Sunday, June 2, 2013

ہوائی صنعت کی جنگِ عظیم - حقیقت یا فسانہ


قارئین، جو مضمون میں آپ سے شئیر کرنے جا رہا ہوں، اس میں یہ دعوٰی کیا گیا ہے کہ بوئنگ ایک ایسا مسافر طیارہ بنا چکا ہے جو کہ جہاز کے جسم اور پروں کو ضم کرنے والے ڈیزائن پر مشتمل ہے۔ بہت سے ماہرین اس دعوے کو جعلی (Hoax) قرار دے رہے ہیں۔ حتٰی کہ بوئنگ کے اہلکار بھی اس کی تصدیق کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ اس مضمون کے ساتھ تصاویر کو بھی بعض لوگ یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں یہ حقیقی ہیں اور کسی شوقیہ فوٹوگرافر نے اتفاقاً بنا لیں تھیں، جبکہ ماہرین ِ جعلسازی اِن تصاویر کو فوٹوشاپ کا کرشمہ قرار دیتے ہیں۔  بہرحال اس مضمون کی دلچسپ معلومات کی وجہ سے یہ نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے۔ قارئین خود گوگل استعمال کر کے اس کے حقیقی یا جعلی ہونے کے متعلق رائے قائم کر سکتے ہیں۔ 

مشہور طیارہ ساز کمپنی بوئنگ ایک ہزار مسافروں والا ایک ایسا جہاز بنا رہی ہے جس سے ہوائی سفر کی صنعت کا مستقبل بالکل ہی بدل سکتا ہے۔ جہاز کے جسم اور پروں کو ضم کرنے والا یہ انقلابی ڈیزائن (Blended Wings & Fuselage) بوئنگ کارپوریشن نے ناسا لینگلے ریسرچ سنٹر کے تعاون سے بنایا ہے۔اس جناتی جہاز کے پروں کی طوالت 265 فٹ ہے جبکہ اس سے پرانے بوئنگ 747 کے پروں کی طوالت 211 فٹ ہے۔ یہ نیا جہاز اس طرح سے ڈیزائن کیا جا رہا کہ یہ ائربس کارپوریشن کے555 سیٹوں والے جہاز A380 کے لیے خاص طور پر بنائے گئے 262 فٹ چوڑے ٹرمینل میں پورا آ سکے۔

نیا 797 بوئنگ کی طرف سے ایربس A380 کا براہ راست منہ توڑ جواب ہے جو اب تک 159 آرڈر وصول کر چکا ہے۔ بوئنگ نے 2003 میں ہی اپنے جہاز  747X سٹریچڈ سپر جمبو (747X Stretched Super Jumbo) کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا کیونکہ ہوائی کمپنیوں نے اس میں بہت ہی کم دلچسپی لی تھی۔ بہرحال انہوں نے ان حالات کے باوجود ایر بس کے صیحیح توڑ، 797 (Ultimate Airbus Crusher) کی تیاری اہنی تحقیق گاہ فیٹم ورکس ریسرچ ، لانگ بیچ، کیلیفورنیا میں جاری رکھی۔

ایربس A380  تقریباً 1999ء سے تحقیق و تیاری کے مراحل میں ہے اور اسکی تحقیق و تیاری کی لاگت 13 بلین امریکی ڈالر آئی ہے۔ اس خطیر لاگت نے بوئنگ کو مقابلتاً برتری دے دی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگلے آنے والے کم از کم دس سالوں تک ائربس کے طیارے پرانے نلکی نما (Tube) ڈھانچے پر مشتمل ہوں گے۔

جہاز کے جسم اور پروں کو ضم کرنے کے کچھ بڑے فوائد ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ  ہوا میں اٹھنے کا تناسب زمین پر گھسٹنے سے پچاس فیصد بڑھ جائے گا (Lift to Drage Ratio) جس سے جہاز کے وزن میں 25 فیصد کی تخفیف ہو جائے گی جس کا نتیجہ A380 کی نسبت ایندھن میں 33 فیصد کی بچت کی صورت میں نکلے گا۔  اس سب سے ایربس کمپنی کی 13 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کافی خطرے میں دکھائی دیتی ہے۔

"High Airframe Rigidity" یعنی جہاز کے ڈھانچے کی ذیادہ سختی اس نئے ڈئزائن کا ایک اہم عنصر ہے۔  یہ turbulence کو کم کر کے جہاز کے ڈھانچے پر تھوڑا زور (stress) آنے دیتا ہے، جس سے مذید ایندھن کی بچت ہوتی ہے۔  نتیجتہً 797 دس ہزار 10،000 میل 1000 مسافروں کے ساتھ انتہائی سکون سے 0.88 Mach یا 654 MPH (میل فی گھنٹہ) پر طے کر لیتا ہے۔ یہ نلکی نما A380 پر ایک اہم برتری ہے جو 570MPH (میل فی گھنٹہ) پر اڑتا ہے ۔

797 کو پیش کرنے کہ صحیح تاریخ کا ابھی کسی کو نہیں پتا لیکن مستقبل کی سفری جہازوں کی بیش قیمت جنگ کے محاذ گرم ہو چکے ہیں۔ دیکھیے فتح کس کا نصیب بنتی ہے۔









No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...