پچھلے دنوں پاکستان کی مشہور صحافی نجم سیٹھی صاحب نے اپنے ٹی وی پروگرام "آپس کی بات" میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں عمران خان کی طرف سے سکولوں کے نصابِ تعلیم میں این جی اوز کی سیکولر اصلاحات کو رد کرنے اور اسلامی اصلاحات کو قبول کرنے کے پر خاصی تنقید فرمائی۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے اس سارے معاملے کا ذمہ دار جماعتِ اسلامی کو ٹھہرایا اور جماعت کے نظامِ تعلیم کے حوالے سے نظریات کی کافی شدت سے مخالفت کی۔ اس مخالفت میں وہ اتنی پستی میں اتر گئے کہ مضحکہ خیز مثالیں دینے لگے، مثلاً جماعتِ اسلامی کے تعلیمی وژن کو دو مجاہد جمع دو مجاہد برابر ہیں چارمجاہد جیسی حسابی مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اسلام کو تو کچھ نہیں کہہ سکے تو اِس کو "جماعتِ اسلامی کا اسلام" کہہ کے رد فرماتے رہے۔ یہ سیکولر اور لبرل لابی کا پرانا حربہ ہے۔ اس حربے سے وہ یہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آئندہ کوئی بھی اسلام کی بات کرتے تو اس کو اسی کے نام سے موسوم کر کے شریعت کے نفاذ سے بچا جا سکے۔ مثلاً جماعت اسلامی کی جگہ اگر تحریکِ انصاف اسلامی اصلاحات کرنا چاہے گی تو اس کو "تحریکِ انصاف کا اسلام" کہہ کے رد کردیں گے۔ کل کلاں مولانا فضل الرحمٰن کوئی اسلامی اصلاح پیش کریں گے تو اس کو "مولانا فضل الرحمٰن کا اسلام" کہہ کے رد کر دیں گے۔ نواز شریف صاحب پہ تو پہلے ہی امیرالمومنین کی پھبتی کسی جاتی ہے۔
حاصل کلام یہ کہ ان نام نہاد لبرلز کو چِڑ تو اسلام سے ہے لیکن اس کو کھلم کھلا رد کرنے کی بجائے اس کے داعیوں میں کیڑے ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور سچ تو یہی ہے کہ یہ تب تک اسلام کی کسی بھی تعبیر کو تسلیم نہیں کریں گے جب تک سب کے سب لوگ ہاتھ باندھ کر "اِن کے اسلام (یا سیکولرزم)" کو نہ مان لیں۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ چلیں آپ "کسی کے اسلام" کو نہ مانیں۔۔ جمہوریت کو تو مان لیں۔ جو اسمبلی آئین و دستور کے تحت اکثریت سے فیصلہ کر دے، اسے تسلیم کر لیں۔
خیر بات دور نکل گئی۔۔ مقصود اس تمہید کا یہ ہے کہ پروفیسر نعیم قاسم صاحب نے سیکولر اور لبرل تعلیمی ایجنڈے پہ بہت احسن انداز سے روشنی ڈالی ہے۔ آئیں اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔
No comments :
Post a Comment