ملاّعمر نے عید کے موقع پر جاری ہونے والے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جدید تعلیم عصر حاضر میں ہر معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ ملا عمر نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ معاشرے میں تمام انسانوں کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت قائم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان غیر ملکی قابض افواج کے خلاف جہاد جاری رکھیں گے تاہم وہ مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات پر بھی آمادہ ہیں۔
ملا عمر کے اس پیغام نے ملک کے معروف صحافی ایاز امیر کو حیران ہی نہیں پریشان بھی کیا ہے۔ ان کی حیرانی کی وجہ یہ ہے کہ ملا عمر بھی ’’Diplomatic‘‘ ہوگئے ہیں۔ اور ایسے بیانات جاری کرنے لگے ہیں گویا سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہورہا ہو۔ ان کی پریشانی کا سبب یہ ہے کہ طالبان اگر اس طرح کے بیانات جاری کرتے رہے تو وہ افغانستان اور پاکستان میں بہت سے لوگوں کے لیے پہلے سے زیادہ دلکش یا Attractive ہوجائیں گے۔ تجزیہ کیا جائے تو ایاز امیر کے اس تبصرے میں مسلم دنیا کے سیکولر اور لبرل عناصر کی پوری نفسیات بند ہے۔ مسلم دنیا بالخصوص پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کو طالبان سے شکایت یہ ہے کہ وہ سر سے پیر تک روایتی بلکہ دقیانوسی ہیں۔ وہ نہ جدید تعلیم کے قائل ہیں نہ ان کی نظر میں انسانی حقوق کا کوئی مفہوم ہے اور نہ ہی ان کے مزاج اور ذوق میں یہ گنجائش ہے کہ وہ معاشرے کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چل سکیں۔ لیکن اب جبکہ طالبان کے امیر المومنین نے جدید تعلیم کو معاشرے کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے اور انسانی حقوق کی پاسداری کا اعلان کرتے ہوئے وسیع المشربی کو اپنا مسلک قرار دیا ہے تو سیکولر عناصر اس صورت حال کو ایک طرح کی سیاست سے تعبیر کرتے ہوئے اسے خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس رویے کا مفہوم کیا ہے؟ غور کیا جائے تو اس رویے کا ایک ہی مفہوم ہے اور وہ یہ کہ طالبان سیکولر عناصر کے تخلیق کیے گئے تاثر کے مطابق ہوں تو بھی ’’ناقابل قبول‘‘ اور اگر وہ اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے عام انسانوں کی طرح نظر آئیں تو بھی ’’ناقابل قبول۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے سیکولر عناصر کا مسئلہ طالبان نہیں اسلام ہے۔
آج کا افغانستان ملاعمر اور طالبان کا افغانستان ہے لیکن 1980ء کا افغانستان گلبدین حکمت یار کا افغانستان تھا اور گلبدین حکمت یار جدید تعلیم سے آراستہ تھا۔ جمہوریت اور انتخابات کا علمبردار تھا۔ لیکن افغانستان کا وزیراعظم نامزد ہونے کے باوجود وہ تین سال تک افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل نہ ہوسکا۔ حالانکہ اس کی وسیع المشربی کا یہ عالم تھا کہ اس نے ہزار اختلاف کے باوجود پروفیسر برہان الدین ربانی کو ملک کا صدر اور احمد شاہ مسعود کو ملک کا وزیر دفاع تسلیم کرلیا تھا۔ اس وقت سیکولر عناصر کہا کرتے تھے کہ گلبدین کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔ وہ بنیاد پرست ہے اور امریکا کا ایجنٹ ہے۔ امریکا سے گلبدین کے تعلق کی نوعیت یہ تھی کہ امریکا کے سابق صدر ریگن نے گلبدین اور اس کے ساتھیوں کو کھانے کی دعوت دی تو گلبدین نے دعوت کو اس خیال سے مسترد کردیا کہ لوگ ان پر انگلی اٹھائیں گے۔ یہ مسئلہ اتنا اہم بنا کر گلبدین کی پارٹی کی مجلس شوریٰ میں اس پر بحث ہوئی اور شوریٰ کے اراکین کی اکثریت کی رائے تھی کہ صدر ریگن کی دعوت کو قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر گلبدین نے امیر کو دستیاب ویٹوپاور استعمال کی اور امریکا جانے سے انکار کردیا۔ سیکولر عناصر کہتے تھے کہ گلبدین صرف امریکا کا نہیں آئی ایس آئی کا بھی ایجنٹ ہے۔ لیکن گلبدین پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی ضرور تھا مگر وہ آئی ایس آئی کا ایجنٹ نہیں تھا چنانچہ ایک مرحلہ ایسا آیا کہ گلبدین پر پاکستان کے دروازے بند کردیے گئے اور گلبدین کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایران میں پناہ حاصل کرنی پڑی۔ لیکن یہ مسئلہ افغانستان تک محدود نہیں ہے۔
نجم الدین اربکان سیکولر ترکی کے سیاسی رہنما تھے اور انہوں نے ترکی کے سیکولر آئین کے تحت سیاست کی اور بالآخر اس آئین کے تحت انہوں نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ ذاتی حوالے سے دیکھا جائے تو بھی نجم الدین اربکان ’’جدید‘‘ تھے۔ ان کی تعلیم ’’جدید‘‘ تھی۔ ان کے چہرے پر ڈاڑھی کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ وہ سوٹ بوٹ میں زندگی بسر کرتے تھے۔ عورتوں کے پردے کے حق میں انہوں نے کبھی ایک بیان بھی جاری نہ کیا لیکن ترکی کے سیکولر عناصر کہتے تھے یہ اسلام پسند ہے۔ بنیاد پرست ہے۔ یہ خطرناک ہے۔ اس لیے کہ یہ امریکا اور یورپ کی طرف دیکھنے کے بجائے ترکی کے ماضی اور امت مسلمہ کی طرف دیکھتا ہے۔ اس کے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے ساتھ رابطے ہیں۔ چنانچہ یہ پوشیدہ ’’مجاہد‘‘ ہے۔ یعنی سیکولر عناصر کی نظر میں نجم الدین اربکان ترکی کے ملا عمر تھے۔ اس سلسلے میں طیب ایردوان کی مثال تو اور بھی سنگین ہے۔ طیب ایردوان فرما چکے ہیں کہ اسلام اور سیکولرازم میں کوئی عدم مطابقت نہیں پائی جاتی۔ یہ اتنا ہولناک بیان ہے کہ اس بیان کے بعد معلوم نہیں کہ طیب ایردوان کا ایمان اللہ کے یہاں قابل قبول رہ گیا ہوگا یا نہیں۔ لیکن سیکولر عناصر کا اصرار ہے کہ طیب ایردوان ایک مذہبی شخص ہے اور اس بنیاد پر انہوں نے طیب ایردوان کے خلاف عوامی بغاوت برپا کرنے کی غیر ممکن کوشش کرڈالی۔ مصر میں اخوان کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اخوان کی قیادت ابتدا ہی سے جدید تعلیم سے آراستہ ہے۔ یہاں تک کہ اخوان کے مرشہ عام حسین البنّا کوٹ پینٹ پہنتے تھے ٹائی لگاتے تھے اور اس حالت میں نماز پڑھتے تھے۔ جو لوگ اخوان کے طرز حیات کا مشاہدہ کیے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کے بعض لوگوں کی زندگی پر فائیو اسٹار ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ اخوان اقتدار میں آئے تو انہوں نے امریکا اور یورپ کیا اسرائیل سے بھی تعلقات منقطع نہ کیے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے حصول کے لیے مذاکرات کیے۔ لیکن سیکولر عناصر نے اخوان کے صدر مرسی کو مصر کا ملاعمر باور کرایا اور فوج کے ساتھ مل کر ان کے خلاف کامیاب سازش کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکولر عناصر کا مسئلہ کوئی فرد یا تنظیم نہیں بلکہ ان کا مسئلہ صرف اسلام ہے۔ انہیں جس فرد یا گروہ میں اسلام نظر آتا ہے وہ ان کے لیے ملاعمر اور طالبان کے مصداق ہے۔ لیکن سیکولر عناصر کو اسلام سے ایسی نفرت کیوں ہے؟
اس سوال کے جواب کا پس منظر تاریخی اور نفسیاتی ہے۔ سیکولر زاویہ نگاہ مسلمانوں کی پیداوار نہیں یہ بلا مغرب سے آئی ہے اور مغرب کے مفکرین نے انسانی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کررکھا ہے۔ ان کے نزدیک انسانی تاریخ کا ابتدائی زمانہ جادو کا زمانہ تھا۔ انسان کی فکر میں کچھ بلاغت آئی تو اس نے مذہب ’’ایجاد‘‘ کرلیا اور زندگی کو مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھنے لگا۔ لیکن انسانی فکر کا سفر مذہب پر رک نہیں گیا بلکہ مذہب کے زمانے کے بعد فلسفے کا زمانہ آیا۔ انسان نے زندگی کو سمجھنے کے لیے عقل کا سہارا لیا اور مذہبی فکر کے خیالی پلائو کو مسترد کردیا۔ لیکن سائنسی فکر نے فلسفے کو بھی فرسودہ کردیا اور اب ہم سائنسی فکر کے زمانے میں زندہ ہیں۔ ان تناظر میں جب یہ لوگ مسلمانوں کو مذہب پر اصرار کرتے دیکھتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ انسانی فکر کے سفر کو الٹ دینا چاہتے ہیں اور انسان کو ہزاروں سال پرانے ماضی میں بھیج دینے کی سازش کررہے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ لوگ مسلم دنیا میں ایک معمولی اقلیت ہیں اور اسلام کے خلاف کھل کر بات نہیں کرسکتے اس لیے یہ لوگ مذہب پر اعتراض کرنے کے لیے کسی شخصیت یا گروہ کو ہدف بنا لیتے ہیں اور اس کی آڑ میں مذہب پر حملہ کرتے ہیں۔
No comments :
Post a Comment