جنریشن، محفوظ اور موثر ڈسٹری بیوشن اور صارف کے لئے گیس لائٹنگ سے بھی کم قیمت پر برقی بلب کی روشنی کی فراہمی پرل سٹریٹ سٹیشن کی نمایاں ترین خصوصیات تھیں۔
پرل سٹریٹ پاور سٹیشن کے قیام سے پہلے پاور انسٹالیشن کے لئے ایڈیسن کئی تجربات کر چکے تھے۔ 1880ء میں انہوں نے سٹیم شپ ’’کولمبیا‘‘ پر ایک چھوٹا سسٹم انسٹال کیا اور اسی طرح انہوںنے اپنی مینلو پارک لیب میں بھی ایک مختصر لائٹنگ سسٹم قائم کیا۔ کئی دیگر خصوصیات کے ساتھ 1881ء میں لندن میں ’’پیرس انٹرنیشنل ایکسپوزیشن‘‘ میں بھی انسٹالیشن کی۔ ان ابتدائی تجربات سے ایڈیسن کی ٹیم کو نیویارک میں پہلی مستقل انسٹالیشن کے قیام سے پہلے ہی اس تصور کو آزمانے کا موقع مل گیا۔ مثال کے طور پر مینلو پارک لیب میں ایڈیسن نے سٹیم ڈائنموز، سیفٹی فیوزز اور ریگولیٹنگ ڈیوائسز کی جانچ کی جو بعد میں پرل سٹریٹ پلانٹ میں کامیابی سے استعمال کی گئیں۔
ان تجربات سے ہٹ کر بھی پرل سٹریٹ پلانٹ کی تعمیر میں کئی رکاوٹیں پیش آئیں۔ ایک بڑا مسئلہ کافی مقدار میں پاور جنریٹ کرنے کا طریقہ ڈھونڈنا تھا۔ ایڈیسن ڈائنمو (dynamo)، جسے آج ہم جنریٹر کہتے ہیں، استعمال کرنا چاہتے تھے۔ ڈائنمو ایک ایسی مشین ہے جو میکینکل انرجی کو الیکٹریکل انرجی میں تبدیل کرتی ہے۔ لیکن اس وقت تک اتنی طاقت ور ڈائنمو دستیاب نہیں تھی۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ’’جمبو ڈائنمو‘‘ تیار کی گئی۔ یہ 27 ٹن کی ایک مشین تھی جو 100 کلوواٹ بجلی پیدا کرتی تھی اور 1200 لائٹوں کے لئے کافی تھی۔ یہ پہلے سے دستیاب بڑی سے بڑی ڈائنمو سے بھی چار گنا بڑی تھی۔ پیرس ایکسپو میں ایڈیسن کے سسٹم کے پہلے مظاہرے میں پہلی مرتبہ سنگل جمبو ڈائنمو استعمال کی گئی۔
نیویارک شہر کے ایک مربع میل علاقے کو روشن کرنے کے لئے پرل سٹریٹ پاور پلانٹ میں اس طرح کی 6 جمبو ڈائنموز کی ضرورت تھی۔ بجلی کی فراہمی ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ صارفین کے گھروں تک پاور پہنچانے کے لئے تاروں اور زیر زمین ٹیوبوں، جنہیں Conduits کہتے ہیں، کا نیٹ ورک تعمیر کرنا سب سے بڑا چیلنج تھا۔
نیو یارک شہر کے سیاستدان ابتدائی طور پر شکوک و شبہات کا شکار تھے اور انہوں نے لوئر مین ہٹن کی گلیوں کی کھدائی کرنے کی تجویز مسترد کردی۔ ایڈیسن کو اپنے منصوبے کی تکمیل کے لئے گلیاں کھود کر ایک لاکھ فٹ وائرنگ بچھانے کی ضرورت تھی۔ تاہم ایڈیسن نے کسی نہ کسی طور پر شہر کے میئر کو قائل کرہی لیا۔ ٹیوبوں کی انسٹالیشن پر اس پورے منصوبے میں سب سے زیادہ لاگت آئی۔ ایک اور بڑا مسئلہ ایک ایسی ڈیوائس کی ضرورت تھی جو توانائی کے استعمال کا حساب کتاب رکھ سکے تاکہ صارفین سے استعمال شدہ توانائی کی قیمت وصول کی جا سکے۔
اگرچہ 18 ویں صدی کی ابتداء ہی میں ایسے آلات موجود تھے جو بجلی کے بہائو کا کھوج لگا سکتے تھے اور یہ بتا سکتے تھے کہ کتنی بجلی گزر رہی ہے لیکن ایسا کوئی آلہ نہیں تھا جو گزرتے وقت کے ساتھ اس بہائو کا ریکارڈ بھی رکھ سکے۔ 1882ء کے موسم بہار میں الیکٹریکل میٹر کا ایک کامیاب ڈیزائن تیار کرلیا گیا۔ تاہم ایڈیسن نے اپنے صارفین کو اس وقت تک بل نہیں بھیجے جب تک پورا سسٹم قابل انحصار طریقے سے چلنا نہیں شروع ہوگیا اور اس کے لئے کچھ اور وقت لگ گیا۔ دنیا کا سب سے پہلا بل بجلی انسونیا (Ansonia) براس اینڈ کاپر کمپنی کو 18 جنوری 1883ء کو بھیجا گیا اور اس بل کی رقم 50.44 ڈالر تھی۔ صارفین کو بل کے علاوہ اور بھی اخراجات برداشت کرنے پڑتے تھے جیسے بجلی کے بلب کی قیمت وہ خود ادا کرتے تھے جو کہ فی بلب 1 ڈالر تھی، 1880ء کے تناظر میں یہ قیمت کافی زیادہ تھی۔ کئی طرح کی رکاوٹوں کے باوجود پرل سٹریٹ سسٹم نے کامیابی حاصل کرلی۔
’’نیویارک ٹائمز‘‘ کا شمار ان اولین دفاتر میں ہوتا ہے جنہوں نے یہ نیا سسٹم اپنایا۔ اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا، ’’آرک لائٹنگ، جو اس سے قبل الیکٹرک لائٹنگ کی واحد دستیاب صورت تھی، کے مقابلے میں اس کی روشنی بہت نرم اور ہموار ہے، اور آنکھوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ یہ سارا معاملہ دراصل اس طرح سے نہیں چل رہا تھا جس طرح سے ایڈیسن کو امید تھی۔ عوام اس بات سے ابھی تک ناآشنا ہیں کہ پرل سٹریٹ سسٹم کئی برسوں تک بھاری خسارے میں جاتا رہا۔ اس کی ابتدائی لاگت بہت زیادہ تھی۔ مین ہٹن رئیل اسٹیٹ کی قیمت سمیت پاور سٹیشن اور اس کی تمام تاروں، انڈر گرائونڈ ٹیوبوں اور دوسری تنصیبات پر تقریباً تین لاکھ ڈالر لاگت آئی تھی۔ آپریٹنگ کے مسلسل اخراجات تعمیراتی اخراجات کے علاوہ تھے جیسے پلانٹ کے بوائلر کے لئے روزانہ کوئلے کی بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی تھی جس سے ڈائنموز کو چلانے کے لئے بھاپ حاصل کی جاتی تھی۔
1882ء اور 1883ء کے دوران پرل سٹریٹ پلانٹ کو چلانے کے اخراجات اس سے ہونے والی آمدنی سے کہیں زیادہ تھے تاہم 1884ء میں اس سے منافع آنے لگا۔ پرل سٹریٹ پاور سٹیشن کی کامیابی ہی ایک طرح سے اس کی ناکامی کا باعث بنی۔ ایڈیسن کے سسٹم نے دوردراز جگہوں پر توانائی کی طلب پیدا کردی اور ان جگہوں تک سپلائی کا کام بہت مہنگا ثابت ہوتا تھا۔ انڈسٹری کی جانب سے لائٹنگ کے لئے استعمال ہونے والے 110 وولٹ کے علاوہ دیگر وولٹیج ز کے لئے ڈیمانڈ دن بدن بڑھنے لگی۔ ایڈیسن کے سسٹم میں ڈائریکٹ کرنٹ (DC) استعمال ہوتا تھا جو کہ نئی ڈیمانڈز کے لئے موزوں نہیں تھا۔ نکولا ٹیسلا (Nikola Tesla) اور جارج واشنگٹن ہاؤس جیسے حریفوں کا خیال تھا کہ انڈسٹری کی ڈیمانڈ آلٹرنیٹنگ کرنٹ (AC) سے پوری کی جا سکتی ہے۔ ایڈیسن ڈائریکٹ کرنٹ کی محدودیت کو ماننے میں متامل تھے اور اس کا دفاع کررہے تھے۔ تاہم ان کا خیال غلط ثابت ہوا اور دنیا نے توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے آلٹرنیٹنگ کرنٹ کو معیار بنا لیا۔ اگرچہ اے سی پاور کا استعمال بڑھ رہا تھا لیکن پرل سٹریٹ سٹیشن کامیابی سے کام کرتا رہا۔
2 جنوری 1890ء کی صبح اس میں آگ بھڑک اٹھی اور اس کی چھ میں سے پانچ ڈائنموز مکمل طور پر تباہ ہوگئیں-بچ جانے والا یونٹ آج بھی ’’ہنری فورڈ میوزیم‘‘ میںمحفوظ ہے اور 1980 میں امریکن سوسائٹی آف میکینکل انجینئرنگ نے اسے ’’نیشنل ہسٹوریکل میکینکل انجینئرنگ‘‘ کا اہم ترین سنگ میل قرار دیا۔ پرل سٹریٹ سٹیشن کو دوبارہ تعمیر کیا گیا اوریہ 1895ء میں استعمال پر پابندی لگنے تک کامیابی سے کام کرتا رہا۔ اس وقت تک انجینئرز کہیں زیادہ بڑے سائز کے پاور پلانٹ ڈیزائن کرچکے تھے جن سے بڑے علاقوں کو برقی رو فراہم کی جا سکتی تھی-- اور اس طرح پرل سٹریٹ متروک ہوگیا۔
Latest News Breaking, Pakistan News
ReplyDelete