کون ہے جو آسان زندگی نہیں چاہتا؟ کون ہے جو آسانی کو پسند نہیں کرتا؟ ہر
شخص کی خواہش ہے کو اس کی زندگی خوبصورت اور سہل انداز میں گزرے۔ یہ ایک
جائز اور فطری خواہش ہے ۔ لیکن فی زمانہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد اس کی
تلاش میں سر ٹکراتی پھرتی ہے اور خانماں برباد ہے۔ کیا یہ ایک سراب ہے جو
موجود نہیں لیکن اپنے پیاسے کو مارے جاتا ہے؟ کیا یہ ایک خوشنما دلدل ہے کہ
نکلنے کے لیے جتنے ہاتھ پاؤں مارو اور دھنستے چلے جاؤ؟ ہم آج یہ ثابت کریں
گے کہ یہ سراب ہے نہ دلدل بلکہ ایک قابلِ حصول منزل ہے۔ ہر وہ شخص جو
مضبوط ارادے کے ساتھ اس مضمون کو اپنا لے گا ، اپنی زندگی میں اسی لمحے سے
فرق محسوس کرلے گا۔ ہم گلشنِ حیات میں کینسر کے اس ناسور کی نشان دہی کیے
دیتے ہیں اور علاج کے لیے یقینی نسخہ بھی بتائے دیتے ہیں۔
معاشیات کی اہم اصطلاح ہے جسے سب خواہشات کے چکر یا Vicious Circle کے نام
سے جانتے پہچانتے ہیں۔یہ ایک وسیع اصطلاح ہے۔ ہم اپنے موضوع سے مطابقت کے
لیے اسے معیارِزندگی کے بت کا نام دیتے ہیں۔ شریعتِ اسلامیہ میں اسے ہوائے
نفس کی غلامی کہتے ہیں۔ اسے سرکل کا نام اسے لیے دیا گیا کہ سرکل کا سفر
اور سفر(Suffer) کبھی ختم نہیں ہوتے۔انسان خواہشات کے جالے میں ریشم کے
کیڑے کی مانند پھنس جاتا ہے جو بالآخر دم گھوٹ کے اس جان لے بیٹھتا ہے۔
لائف سٹائل میں آگے نکل جانے کی ضد رات کا چین اور دن کا قرار چھین لیتی
ہے۔ اور وہ کتے کی طرح ہڈی ملنے کے باوجود اگلی ہڈی کے لیے زبان لٹکائے
پھرتا ہے۔یہی چیز ہے جسے رب نے کہا :
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ۔ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۔
کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاکت میں مبتلا کردیا ہے اور یہ تو تمہیں اس وقت تک نہیں چھوڑے گی جب تک قبر میں نہ پہنچا دے۔
پس کان کھول کے سنو کہ یہی وہ
ناسور ہے جس کو جسم سے علیحدہ کردینا زندگی میں حرارت اور صحت بخش خون
دوڑانے کا باعث ہو سکتا ہے۔ خواہشیں، مہران کے بعد ہنڈا ، پھر مرسیڈیز پھر
رولس رائس۔ مری اورناران میں فلیٹ پھر سوئٹزرلینڈ اور وینس میں اپارٹمنٹس ،
تمام حدیں توڑتی چلی جاتی ہے۔ میچنگ اور کنٹراسٹ (Contrast) کپڑوں اورجوتوں
سے بھری الماریاں۔ مہنگا ترین انٹیرئیر (Interior) جسے دیکھتے ہی اوسان خطا
ہونے لگیں۔ غرض واش روم سے لے کے ایپرن تک ہر چیز ایسی منفرد اور مہنگی ہو
کہ دوسرے نظر ڈالتے ہی مرعوب ہو جائیں اور ان کی آنکھوں میں نظر آنے والی
حسرت ہمارے وحشی دل کو ’’سکون‘‘ دے جائے۔سوال ہے کہ کیا ان بے چاروں اور
کوتاہ فہموں کی زندگیوں کو یہ سکون ملتا بھی ہے؟ اگر ملتا ہے تو ان سے ھل
من مزید کی بُو کیوں اٹھتی ہے۔ جان لو کہ سکون صرف بھلے دل کو ملتا ہے۔
سکون کامیابی ہے۔ انسان شادی کیوں کرتا ہے؟ بچے کیوں پیدا کرتا ہے؟ دوست
کیوں بناتا ہے؟ بزنس کیوں قائم کرتا ہے؟ صرف اسی لیے تو کہ یہ سب چیزیں اس
کی زندگی میں خوشیاں لاسکیں ۔ اگر یہ سب چیزیں خوشی اور سکون دینے میں
ناکام ہو جائیں تو ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ وہ جیتے
جی مر گیا۔انیسویں صدی میں روسی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے والے امام
شاملؒ کے پیروکار نعرے لگایا کرتے تھے کہ یہ دنیا مردار ہے اور اس کے چاہنے
والے کتے ہیں۔ جب یہ سکون ہی حاصل کرنا کامیاب زندگی کی تصویر ہے تو کیوں نہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہم کچھ کامیاب لوگوں کی مثالیں شئیر کرتے
ہیں ۔جن کو اللہ نے بہت دیا لیکن انہوں نے حقیقت پالی کہ دولت سے گدّے خرید ے
جا سکتے ہیں میٹھی نیند نہیں۔ لہذا یہ زندگی میں توازن پیدا کرنے میں
کامیاب رہے۔ کون ہے جو ان کی کامیاب زندگی پر حرف گیری کرسکے؟
وقت کا سب سے بڑا حاکم:
عمر بن خطابؓ عرب کے مشہور مدبر ، سیاستدان اور صحابی امیر معاویہؓ سے
ملنے شام پہنچے ۔ محل دیکھ کے کبیدہ خاطر ہوئے۔ انہوں نے عرض کی رومیوں پر
رعب طاری کرنے کے لیے قیمتی لباس پرشکوہ محل لازمی ہیں لیکن دیکھیں اس کے
نیچے اسلحہ موجود ہے ۔ مگر عمرؓ نے ابودرداؓ کی جھونپڑی میں رات گزاری۔
گزرے واقعات کی یادیں تازہ کیں اور حالات حاضرہ پر تبصرے ہوئے۔ صبح میزبان
نے پوچھا کہ رات کیسی رہی ؟ جواب دیا، ہمدمِ دیرینہ کی محفل لازوال سرمایہ
تھی۔سر کے نیچے اینٹ رکھ کے سوتے، جہاں جگہ مل جاتی لیٹ جاتے۔ آنے والے
پہچان نہ پاتے کہ مسلمانوں کا حکمران کون ہے۔ بتایا جاتا تو حیرانی سے
دانتوں تلے انگلیاں داب لیتے۔ جب بیت المقدس کا قبضہ حاصل کرنے نکلے تو
جہاں آواز پہنچتی کہ عمرؓ آرہے ہیں ، زمین دہل جاتی۔ یہ اپنے وقت کی سب سے
بڑی طاقت کا سربراہ تھا۔ مال و دولت اس کے قدم چومتے تھے۔ فارس سے جب مالِ
غنیمت مدینہ پہنچا تو حیران ہوا کہ کیا انسان اپنی عیش کے لیے اس طرح کا
سامان بھی بناسکتاہے۔کیا کوئی اس کی زندگی سے ایک جملہ بھی بتا سکتا ہے کہ
جو عدمِ توازن کو ظاہر کرتا ہو اور زندگی میں منفی ہنگامے کو بیان کرتا ہو۔
یہ وہ شخص تھا جس کے پاس بیٹھنے والے کا دل عقیدت و محبت میں اس کے ہاتھ
میں آجاتا تھا۔
امیر ترین تاجر:
حضوراقدسﷺ کے پاس ایک سائل آیا۔ آپ نے حضرت عثمانؓ کے پاس بھیج دیا۔ گلیاں
تنگ تھیں، گھر چھوٹے تھے۔ سائل دروازے پر آیا تو اندر سے آواز آرہی تھی ۔
بیگم تم نے رات چراغ میں بتی موٹی ڈال دی ۔ جس کی وجہ سے تیل زیادہ خرچ
ہوگیا۔ اس نے دل میں سوچا کہ یہ تو کنجوس لگتے ہیں میری کیا مدد کریں گے۔
دستک دی ، عثمانؓ باہر آئے، مدعا عرض کیا، انہوں نے پوری تھیلی لا کے اس کے
حوالے کردی۔ حیرانی سے پوچھا ، ابھی تو آپ بتی موٹی ڈالنے پہ لڑ رہے تھے
اور مجھے بغیر مانگے اتنا دے دیا کہ میری نسلوں کو بھی کافی ہوگا۔ جواب
ملا، وہ اپنی ذات پہ خرچ تھا اس لیے احتیاط برتی ،یہ اللہ کے راستے میں ہے
اس لیے فکر ہی کوئی نہیں۔
طلحہ بن عبیداللہؓ اور زبیر بن العوامؓ حضور ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔
فتوحات کے بعد شام اور عراق میں باغات اور مکانات کے مالک تھے ۔ اس دور میں
انڈسٹری آج کے دور کی طرح موجود نہیں تھی ۔پس ان چیزوں کے مالک ہی امرا
ہوا کرتے تھے ۔ لیکن کبھی زندگی میں تعیش کا گزر نہیں ہونے دیا۔
امام ابوحنیفہ اپنے دور میں کپڑے کے کامیاب ترین تاجر تھے۔ اپنے سب شاگردوں
کا خرچ خود اٹھاتے۔ اور منکسرانہ انداز میں فرماتے کہ یہ سب آپ لوگوں کا
حق ہے میں کوئی احسان نہیں کر رہا۔ دولت میں گھرے ہونے کے باوجود پورے گھر
میں چٹائیاں بچھی نظر آتیں۔ ہر سال بعد گھر کا فرنیچر تبدیل کرنے والے
،گاڑیوں اور بنگلوں کو زندگی کا مقصد بنانے والے جانیں ،دنیا کے قاتل بھنور
سے نکلنے کا راستہ کیا ہے۔امام ابن سیرین بھی چوٹی کے کاروباری تھے ۔ ایک
دفعہ چالیس ہزار درہم کا تیل صرف اس بنا پہ بہا دیا کہ ایک پیکنگ سے چوہا
نکل آیا تھا۔ یہ ہیں وہ جن کے پاس بیٹھ کے زندگی کا مغز ہاتھ آتا ہے۔
پاکستان کی سعید روحیں:
دو گروپوں میں مسلح تصادم چل رہا تھا۔ زخمیوں کو اٹھانے کے لیے ایمبولینس
آئیں ۔یکایک فائرنگ رک گئی۔ دونوں طرف کے لوگ اس آدمی کے احترام میں اپنی
گنوں کو خاموش کرکے سلام پیش کررہے تھے۔ اس کی گاڑیاں اپنا کام کرکے خاموشی
سے چل دیں۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس کی گاڑیاں تھی۔
ان کا چلانے والے نے پچاس سال سے کھدر کے معمولی کپڑے زیبِ تن کیے تھے۔
حالانکہ کہ وسائل کے ساتھ آسائش سے پر زندگی گزار سکتا تھا۔ یہ سٹیل کی
پلیٹوں میں کھانا کھانے والا اور معمولی گلاسوں میں پانی نوش کرنے والاہے۔
لیکن یہ برتن اس کے وجود کی برکت سے بے شمار قیمت کے حامل ٹھہرے ہیں۔ یہ
عبدالستار ایدھی ہے۔ اخلاص و مہر ووفا کا پیکر۔ دردمندجب اپنی جھولی
پھیلاتا ہے تو لوگ خون پسینے کی کمائیوں سے اسے بھر دیتے ہیں۔ کون ہے جو
کہے کہ یہ ناکام زندگی گزارتا ہے۔
یہ ایک خوبصورت اور اعلی تعلیم یافتہ یہودیہ مارگریٹ مارکوس کی کہانی ہے جو نیویارک کے
ترقی یافتہ معاشرے میں رہتی تھی۔ عین جوانی کے عالم میں مادہ پرستانہ زندگی
کے کھوکھلے پن سے بیزار ہو کے سچ کے نورکی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ پاکستان
کے مشہور شخصیت سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے متاثر ہوئی، خط و کتابت کے بعد جب مطمئن
ہوچلی تو اسلام قبول کر کے مریم جمیلہ بن گئی اور پچاس سال پہلے پاکستان کے غیر ترقی یافتہ
معاشرے میں آبسی۔ پاکستانی ماحول سے مناسبت حاصل کرنے کے لیے اسے پتوکی
بھیجا گیا۔ جہاں کی روح پرور فجر کی اذانوں کاحال اور اپنی خوشیاں وہ لکھ
لکھ کے اپنے باپ کو بھیجتی رہی۔ اس نے پوری زندگی سنت نگر،لاہور کے ایک تنگ
مکان میں گزار دی۔ اس کی وفات پر میری آنٹی نے بتایا کہ قلعیاں اکھڑی ہوئی
تھیں، معمولی سا گھر تھا۔ لیکن وہ شاد کام تھی۔ پوری زندگی اس صبر و شکر
کے ساتھ گزاری کے پاکستان بھر میں دوسری مثال کہاں ملتی ہے۔ وہ ان کے لیے
سبق دے گئی جو سمجھ رکھتے ہیں اور بے مثال زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
میں چنیوٹ میں اسے سن رہا تھا ۔ جو پچاسی سال کا لڑکا تھا۔ وہ اونچی سٹیج پہ
بغیر سیڑھی کے چڑھ گیا تھا۔ کروڑ پتی تھا۔ کتنے ہی فراز دیکھے تھے اور آج
بھی طبقہءِ امرا کی فہرستِ اول میں شامل ہوتا ہے۔ یہ حاجی انعام الہی اثر
تھا۔ حجاز ہسپتال کے نام اپنی زندگی لگانے والا۔ اپنی پچاس کروڑ کی
جائیداد وقف کردینے والا۔ کہنے لگا ، نہ پوچھو ہم امیروں کے لچھن کیا ہوتے
ہیں۔ ہمارا ایک دن کا خرچ ہمارے درجہ سوم اورچہارم کے ملازمین کی مہینے بھر
کی تنخواہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ میں نے ایک سبق سیکھا ہے ۔بچوں کو اچھا
مستقبل دینے کی کوشش کرو، اچھا کاروبار کرو اور پھر دولت اللہ کو قرض دے
دو۔ جب ساری انڈسٹری ڈوب رہی تھی تو اس کے گروتھ ریٹ میں اضافہ ہو رہا
تھا۔ یہ آج زندگی میں سکون کا گر سکھاتا پھرتا ہے اور اعلان کرتا ہے یہ میوہ
کبھی خواہشات کے پجاریو ں کو نہیں ملے گا۔
انہی لاہور کی گلیوں میں ایک اخلاق احمد بھی ملے گا۔ خدمت کرنا جس کا انگ
انگ اور سانس سانس ٹھہرا ہے۔لاہور کے تمام بڑے ہسپتالوں میں مفت کھانا
فراہم کرنا۔سرکاری سکولز کی حالتِ زار بہتر بنانا۔ کتب سے لے کے یونیفارم تک
مستحق بچوں تک پہنچانا۔ چھوٹے قرضوں کا نظام چلانا۔ غریبوں پہ دستِ شفقت
رکھنا اور کسی صلے کا طلب گار نہ ہونا۔ دولت یہاں بھی موجود ہے لیکن یہ
مردِ درویش اسے اس کی اوقات میں رکھتا ہے۔ یہ بے غرض خدمت کے خواب دیکھتا
ہے اور اس کی تعبیر ڈھونڈتا ہے۔ ہیلپ لائن میں اس کا کارواں بھی آج کے
نوجوان کو حقیقت کا پتہ دیتا ہے اور امید کے چراغ جلاتا ہے۔
عمار وحید سلیمانی میراعزیز دوست ہے۔ ایک بڑی کاروباری فیملی سے تعلق رکھتا
ہے۔ ہم اس کی کمپنی کا SWOT Analysis کرنے گئے تو کنسلٹنٹ نے بتا یا کہ یہ
لوگ دولت کے انبار پہ بیٹھ کے سوٹے لگا رہے ہیں یعنی اس سے بے نیاز ہیں۔
یونیورسٹی میں پچیس کلومیٹر سے سائیکل چلا کے آجاتا۔ پہننے اوڑھنے کی نمائش
سے بیگانہ عجیب و غریب آدمی۔ معلومات کا خزانہ لیکن عاجزی کا پیکر ۔ اس کی
حقیقت وہی جان سکتا ہے جو ہمارے ساتھ اس کے ہمراہ وقت گزارے۔ قہقہوں سے
مالا مال۔ کتب کا شیدائی۔ بے فکرا بھی اور فکر مند بھی۔ خودغرضوں کی دنیا
میں اجنبی اور مس فٹ۔ مگرکائناتی حقیقت یہی ہے کہ تبدیلی لانے والے لوگ اس
معاشرے میں مس فٹ ہی ہوتے ہیں۔ یہ خاموش زبان سے ہمیں بتاتا ہے کہ اشیا سے
دل نہ لگاؤ۔ ہر چلتے فیشن پر ریجھ نہ جاؤ۔ آسان زندگی گزارو اور مسکراتے رہو۔
یہ طاہر مشتاق ہے ۔ اب سائنس دان ڈاکٹر بن گیا ہے۔ سخت حالات دیکھے ۔ پھر
آسانی بھی دیکھی۔ آسٹریا میں پڑھائی کے دوران منفی تیس ڈگری کی منجمدرات میں
بھی اخبار پھینکتا رہا اور ہنستا ہنساتا رہا۔ اسلام اور پاکستانیوں کا
مثبت امیج وہاں کے چرچوں میں جاکے ابھارتا رہا۔ قہقہہ لگاتا ہے اور زندگی کی
کلفتیں تمام ہوتی نظر آتی ہیں۔ کسی ٹھیلے پہ چنے کھاتا نظر آئے گا۔
نوجوانوں کے درمیان بلا کی قوتِ گفتار سے ترغیب دیتا نظر آئے گا۔ دنیا اس
کو چکر نہیں دے سکی۔ یہ اس کے بہروپ سے آگاہ ہے۔ یہ مجسمِ محبت ہے۔ کتب کا
عاشق ہے۔ اخلاص کا سمندر ہے۔ عیش پرستی سے بغاوت کی علامت ہے۔ اور آسان
زندگی کا زندہ استعارہ ہے۔ یہ سکھاتا ہے کہ میک اپ والے بڑی جلدی پہچانے
جاتے ہیں۔ نیچرل لوگ متاثر کرتے ہیں۔
میں اٹک میں اس کے ساتھ اس کی پرانی سرکاری گاڑی کو دھکا لگا رہا تھا۔ وہ
سرحد کا سینئر وزیر تھا۔ چار سو پچاس روپے میں لاہور آجاتا۔ نان پکوڑے
کھاتا اور خوبانی کی چٹنی سے مزا لیتا۔ وفد لے کے جرمنی گیا تو فنڈز بچانے
کے لیے سب کو مسجد میں ٹھہرا دیا۔ بیوروکریٹ دعوت کھانے گئے تو گھر میں بنی
چنے کی دال لا کے حاضر کردی کہ اسی کا خرچ برداشت کرسکتا تھا۔ باپ اس کی
وزارت کے دور میں بھی سائیکل پر پڑھانے سکول جاتا۔ پشاور کی بسوں میں سفر
کرتا نظر آتا۔ مسجد مہابت خان میں جمعے کا خطبہ دیتا۔ جب کہتا کہ اگر میرے
دامن پہ کوئی چھینٹ ہے تو میرا گریبان پکڑکے زمین پہ گھسیٹو ۔ سننے والوں
کی آنکھیں بھر آتیں۔ یہ وہ ہے جسے دنیا سراج الحق کے نام سے جانتی ہے۔ جس
کے پاس بیٹھنے سے انسان کو تسکین کی شعاعیں اندر اترتی محسوس ہوتی ہیں۔
مندرجہ بالا مثالوں کے بارے میں کون کہے گا یہ ناکام لوگ ہیں۔ کیا یہی وہ
نہیں جن کا تذکرہ سن کر سر احتراماً جھک جاتا ہے۔ جن کی زندگی رشک بھری
کہلاتی ہے۔عیش پرست کبھی پرسکون نہیں ہوسکتا ۔ اس کی زندگی پریشان رہتی ہے
۔حضورِ اعلیﷺ نے فرمایا ’’مومن کبھی عیش کوش نہیں ہوتا‘‘۔ اقبال یونہی نہیں
کہتا تھا کہ :
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ ءِ صحرائی یا مردِ کہستانی
یا بندہ ءِ صحرائی یا مردِ کہستانی
معیارِ زندگی کے قیدی کبھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے ۔ ان کی زندگیاں کسی
بھی بڑے مقصد سے خالی ہوتی ہیں۔جس وجہ سے ملک و قوم کا بوجھ ثابت ہوتے
ہیں۔عام عربوں اور پشتونوں میں شعر میں بیان کردہ خوبصورت سادگی دکھائی
دیتی ہے۔ ان کی زندگیاں پیچ دار نہیں ۔ آخری بات یہ ہے کہ آسان زندگی کی
خواہش رکھنے والے آسان راستوں کا سفر اختیار کریں ۔ اور معیارِ زندگی کی
پرستش نہ کریں۔
مصنف:
سید ثمر احمد
یوتھ کنسلٹنٹ ، ٹرینر، کمیونی کولوجسٹ
samarahmed_pk@yahoo.com
آپ فیس بک پہ یہاں ملیں گے۔
No comments :
Post a Comment