Sunday, August 18, 2013

جوانمردوں کے لیے کامیابی کے اسباق - جناب سید ثمر احمد کے قلم سے



سماجی ذمہ داری کا احساس:


رکھتے ہیں جو اوروں کے لیے پیار کا جذبہ
وہ لوگ کبھی ٹوٹ کر بکھرا نہیں کرتے


’آفاق ‘ کے چیف ایگزیکٹو ابرار احمد صاحب جرمنی سے واپس تشریف لائے تو انہوں نے ایک دلچسپ لیکن آنکھیں کھول دینے والی کہانی سنائی۔ کہنے لگے ہمارے ایک دوست ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے تھے رات کا وقت تھا‘ وہاں چند لوگ موجود تھے۔ کھانا کھا کے فارغ ہوئے تو کچھ کھانا بچ گیا۔
ہم ریسٹورنٹ سے باہر نکلنے لگے تو ایک ادھیڑ عمر خاتون ہمارے پاس آئی اور میزبان سے بچے ہوئے کھانے کے متعلق استفسار کیا۔ ہمارے میزبان اور اس کے درمیان کچھ سخت الفاظ کا تبادلہ بھی ہوا۔ اسی دوران اس نے فون کیا اور کچھ دیر میں سوشل سکیورٹی گارڈز وہاں آن پہنچے ۔ انہوں نے وقوعے کاجائزہ لیا اور 50 یورو کا جرمانہ کردیا۔ میزبان نے کہا کہ آخر تمہیں کیا ہے پیسے میرے ہیں اور کھانا میرا بچا ہے۔ ان کا جواب تاریخی تھا۔ انہوں نے کہا Money is yours but resources belong to the society ( پیسے بے شک تمہارے ہیں لیکن وسائل معاشرے کی ملکیت ہوتے ہیں)۔ کیا تمہیں خبر نہیں کہ کتنے لوگ اس وقت بھوک سے تڑپ رہے ہیں اور تم کھانا بچا کر جارہے ہو۔ جرمنی جنگ عظیم اول و دوم میں مکمل تباہ ہونے کے بعد پھر کھڑا ہوا اور آج یورپ کی سپر پاور کی حیثیت لینے جارہا ہے۔ بڑے لوگ ہمیشہ بڑی باتوں کی بنا پر بنتے ہیں۔ 

اجتماعیت:

اگر نہ درد مری روح میں اتر جاتا
میں جیسا بے خبر آیا تھا ، بے خبر جاتا
ابھی کہیں نہ کہیں صدق بھی عدل بھی ہے
میں ورنہ خیر کے اثبات سے مکر جاتا
کہیں خلاؤں میں آدم کی لاش کھو جاتی
زمیں پہ آکے اگر زندگی سے ڈر جاتا
معاشرے پر نظر دوڑائیں تو نیک لوگ غالب تعداد میں نظر آئیں گے اور برے لوگوں کو انگلیوں کے پوروں پر گنا جاسکتا ہے۔ موٹر سائیکل پر سفر کے دوران بار بار توجہ دلانا اگر سٹینڈ باہر ہے۔ کسی حادثے کے نتیجے میں لوگوں کا اکٹھا ہونا اور بے غرض ممکن مدد کرنا۔ یہ اور اس جیسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہماری معاشرتی زندگی کا خوبصورت حصہ ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل جہاں لوگ سب سے زیادہ خیرات کرتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اچھے لوگ مجتمع نہیں اور برے لوگ اکھٹے ہیں جس وجہ سے برائی ہر جانب مکروہ چہرے کے ساتھ نظر آتی ہے۔اچھے لوگ ایک دوسرے پر مشکوک ہیں اور برے منسلک۔ بس اس حالت کو بدل دو۔

اپنے حصے کی شمع جلانا:

سانحہ نہیں ٹلتا سانحے پر رونے سے
حبسِ جاں نہ کم ہوگا بے لباس ہونے سے

2001َ ء میں لاہور کے علاقے ساندہ میں ایک عورت بیوہ ہوگئی۔ جوان بچیوں کا  ساتھ تھا۔ کچھ لوگوں نے مدد کرنی چاہی تو اس نے انکار کردیا اور کہا کہ اگر کرسکتے ہیں تو مجھے کچھ رقم بلاسود ادھار انتظام کردیں۔ ان دردمندوں نے دس ہزار روپے اکھٹے کر کے اس کو فراہم کر دیے۔ اس نے سلائی مشین خریدی، چھ ماہ میں اپنا قرض بھی اتارا اور اپنی بچیوں کی شادی بھی کی۔اور یہیں سے پاکستان کے سب سے بڑے مائیکرو فائنانس سسٹم ’اخوت‘ کی بنیاد پڑی۔
محبت ایک دماغی خلل سہی لیکن
میں اس خلل کو عبادت شمار کرتا ہوں
اخوت اب تک 50,000 خاندانوں کی زندگیوں میں بہتری پیدا کر چکا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اس کے روحِ رواں ہیں۔ ہمہ تن آشیانے کی تعمیر میں مصروف۔ ایک ملاقت میں ’صدا‘ کے تعارف کروانے پر کہنے لگے ۔ ضرور کریں۔۔۔خدمتِ خلق کا کچھ نہ کچھ ’آزار‘ ضرور پالنا چاہیے۔ واصف محبت کرنے والوں کو ڈپریشن فری ڈیکلئیر کرتا ہے۔

خوئے دل نوازی:
ماہر سے اجتناب نہ فرمائیں اہل دل
اچھوں کے ساتھ ایک گناہ گار بھی سہی

حسن الہضیبی بیان کرتے ہیں کہ ہم امام حسن البنا کے ساتھ ایک جگہ دعوت کے لیے گئے۔ نماز کے بعد گفتگو ہوئی۔ مجلس برخاست ہونے پر اس علاقے کا زمیندار آیا اور اپنے گھر رات گزارنے کی دعوت دی۔ بڑا پر تکلف کھانا پیش کیا۔ کھانے کے بعد امام نے اپنی دعوت اس کے سامنے پیش کی۔ اس نے کہامیں شرابی ہوں۔ پھر بھی آجاؤ، امام نے کہا۔ غرض وہ کہتا گیا میں زانی ، سودخور، قبضے کرنے والا۔۔۔ہوں اور امام کہتے گئے پھر بھی آجاؤ، پھر بھی آجاؤ۔ ہم اس بات پر سخت حیران تھے۔
رات گہری ہوئی ہم سو گئے، اچانک میری آنکھ کھلی ۔ میں نے پانی کھولنے کی آواز سنی۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ ساتھ والے کمرے سے آرہی ہے۔ دروازے کے درزے سے دیکھا تو دیکھا کہ امام مصلے پر ہیں اور آواز ان کے سینے سے بلند ہورہی ہے۔ ہاتھ اٹھے ہیں اور کَہ رہے ہیں کہ اللہ ۔۔۔ میں نے دعوت تو دے ڈالی ہے لیکن دل بدلنا تیرے اختیار میں ہے۔ اسی اثنا میں دروازہ کھلا وہ زمیندر اندر داخل ہوا اور ہاتھ آگے کیا کہ حضرت بیعت لیجیے ، قسم خدا کی ساری رات ہوگئی نیند نہیں آئی۔

غورو فکر:

جن کو رہنا ہے رہیں قیدی ءِ زنداں ہوکر
ہم تو اے ہمنفسو : پھاند کے دیوار چلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرم اپنا قبول ہے مجھ کو
سوچنے کا قصور وار ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حْر کی آنکھ ہے بینا

ہمارے استاد ڈاکٹر مجاہد منصوری نے ایک دفعہ بات کرتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ اس Upper Chamber کو استعمال کیا کرویعنی ذہن کو۔ اس کو کسی کا غلام بنا دینا بڑا ظلم ہے۔ جس کا ذہن کام کرتا ہے، مایوسی و ناامیدی سے کیا کام ؟ کاروباری معاملات ہو ں یا کچھ اور، یہ غلط ہے کہ پیسہ ہو تو کام ہوسکتا ہے۔ انسانی ذہن نے پیسے کو بنایا ہے، پیسے نے انسان کو نہیں۔ 

برادرم جہانزیب نے اپنی پہلی آزادانہ کاروباری سرگرمی بغیر کسی سرمایہ کاری کے کر کے دکھائی۔ یہ ایک Event تھا جو بالخصوص ٹیچرز کے لیے ’سلام ٹیچر‘ کے عنوان سے ترتیب دیا گیا۔ کمپنی بنانا، تشہیر ، میڈیا کوریج ، افراد کو لانا۔۔۔ سب کچھ بلا کسی ذاتی سرمایہ کاری کے دوسری کمپنیوں کے تعاون سے منعقد ہوا۔ انہوں نے لوگوں کی اس خام خیالی کی عملاً تردید کردی۔

نجم السحر ہمارے ایک دوست ہیں۔ بے روزگار ہوئے تو ایک دوست نے کہا ۔ نجم کیا ساری زندگی جاب ہی کرتے رہوگے۔ میرے پاس تو سرمایہ کاری نہیں، نجم نے جواب دیا۔ دوست نے کہا ،اچھا جو میں کرسکتا ہوں وہ کیے دیتا ہوں۔ انہوں نے 500 روپے کاکارڈ لوڈ کروایا اور کہا کہ تمہارے تعلقات وسیع ہیں، انہیں استعمال کرو، جماعتِ اسلامی کا اجتماع قریب آرہا ہے اور ان کے اخبار ’جسارت‘ کو اشتہارات کی ضرورت ہے۔تم انہیں لاہور سے اشتہارات فراہم کرنے والے بن جاؤ۔ نجم نے بتایا کہ انہوں نے اس کوشش سے 40,000 روپے کی حلال آمدنی حاصل کی۔ 

حرکت:

طوفاں ہے اگر گھر کے درپے ، یوں بیٹھ نہ جاؤ کچھ تو کرو
کھڑکھی کے شکستہ شیشے پر کاغذ ہی لگاؤ، کچھ تو کرو
انسان کے قبضہءِ قدرت میں اک نطق نہیں ہے بہت کچھ ہے
ہونٹوں سے نہ نکلے بات اگر، آنکھوں سے سناؤ کچھ تو کرو
محرومِ تمنا رہنے کا سناٹا کھا جائے گا تمہیں
مایوسی کے سکتے سے بچو، آنسو ہی بہاؤ کچھ تو کرو
سلطان کے قصرِ مرمر کا دروازہءِ آہن بند ہی سہی
گر توڑ نہیں سکتے اس کو ، زنجیر ہلاؤ کچھ تو کرو
یہ کھیت جو چپ ہیں بولیں گے اور اکھوے آنکھیں کھولیں گے
بارش نہ سہی بجلی ہی سہی ، کچھ تو برساؤ کچھ تو کرو

ڈاکٹر افسر امام 1976ء میں مینارِ پاکستان کے سوِمِنگ پول میں تیراکی کیا کرتے تھے۔ نئی نئی سیکھی تھی۔ وہ پول خاصا لمبا تھا اور گہرا بھی۔ ایک دن چھلانگ لگائی، آدھے رستے میں پہنچے تو سانس اکھڑ گیا۔ چیخ کے گارڈ کو آواز لگائی۔ وہ دوڑ کے قریب آکے کھڑا تو ہوگیا لیکن نکالنے میں کوئی مدد نہ کی ۔ خیر یہ ہاتھ مارتے مارتے کنارے پر پہنچے اور خفا ہوتے ہوئے بولے۔ تم مجھے بچاتے کیوں نہیں تھے،اگر میں ڈوب جاتا تو؟ ڈاکٹر نے پوچھا ۔ صاحب؛گارڈ نے جواب دیا، انسان سانس اکھڑنے سے نہیں ڈوبتا۔ دل چھوڑنے سے ڈوب جایا کرتا ہے۔اگر وہ بچا لیتا تو ڈاکٹر صاحب کو یہ ہمالہ جیسی حقیقت کیسے معلوم ہوتی۔

حکمت کا سبق:

کوئی بتا نہ سکا مجھ کو مدعائے حیات
جو گل کھلا تو کئی راز بے حجاب ملے
نہ میں طلسم کا ماہر، نہ مجتہد نہ رسول
مگر مجھے سفر شب میں آفتاب ملے

محترم حسین احمد صدیقی (مرحوم) نے ایک دفعہ مجھ سے کہا کہ بوڑھے ہو تو جوانوں کے پاس ضرور بیٹھو، مایوس نہیں ہوگے ۔ اور اگر جوان ہو تو بزرگوں کے پاس ضرور بیٹھو ، حکمت پاؤ گے۔ الفاظ آج بھی نقش ہیں۔ جہاں بھی کسی مردِ دانا کا پتا چلتا ہے ملنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں۔ زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہاتھ لگتا ہے۔ مردِدانا وہی ہے جو نہ خود مایوس ہو نہ کسی کو مایوس ہونے دے۔

استقامت:

حسنِ تخلیق کی دھرتی میں جڑیں کیا پھیلیں
تم نے انسان کو گملے میں سجا رکھا ہے

ایڈیسن نے بلب ایجاد کرنے سے پہلے 1000 غلط تجرِبات کیے۔ اس سے کسی نے پوچھا تم نے تو وقت ضائع کردیا۔ اس نے جواب دیا نہیں۔۔۔ بلکہ مجھے 998 وہ طریقے معلوم ہیں جن سے بلب نہیں بنتا۔ ہر غلطی مجھے بتاتی تھی کہ تمہیں صحیح طرف کون ساراستہ لے کر جائے گا۔ آج ہم اس ایجاد کے باعث ایڈیسن کے ممنونِ احسان ہیں۔ ’تخلیقیت‘ کی منزل ذوق و شوق ، مسلسل محنت اور غلطیوں کے راستوں سے گزر کر حاصل ہوتی ہے۔

مواخات: 

ہم نگری نگری جاتے ہیں اور گھر گھر گیت سناتے ہیں
ہم گلیوں گلیوں آنگن آنگن پیار کے دیپ جلاتے ہیں
ہم خوشبو کے سوداگر ہیں اور سودا سچا کرتے ہیں
جو گاہک پھولوں جیسا ہو ہم بن داموں بک جاتے ہیں
ہم شہرِ وفا کے لوگوں کا تم حال بھلا کیا جانو گے
ہم دل کا درد چھپاتے ہیں اور آنسو تک پی جاتے ہیں
احساسِ حمیت اہل نسب کی سب سے بڑی کمزوری ہے
وہ اپنوں سے بھی حالِ پریشاں کہتے ہوئے شرماتے ہیں
وہ اپنوں سے بھی حالِ پریشاں کہتے ہوئے شرماتے ہیں
ہم سچے ہیں یہ کیسے کہیں سچ سب کے بس کی بات نہیں
جو سچی باتیں کرتے تھے وہ پیغمبر کہلاتے ہیں

محمد بن عمر الواقدی بڑے بزرگ اور سیرت نگار گزرے ہیں۔ اپنا سب کچھ بالخصوص غزوات و سرایا کی تحقیق پر قربان کر دیا۔ عید کے دن بیوی نے کہا ، گھر میں کچھ نہیں ہے، آپ اس پریشاں حالی کا سامان کیجیے۔ یہ جھجھکتے جھجھکتے اپنے دوست کے پاس پہنچے اور غرض بیان کی۔ ان کے پاس ہزار درہم کی تھیلی تھی۔ وہ انہوں نے اسی وقت دے دی۔ واقدی گھر آئے ، اللہ کا شکر ادا کیا۔ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ ایک اور ہاشمی دوست نے دروازے پر دستک دی۔ وہ بھی اپنی ضرورت کے سلسلے میں ہی آئے تھے۔ ان میاں بیوی نے مشورہ کر کے وہ تھیلی حضورﷺ کی اولاد کے لیے تحفہ کردی ۔ کچھ دیر بعدوہی دوست جن سے واقدی ادھار لے کر آئے تھے، گھر آئے اور اپنی رقم کے بارے میں پوچھا۔ یہ ہچکچائے لیکن اصرار پر سچ بتانا ہی پڑا۔ دوست نے کہا، دراصل میرے پاس بھی اس وقت صرف وہی رقم تھی جو میں نے آپ کو دے دی۔ جب مجھے پیسوں کی ضرورت پڑی تو میں دوسرے دوست کے پاس گیا۔ انہوں نے میری ہی تھیلی مجھے واپس کر دی۔ اب یہ تینوں دوست اکھٹے ہوئے اور اس لطیفے پر تبادلہءِ خیال کرنے لگے۔ اتنے میں وزیر اعظم کا بلاوا آیا یہ تینوں اٹھ کر وہاں چلے گئے اور اْدھر بھی اس کا تذکرہ کیا۔ وزیر اعظم نے متاثر ہو کر تینوں کو ہزار ہزار درہم دیے اور واقدی کی بیوی کے لیے دو ہزار درہم دیے۔ کہ اس کے تعاون و تجویز پر یہ مثال قائم ہوئی۔

آئینہ:

نقش ماضی کے جو باقی ہیں مٹا مت دینا
یہ بزرگو ں کی امانت ہے گنوا مت دینا
وہ جو رزاقِ حقیقی ہے اسی سے مانگو
رزق بر حق ہے کہیں اور صدا مت دینا
بھیک مانگو بھی تو بچوں سے چھپا کر مانگو
تم بھکاری ہو یہ بچوں کو بتا مت دینا
صبحِ صادق میں بہت دیر نہیں ہے لیکن
ابھی عجلت میں چراغوں کو بجھا مت دینا
اپنے مشکوک ارادوں کی زیاں کاری پر
اپنی تقدیر کو الزامِ خطا مت دینا
پیروی چاہتا ہے جادہءِ قرآن حدیث
ان صحیفوں کو فقط گھر میں چھپا مت دینا
غیر مشروط رفاقت کا ہی سودا کرنا
شرط کے ساتھ رفاقت کی رضا مت دینا
میں نے جو کچھ بھی کہا صرف محبت میں کہا
مجھے اس جرمِ محبت کی سزا مت دینا

ہمارے ایک دوست نے اپنے ایک دوست کا واقعہ سنا یا کہ جاپان میں قیام کے دوران میری ایک جاپانی سے دوستی ہوگئی ۔ یہ دوستی اتنی بڑھی کہ ہم دونوں کھانا بھی اکھٹے کھاتے۔ کئی مہینوں بعد اچانک اس دوست نے تعلق منقطع کرلی۔ بار بار رابطہ کرنے پربھی جواب نہ رابطہ۔ تین ماہ کی تگ و دو کے بعد خدا خدا کر کے وہ ملاقات کے لیے راضی ہوا۔ میں نے دوستی کے واسطے دے کر ناراضی کی وجہ پوچھی ۔ اس نے جو جواب دیا وہ مجھے اندر سے ہلا گیا۔ اس نے کہا کہ تمہیں یاد ہے کہ آخری دفع جب ہم کھانا کھا رہے تھے تو ایک بچہ نے تم سے کچھ پیسے مانگے تھے۔ ہاں تو۔۔۔؟ میں نے جواب دیا۔ تم نے وہ پیسے دے کر میری قوم کو بھکاری بنانے کی کوشش کی تھی ۔ اس وجہ سے میں تم سے ناراض ہوا تھا۔ میں نے اپنے رویے پر معذرت کی اور بمشکل دوستی بچی۔ 
ڈسپرین ڈسپرین کہنے سے سر کا درد کا نہیں جاتا بلکہ دوائی لینی پڑتی ہے۔ اچھائی اچھائی کہنے سے حالات اچھے نہیں ہو جاتے اچھا بننا پڑتا ہے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر اظہر وحید کہتے ہیں کہ اے دوست؛ معاشرے پر تمہارا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ تم سنور جاؤ۔

مثبت ذہنیت:

آئینِ نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

لاؤڈ سپیکرز متعارف ہوئے تو ہمارے روایتی مذہبی طبقے نے ڈٹ کے مخالفت کی۔ آج بھی ایسے دوست موجود ہیں جو اپنے اجتماعات میں لاؤڈ سپیکرز پر نماز نہیں کراتے ۔ کیمرہ ایجاد ہوا تو تصویر کی بھی شدت سے مخالفت ہوئی۔ ایک مولوی صاحب پروفیسر احمد رفیق اختر سے پوچھنے لگے کیا یہ انسان چاند پر پہنچ چکا ہے؟ کیوں، پروفیسر نے پوچھا۔ کہنے لگے، تفسیر جلالین میں لکھا ہے کہ دور کی چیز چھوٹی نظر آتی ہے اور قریب کی چیز بڑی نظر آتی ہے۔ چاند چھوٹا نظر آتا ہے اور سورج بڑا نظر آتا ہے۔ تو یہ سورج پر پہنچنے سے پہلے چاند پر کیسے پہنچ گئے؟ اقبال بڑا بیدار مغز تھا۔ اس نے روایت پرستوں کو ترقی کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا۔

فضولیات سے اجتناب:

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو خاکی و نوری کی الجھن سے نہیں نکلا
اس نے انہیں کیا سمجھا اس نے انہیں کیا جانا

زمانہ قبلِ نبوت میں شام کے ملکانی اور روم کے مونو فیزٹ عیسائیوں کے مابین بالکل یہی مسئلہ تفرقہ کا باعث بنا ہوا تھا۔ ایک کہتا تھا حضرت عیسی ؑ میں ملکوتی روح زیادہ ہے اور دوسرا کہتا بشری عنصر زیادہ ہے اور اس معاملے پر کشت و خون ہوا کرتے اور ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے۔
سقوطِ بغداد کے وقت ہلاکو خان شہر کے باہر موجود تھا اور اندر یہی نام نہاد دین کے نام لیوا اس بات پر بحث میں تھے کہ حضرت عیسی ؑ گندم کی روٹی کھاتے تھے کہ یا جو کی ۔ 

ایسٹ انڈیا کمپنی کی بر صغیر میں فتوحات کے وقت یہی لایعنی فتنے اٹھائے گئے۔ امتناعِ نظیر کا ایک مسئلہ مشہور تھا۔ ایک گروہ کہتا کہ اللہ جھوٹ بولنے پر قادر ہے ۔ دوسرا گروہ کہتا تھا اچھا اللہ جھوٹ بھی بولتا ہے لہذا تم کافر ہو۔دوسرا کہتا تھا کہ قادر نہیں تو پہلا کہتا کہ اس کا مطلب ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر نہیں لہذا تم کافر ہو۔ 
ہر زوال کے دور میں جب کرنے کو کچھ نہیں رہتا اور علم جاتا رہتا ہے۔ امت کا درد اور خوفِ خدا دلوں سے اٹھ جاتا ہے تو یہی صورت پیش آتی ہے ۔ کیا ان مسائل کو حضورﷺ نے خود کبھی اہمیت دی؟ حضورﷺ ایک عملی انسان تھے۔ وہ فضول بحثوں میں ڈالنے والے نہ تھے۔ انہوں نے وضاحت سے تعلیم فرمائی کہ لایعنی باتوں اور تفرقے سے اجتناب کرو۔ مگر یہ بات فرقہ پرستی میں اندھے لوگوں کو نہیں بلکہ دین داروں کی سمجھ میں آتی ہے۔

کائناتی سوچ:

چارہ سازوں سے الگ ہے میرا معیار کہ میں
زخم کھاؤں گا تو کچھ اور نکھر جاؤں گا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گو میرے دل کے زخم ذاتی ہیں 
ان کی ٹیسیں تو کائناتی ہیں
آدمی شش جہات کا دولھا
وقت کی گردشیں براتی ہیں
فیصلے کر رہے ہیں عرش نشیں
آفتیں آدمی پہ آتی ہیں
کلیاں کس دور کے تصور میں
خون ہوتے ہی مسکراتی ہیں
تیرے وعدے ہوں جن کے شامل حال
وہ امنگیں کہاں سماتی ہیں

حسن ایم جعفری کہنے لگے؛ رہتے کہاں ہو۔ استاد، گرین ٹاؤن میں، میں نے جواب دیا۔ بولے، گرین ٹاؤن میں رہو پر دماغ ڈیفنس والا رکھو۔ سادے سے لفظوں میں کی گئی نصیحت نقش ہوگئی۔ دماغ بہت بڑا ہونا چاہیے۔چوزہ باہر نکلنے کے لیے انڈے کو چونچ مارتا ہے۔ پھر زور لگاتا ہے لیکن کمزور ہونے کے باعث اس چھلکے کو توڑ نہیں پاتا ۔ گاؤں میں کچھ خواتین کو اس کی اس ’مصیبت‘ پر ترس آتا ہے۔ وہ چھلکا اتار پھینکتی ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ جن چوزوں کی مصیبت کم کی گئی وہ یا تو مر گئے یاساری زندگی اچھی مرغی نہ بن سکے۔ جن چیزوں کو ہم مصیبت سمجھتے ہیں وہ قدرت کا انسان کو مظبوط کرنے کا نظام ہوتا ہے۔ اگر یہ تصور آج آپ میں مستحکم ہوگیا تو پہلا نتیجہ مایوسی کا خاتمہ ہوگا اچھے برے حالات کا آنا جانا لگا ہی رہتاہے۔ میرے استاد شاہد علی نورانی نے ایک دفع کہا کہ فیل ہونا بری بات نہیں۔ پڑھائی چھوڑ دینا بری بات ہے۔

ختم شد

مصنف:
سید ثمر احمد
یوتھ کنسلٹنٹ ، ٹرینر، کمیونی کولوجسٹ
samarahmed_pk@yahoo.com
آپ فیس بک پہ یہاں ملیں گے۔

2 comments :

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...