Monday, June 3, 2013

غیر منقوط ترجمہ قرآن - قرآنی ادب میں ایک شاندار اضافہ


ڈاکٹر طاہر مصطفٰی صاحب میرے محترم دوست ہیں۔کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر صاحب میرے دفتر میں تشریف لائے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے فرمایا کہ وہ کچھ عرصے سے ایک ایسا کام کر رہے ہیں  جو اِس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ میں بہت حیران ہوا۔ میں نے پوچھا، ڈاکٹر صاحب ایسا آخر کیا کام ہے جو آج تک نہیں ہوا۔

 ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ "غیرمنقوط ترجمۃ قرآن"۔ خود ہی وضاحت فرمائی کہ وہ قران کا ایک ایسا ترجمہ کر رہے ہیں جس میں کوئی نقطہ نہیں آتا۔ میرے دفتر میں کچھ اور احباب بھی تشریف فرما تھے جو اس کام کی ادبی اہمیت سے آگاہ نہیں تھے۔ ایک لمبی بحث چھڑ گئی کہ اس ترجمۃ قران کی افادیت کیا ہے۔

غیر منقوط وہ تحریر ہوتی ہے جس میں کوئی نقطہ نہ آئے۔ اردو ادب میں یہ ایک بہت ہی مشکل فن ہے۔ صرف ایک سطر ہی ایسی لکھنی پڑ جائے تو کافی مشکل ہو جاتی ہے۔ خال خال ہی کوئی ایسی تحریر ملتی ہے۔

میں چونکہ اس سے پہلے سیرتِ نبوی پر اس قسم کے کام کے بارے میں جانتا تھا۔  "ہادی عالم" کے نام سے نبی محترم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت لکھی جا چکی ہے۔ سیرت کی اس کتاب میں کہیں بھی کوئی نقطہ نہیں ہے۔ سب الفاظ ایسے استعمال کیے گئے ہیں جن میں نقطہ نہیں آتا۔ اس لیے مجھے اس کام کی ادبی اہمیت کا کچھ کچھ اندازہ تھا۔

ڈاکٹر طاہر مصطفیٰ صاحب بتا رہے تھے کہ انہیں اچانک اس کام کا خیال آیا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ غیرمنقوط ترجمۃ قران لکھیں گے۔ لیکن جب انہوں نے یہ کام شروع کر لیا تو تب بھی وہ اپنے اس فیصلے کی درستگی کے بارے میں متذبذب  تھے تاآنکہ اُنہوں نے علومِ اسلامیہ کے کچھ مذید ماہرین سے اس کا تذکرہ کیا۔ سب نے ہی نہ صرف اُن کی حوصلہ افزائی کی بلکہ اُن کے ترجمہ شدہ اوراق کو بطور تبرک فوٹو کاپی بھی کروا لیا۔

اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ بتاتے ہیں کہ دوران تحقیق، بعض اوقات انہیں کئی کئی ہفتے ایک لفظ کا غیر منقوط متبادل نہیں ملتا تھا اور وہ سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے اس لفظ کے بارے میں سوچتے رہتے، دوستوں سے مشورہ کرتے ، کثیرالسانی ڈکشنری سے اسفتفادہ کرتے تب بھی ناکامی ہوتی۔ اور بعض اوقات یونہی چلتے پھرتے وہ لفظ ذہن میں القاء ہو جاتا۔

مثلاً نِساء کا ترجمہ عورت بنتا ہے۔ عورت میں نقطے پائے جاتے ہیں۔ اگر زن کا لفظ اختیارکریں تو اس میں بھی نقطے پائے جاتے ہیں۔ الغرض تمام زبانوں میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے کوئی غیر منقوط لفظ نہ ملا۔  اب میں اپنے قارئین کو تھوڑی زحمت دوں گا وہ اس لفظ کا ایک غیر منقوط متبادل سوچیں۔ (*ڈاکٹر صاحب نے جو لفظ استعمال کیا وہ مضمون کے آخر میں درج کر دوں گا، لیکن اُس کو دیکھنے سے پہلے اپنی پوری کوشش کر لیجیے گا)

اسی طرح قران میں "یوم" کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کا اردو میں ترجمہ دن بنتا ہے۔ چونکہ دن میں نقطہ ہے۔  اس ڈاکٹر صاحب نے کسی اور زبان سے ایک غیر منقوط متبادل لے لیا۔ (*ڈاکٹر صاحب نے جو لفظ استعمال کیا وہ مضمون کے آخر میں درج کر دوں گا، لیکن اُس کو دیکھنے سے پہلے اپنی پوری کوشش کر لیجیے گا) ۔

اس طرح کی بہت سی مثالیں اس ترجمہ قران میں ملیں گی۔

ڈاکٹر صاحب نے حال میں ہی اس ترجمہ کو ختم فرمایا اور اب اس پر نظرثانی فرمائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے خود فرمایا کہ آخری سورۃ تک آتے آتے انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ وہ یہ کام کر پائیں گے۔ حتٰی کہ آخری سورۃ پہ آکر بھی وہ متذبذب تھے کہ وہ اس سورۃ کا ترجمۃ مکمل کر پائیں گے یا نہیں۔ بہرحال یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ وہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔

اس بات کا تذکرہ شاید بے محل نہ ہو کہ اس سارے کام کے دوران ڈاکٹر صاحب آزمائشوں میں سے بھی گذرے اور انعامات سے بھی بہرہ مند ہوئے۔ آزمائش کے ضمن میں  دِل کی سرجری کے عمل سے گذرے۔ یہ شاید اللہ تعالیٰ کی طرف سے تطہیرِ قلب کا سامان تھا جو کہ قران کے ترجمہ کے لیے ازحد ضروری ہوتا ہے۔ اس کا ایک بین ثبوت اُن انعامات سے مل گیا جو اُن پر قدرتِ الٰہی سے ارزاں ہوئے کہ ڈاکٹر صاحب کو بار بار حرم اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا  موقعہ ملا۔ یہ اس نیک کام کی قبولیت کا بھی ثبوت ہے۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر طاہر مصطفیٰ صاحب اسماء النبی پر پی ایچ ڈی ہیں اور ٹی وی پروگراموں کو رونق بخشتے رہتے ہیں۔ رمضان میں آپ ان کو خاص طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ یونیورسٹی آف مینیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ اسلامی فکر و تہذیب میں پروفیسر ہیں۔

میری دعا اُن کے لیے یہ ہے اللہ تعالٰی اُن کے اس کام کو قبولیت بخشیں اور آخرت میں ان کی بخشش کا سبب بنائیں۔ 

آخر میں نمونہ کے طور پر سورۃ فاتحہ اخلاص کے تراجم درج ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

===============

سورۃ فاتحہ کا غیر منقوط تشریحی ترجمہ

سورہ درِ وا



اللہ کے اسم سے رحم والا اور کمال رحم والا



۱۔ ہر طرح کی حمد اللہ ہی کے واسطے مولٰی ہے کل عوالم کا 

۲۔ رحم والا اور کمال رحم والا ہے

۳۔ مالک ہے معاد کے دِہاڑ کا
۴۔ ہمارا ہر عمل اطاع اللہ ہی کے واسطے اسی سے سوال ہے مدد کا
۵۔ (اے اللہ) دکھا دے ہم کو عمود اور مسعود راہ
۶۔ اس طرح کے لوگوں کی راہ ، کہ مکرٌم ہوئے درِ الٰہی کے اور سوائے وہ لوگ کہ  گمراہ ہوئے اور رُسوا ہوئے ۔
(اے اللہ ) اسی طرح ہی ہو



================



*ڈاکٹر صاحب نے عورت کے لیے "حوّا کی لڑکی" اور دن کے لیے "دِہاڑ" کا لفظ اختیار فرمایا۔

9 comments :

  1. ماشاَ اللہ۔ مجھے ہادی عالم پڑھنے کا موقع ملا تھا اور اس وقت ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ کس قدر مشکل کام ہے۔ اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کو اجر عطا فرمائے- آمین

    ReplyDelete
  2. کسی طور اس کام کی سی ڈ ی کا عدل کر و

    ReplyDelete
  3. بہت شاندار کاوش ہے ۔ اللہ پاک شرف قبولیت عطا فرمائے ۔ اور جناب یہ بلاگ اتنا بھی غیر ضروری نہیں، اس لیے اس کا نام تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ مدثر شیخ، اسلام آباد

    ReplyDelete
    Replies
    1. مدثر صاحب۔ جزاک اللہ۔ کوئی اچھا سا نام آپ ہی تجویز فرما دیں۔

      Delete
    2. مسئلہ تو یہ ہے کہ مصنف اپنی ہی رائے سے متفق نہ ہو تو ہمارے رکھے گئے نام سے کیسے اتفاق کرے گا۔۔۔؟

      Delete
    3. آپ کوئی اچھا مشورہ دیں تو میرے سر آنکھوں پر۔

      بقول شاعر۔۔کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب ، آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی

      حضور کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ ویسے ہر اچھا خیال مجھے بھاتا ہے۔ میں بھی انہی سطور پہ سوچ رہا تھا۔

      یوں سمجھیں کہ یہ بلاگ بس ویسے ہی شروع کر دیا تھا۔ کوئی خاص ارادہ نہیں تھا اس کے بارے میں۔، لیکن لگتا ہے کہ کام مزے کا ہے۔
      کوئی بہتر رستہ سجھائیے۔

      Delete

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...