ارادہ تو نہیں تھا کہ بھٹو نامے کے مزید ابواب رقم کرتا، مگر دوست یار پرانے زخم تازہ ہونے سے ایسے اچھلے ہیں کہ ہر کوئی نئی بات یاد دلا رہا ہے۔ ہمارے ایک پبلشر دوست نے تو اس موضوع پر کتاب لکھنے کا مطالبہ کر دیا ہے کہ یہ کوئی ذاتی دکھوں کی کتھا نہیں اس قوم کی تباہی کی داستان ہے۔ یہ استحقاق تو دراصل برادرم مجیب شامی صاحب (خبردارجواب اسے کتابت کی غلطی سے مجیب نظامی لکھا گیا) کا ہے، مگر کوئی تو آئے جو اس راکھ کو کرید کر تاریخ کے چند تاریک باب روشن کرے۔
اب طعنہ اس بات کا دیا جا رہا ہے کہ ہمارے اشفاق صاحب بھی ایوب خاں کی مداحی میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔ مطلب یہ کہ اسلام کا نام لیتے تھے اور آمریت کا ساتھ دیتے تھے۔ ان کو چھوڑئیے، اللہ بخشے بھٹو صاحب کب پیچھے رہے تھے۔ فیلڈ مارشل کو دیڈی کہتے تھے۔ انہیں ایشیا کا ڈیگال قرار دیا تھا۔ ان کی مداحی میں مادر ملت کے انتخابات میں قوم کی ماں کے خلاف ایسی زبان استعمال کی تھی کہ خود مادر ملت نے پوچھا تھا یہ کون ہے جس کو اخلاق کا بھی پاس خیال نہیں۔ مشورہ دیا تھا کہ ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر پارٹی صدر اور ایس پی سیکرٹری جنرل بنا دیا جائے۔ اب تو وہ خط منظر عام پر آگیا ہے جس میں ایوب خاں کو بتایا گیا تھا کہ وہ قائداعظم سے بڑے لیڈر ہیں۔ ایوب خاں کی آغوش شفقت میں آنے سے پہلے سکندر مرزا کے جوگن گاتے تھے، وہ بھی اب پوشیدہ نہیں۔ ناہیدمرزا تک کو تو یہ تک کہا کہ آپ کے سر پر تاج بہت خوبصورت لگے گا۔ یہ چہرہ بنا ہی اس خاطر ہے۔ اقتدار میں آنے کی خاطر اس نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے۔ اور بہت سی کہانیاں ہیں۔
رہ گئے ادیب تو یہ ایک پوری کہانی ہے۔ آج ہی انتظار حسین نے یاد دلایا ہے کہ صرف دو ادیب بچے تھے۔ ایک مولانا صلاح الدین اور دوسرے حسن عسکری۔ بھول گئے ہوں گے کہ یہ مولانا صلاح الدین کون تھے۔ بھئی یہ جسارت اور تکبیر والے ہمارے صلاح الدین نہیں کہ آپ کہیں کہ اپنوںکی حمایت میں مضمون باندھ رہا ہوں۔ یہ ادبی دنیا کے مدیر مولانا صلاح الدین احمد تھے۔ بڑا بڑا ادیب ان کا قلم لگنے سے معتبر بنا تھا۔ ایک درویش جو اپنی ذات میں ایک ادارہ تھا۔ اس زمانے میں فنون، نقوش جتنا زخیم پرچہ ایک روپے میں دیتے تھے۔ سال کے چار پرچوں کی قیمت تین روپے تھی۔ حصہ نظم پہلے میراجی کے سپرد تھا، پھر وزیر آغا کو یہ اعزاز ملا۔ بھئی ان کی عظمت کا بیان ناممکن ہے۔ یہ خیال رہے کہ جب صدر ایوب انجمن اسلام کے سالانہ جلسے میں آتے، تو اہل لاہور کی طرف سے مولانا خطبہ استقبالیہ دیتے۔ ایک بار اسی اجتماع میں مولانا نے کہہ دیا کہ ملک میں شراب کیسے بند ہو سکتی ہے جب ہماری فوجی چھاﺅنیوں میں اس کی اجازت ہے۔ پھر جب62ءکے آئین سے اسلامی کا لفظ نکالا گیا اور پاکستان صرف جمہوریہ پاکستان رہ گیا، تو مولانا نے للکارا۔ ایوب خاں کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تو نوائے وقت نے ادیب کی فتح کے نام سے اداریہ لکھا ہے۔ بھائی یہ ہماری تاریخ ہے۔ صلاح الدین صاحب کے پاس جب رائٹرز گلڈ کی تجویز پہنچی تو کہنے لگے کہ شاعری جزو ایست از پیغمبری۔ ادیب تو کار پیمبری انجام دیتا ہے اور پیغمبر گلڈ نہیں بنایا کرتے۔ سبحان اللہ کیا فقرہ تھا۔ اوراپنے عسکری صاحب وہ تو شروع ہی سے ادیبوں کی انجمن سازی کے مخالف رہے ہیں۔ چاہے عالمی سطح پر ہو چاہے مقامی سطح پر۔ یہ ادب کی لمبی بحث ہے۔ وگرنہ مولوی عبدالحق سے لے کر شاہد احمد دہلوی، ابن انشاءاور ہاں ہمارے جمیل الدین عالی سبھی نے گلڈ کو پروان چڑھانے میں اپنا اپنا حصہ بتایا۔ اس زمانے کے ادیب کے لئے یہ بالکل ایک نیا تجربہ تھا۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کہانی سے آپ اپنی مرضی کے کردار چن لیں۔ مگر ان بھٹو صاحب کو کیا ہوا تھا کہ پاکستان کی اس اولین آمریت کو پالنے پوسنے میں اپنی پوری جوانی لگا دی ۔ یہ پہلا قومی سیاستدان تھا جو مارشل کے گملے میں پروان چڑھا۔ اس رسم بد کی ابتدا یہیں سے ہوئی تھی۔سکندر مرزا نے بھی اس کا انتخاب کوئی میرٹ پر نہ کیا تھا، کچھ ایسی ہی خوبیوں کی بنا پر کیا تھا۔
اس کے بعد اس کے اپنے ”کارنامے“ کم نہیں۔ میں کل بتانا بھول گیا کہ اس کے زمانے میں دو چار تاریخی قتل بھی ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نذیر احمد کا قتل جو ڈیرہ غازی خاں سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر آئے تھے۔ انہوں نے صرف وہی بات تو کی تھی جو ہمارے حبیب جالب نے شاعری میں کی کہ لاڑکانے چلو، وگرنہ تھانے چلو۔ اس زمانے میں یحییٰ خاں کی عیاشیوں کا تذکرہ قوم کی توجہ دوسری جانب کرانے کے لئے ایک بڑا تیربہدفنسخہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ٹو کا اور دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ اس بدبخت یحییٰ کی تین برس کی عیاشیاں لاڑکانے کی ایک رات کی عیاشیوں کے مقابلے میں ہیج ہیں۔ ڈاکٹر نذیر، خواجہ رفیق، عبدالصمد اچکزئی (موجودہ اچکزئی کے والد) بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر مولانا شمس الدین، ہاں ، یاد ہے کہ بلوچستان اسمبلی کو توڑ کر وہاں ملٹری ایکشن کس نے کیا تھا۔ یہی تو وہ اصل ایکشن ہے جس کے اثرات آج تک نہیں گئے۔ ایک جمہوری حکومت کا فوجی ایکشن۔ ہم اس کے اثرات بھگت رہے ہیں۔ یہ ولی خاں اور نیپ کی پوری قیادت پر غداری کا مقدمہ بنا کر جیلوں میں کس نے ڈالا۔ پوری اپوزیشن کو ڈنڈا ڈولی کر کے پارلیمنٹ سے باہر کس نے پھنکوایا۔ عجیب ہی شخص تھا۔ آج میں ذرا خود کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ جاتے جاتے بھی اس نے کم نہ کی تھی۔ پاکستان کے شہروں کی گلیاں اور سڑکیں خون سے نہلائی گئی تھیں، لاہور کی مسلم مسجد کے منارے اس سانحے کے گواہ ہیں جب پولیس کے بوٹوں نے مسجد کے تقدس کو روند ڈالا تھا۔ لوگ گولیوں کی بوچھاڑ میں لپکتے تھے اورکے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچاتے تھے۔ اس نے کراچی، لاہور، راولپنڈی تین شہروں میں مارشل لاءلگانے کی کوشش کی، لوگوں نے نعرہ لگایا آدھا نہیں، پورا مارشل لائ۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ لوگ کس قدر تنگ تھے۔ وہ حبس تھا کہ لو کی دعا مانگتے تھے لوگ۔ ضیاءالحق اسی کی حرکتوں سے ہم پر مسلط ہوا ۔ذرا یاد کرکے بتائیے، اس زمانے میں یہ آزادی ¿ اظہار کے انقلابی چیمپئن کہاں تھے۔ یاد نہ آئے تو کسی روز یہ بھی بتا دیں گے۔
اس کے کارناموں میں ایک کارنامہ یہ ہے کہ اس کی اصلاحات نے تعلیم کا ستیاناس کر دیا۔ اس نے سکول ، کالج بھی قومی ملکیت میں لے لئے۔ ان کالجوں میں بڑی خرابیاں ہوں گی، مگر یہ وہ رفاہی اور فلاحی ادارے تھے جنہوں نے اسلامیان ہند کو تعلیم کی روشنی سے بہرہ مند کیا۔ یہ بہت سستے داموں تعلیم فراہم کرتے تھے۔ بعد میں جب نجی اداروں کی اجازت دی گئی، بھٹو کے بعد تو پھر ایسے فلاحی اور رفاہی ادارے نہ بن سکے۔ ان کی جگہ کمرشل اداروں نے لے لی۔ آج ہم ان اداروں کو بھی دعائیں دیتے ہیں کہ یہ نہ ہوں تو قوم ان پڑھ رہ جائے، مگر اب تعلیم بہت مہنگی ہو چکی ہے۔ سارا پیرا ڈائمParadigmہی بدل چکا تھا۔ یہ بھٹو کا کمال تھا۔
ایک اور کارنامہ یاد آیا۔ بھٹو کی پارٹی میں ایک سینئر نائب صدر تھے شیخ رشید ،یہ والے نہیں، وہ جو بابائے سوشلزم کہلاتے تھے۔ وہ بیچارے بیمار رہتے تھے، انہیں وزیر صحت بنا دیا گیا۔ انہوں نے دواﺅں کی جنرک سکیم نافذ کی۔ مطلب یہ ہے کہ آپ اسپرین لینا چاہتے ہیں تو اس کے سو نام ہیں، ڈسپرین، اسپرو۔ اس سکیم کے مطابق یہ دوا ان برانڈ ناموں کے بجائے اصل ناموں سے ملے گی۔ اور اس کی سوشلسٹ ملکوں کی طرح قیمت مقرر ہوگی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ غیر معیاری، سستے خام مال سے یہ دوائیں بننے اور بکنے لگیں۔ بخار چڑھ جاتاتو اترتا ہی نہ تھا۔ دوا جو جعلی تھی۔وہ دن اس ملک کے مریضوں کے لئے بڑے سخت تھے۔ خود شیخ رشید تو اپنے دمے کی دوا باہر سے منگوا لیتے تھے، مگر بےچارے عوام کے لئے کوئی راستہ نہ تھا۔ یہ سکیم اتنی احمقانہ تھی کہ بھٹو ہی کے مختصر دور میں واپس لینا پڑی۔
کیا کیا گنواﺅں، کیا کیا لکھوں۔ اس ملک میں کوئی ایسی برائی نہ ہوگی جس کی ابتداءاس ذات شریف نے نہ کی ہو۔ بہو، بیٹیوں کی جیسی بے حرمتی اس زمانے کا رواج تھا، شاید ہی اس کی مثال ہو۔ ایس پی صاحب کو براہ راست فون کرکے حکم دیا کہ فلاں کی بیٹیاں اغوا کرکے فلاں جگہ لے جائی جائےں اور…. اور ….ایس پی کو غیرت آگئی۔ سیشن جج کو عدالت سے ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کر لیا گیا۔ سانگھڑ سے چھ حروں کی لاشیں ملنے کا واقعہ اب کوئی معمہ نہیں رہا۔
حضور، ہماری آنکھوں نے وہ دوردیکھااور بھگتا ہے۔ خدا کے لئے ہمارے زخم تازہ نہ کیجئے۔
No comments :
Post a Comment