Saturday, June 22, 2013

فیصل آبادیاں - جناب شرر جی کے قلم سے


ویسے تو پاکستان ایک خوبصورت اور دلکش ملک ہے مگر اس کے چند شہر اپنی تہذیب و تمدن اور اپنی ثقافت اور روایات کی بدولت دنیا بھر میں بہت مقبول و معروف ہیں۔ ان میں شہر قائد کراچی کا ایک الگ مقام ہے۔ اسے روشنیوں کا شہر کہتے ہیں اسی لئے کے ایس سی نے اسے اندھیرے میں ڈبو رکھا ہے۔ لاہور کی تو کیا بات ہے جی۔ اسے تو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ مگر اب اس کی شریانیں بند ہو گئیں ہیں۔ اور اس دل کی دھڑکن کا ردھم بھی اِرریگولر ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے کسی بھی وقت ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے۔ اب ہم بات پاکستان کے تیسرے بڑے شہر لائلپور "فیصل آباد" کی کر لیتے ہیں۔
یہ شہر اپنی نوعیت کا پاکستان کا واحد شہر ہے۔ جہاں پر انسانوں سے زیادہ شیخ پائے جاتے ہیں۔ اس شہرکو1997 میں اس وقت کے سربراہِ مملکت میاں محمد نواز شریف نے مانچسٹربنانے کے ارادے کے اظہارسےشہرت کی بلندیوں سےہمکنار کیا۔ چونکہ اس شہر کی وجہ شہرت اسکی انڈسٹری ہے تو غالب گمان یہ ہے کہ شائد مانچسٹر بھی ایک انڈسٹریل سٹی ہے۔راوی نے چونکہ بقلم خود مانچسٹر نہیں دیکھا ہوا تو اس لئے کچھ وثوق سے کہنے سے قاصر ہے۔ ویسے مانچسٹر مجھے بہت برا لگتا ہے۔ قطعاً بھی اچھا نہیں لگتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انگلینڈ والے مجھے ویزا دینے سے انکاری ہیں۔ اور جب سے میرا ویزہ فارم ریجیکٹ ہوا ہے تب سےمیں نےبھی مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ انگلینڈ کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا موجب بنوں گا۔ ہاں اگر ویزا کی شفقت فرما دی جائے تو انگلینڈ جیسا پیارا ملک کوئی نہیں۔ خیر بات لائلپور المعروف فیصل آباد کی ہو رہی تھی۔ تواس شہر کو 1901 میں سرجیمز لوئل کے نام سے آباد کیا گیا تھا اور اس وقت اس کی طرزِ تعمیر میں اس بات کا خاص دھیان رکھا گیا تھا کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کا قبلہ رو سیدھ میں نہ آئے اسی وجہ سے آپ پورا فیصل آباد پِھرلیں۔ کسی بھی علاقے میں چلے جائیں قبلہ کونے ہی میں آئے گا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کا قبلہ ٹیڑھا ہے۔

اس شہر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس شہر سے سعودی عرب والوں کو بہت پیار ہے۔ شاہ فیصل نے خصوصی درخواست دی کہ اس شہر کو میرے نام پر منصوب کردیا جائے ورنہ ملک پاکستان کا تیل بند کر دیا جائے گا۔ فی الفور درخواست کی تعمیل کی گئی اور نام لائلپور سے فیصل آباد رکھ دیا گیا۔ بلکہ بعض مؤرخ تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ شاہ فیصل نے اس شہر کو خریدنے میں خاص دلچسپی کا اظہار کیا تھا مگر معاملات طے نا پاسکے اور اسکی وجہ یہاں پرآباد شیخ فیملیز بتائی جاتی ہیں۔

خیر یہاں کے حاجی صاحب بھی دنیا بھر میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کی بڑھی ہوئی توند آنکھوں سے چھلکتی ہوئی بےشرمی  رالوں سے ٹپکتی ہوئی ہوس اورخالصتاً لالچی نیت ان کو دنیا بھر میں نمایاں مقام پر فائز کئے ہوئے ہے۔ ویسے ان کو عرفِ عام وڈے حاجی صاحب "بڑے حاجی صاحب" سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ یہ اکثر کپڑے کی فیکٹریوں میں پائے جاتے ہیں۔ یا پھر سوتر منڈی کے پھٹوں پران کا ٹھکانا ہوتا ہے۔ اب آپ دولفظوں منڈی اور پھٹوں کی تشریح کے خواہاں ہوں گے۔ تو یہ وہ منڈی ہے جہاں سوتر کی سودے بازی ہوتی ہے۔ اور پھٹہ لکڑی کا ایک قیمتی تخت ہوتا ہے جس کی چارعدد ٹانگیں ہوتی ہیں۔ پہلے یہ شاہی محلوں میں بادشاہوں کی نشینی کا شرف رکھتے تھے۔ تب انہیں شاہی تخت کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مگر پھر وقت نے کروٹ لی اور وڈے حاجی صاحب تخت نشین ہو گئے اور اب وہ اس پر بیٹھ کر فیصلے صادر نہیں کرتے بلکہ سودے بازی کرتے ہیں۔ اور وہ بھی سوتر کی۔ وڈے حاجی صاحب لکڑی کے پھٹے کے ایک کونے میں براجمان ہوتے ہیں جب کے باقی پھٹے پران کی توند پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ گھروں میں یہ صنف بااختیار اور آزاد ہونے کی وجہ سے اکثر گرمیوں سردیوں میں ایک ڈبیوں والی دھوتی کے ساتھ ایک سفید کلر کی بنیان میں پائے جاتے ہیں۔ اور بنیان کو خاص انڈین فلمی سٹائل میں ناف سے قدرے اوپر رکھا جاتا ہے۔ ان کا پسندیدہ کھیل نوٹ گننا ہے۔ ہنس مکھ اور طبیعت کے شوخے ہونے کی وجہ سے اکثر ہمسائیوں سے ذلیل ہوتے ہوئے بھی دیکھے جاتے ہیں۔ یہ تعداد میں لاتعداد ہیں ان کی نسل ‘ نسل در نسل چلی آرہی ہے۔ ایک وڈے حاجی صاحب کے مرتے ہی ان کا بڑا بیٹا خود بخود وڈے حاجی صاحب کا گدی نشین ہو جاتا ہے۔

ویسے اس شہر کی وجہ شہرت یہاں کا ٹیلنٹ بھی ہے مگر یہ اقلیت ہونے کی وجہ سے اکثر پیدا ہوتے ہی دم توڑ جاتا ہے۔ مگر کچھ چیدہ چیدہ شخصیات نے بغاوت کی اور پھر ساری عمر بھوک سے لڑتے ہوئے گزار دی۔ یعنی کے نام تو بہت کمایا بس نہیں کمایا تو دھن دولت نا کمایا جس کی وجہ سے معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرنے میں ناکامیاب رہے۔ ان میں کچھ تو گویے بنے اور پھر انہی کے ساز و طبلے بیچ کر ان کو دوگز زمین ان کی ذاتی ملکیت میں خرید دی گئے جہاں اب وہ سفید پوشی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ کچھ نے شاعری میں نام کمایا تو وہ یہاں سے نکال دیے گئے اور غریب الوطن ہو کر اپنی ہی غزلوں کی بحر دفن ہو کر رہ گئےہیں۔ یہاں کا کپڑا دنیا بھر میں مشہور ہے مگر یہاں کے وڈے حاجی صاحب کی حب الوطنی اور کفائیت شعاری کا یہ عالم ہے کہ وہ خود ساری عمر ایک ڈبیوں والی دھوتی اور ناف سے قدرے اونچی بنیان میں گزار دیتے ہیں۔ اس بنیان سے انھیں توند کھجانے میں بھی کافی آسانی رہتی ہے۔

نارمل جگہوں پر دن میں 3 وقت کھانا کھایا جاتا ہے جب کہ فیصل آباد میں صرف 3 ٹائم کھانا نہیں کھایا جاتا باقی ہر ٹائم ہی کھایا جاتا ہے۔ شائد اس کی وجہ زوال کا ٹائم ہو کہ کسی نے کہہ دیا کہ اس ٹائم عبادت کرنا گناہ ہے۔ اور چونکہ فیصل آبادی تو کھانے کو عبادت سمجھ کر کھاتے ہیں اس لئے بس ہر وقت ہی کھاتے ہیں۔ اب اگر ہم اس بستی سے باہر نکلیں تو فیصل آباد میں کچھ اور بستیاں بھی ہیں۔ جہاں پر مختلف نوعیت کی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ چونکہ یہ علاقے غربت کی چادر میں ڈھکے ہوئے ہیں تو ان کا ذکر راوی کارِ گناہ سمجھتا ہے ان میں مشہور علاقے "بھولے دی جھگی" ‘ مائی دی جھگی" ‘ "ککڑا والا" اور ڈی ٹائپ کالونی وغیرہ ہیں۔ ان علاقوں پر تبصرہ کرتے ہوئے بھوک ننگ کے عالمی ایوارڈ یافتہ اور ہمارے یارِخاص مسٹر 'ف' فرماتے ہیں کہ ان علاقوں میں خوراک کی بَھلے ہی کمی ہو مگر "جگت بازی" فقرے کسنا کی فصل بہت بھرپور ہوتی ہے۔ میرے یارِ خاص ایک واقعہ سے اپنی بات کی تصدیق فرماتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ بھولے دی جھگی سٹاپ پرایک چھابڑی والے کے پاس امرود خریدنے کی غرض سے رکے تو ایک امرود جناب عزت مآب 'ف' صاحب نےکاٹا ہی تھا کہ اس میں سے ایک کیڑا رونما ہو گیا جناب 'ف' صاحب نے جسارت کی اور چھابڑی والے سے گلہ کر ڈالا کہ ارے میاں امرود میں سے تو کیڑا نکلا ہے۔ یہ سننا ہی تھا کہ چھابڑی والے نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بھائی کیڑے نے بھی تو یہیں سے کھانا ہے اسکی کون سی  فیکٹریاں چلتی ہیں۔

فیصل آباد میں ایک اور اہم نسل بہت پائی جاتی ہے اور وہ ہے علم سے عاری عالم ان کو عرف عام میں مُلا اور مولوی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خالصتاً عاشقانہ طبیعت کے حامل افراد ہوتے ہیں۔ شہرِ فیصل آباد میں بہت پائے کے علماء پائے جاتے ہیں۔ بلکہ ثانی پائے والے کے ارد گرد ہی سارے علماء پائے کھاتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ بلکہ یہاں کے مولوی پائے کے مولوی کہلانا بھی فخر سمجھتے ہیں اور اسی فخر کے چکر میں ثانی کی بھی خوب پائے کی بِکری ہوتی ہے۔ ملاؤں کی عاشقانہ طبیعت کے مظہر شہر بھر میں بکھرے پڑے نظر آتے ہیں۔ کہیں پر سنیساسی باوا کی شکل میں تو کہیں پر بابا جی دم درود والے کی کارہ گری کی صورت میں۔ اور یہ بھی بھوک ننگ کے عالمی ایورڈ یافتہ مسٹر ف کا فرمانا ہے اس بارے بھی راوی کا ذاتی علم محدود ہے۔ اور اس بات کی تصدیق بھی مسٹر 'ف' اپنے ایک واقعہ سے فرماتے ہیں بلکہ اسے تو وہ آنکھوں دیکھا حال کہہ کر اکثر ہمیں سنایا کرتے ہیں۔ کہ ایک دفعہ میں اپنے گھر کے باہر فیصل آباد کا روائیتی لباس ڈبیوں والی دھوتی اور ناف سے قدرے اونچی بنیان پہنے براجمان تھا کہ سامنے گھر کی دو عورتیں خوب زوروشور سے لڑ رہی تھیں اور پاس ہی سے ایک حافظ صاحب اپنی سائیکل پر سوار گزر رہے تھے۔ کہ اسی اثناء میں ایک عورت نے لڑتے لڑتے دوسری عورت کو گالی عنائیت فرمائی کہ اللہ کرے تیرا ویاہ حافظ نال ہو جاوے "تمہاری شادی حافظ سے ہو جائے" دوسری نے بھی برجستہ کہا اللہ کرے تیرا کُنڈہ وی حافظ ای چکے " تمہارا گھونگھٹ بھی حافظ ہی اٹھائے" یہ کہہ کر وہ پھر سے اپنی لڑائی میں مگن ہو گئیں۔ اب حافظ صاحب اپنی سائیکل سے اتر کر کافی دیر تک لڑائی دیکھتے رہے آخرکار صبر نا ہو سکا تو مسکراتے ہوئے پوچھنے لگے کہ حافظ جی لئی کی حکم اے کھڑے رہن کے چلےجاون " حافظ جی کے لئے کیا حکم ہے کھڑے رہیں یا چلے جائیں"۔ آگے کا واقعہ آپ لوگوں کو بتانے والا نہیں کہ حافظ صاحب کے ساتھ پھر کیا ہوا۔

بہرکیف اس سارے کے باوجود فیصل آباد مجھے بہت پیارا ہے۔ کیونکہ یہاں بَھلے ہی لوگوں کا قبلہ ٹیڑھا ہے۔ بھلے ہی لوگ کہتے ہیں کہ فیصل آبادی وڈے فسادی "بڑے فسادی" اس سارے کے باوجود اس میں آٹھوں بازاروں پر حکومت کرنے والا اکلوتا گھنٹہ گھر ہے۔ چاغی کی آئیسکریم کے تو مزے ہی نرالے ہیں۔ بابر تکہ والے کے چکن پیس کا تو کوئی ثانی ہی نہیں ہے۔ مگر بندو خان کی ریشمی بوٹی اور پراٹھے بھی تو بہت دل کو بھاتے ہیں۔ اور اس سارے کے ساتھ ساتھ چاچا شفیع کی حلوہ پوری اور یادگار سویٹس کا فروٹ کسٹرڈ اور رسملائی اگر یہ سب کھا چکے ہوں تو محمد پورہ کی درود شریف والی مسجد جہاں ہر جمعہ کو بعدازنمازِ عصر درود شریف کی محفل منعقد ہوتی ہے اور نمازِ مغرب تک جاری رہتی ہے۔ اور پھر فیضانِ مدینہ کی مدنی بیٹھکوں کا توکیا ہی کہنا ہے۔ میرے پیرو مرشد حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امین صاحب دامت برکاتہم عالیہ کا فیض و برکات بھی تو ہے اور پھرحضرت مولانا سردار صاحب کی مسجد کے فلک بوس گنبدوں سے ہوتی نور کی بارش اور پھر قبلہ والدِ محترم مرحوم شوکت حسین چوہان صاحب کا مزار اطہر اور پھر راوی کی جائے پیدائش یہ سب باتیں فیصل آبادیوں کے لئے باعثِ فخر ہونے کے لئے کافی ہیں۔ اور اس سارے پر فیصل آباد والوں کا مزاح سے بھرپور طرزِتخاطب اس کو سب سے نمایاں کرتا ہے۔ بس تو پھر ہمیں تو اپنے فیصل آباد سے پیار ہے جی۔
------------------------------------
بارے کچھ مصنف کا بیاں ہو جائے
شرر جی، جناب بشارت علی شرر کا قلمی نام ہے۔ آپ فیصل آباد سے تعلق رکھتے
ہیں۔ فیصل آباد سے ان کی محبت ان کے اس مضمون سے عیاں ہے۔ چونکہ فیصل
آباد میری محبتوں میں بھی شامل ہے۔ لہٰذا ان کا یہ مضمون پڑھنے کے بعد شرر جی سے مودبانہ درخواست کرنی پڑی کہ وہ یہ مضمون مجھے اپنے بلاگ کے لیے عنایت فرما دیں جو انہوں نے فراخ دلی سے قبول کر لی۔ شرر جی شاعری کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں۔ کہانیاں بھی لکھتے ہیں۔ آپ "صدائے جوگی" کے عنوان سے روزنامہ نئی بات میں کالم بھی لکھتے ہیں۔ گویا ادبی ذوق میں تنوع و وسعت ہے۔ میں شرر جی کو آئی-چوپال میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ امید ہے کہ شرر جی کی مذید دلچسپ اور معلوماتی تحاریر کو اس بلاگ کا حصہ بنایا جائے گا۔ 

شرر جی سے ملنے یا مزید جاننے کے لیے یہاں کلک کریں۔

4 comments :

  1. ودھیا جی ودھیا۔ فیصلباد اور فیصل بادیوں کا تعارف مزیدار رھا

    ReplyDelete
  2. i love u mamu jan :) u r my inspiration :) ur's cheeta :)

    ReplyDelete

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...