آفس میں کام کی زیادتی نے مجھے آج شدید تھکا دیا تھا ۔ راحیل صاحب کی شادی تھی اور وہ چھٹیوں پر تھے جس وجہ سے میں ان کے بیک اپ پر ان کے کام کو بھی ہینڈل کر رہا تھا ۔ اور اُدھر گھر میں لوڈشیڈنگ کے عذاب نے بھی جینا محال کر رکھا تھا ۔ کافی دنوں سے صحیح طرح سے سو بھی نہیں پایا تھا ۔ پر آج میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ گھر جا کر سیدھا چھت پر چلا جاؤں گا اور دو تین گھنٹے تو کم از کم ٹِکا کر نیند پوری کروں گا ۔
مگر جب میں گھر پہنچا تو گھر میں بچھے ماتم نے میرے ہوش گُم کردیئے ۔ میں ابھی بائیک سٹینڈ پر ہی لگا رہا تھا کہ اندر سے آنے والی چیخ و پکار نے میرا دل دہلا دیا ۔ مجھے دیکھ کر ممانی بلقیس بین ڈالتے ہوئے میرے گلے سے لگ گئیں ۔ میرے تو جیسے اوسان ہی خطا ہو گئے ۔ یا اللہ خیر ! میرا ہوکا نکل گیا ۔ میرا دھیان سیدھا دادا جی کی طرف چلا گیا ۔ یا اللہ دادا جی کو اتنی جلدی اپنے پاس بلا لیا ۔ ابھی عمر ہی کیا تھی ان کی۔۔؟ ایک سال کم پورے سو سال ۔ ابھی تو صرف دودھ کے دانت ہی ٹوٹے تھے ۔ یا اللہ سینچری تو مکمل کر لینے دی ہوتی ۔ اور کچھ نہیں تو ٹنڈولکر کی سینچریوں کی سینچری کا ریکارڈ ہی برابر کرلینے دیا ہوتا ۔ اگر داد جی چلے گئے تو شدن بی کا کیا ہو گا ؟ مختار بی بی تو بھرے بڑھاپے میں بیوہ ہو جائے گی ۔ اب کس کس کا نام لکھوں ۔ ہر پینسٹھ سے پچاسی سال کی محترمہ دادا جی کا پانی بھرتی تھی ۔ اوہ سوری !! دم بھرتی تھی ۔ دم نہیں یار پانی ہی بھرتی تھی ۔ وہ دراصل دادا جی کی چارپائی بالکل دروازے کے ساتھ باہر گلی میں بچھی ہوئی تھی ۔ اور دادا جی کلف لگی دھوتی پہنے ہاتھ میں حقہ لئے اپنی چارپائی پر عدالت لگائے بیٹھا کرتے تھے ۔ اور عین ان کی چارپائی کے پاس ابا حضور نے سرکاری نل کا کنکشن لگوا دیا تھا تاکہ محلے والے آسانی سے اور فراوانی سے پانی بھر لیا کریں ۔ مگر یہ وہ واحد نیکی تھی جسے کرکے ابا جی پچھتا رہے تھے ۔ یہ نیکی کئی خونی معرکوں کی موجب بن چکی تھی ۔ اور اس نیکی کی وجہ سے محلے میں آئے روز گھمسان کی جنگ ہوا کرتی تھی ۔ اور جانے کیوں ہر جنگ کے پیچھے وجہء جنگ دادا جی کی ہستی ہی کو ٹھہرایا جاتا تھا ۔ مگر دادا جی خود کوان معرکوں میں معصوم تصور کیا کرتے تھے ۔ اس الھڑ بڑھاپے میں اکثر ایسی چھوٹی موٹی خطائیں تو سرزد ہو ہی جایا کرتی ہیں ۔ اس میں بھلا برا ماننے کی کیا بات ہے ۔ جسے زیادہ شکائیت ہے تو وہ نا بھرا کرے نا اس نل سے پانی ۔ پانی بھی بھرنا یہی سے ہے ۔ اور شکائیتیں بھی ضرور کرنی ہیں ۔ دادا جی معصومیت سے فرمایا کرتے تھے ۔ اب کوئی حقے کا کش کھینچے گا تو حقہ تو گڑگڑ کرے گا نا ۔ اب حقے کی گڑگڑ کی کیا شکائیت ۔؟
مگر میں حیران تھا کہ عین اسی وقت دادا جی کے حقے کی گڑگڑ کیوں بڑھ جاتی تھی جب عورتیں نل سے پانی بھرا کرتی تھیں ۔ ایک اور حیرانی بھی تو تھی کہ یہ عورتیں کس کے لئے اتنا سج دھج کر پانی بھرنے آیا کرتی تھیں ۔ دال میں کچھ کالا ضرور تھا ۔ مگر آج سے تو گلی کی رونق ہی ختم ہو جانے والی تھی ۔ آئیندہ سے گلی میں سے ہر گزرنے والے کا گالیوں سے سواغت کون کیا کرے گا ۔؟ یا اللہ رحم ! میرا دل سوچ سوچ کر خون کے آنسو رو رہا تھا ۔ اور ادھر بلقیس ممانی تھیں کہ وہ مسلسل مجھ سے چمٹی بین ڈال رہیں تھیں ۔ ارے ممانی کیا ہوگیا ہے آپ کو ۔۔؟ آپ تو پیچھے ہٹیں ۔ کوئی چکنا لڑکا دیکھا نہیں کہ بس کسی نا کسی بہانے چمٹ گئیں اس سے ۔ میں نے ممانی کو خود سے الگ کرتے ہوئے پوچھا ۔ ماجرا کیا ہے ۔؟ کس لئے اتنے بین ڈال رہی ہو ۔؟ بیٹا ہم تو لٹ گئے ۔۔۔ ہیں لٹ گئے ۔؟ کیا ہمارے گھر ڈاکو پڑ گئے ۔۔؟ یہ خبر تو دادا جی کی رحلت سے بھی زیادہ سنسنی خیز تھی ۔ کیونکہ دادا حضور کی گھر کے دروازے کے باہر موجودگی اور اس پر ان کے ہاتھ میں یہ لمبا سا ڈنڈا ۔ اور اس پر محلے بھر میں پھیلی ہوئی دادا جی کی دہشت ۔ پھر بھی ہمارے گھر ڈاکوؤں کی واردات ۔؟دادا جی کی اجازت کے بنا تو کوئی بلی یا بلی کا بچہ ہمارے گھر گھسنے کی ہمت نہیں کرتا تھا ۔ یہ ڈاکو کدھر سے گھس گئے ۔
یہ خبر واقعی دادا جان کی وفات سے بھی زیادہ بڑھ کر خطرناک تھی ۔ میں کسی طرح ممانی کے چنگل سے نکل کر تیز تیز ڈگ بھرتا ڈیوڑھی سے صحن میں داخل ہوا ۔ جہاں میری پہلی ملاقات ہی کاچھو سے ہوئی جو ننگے فرش پر پُھونی بچھائے ماتم کناں تھا ۔ کاچھو دراصل میرے مامے کا منڈا کاشف تھا ۔ اور اس کا نام پیار سے کاشف سے کاچھو کر دیا گیا تھا اور یہ ستم ظریفی بھی گھر کے بزرگوں کی تھی ۔ جنہوں نے اچھے بھلے ظہیر کو جیرا کر دیا تھا ۔ کاشف کو کاچھو کردیا تھا ۔ جب بھی کوئی مجھے جیرا کہتا میرے تن بدن میں چنگاریاں کوند آتیں میرا دل کرتا میں اسے جلا کر بھسم کردوں ۔ مگر صبر کے گھونٹ پی جانا ہی میرا مقدر تھا ۔ اب میں صرف اپنے آفس والوں کے لئے ہی ظہیر حسین تھا باقی تو پورا محلہ اور رشتہ دار جیرے سے واقف تھے ۔ میں کاچھو کو یوں ہی روتے چھوڑ کر آگے بڑھ گیا ۔ مگر کمرے میں بچھی چارپائی پر دادا جی کو لیٹے دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ محلے کی پندرہ بیس مائیاں بیک وقت بیوہ ہو گئیں ہیں ۔ اور اس پر یہ ستم ظریفی کے ماں عین دادا جی کی چارپائی کے پاس زمین پر خاموش بیٹھی ہوئی تھی ۔ میں آگے بڑھ کر دادا جی کی چارپائی سے لپٹ کر زور زور سے رونے لگ گیا ۔ ہائے دادا جی ۔ تسی ہُنے ای ٹر گئے او ۔ ہالے تہاڈی عمر ای کی سی ۔ ہائے دادا جی تسی تے ٹنڈولکر دا ریکارڈ وی برابر نئیں کرسکے ۔ ہائے دادا جی شدن بی دا ہُن کون سہارا بنو گا ۔ (ہائے دادا جی آپ اتنی جلدی مر گئے ۔؟ ابھی آپ کی عمر ہی کیا تھی ۔؟ ہائے دادا جی آپ نے تو ابھی ٹنڈولکر کی سو سینچریوں کا ریکارڈ بھی برابر نہیں کیا ۔؟ ہائے دادا جی اب شدن بی کا کیا ہوگا ۔؟ اب اس کا کون سہارا بنے گا ۔؟)
میں نے ابھی یوں عورتوں کی طرح بین ڈالنے شروع ہی کئے تھے ۔ کہ دادا جی کی سوٹی (چھڑی) نے میری کمر کا تعاقب کیا اور عین میری کمر کے وسط میں جا کر لگی ۔ اور میں یوں چنگارتا ہوا اٹھا جیسے کسی کتے کو پتھر مارو تو وہ چووں چووں کرتا ہوا بھاگتا ہے ۔ میں نے سیدھے چھت کی طرف دھڑکی لگا دی ۔ ٹھہر جا کتے دیا مارا تینوں میں دساں ۔۔؟ کناں چاہ تہانوں میرے مرن دا۔ رک جا ذرا کتے دیا پترا ۔ ( رک جاؤ کتے کے بچے تمہیں کتنا شوق ہے مجھے مارنے کا) داد جی کی آڈیو ریکارڈنگ شروع ہو چکی تھی ۔ اور کس کس کلاس کی گالیاں تھیں جو مجھ نا چیز کے سینے پر تمغہء شجاعت بن کر سجائی جانا شروع ہو گئیں تھیں ۔ جن کو میں لکھنے اور بیان کرنے سے قاصر ہوں ۔ خیر ایک بات تو یقینی طور پر کلئیر ہوگئی تھی کہ دادا جی زندہ ہیں ۔ اور اپنی مکمل گرج برس کے ساتھ وہ ابھی تک نیچے صحن میں میرے لئے قصیدے پڑھ رہے تھے ۔ میں اپنی اس حرکت سے بہت نادم تھا ۔ مگر میں کرتا بھی تو کیا ۔۔؟ اس میں میرا قصور ہی کیا تھا ۔ میں نے تیسری منزل پر کبوتروں کے کھڈے ( پنجرے ) کے پیچھے پناہ لی ۔ اور جتنی آئیتِ قرآنی مجھے یاد تھیں ان کا ورد جپھنا شروع کردیا ۔ اور ساتھ ہی ساتھ ایک ہاتھ سے میں اپنی کمر کو بھی سہلا رہا تھا ۔
جانے کب زمین پر پڑے پڑے میری آنکھ لگ گئی ۔ اور جب آنکھ کھلی تو تین چار کوے مجھ ناچیز پر واردات ڈال کر اُڑھ چکے تھے ۔ ان کا فضلہ میری قیمتی شرٹ پر کسی میڈل کی طرح چمک رہا تھا ۔ میری فیورٹ ٹائی بھی اس واردات سے کافی متاثر ہوئی تھی ۔ اور جب خارش کرنے کے لئے پِنڈلی کو چھوا تو یہاں پر بھی کوئی جانور اپنی محبت کی مہر ثبت کر کے چلتا بنا تھا ۔ مجھے یہ انتقام زلیخاں کی پالتو بلی کا لگتا تھا ۔ میں غصے سے آگ بگولہ تھا ۔ خون میری نسوں میں بپھرا ہوا تھا ۔ کوؤں کو تو پکڑنا ممکن نہیں تھا ۔ مگر زلیخاں کی بلی کی اب خیر نہیں تھی ۔ قسم ہے گیلی پنڈلی کی مجھے ۔ زلیخاں تیری بلی سے انتقام اب مجھ پر واجب ہو چکا ہے ۔
میں دیوار پھلانگ کر زلیخاں کی چھت پر اتر گیا ۔ زلیخاں چاچا دینو کی بیٹی تھی ۔ نام تو دین محمد تھا ۔ پر بزرگوں کی والہانہ محبت نے دین محمد کو بھی دینو بنا دیا تھا ۔ میں نے چھت کا بھرپور جائزہ لیا اور زلیخاں کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا ۔ تمہاری کمینی مانو کدھر ہے ۔؟ کیوں کیا ہوا ۔؟ تمہیں میری مانو سے کیا کام ہے ۔؟ یہ دیکھو کمینی میرے اوپر کیا واردات ڈال کر گئی ہے ۔ میرے سارے کپڑے گیلے کردیئے ہیں ۔ کیا مطلب ۔؟ مانو نے تم پر پیشاب کر دیا ہے ۔؟ بڑی سیانی ہو گئی ہے میری مانو ۔ اسے بھی پتا چل گیا ہے کہ تم اسی قابل ہو ۔ میں تو تمہارے دل میں سمانے کے قابل ہوں ۔ مگر تمہیں خبر کیا ۔۔؟ میں نے لائن مارتے ہوئے فقرا کسا ۔ اچھا جی ! شکل دیکھی ہے ۔ تم نے اپنی ۔؟ دل میں سمانے کے قابل ہو ۔؟ جاؤ منہ دھو کر آؤ اپنا ۔ آئے ہائے ۔ اتنا ہی پیار آ رہا ہے تو خود اپنے ہاتھوں سے دھو دو نا میرا منہ ۔ ابھی ہماری تکرار اور دور تک جانی تھی کہ نیچے سے چاچے دینو کی آواز آگئی ۔ کون ہے چھت پر ۔؟ یہ سننا تھا کہ میرے تو جیسے طوطے ہی اڑ گئے ۔ میں نے نا آؤ دیکھا نا تاؤ بھاگم بھاگ دیوار پھلانگی اور سیدھے اپنی چھت پر ۔ میری اس اضطراری کیفیت پر زلیخاں قہقہے لگا کر ہنسنا شروع ہو گئی ۔ میں ایک لمحے کے لئے رکا اور اسکے قہقہوں کو دل میں اتار کر نیچے چلا آیا ۔
گھر کا ماحول ابھی تک سوگوار تھا ۔ میں نے پہلے دائیں دیکھا پھر بائیں دیکھا اور جب تسلی ہو گئی کہ دادا حضور صحن میں نہیں ہیں پھر میں آہستہ آہستہ قدم اٹھا تا ہوا کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔ کمرے میں تو سارا ہی خاندان اکٹھا تھا اور شائد کسی اہم ایشو پر تبادلہ خیال چل رہا تھا ۔ دادا جان سامنے بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور میرے اندر قدم رکھتے ہی مجھ پر سب سے پہلی نظر داد حضور ہی کی پڑی اور انہوں نے ایک انتہائی عمدہ اور نفیس گالی سے مجھے کمرے میں ویلکم کیا ۔ میں سر نیچا کیئے خاموشی سے آخر میں بیٹھ گیا ۔ اور کابینہ کی باقی ماندہ کاروائی سننا شروع کردی ۔ اوئے او کوتھے دے پتر تینوں کجھ پتا اے کہ کر اچ کی قیامت گزر چکی اے ۔ توں وی ایس کار اچ ای رہندا ایں یاں نئیں ۔ ( اوئے گدھے کی اولاد تمہیں پتا ہے کہ گھر میں کیا قیامت خیز واقع ہو گیا ہے ۔ کیا تمہیں گھر کی بھی کچھ خبر ہے یا نہیں) وہ دادا جی میں دفتر سے بڑا تھکا ہوا آیا تھا ۔ اس لئے اوپر جا کر سو گیا تھا ۔ مجھے کچھ علم نہیں کہ کیا ہوا ہے ۔؟ اوئے کھوتے دیا پترا کجھ کار دی خبر وی رکھیا کر ( کچھ گھر کی خبر بھی رکھا کرو) ججج ججی جی میں رکھتا ہوں جی ۔ کی سوا تے مٹی خبر اے تینوں سویر دی ببلی نئیں لبھدی پئی تے توں کہناں اے میں خبر رکھدا آں جی کردی ( تم کیا خاک خبر رکھتے ہو گھر کی صبح سے ببلی نہیں مل رہی اور تم کہہ رہے ہو کہ میں خبر رکھتا ہوں جی گھر کی ۔) ببلی نہیں مل رہی ۔؟ کیا مطلب دادا جی ۔؟ اوئے الو دیا کناں میں تیرے نال کوئی ہور زبان اچ گل کردا پیاں جہیڑا تینوں پتا نئیں لگدا پیا اے ( اوئے الو کے کان میں کسی اور زبان میں تم سے بات کر رہا ہوں جو تمہیں پتا نہیں لگ رہا) ججج ججی جی پتا چل گیا ہے جی ۔ کی پتا چل گیا اے تینوں ۔؟ (کیا پتا چل گیا ہے تمہیں) ججج ججی جی یہی کہ ببلی نہیں مل رہی صبح سے۔ ہاں تے اے کوئی خوشی دی خبر تھوڑی اے کہ ببلی گواچ گئی اے ۔ جاؤ مرو پراں تے لبھ کے لیاؤ ببلی نوں ۔ ( یہ کوئی خوشی کی خبر تو نہیں ہے نا کہ ببلی گھم ہو گئی ہے ۔ دفعہ ہو جاؤ اور ڈھونڈ کے لاؤ ببلی کو) ججج ججی جی میں ابھی ڈھونڈتا ہوں جی ۔ یہ کہہ کر میں کمرے سے باہر جانے کے لئے اٹھا ۔ ابھی میں کمرے کے دروازے پر ہی تھا کہ ایک خوف ناک چیخ نے میرے قدم وہیں پر جامد کر دیئے ۔ یا اللہ خیر ۔۔!! یہ آواز تو پدن بھوا کی تھی ۔
میں بھاگتا ہوا کچن میں پہنچا ۔ اور وہاں کا منظر دیکھ کر میرے لئے مشکل ہو رہا تھا اپنی ہنسی کو کنٹرول کرپانا ۔ میرے پیچھے دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً پورا گھر کچن میں اکٹھا ہو گیا تھا ۔ پدن بھوا ڈیپ فریزر سے کچھ سامان نکالتی ہوئی ڈیپ فریزر کے اندر جا گری تھیں ۔ بیچاری پدن بھوا زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا تھیں اور یہاں سب کے ہاسے نکل رہے تھے ۔ پدن بھوا کا قد ذرا چھوٹا تھا اور وہ اکثر ڈیپ فریزر کے قریب کوئی کرسی یا کوئی سٹول وغیرہ رکھ کر ڈیپ فریزر میں سے سامان نکالتی تھیں ۔ مگر آج سامان نکالتے ان کا پاؤں پھسلا اور وہ سر کے بل سیدھی ڈیپ فریزر کے اندر جا گریں ۔ ان کی ٹانگیں ہوا میں آسمان کے ساتھ باتیں کررہی تھیں ۔ اور وہ بچاؤ بچاؤ کی مالا جپھ رہی تھیں ۔ بھوا کو پکڑ کر باہر نکالا گیا ۔ اور سانس وغیرہ بحال کرا کے ان کو ان کے کمرے میں لے جا کر لٹا دیا گیا ۔ ان کے کمرے سے باہر نکلتے ہی سب پھر زور زور سے قہقہے لگا کر ہنسنا شروع ہو گئے ۔ میں یوں ہی ہنستے ہنستے باہر نکل آیا ۔
پوری گلی ویران پڑی تھی ۔ ایک ہُو کا عالم تھا ۔ گلی میں سے تو جیسے رونق ہی اٹھا لی گئی تھی ۔ دادا جی گھر میں مقید تھے اور گلی کی دوسری رونق ببلی صبح سے لا پتہ تھی ۔ میں اندر سے تو خوش تھا کہ شکر ہے یہ بلا ٹلی مگر دادا جی کی اور باقی سارے گھر کی تو ببلی میں جان بسی ہوئی تھی ۔ وہ لاکھ مجھے چبھتی تھی مگر اس کے باوجود جب وہ مٹک مٹک کر چلتی تھی تو دلوں کے تار چھیڑتی تھی ۔ اس کی شرارتیں سب ہی کو لبھاتی تھیں ۔ اس کا سفید دودھیہ رنگ اور پیارے پیارے سفید بالوں کی کرل سب ہی کے لئے راحت کا ساماں تھی ۔ گلی کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک اس کی رسائی تھی ۔ ہر گھر میں بلا روک ٹوک اس کا آنا جانا تھا ۔ ہر کوئی ہی اس کا شناسہ تھا ۔ ہر کسی کو ہی اس سے محبت تھی ۔ پورے محلے میں واحد ایک میں تھا جس سے ببلی کی اور زلیخاں دونوں ہی کی نہیں بنتی تھی ۔ ببلی کی مجھ سے دشمنی سمجھ آتی تھی کہ میں بھی اس کا دشمن تھا مگر زلیخاں سے تو میں پیار کرتا تھا ۔ اور سچ کہوں تو ببلی اور میرے درمیان اصل تنازعہ زلیخاں ہی کی وجہ سے تھا ۔ ببلی نے ایک بار زلیخاں کی لاڈلی مانو کو پکڑ لیا تھا ۔ جس سے مانو شدید زخمی ہو گئی تھی ۔ اس دن سے زلیخاں نے ببلی کا اپنے گھر داخلہ بند کر دیا تھا ۔ میں اس بات سے حیران تھا کہ ببلی جا کہاں سکتی ہے ۔ مٹکلو سی تو ہے وہ بیچاری کوئی ورغلا کر ہی نا لے گیا ہو ۔ پتا نہیں کیوں آج رہ رہ کر مجھے ببلی پر پیار آ رہا تھا ۔
میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں سپر مین بن جاؤں اور دو منٹ میں ببلی کو ڈھونڈ لاؤں ۔ میں پاگلوں کی طرح اسے ادھر ادھر ڈھونڈ رہا تھا ۔ پورا محلہ چھان مارا تھا مگر ببلی کو تو جیسے ہوا اٹھا کر لے گئی تھی ۔ جب میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک ہار گیا تو گھر کے باہر بنے تھڑے پر آ کر بیٹھ گیا ۔
زلیخاں اپنے گھر کے دروازے کی چوکھٹ میں کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی ۔ مجھے پریشان حال دیکھ کر وہ بھی میرے پاس آکر بیٹھ گئی ۔ جیرے کیا ہوا ہے ۔؟ یوں یتیموں والی شکل کیوں بنائی ہوئی ہے تو نے ۔؟ زلیخاں دُر فٹے منہ تیرا بولنے سے پہلے کبھی سوچ بھی لیا کر کہ کیا بولنے جا رہی ہے ۔۔۔ اچھا چل معاف کر دے ۔ اور یہ بتا کہ ہوا کیا ہے ۔؟ تیرا منہ درفٹے منہ کا منظر کیوں پیش کر رہا ہے ۔؟ زلیخاں صبح سے ببلی نہیں مل رہی ۔ پتا نہیں کہاں چلی گئی ہے ۔؟ تو اس میں تو کیوں پریشان ہے ۔؟ تجھے تو وہ پہلے ہی مصیبت لگتی تھی ۔ اب جب کہ یہ مصیبت ٹل گئی ہے تو تجھے اس پر پیار آرہا ہے ۔ نہیں زلیخاں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ بس سب گھر والوں کی اس میں جان ہے ۔ صبح سے ہمارے گھر تو کھانا بھی نہیں بنا ۔ سب ہی بھوکے پیٹ سوگ منا رہے ہیں ۔ اچھا تو ایسا ہے ۔؟ یہ کہہ کر زلیخاں منہ میں کچھ بڑبڑائی ۔۔ کیا کہہ رہی ہو ۔؟ جیرے میرے ساتھ اک وعدہ کر کے میں تجھ سے جو بات کروں گی تو وہ کسی اور سے نہیں کرے گا اورمجھ سے نا راض بھی نہیں ہو گا ۔ یہ راز سدا تیرے اور میرے بیچ رہے گا ۔ بات کیا ہے ذرا کھل کے بتا مجھے ۔؟ بتاتی ہوں پر پہلے تو وعدہ کر کے ناراض نہیں ہو گا ۔ اچھا چل وعدہ رہا میں نا تو کسی سے یہ بات کہوں گا اور نا ہی تجھ سے ناراض ہوں گا ۔ اب بتا کیا بات ہے ۔ جیرے ببلی کو میں نے اغواہ کیا ہوا ہے ۔۔۔۔ ہیں ۔! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا ہی رہ گیا ۔ مجھے لگا جیسے زمین پھٹ گئی ہے ۔ یا پھر آسمان مجھ پر آ گرا ہے ۔۔ تم نے ۔؟ مگر تم نے یہ کیوں کیا ۔؟ جیرے میں خودغرض ہو گئی تھی ۔ مجھے پتا نہیں کیا ہو گیا تھا ۔ مجھے لگا کہ تم ببلی کو مجھ سے زیادہ پیار کرنے لگے ہو اور میں ببلی سے اپنی مانو کا بدلہ بھی لینا چاہتی تھی ۔ پر تو نے وعدہ کیا ہے کہ تو ناراض نہیں ہوگا اور یہ بات کسی اور کے ساتھ شئیر بھی نہیں کرے گا ۔ اچھا نہیں کروں گا ۔ مگر یہ تو بتا کہ تو مجھ سے کب سے محبت کرنے لگی ۔؟ تجھے تو میں ہمیشہ برا لگتا تھا ۔ نہیں جیرا ایسا کچھ نہیں ہے میں تو ہمیشہ سے تجھے چاہتی آئی ہوں ۔ بس ایویں ای تجھے ستانے کے لئے تیرے ساتھ تکرار کیا کرتی تھی ۔ پر اندر سے تو تو میرے دل میں دھڑکن کی طرح دھڑکتا رہا ہے ۔ اچھا جی ۔۔ میں نے یہ کہہ کر زلیخاں کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ اور اس جھلی نے بھی تو پیار سے اپنا سر میرے کاندھے پر جھکا دیا تھا ۔ اچھا مجھے یہ تو بتاؤ کہ ببلی ہے کہاں ۔؟ صبح سے اس نے کچھ کھایا پیا بھی نہیں ہوگا ۔ جیرے میں اسے لے کر آتی ہوں ۔ تو اپنا وعدہ یاد رکھیں نہیں تو تو اپنی زلیخاں کا مرا ہوا منہ دیکھے گا ۔ وعدہ جو کر لیا ہے کہ نہیں آئے گا تیرا ذکر پھر کیوں ایسی باتیں کررہی ہے ۔ چل آ میں بھی تیرے ساتھ ہی چلتا ہوں ۔ میں یہ کہہ کر تھڑے پر سے اٹھ کھڑا ہوا اور زلیخاں کے ساتھ ہم سیدھے ببلی کے پاس چلے آئے ۔
جوں ہی ببلی کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ کھل اٹھی ۔ اور دوڑتی ہوئی میری جانب لپکی ۔ میں نے پیار سے ببلی کو گود میں اٹھا لیا ۔ میری گود چڑھتے ہی ببلی میرے گلے لگ گئی ۔ جیسے کہ صدیوں کے بچھڑے دو ہم راہی ملتے ہیں ۔ میں ببلی کو گود میں اٹھائے گھر لے آیا ۔ ببلی پر نظر پڑتے ہی سارا گھر خوشی سے جھوم اٹھا ۔ ایک ہی پل میں پورے گھر کا سماں بدل گیا تھا ۔ سب کی رکی ہوئی سانسیں بحال ہو گئی تھیں ۔ سب کے چہرے خوشی سے کھلی اٹھے تھے ۔ کہاں سے ڈھونڈ کر لائے ہو اسے ۔؟ چھوٹی گڑیا ببلی کا سنتے ہی کمرے سے دوڑتی ہوئی میری طرف لپکی ۔ وہ گلی کے کونے پر جب میں پہنچا تو یہ پاگلوں کی طرح بھاگتے ہوئے آرہی تھی اور مجھے دیکھ کر مجھ سے چمٹ گئی ۔ بری طرح ہانپ رہی تھی ۔ میں نے اسے گود میں اٹھایا اور گھر لے آیا ہوں ۔۔۔ مینوں تے پتا سی کہ میری ببلی نوں توں ای لبھ کہ لیاویں گے ۔ خوش کیتا ای کتے دیا پترا ۔ آ سینے لگ میرے ۔ ( مجھے معلوم تھا کہ میری ببلی کو تم ہی ڈھونڈ کر لاؤ گے ۔ خوش کردیا ہے تم نے تو آج ) دادا جی نے اپنے روائیتی انداز میں مجھے پکارا ۔ اور میں خوشی اور ڈر کی ملی جلی کیفیت میں ان کے گلے سے لگ گیا ۔ دادا جی بہت خوش تھے اور ہونا بھی چاہیئے تھا آخر انکی لاڈلی ببلی جو مل گئی تھی ۔ وہ خوشی میں گُرائے ’’دس اوئے کھوتیا تینوں کی انعام دہیئے ۔ (وہ خوشی میں چنگاڑے کہ بتا اؤے گدھے تجھے کیا انعام دیا جائے)۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور زلیخاں کا ہاتھ مانگ لیا ۔ دادا جی نے قہر بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر زلیخاں کی طرف دیکھا اور پھر مسکرا کر بولے ۔ تو سانوں خوش کیتا اے جا اسی وی تینوں خوش کردے آں ۔ ( تم نے ہمیں خوش کیا ہے ۔ لو پھر آج ہم بھی تمہیں خوش کر دیتے ہیں) دادا جی نے پیار سے مجھے اور زلیخاں کو گلے سے لگا لیا ۔ سارا ہی گھر خوشی میں جھوم اٹھا ۔ ببلی بھی خوشی سے بھوں بھوں کرتی ہوئی ہماری ٹانگوں سے چمٹ گئی ۔ اور اپنی پیاری سی زبان سے ہمارے پاؤں چاٹنا شروع کردیئے ۔ میں نے پیار سے ببلی کو اٹھایا اور دل تو چاہا کہ منہ چوم لوں اس کتیا کا جس نے مجھے اور زلیخاں کو ملا دیا تھا ۔ پر میں نے اپنے جذبات کو اپنے ہی اندر دبا لینا مناسب سمجھا ۔ زلیخاں نے بھی ببلی کی گردن پر پیار سے ہاتھ پھیرا ۔ ببلی نے بھی سب شکوے بھلا کر زلیخاں کو معاف کردیا اور ایک پیار بھری بھوں پاس کی ۔۔
ختم شُد
----------------
شرر جی کے بارے میں جاننے یا ملنے کے لیے یہاں کلک کریں
No comments :
Post a Comment