جناب ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ ہماری تاریخ کے ایک جینیئس مگر متنازع کردار ہیں۔ جہاں ان سے انتہا کی حد تک پیار کرنے والے لوگ موجود ہیں وہاں بے انتہا نفرت کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔
بھٹو صاحب کے کارناموں سے تو ساری قوم ہی واقف ہے کیونکہ پی پی پی کے جیالوں نے اس معاملے میں قوم کو ہر طرح سے آگاہ رکھنے کا انتظام کیا ہوا ہے۔ ایٹم بم، اسلامی کانفرنس، قادیانیوں کے بارے میں فیصلہ وغیرہ ان کی نمایاں مثالیں ہیں۔ ہمارے پی پی پی کے دوستوں کا اس معاملے میں غلو کا یہ عالم ہے کہ وہ بھٹو صاحب کو عام انسان کے مقام سے اٹھا کر ایک پیر، فقیر، بابا، اللہ والے، جمہوریت کے باوا آدم، فلسفی، مفکر اور پتہ نہیں کیا کیا بنا دیتے ہیں۔ ٹی وی پروگراموں وغیری میں دیکھا گیا ہے کہ اب تو کسی ولی اللہ کی طرح اُن کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ آصف علی زرداری صاحب عقیدت کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئےاُن کے "عرس" پہ کہہ چکے ہیں کہ "درود پڑھو ان کی قبروں پر"۔ بھٹو صاحب کے ورثاء نے بھی اُن کے روحانی درجات کو ظاہری شکل دینے کے لیے سرکاری خرچے پر اِن کی قبر کو ایک بزرگ کے مزار کی شکل دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھا ہوا۔ ہر سال اُن کر دربار پر گویا عرس کی تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں۔
بھٹو صاحب کے جیالوں نے بھی قسم کھائی تھی کہ وہ بھٹو کو پھانسی لگنے کے باوجود مرنے نہیں دیں گے۔ تین دہائیوں تک ہماری قومی سیاست بھٹو اور اینٹی بھٹو کی بنیاد ہر ہوتی رہے۔ جیالوں کی جنونی محبت اور اندھی عقیدت کا ہی فیضان تھا کہ اپنی وفات کے بعد بھی وہ پاکستانی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اُن کے جیالے ان کے بعد ان کی بیٹی پر بھی اپنی مجبت کے پھول نچھاور کرتے رہے ہیں- جیالوں کی یہ خوبی مسلّم ہے کہ چاہے پارٹی انہیں دھکے دے، نظر انداز کرے، کرپشن اور مہنگائی کے سمندر میں ان کو ڈوبنے کے لیے بیچ منجھدار چھوڑ دے، انہوں نے ووٹ بھٹو کے نام پر پی پی پی کے امیدوار کو ہی دینا ہوتا تھا۔
پی پی پی کی موجودہ قیادت نے جیالے کی اسی سخت جانی پر ایک داؤ کھیلا۔ تحریکِ انصاف کی خاموش حمایت کی۔ منصوبہ عمل تو یہ تھا کہ عمران خان مسلم لیگ ن کے ووٹر توڑ لے گا۔ اور ووٹ تقسیم ہونے کا فائدہ پی پی پی کو مل جائے گا۔۔ لیکن جو ہوا اس کی کسی کو امید نہ تھی۔۔ جیالے کا اپنی پارٹی کی حکومت سے ایسا دل ٹوٹا کہ اس نے بھٹو کے داماد کے سامنے اپنی وفاداری کا چولا اتارا اور تحریکِ انصاف کی صفوں میں چلے گیا۔
گیلپ پاکستان کے محترم اعجاز شفیع گیلانی نے الیکشن سے قبل ہی مختلف سروے رپورٹوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اب سے پاکستانی سیاست سے بھٹو فیکٹر ختم ہو چکا ہے۔ الیکشن کے نتائج نے اُن کی اس پیش گوئی کوحرف بحرف درست ثابت کردیا۔ گویا ہر گھر سے بھٹو نکل گیا۔ ہماری وہ نسل جنہوں نے بھٹو کا دور نہیں دیکھا، ضروری ہے کہ وہ بھٹو کا وہ رُخ بھی دیکھیں جس نے تین دہائیوں تک پاکستانی سیاست کو تلخ کیے رکھا۔
زیرِ نظر اقتباس جناب عبداللہ طارق سہیل کے کالم سے لیا گیا ہے جس میں انہوں نے بھٹو صاحب کے اُس رخ پر روشنی ڈالی ہے جو ہمارے پی پی پی کے دوست یاد نہیں رکھتے اور چاہتے ہیں کہ قوم بھی بُھولی ہی رہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
"بھٹو صاحب سے بڑھ کر غیر جمہوری سیاستدان برصغیر میں کوئی دوسرا ہو تو بتائیں۔ ایوب کا ساتھ دیا، انہیں ڈیڈی تک کہا اور صلاح الدین ایوبی کے مرتبے پر بھی فائز کر دیا۔ مادر ملت ؒ کی شکست کے معمار ایوب خاں تھے نہ قدرت اللہ شہاب، یہ سہرا توآنجناب ہی کے سر پر سجتاہے۔ ایوب خاں کو یہ نادر تجویز بھی دیدی کہ تمام ڈپٹی کمشنر حکمران جماعت کے ضلعی سیکرٹری جنرل بنا دیئے جایں یعنی کنونشن لیگ کو حکومتی جماعت سے ترقی دے کر حکومت ہی میں بدل دیا جائے۔ پھر خود حکمران بننے کا سودا سر میں سمایا تو ایوب خاں کو کمزور کرنے کے لئے1965ء کی جنگ لگوا دی۔ تاکہ پاکستان کو شکست ہو جائے، فوج کمزور ہو جائے اور عالی جناب خود کرسی سنبھال لیں ۔ پاکستان بہرحال بچ گیا۔ پھر یحییٰ خاں نے اقتدار سنبھالا تو بھٹو نے ان سے تین سالہ پارٹنر شپ کر لی۔ لاڑکانہ کے جنگل میں پاکستان کے شکار کا منصوبہ بنا۔ آدھا پاکستان بھارت کے حوالے کیا اور باقی پر اپنی حکومت بنا لی۔بھٹو کی حکومت کو پیپلزپارٹی کے کرانک قصیدہ گو ’’پہلی جمہوری حکومت‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اوباما کو امریکہ کا پہلا سفید فام کالا کہا جائے۔بھٹو نے متفقہ آئین میں ترامیم کرکے اسے صدارتی ہی نہیں، بادشاہی آئین میں بدل دیا۔ پورے پانچ سال ایمرجنسی نافذ رکھی یعنی بنیادی حقوق سلب کر لئے۔ شاید’’ پہلی جمہوری حکومت ‘‘ایسی ہی ہوتی ہے۔ یہی نہیں، سیاسی مخالفوں کا چن چن کر قتل کیا اوراحتجاجی مظاہروں پراندھا دھند فائرنگ کرائی۔ پانچ سال کے دور میں کئی ہزار افرادان کی پولیس کی فائرنگ سے مارے گئے۔ بے شمار مخالف ایسی جیلوں میں بند کر دیئے کہ لواحقین کو پانچ سال بعد پتہ چلا کہ وہ کس جیل میں ہیں۔ پھر الیکشن کرائے تو ایسی دھاندلی کی کہ کبھی کسی نے دیکھی نہ سنی۔ اس دھاندلی کے خلاف پاکستان کی سب سے بڑی تحریک چلی اور جتنی بڑی تحریک چلی، اس سے زیادہ سرکارکی گولی چلی۔9اپریل کو بھٹو پنجاب اسمبلی میں موجود تھے اور سارا شہر مظاہروں کی لپیٹ میں تھا۔ اور صرف اس ایک روز میں لاہور کے35شہری بھٹو کی گولی باری کی زد میں آکر جان ہار گئے، سینکڑوں زخمی ہوئے۔اور یہی دن تھا جب لاہور پیپلزپارٹی کیلئے اجنبی ہوگیا۔ جس شہر نے بھٹو پر جان چھڑکی، بھٹو نے اس پر موت چھڑکی۔پنجاب سے پیپلزپارٹی کی واپسی اسی دن سے شروع ہوگئی تھی۔ آمریت کے خوف کا یہ سماں تھا کہ مظاہروں میں35افراد کی ہلاکت کی خبر، اس وقت لاہور کے سب سے بڑے اخبار نے صرف تین کالم چھاپی۔ کتنے مدیر تھے جو بھٹو کے آنے پر اندر ہوئے اور بھٹو کے اندر ہونے پر ہی باہر آئے۔"
بشکریہ عبداللہ طارق سہیل - وغیرہ وغیرہ - روزنامہ نئی بات مورخہ ۵ جون ۲۰۱۳ بروز بدھ
میری دعا ہے کہ اپنے لیڈروں کو ہم انسان ہی سمجھیں اور اُن کی سب خوبیوں اور خامیوں کا ادراک رکھیں۔ ان کے اچھے کام پر اُن کے ساتھ تعاون کریں اور غلط کام پر اُن کا ہاتھ روکیں۔ دعا ہے کہ ہماری مسقبل کی قومی سیاست اندھی عقیدتوں اور نفرتوں سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف پاکستان کی مضبوطی اور ترقی کی بنیاد پر ہو۔ آمین۔
No comments :
Post a Comment