پروفیسر غلام اعظم کو ایک متنازعہ فیصلے میں نوے سال قید کی سزا سنائی گئی |
بنگلہ دیش میں پھر ایک بار انتقام اور سیاسی رقابت کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ جماعت اسلامی کے اعلیٰ راہنماؤں کے خلاف چالیس سال پہلے علیحدگی کی جنگ کے دوران نام نہاد جنگی جرائم کے مقدمات کا جو سلسلہ جاری ہے اس میں اب علی احسن مجاہد کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔
ان پرالزام ہے کہ وہ ایک عسکری تنظیم البدرکے قائد تھے جومبینہ طور پر مشرقی پاکستان کی علحیدگی کی حمایت کرنے والے رہنماؤں اور دانشوروں کے قتل میں ملوث تھی۔ علی احسن مجاہد 2001 سے 2006 تک بیگم خالدہ ضیاء کی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں۔ علی احسن مجاہد جماعت اسلامی کے دوسرے اعلی رہنما ہیں جنہیں اس ہفتہ سزا سنائی گئی ہے۔ اس سے قبل پیر کو جنگی جرائم کے ٹرایبونل نے جماعت کے بزرگ روحانی پیشوا نوے سالہ مولانا غلام اعظم کو 90سال قید کی سزا سنائی ہے۔
جماعت کے رہنماؤں کو 1971کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کے الزام میں سزاؤں کا سلسلہ اس سال کے اوائل میں شروع ہوا تھا جبکہ جماعت اسلامی کے رہنما ابوالکام آزاد اور عبدالقادر ملا کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی اور جماعت اسلامی کے امیر دلاور حسین سعیدی اور نائب سیکریٹر ی جنرل محمد قمر الزماں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ مولانا غلام اعظم 1969سے 2000تک بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے امیر تھے۔ ان کے خلاف علحیدگی کی جنگ کے دوران پاکستان کی فوج کی اعانت کرنے، قتل و غارت گری اور آبرو ریزی کی سازش کے 60الزامات عائد کیےگئے تھے جن کی صحت سے انہوں نے صاف انکار کیا تھا۔ سرکاری وکیل نے انہیں سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن 3ججوں پر مشتمل ٹرایبونل کا کہنا تھا کہ گو غلام اعظم سزائے موت کے مستحق ہیں لیکن ان کی عمر کے پیش نظر انہیں 90سا ل قید کی سزاسنائی گئی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جنگی جرائم کے ٹرایبونل نے ان کے خلاف مقدمہ میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے ہیں۔ ان کے خلاف الزامات کے سلسلہ میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیاگیا بلکہ صرف اخبارات میں شائع ہونے والے ان کے بیانات اور تقاریر پیش کی گئیں۔
1971 کی جنگ کے بارے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے 2010میں جماعت اسلامی کے سات اعلی رہنماؤں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کے لیے ایک خاص ٹرایبونل قائم کیا تھا لیکن مقدمہ کے دوران ٹرایبونل کے صدر نظام الحق کو سنگین الزامات کے تحت استعفی دینا پڑا تھا جس کے بعد2012 میں حکومت نے ایک نیا ٹرایبونل قائم کیا۔ نئے ٹرایبونل کے قیام کے بعد جماعت اسلامی کے وکلاء نے مقدمہ کی ازسر نو سماعت کا مطالبہ کیا تھا جو مسترد کردیا گیا اور ٹرایبونل کے لیے صدر کی تقرری کے بعد مقدمہ کی سماعت جاری رکھی جو انصاف کے تقاضہ کے خلاف تھی.چالیس سال بعد شیخ حسینہ کا جنگی جرائیم کے مقدمات کے لیے خاص ٹرایبونل کا فیصلہ تعجب خیز تھا کیونکہ اس سے قبل پاکستان کے اتحاد کے حامیوں کے خلاف 1971کی جنگ کے دوران قتل و غارت گری کے الزامات عائد کیےگئے تھے لیکن بہت کم افراد کے خلاف ٹھوس شہادتیں پیش کی گئیں اور بہت کم لوگ جو اپنے آپ کو متاثرین قرارد دیتے تھے اس مقصد کے لیے قائم کردہ کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔
اس بات پر بھی لوگوں کو تعجب ہے کہ شیخ حسینہ 1996سے لے کر 2001تک بر سر اقتدار رہیں لیکن اس دوران انہوں نے جنگی جرائم کے نام نہاد مقدمات چلانے کی قطعی کوئی بات نہیں کہی۔ ان کی پارٹی عوامی لیگ کے بعض رہنماوں نے اس دوران زور دیا تھا کہ 1971کی جنگ کے جرائم کے بارے میں بین الاقوامی ٹرایبونل کے قیام کےلیے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا جائے۔ لیکن شیخ حسینہ واجد اس مطالبہ پر عمداً خاموش رہیں کیونکہ اس بات کا خطرہ تھا کہ بین الاقوامی ٹرایبونل میں ہندوستان کی شہہ پر اور اس کی مدد سے قائم کی گئی مکتی باہنی کے مظالم بھی سامنے آئیں گے جو ہندوستان کے لیے سخت پشیمانی کا باعث ہوں گے۔ حسینہ واجد بنگلہ دیش میں ایک ایسا ٹرایبونل قایم کرنا چاہتی تھیں جو ان کی مرضی اور ان کے اشاروں پر مقدمات کافیصلہ کرے۔
بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر شیخ حسینہ واجد نے اس وقت جماعت اسلامی کے اعلی رہنماؤں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کا کیوں بیڑا اٹھایا ہے۔ وجہ اس کی سیدھی سادی ہے۔ اگلے سال عام انتخابات ہونے والے ہیں اور حسینہ واجد حزب مخالف کی قائد بیگم خالدہ ضیاء سے رقابت کی آگ میں جھلس رہی ہیں اور یہ آگ اس وقت سے جھلس رہی ہے جب حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب قتل ہوئے تھے۔ اس وقت بیگم خالدہ ضیاء کے شوہر جنرل ضیا الرحمان شیخ مجیب کے بہت قریب تھے لیکن شیخ مجیب کے قتل میں ان کا رول بہت زًیادہ پر اسرار سمجھا جاتاہے اور شیخ حسینہ کو شک ہے کہ جنرل ضیا الرحمان کا بھی ان کے والد کے قتل میں ہاتھ تھا۔ پھر شیخ حسینہ واجد اور بیگم خالدہ ضیاء کے درمیان رقابت کی آگ اس وقت اور شدت اختیار کر گئی جب 1991 کے عام انتخابات میں بیگم خالدہ ضیاء کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ کو بری طرح شکست دی اور بر سر اقتدار آئیں۔ پھر 2001سے 2006تک وزارت اعظمی پر فائز رہیں۔
عملی طور پر بنگلہ دیش پچھلی دو دہائیوں سے ان ہی دو خواتین کی رقابت کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ اب اگلے عام انتخابات میں ان ہی دو خواتین کے درمیان معرکہ ہوگا۔ شیخ حسینہ کو یہ بات بہت بری طرح سے کھل رہی ہے کہ بیگم خالدہ ضیاءکی جماعت اسلامی بھر پور انداز سے حمایت کر رہی ہے اور عملی طور پر جماعت اسلامی بنگلہ دیش سوشلسٹ پارٹی کی اتحادی ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی کے اعلی رہنماؤں کے خلاف جنگی جرائم کے ان مقدمات کا مقصدایک طرف انتقام کی آگ ٹھنڈی کر نی ہے۔ دوسری طرف سیاسی رقابت کی آگ میں جھلس کر بیگم خالدہ ضیاء پر وار کر نا ہے تاکہ وہ جماعت اسلامی کی حمایت سے محروم ہو جائیں اور اگر وہ ان مقدمات کے بعد بھی جماعت اسلامی سے سیاسی رابطہ رکھیں گی تو موجودہ جذباتی ماحول میں ممکن ہے وہ عوام کی مقبولیت کھو بیٹھیں۔
حسینہ واجد کو1971کی جنگ کے سلسلہ میں پاکستان کی فوج کے خلاف تو مقدمہ چلانے کا موقع نہیں مل سکا کیونکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان معاہدہ کے تحت یہ ممکن نہ تھا چنانچہ سارا انتقام جماعت اسلامی سے لیاجارہا ہے لیکن یہ سارا عمل یک طرفہ ہے۔ جماعت اسلامی پر تو اپنی رضاکار تنظیم البدر کی کاروائیوں اور پاکستان کی فوج کی مدد کے الزامات کے بھر مار ہے لیکن ہندوستان کی شہہ پر اور اس کی مدد سے قائم ہونے والی مکتی باہنی کے ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کا کوئی احتساب نہیں۔
پاکستانی فوج کے جوان اور ان کے خاندان والے بھی شہید کر دیے گئے |
مکتی باہنی کے وحشی پاکستان کے وفاداروں پر مظالم کے پہاڑ توڑتے ہوئے۔ ان کی شہادت سے کچھ دیر پہلے کی تصویر |
پاکستان سے وفا کے جرم میں عزت بھی گنوائی اور جان بھی۔ |
پچھلے دنوں لندن میں ممتاز شاعرہ نیر جہاں سے ملاقات ہوئی۔ یہ آج کل لاس انجلس میں سکونت پذیر ہیں۔ 1971میں یہ اپنے شوہر موسی عارف اور اپنی تین ننھی بچیوں کے ساتھ ڈھاکہ میں تھیں۔ اس زمانہ میں مکتی باہنی کے ایک جنونی مسلح جتھہ نے ان کے مکان پر وحشیانہ حملہ کیا اور اندر گھس کر نیر جہاں اور ان کی تین ننھی بیٹیوں کے سامنے ان کے شوہر موسی عارف کو شہید کر دیا۔ اور گھر کا سارا سامان اور کھانے پینے کی اشیاء لوٹ کر
اسی طرح چاٹ گام کے ہسپتال میں زندہ غیر بنگالیوں کا جس وحشیانہ طریقہ سے ان کے جسم سے خون نکالا گیا اس کے بارے میں سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مکتی باہنی کے جرائم کا کون جواب دہ ہوگا؟
بشکریہ دی ایشینز
مصنف کے بارے میں
آصف جیلانی نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز’ ۱۹۵۲ء میں روزنامہ امروز کراچی سے کیا ۔ ۱۹۵۹ء میں روزنامہ جنگ کراچی کے نامہ نگار کی حیثیت سے دلی میں تعینات ہوئے۔ یوں پاکستان کے کسی اردو اخبارکے پہلے کل وقتی بیرون ملک نامہ نگار تھے۔ 1965 میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ کے دوران دلی میں گرفتار کر لئے گئے اور قیدیوں کے تبادلہ تک دلی کی تہاڑ جیل میں قید تنہائی کاٹی۔رہائی کے بعد ادارہ جنگ کے اخبارات کے یورپی نامہ نگار کی حیثیت سے لندن بھیجے گئے۔ اسی زمانہ سے بی بی سی لندن کی اردو نشریات میں حصہ لینا شروع کیا۔ لندن سے روزنامہ جنگ کے اجراء کے بعد ۱۹۷۳ء میں جنگ لند ن کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ ۱۹۸۳ء میں بی بی سی لندن کی اردو نشریات کے عملہ میں شامل ہوئے اور ۱۹۹۴ میں سینئر پروڈوسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ان کی ۲ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۱۔ وسط ایشیا ۔ آزادی کا چیلنج۔۲ ساغر شیشے لعل و گہر۔
پاکستان کے اہل قلم اور صحآفیوں نے مکتی باہنی کے مظآلم پت بہت ہی کم لکھا ہے اس لیے آج پاکستانی عوام کو 1971 کی دوسری جانب کی اسٹؤری کا علم نہیں وہ بنگلہ دیش کی جانب سے جھوٹۓ پراپوگنڈے کو ہی درست سمجتھے ہیں حاللانکہ حققیت اس کے برعکس ہے مھٹرم آصف جیلانی نے اس موضؤع پر قلم اآ کر اپنا فرض ادا کی اہے اور خؤب کیا ہے
ReplyDeleteبراہ کرم اگر آپ اس موضوع پر کچھ لکھ سکتے ہیں تو لکھیے آئی چاپال پہ اس کو بخوشی شائع کیا جائے گا۔
Delete