عزیزی بیٹرس آسک!
بہت سی وجوہات ہمیں ایک دوسرے سے مختلف بتاتی ہیں۔ آپ پچاس کی دہائی کے وسط میں پیدا ہوئیں، میری پیدائش ستر کے عشرے کے آواخر میں ہوئی۔ آپ ایک خاتون ہیں، میں ایک مرد ہوں۔ آپ سیاستدان ہیں، میں ایک مصنف ہوں۔ لیکن ہمارے درمیان کچھ چیزیں مشترک بھی ہیں۔ ہم دونوں نے بین الاقوامی اقتصادیات کا مضمون پڑھا ہے۔ (اور دونوں ہی ڈگری حاصل کرنے میں ناکام رہے) ہم دونوں کے بالوں کا اسٹائل تقریباً ایک جیسا ہے (گو ہمارے بالوںکا رنگ مختلف ہے)۔
اور ہم دونوں اس ملک کی مکمل شہریت رکھتے ہیں، اس ملک کی حدود میں پیدا ہوئے ہیں۔ ہماری زبان، ہمارا قومی پرچم، تاریخ اور بنیادی ضوابط مشترک ہے۔ قانون کی نظر میں ہم دونوں برابر ہیں۔
لہٰذا مجھے پچھلی جمعرات کو P1 Morgan ریڈیو پر آپ کے اس سوال کا جواب سن کر تعجب ہوا کہ وزیر انصاف کی حیثیت سے آیا آپ کو اس بات پر تشویش ہے کہ عوام (شہری، ٹیکس گزار، ووٹ دینے والے) یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پولیس ان کو صرف ان کے حلیہ (سانولا رنگ اور بالوں کا سنہری کی بجائے کالا ہونا) کی بنیاد پر سرعام روک کر ان سے شناختی کارڈ طلب کرتی ہے۔ آپ کا جواب یوں تھا۔ کسی شہری سے ایسے سوال پوچھے جانے کا تجربہ اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے۔ جو سزا یافتہ ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ روک کر ان سے سوال جواب کیا جاتا ہے حالانکہ کسی فرد کے حلیہ سے آپ اس کے مجرم ہونے کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ پولیس کی جانب سے قانون اور ضابطہ کی حدود کی پاسداری کا اندازہ لگانے کیلئے آپ کو مجموعی صورتحال کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔
’’سزا یافتہ‘‘ کی اصطلاح کا استعمال دلچسپ ہے۔ مجھ جیسے سب سزا یافتہ ہی تو ہیں۔ ہمیں اس وقت تک موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے جب تک ہم بے قصور نہ قرار پائے جائیں۔ کسی فرد کا ذاتی تجربہ کب نسل پرستی کے ضابطہ میں تبدیل ہوجاتا ہے؟ ایسا تجربہ کس مقام پر امتیازی رویئے، استحصال اور تشدد کی نوید بنتا ہے؟ مزید یہ کہ شہریوں کے متعدد ذاتی تجربوں کو کیسے نظر انداز کیاجاسکتا ہے؟
بیٹرس آسک، میری آپ سے ایک معمولی مانگ ہے۔ چلئے ہم ایک دوسرے کی جلد اور تجربات کی ادلی بدلی کرلیں۔ آئیے اس پیش کش کو قبول کیجئے۔ آپ کے ہلکے پھلکے خبط تو معروف ہیں (مجھے آپ کی وہ متنازع تجویز یاد ہے کہ جنس کے خریداروں کو قانونی پروانے بھجوانے کیلئے خوشبو دار لفافے استعمال ہونے چاہئیں)۔ ہم ایک دوسرے کے قالب میں چوبیس گھنٹے گزاریں گے۔
اولاً میں آپ کے قالب میں سموکر جان سکوں گا کہ سیاست کے مردانہ میدان میں ایک خاتون کیسا محسوس کرتی ہے، آپ میری جلد میں ملبوس ہوکر سمجھ سکیں گی کہ سڑک پر چلتے ہوئے، زیر زمین ٹرین کے اسٹیشن میں داخل ہوتے ہوئے، کسی شاپنگ سنٹر کے اندر قدم رکھنے پر جب پولیس کو اپنی گھات میں کھڑا دیکھیں گی جو آگے بڑھ کے آپ سے آپ کی بے قصوری کا ثبوت مانگیں گے تو پھر آپ کی چند ایک یادیں تازہ ہوجائیں گی۔ ماضی کی کچھ زیادتیاں چند وردیاں اور چند گُھوریاں۔ ہمیں دوسری جنگ عظیم کے جرمنی یا80ء کی دہائی کے شدید نسل پرست جنوبی افریقہ تک پیچھے جانے کی ضرورت نہیں۔ سویڈن کی حالیہ تاریخ کا ذکر ہی کافی ہے، تجربات کا ایک بے ترتیب سلسلہ جو ہمارے قالب میں یکایک جاگ اٹھتا ہے۔
میری عمر چھ سال کی تھی جب میں اپنی فیملی کے ساتھ آرلینڈ کے مقام پر اترا تھا۔ جب ہم کسٹم کے عملے کی جانب بڑھ رہے تھے تو میرے والد کے ہاتھ پسینہ میں شرابور تھے۔ اس نے اپنے سر کے بال سیدھے کیے، اپنا گلہ صاف کیا اور پتلون کے پائینچوں پر جوتے پھیر کر ان کو چمکایا۔ اس نے دوبارہ اپنے سویڈش پاسپورٹ کو نکال کر دیکھا کہ وہ کوٹ کی صحیح جیب میں رکھا ہے۔ گلابی جلد والے سب مسافروں کو سیدھا باہر جانے دیا گیا لیکن میرے والد کو روک لیا گیا۔ ہم نے سوچا کہ ایسا شاید اتفاقاً ہوا ہے۔
ایسا ہی واقعہ ہمیں اس وقت پیش آیا جب میں دس برس کا ہو چلا تھا۔ شاید ایسا میرے والد کے عجیب و غریب تلفظ کی وجہ سے ہوا تھا۔ جب میں بارہ برس کی عمر کو پہنچا تو بھی ایسا ہی رویہ دیکھنے کو ملا۔ تب سوچا کہ شاید اس کی اصل وجہ میرے والد کا وہ بیگ تھا جس کی زِپ ٹوٹی ہوئی تھی۔ میں نے چودہ سال کی عمر میں بھی یہی کچھ دیکھا۔ یہی کچھ سولہ اور اٹھارہ سال کی عمر میں بھی میری آنکھوں کے آگے دُھرایا گیا۔
میں سات سال کی عمر میں سکول داخل ہوا۔ مجھے سویڈش سماج سے متعارف کرواتے ہوئے میرے والد کو یہ خوف تھا کہ ان کے ’’غیر‘‘ ہونے کی حیثیت ان کی اولاد کو وراثت میں منتقل ہوجائے گی۔ اس نے ہم کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ جب تمہارا حُلیہ ہمارے جیسا ہو تو تمہیں دھتکار سے بچنے کیلئے دوسروں سے ہزاروں گنا بہتر ہونا ہوگا۔
کیوں؟
کیونکہ یہاں سب لوگ نسل پرست ہیں
کیا آپ بھی نسل پرست ہیں؟
میرے سوا باقی سب نسل پرست ہیں، کیونکہ نسل پرستوں کا یہی شیوہ ہے۔ نسل پرستی ہماری تاریخ، ہمارے DNA کا حصہ کبھی نہیں رہا۔ یہ رویہ ہمیشہ دوسروں میں پایا جاتا ہے۔ میں اور ہم سب خود کو اس سے پاک سمجھتے ہیں۔
آٹھ سال کی عمر میں میں نے ایسی ایکشن فلمیں دیکھیں جن میں سیاہ فام کردار عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں، اونچی گہری آوازوں میں قسمیں کھاتے ہیں، خواتین پر تشدد کرتے ہیں، بچوں کو اغوا کرتے ہیں، زیادتیاں کرتے ہیں، گالی گلوچ کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں۔ سولہ، انیس بیس اور بتیس سال کی عمر میں بھی ایسے ہی یک رنگی کرداروں کو پردہ سیمیں پر یہ سب کچھ کرتے بار بار دیکھا۔
نو سال کی عمر کو پہنچ کر میں نے ارادہ کیا کہ اپنی جماعت کا ذہین ترین طالبعلم بنوں گا، یعنی دنیا کا عظیم ترین چاپلوس۔ پھر سب کچھ پلان کے مطابق ہوا اور جب ہماری صف اول کی جگہ کسی اور طالب علم نے لے لی تو سب نے بغیر سوچے سمجھے مان لیا کہ جماعت میں ہم ہی ایک فسادی تھے۔
دس سال کی عمر میں پہلی بار گنجے غنڈوں کے نرغے میں پھنسا جس کا تجربہ مجھے بعد میں بھی ہوتا رہا۔ وہ ظالم غنڈے Hogalidskyrkan کے علاقہ کے ایک بنچ پر بیٹھے مشترک قالب کودیکھ کر غرائے۔ ہم نے دوڑ لگائی اور ایک گھر کے دروازے کے پیچھے چھپ گئے، ہمارے منہ سے خون رس رہا تھا اور گھر تک دوڑتے دوڑتے ہمارا مشترک دل خرگوش کے دل کی طرح تیز دھڑک رہا تھا۔
گیارہ سال کی عمر میں ایسی کارٹون کہانیاں پڑھنے کوملیں جن میں مشرق کے لوگوں کو ملامتی صوفی دکھایا گیا تھا، خوبصورت بھوری آنکھوں کے حامل، لذت پرست لیکن دھوکہ باز۔
بارہ سال کے ہوئے تو Mega Skivakademien کی سپر مارکیٹ میں موسیقی کی سی ڈیز سننے جاتے اور ہر بار وہاں خود کو سکیورٹی کے عملے کے حصار میں محسوس کرتے۔ وہ آپس میں مستقل واکی ٹاکیز پر گفتگو کرتے اور چند میٹر کے فاصلہ پر ہمارا پیچھا کرتے۔ ہم خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتے اور بڑے تردد سے اپنی باڈی لینگویج( حرکات سکنات) کو غیر مجرمانہ رکھتے اور دھیرے دھیرے ادھر اُدھر گھومتے رہتے۔ بیٹرس آپ پریشان نہ ہوں، اور معمول کے طور پر سانس لیتی رہیں۔ ہم سی ڈیز کے شیلف تک جاکر Tupac کا البم یوں نکالتے کہ ایسا کوئی شبہ نہ ہو کہ ہم اسے چرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن سکیورٹی گاڑی مستقل ہماری گھات میں رہتی۔ ہمارے مشترک قالب کی گہرائیوں میں شاید ایک شرم ناک خوشی کی لہر دوڑتی ہے کہ ہم نے اپنے آباء کو پھنسانے والے ایک ضابطہ کا مزہ چکھ لیا ہے۔ اپنے آباء کے یہاں ناکام ہونے کی وجہ تلاش کرلی اور یہ جان لیا کہ ان کے خواب ڈاک میں واپس شدہ روزگار کی عرضیوں کے سمندر میں کیسے دم توڑ گئے۔
تیرہ سال کے ہوئے تو یوتھ سنٹر میں فارغ وقت گزارتے جہاں مختلف کہانیاں سننے میں آتیں۔ ایک دوست کے بڑے بھائی کو Norrmalm پولیس سے تکرار کرنے پر پولیس وین میں گھسیٹ کر پھینک دیا گیا اور تشدد کے بعد اسے Nacka لے جاکر چھوڑ دیا گیا۔ ایک دوست کے کزن کو زیر زمین ٹرین کے Slussen اسٹیشن کی سکیورٹی کا کا عملہ پلیٹ فارم کے ایک چھوٹے سے کمرے میں دھکیل کر لے گیا اور (اس کی رانوں پر ٹیلی فون ڈائرکٹری کی کتابیں باندھ دی گئیں کہ جسم پر تشدد کے نشان نہ پڑیں) زدوکوب کیا۔ پھر ہمارے والد کے دوست N کا قصہ سنا جن سے پوچھ گچھ کے دوران زبان کی لڑکھڑاہٹ کو شراب نوشی سے منسوب کرکے انہیں اٹھا کر شرابیوں کی حوالات میں بند کردیا گیا۔ اگلی صبح غلطی کا احساس ہونے پر ان کی موت کی وجہ عارضہ قلب لکھوائی گئی جبکہ ان کے جنازے میں شامل ان کی گرل فرینڈ کہہ رہی تھی کہ ’’اگر پولیس مجھ سے پوچھتی تو میں بتاتی کہ مرنے والے نے کبھی شراب کو ہاتھ بھی نہ لگایا تھا۔‘‘
ساڑھے تیرہ سال کی عمر کو پہنچا تو ایسے شہر میں رہ رہا تھا جسے ایک لیزر کے نشانے والی رائفل بردار شخص نے ہراساں کررکھا تھا کیونکہ اس نے سات ماہ کے عرصہ میں گیارہ سیاہ فام لوگوں کو بھون ڈالا تھا اور پولیس کبھی حرکت میں نہ آئی تھی اور ہمارا مشترک ذہن یہ سوچنے لگا کہ ہمیشہ مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے، عربی ناموں سے موسوم یہ کمزور ترین لوگ (اور یوں ہم اس وقت کی تمام یادیں بھول جاتے ہیں جب طاقت کے مختلف ضابطے رائج تھے ’جیسا کہ ہمارے سکول کا ایک لڑکا جسے سب یہودی پکارتے تھے‘ اس لڑکے کو سکول کے جنگلے سے اس کی پتلون سے یوں باندھ دیا جاتا کہ اس کی بیلٹ میں سے ایک قفل گزار کر بند کردیا جاتا تھا۔ جب وہ خود کو اس قید سے آزاد کروانا چاہتا تو سب لڑکے اس پر قہقے لگاتے اور وہ بیچارہ بھی ہنسنے کی کوشش کرتا، تو کیا ہم بھی اس کی حالت پر ہنستے تھے؟)۔
چودہ سال کے ہوئے تو Hornsgatan میں میکڈانلڈ کے رستوران سے نکلنے پر دو پولیس افسروں کا ہم سے شناختی اوراق طلب کرنا بھی یاد ہے۔ پندرہ سال کی عمر میں ایک بار Expert سٹور کے باہر بیٹھا تھا کہ پولیس کی ایک گاڑی سامنے آکے رکی، اس میں سے دو افسر باہر نکلے، مجھ سے میری شناخت طلب کی اور پوچھا کہ آج کی شام کیلئے میرے کیا ارادے ہیں۔ پھر وہ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔
عمر کے اس تمام عرصہ اندر ہی اندر ایک تنازع برپا رہا۔ ایک آواز کہتی
تھی کہ ان حرامیوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھیں۔
آخر یہ وردی پوش حرامی سارے شہر کا محاصرہ تو نہیں کرسکتے۔ ہمارے محلوں میں
ہمیں پریشان کرنے کی تو انہیں اجازت ہی نہیں۔
پھر دوسری آواز کہتی ہے کہ کیا معلوم ہم ہی قصور وار ہوں۔ ہم شاید زیادہ
اونچی آواز میں گفتگو کرتے پائے گئے تھے۔ ہم نے پائوں میں جوگر اور جسم پر
ہڈ والی جیکٹس پہن رکھی تھی، ہماری جین کی پتلونیں ہمارے سائز سے کہیں بڑی
تھیں۔ جن میں بے تحاشہ مشکوک جیبیں جڑی تھیں۔ غلطی سے ہم نے اپنے بالوں پر
اوباشوں والا رنگ چڑھا رکھا تھا۔
ہم اپنی جلد کا رنگ ہلکا کرسکتے تھے۔ ہم نوجوان تھے، اور سوچتے تھے کہ بڑا ہونے پر یہ سب کچھ لازماً تبدیل ہوجائے گا۔
اور بیٹرس آسک، ہمارا مشترک قالب جوان ہوتا رہا۔ ہم نے یوتھ سنٹر میں
جانا چھوڑ دیا۔ ہم نے ہڈ والی جیکٹ کی بجائے کالا کوٹ زیب تن کرلیا اور
ٹوپی کی جگہ مفلر اوڑھ لیا۔ باسکٹ بال کا کھیل چھوڑ کر ہم نے بزنس سکول میں
اقتصادیات پڑھنا شروع کی۔ ایک روز ہم سٹاک ہوم کے سنٹرل ریلوے اسٹیشن کے
سامنے کھڑے اپنی کاپی میں کچھ لکھ رہے تھے (علم اقتصادیات کے طالب علم ہوتے
ہوئے بھی ہم اپنے زعم میں مصنف بننے کے خواب دیکھا کرتے تھے)۔ اچانک ہماری
دائیں جانب سے ایک کڑیل جوان نمودار ہوا جس نے کانوں میں ہیڈ فون لگا رکھا
تھا اور ہم سے شناختی کارڈ مانگنے لگا۔ پھر اس نے پولیس والوں کی طرح
ہمیں بازوئوں سے پکڑ کر قریب کھڑی وین میں جا دھکیلا جہاں ہمیں شاید اس وقت
تک بیٹھنا تھا جب تک ان کا مرکزی دفتر ہماری شناخت کی صحت کی تصدیق نہ
کردے۔ غالباً ہمارا حُلیہ و شناخت کسی مشتبہ شخص سے جاملی تھی۔ ہم اکیلے
تقریباً بیس منٹ اس پولیس وین میں بیٹھے رہے۔ لیکن پھر بھی تنہا نہ تھے
کیونکہ سینکڑوں راہ گیر اس مقام سے گزرتے ہوئے ہم پر ایسی نگاہ ڈالتے جیسے
کہ وہ کہہ رہے ہوں ’’لو، ایک اور دھرا گیا۔ وہ ایک اور ایسا شخص ہے جس کا
عمل ہمارے تعصب کی دلیل ہے‘‘۔
کاش، بیٹرس آسک، آپ اس پولیس وین میں میرے ساتھ بیٹھی ہوتیں۔ لیکن آپ
وہاں موجود نہ تھیں۔ میں تو اکیلا ہی وہاں براجمان تھا اور ہرگزرنے والے کی
آنکھوں میں آنکھ ڈال کر انہیں اپنی بے قصوری کا یقین دلانا چاہتا کہ میں
تو بس کسی جگہ پر ایک خاص انداز میں کھڑا پایا گیا تھا، لیکن پولیس کی گاڑی
کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے اپنی بے گناہی ثابت کرنا تو مشکل ہوتا ہے نا!
اور کسی ایسے معاشرے کا حصہ بننا ناممکن ہے جس میں اصحاب اقتدار کا ہمہ وقت یہ مفروضہ ہو کہ آپ تو ’’غیر‘‘ ہیں۔
بیس منٹ بعد ہمیں پولیس وین سے اترنے کو کہا گیا، کوئی معافی کا کلمہ
نہیں، کوئی وجہ بتائے بغیر یہ کہا جاتا ہے‘ ’’اب تم جاسکتے ہو‘‘۔ ہمارا
جذبات سے لبریز جسم وہاں سے چل کھڑا ہوتا ہے اور ذہن میں خیال گزرتا ہے کہ
’’مجھے اس واقعہ کو قلم بند کرنا چاہیے۔‘‘ لیکن میری انگلیوں کو معلوم تھا
کہ ایسا نہیں ہوگا۔ کیونکہ بیٹرس آسک، میرے تجربات مجھ جیسے دوسرے
’’اغیار‘‘ کے مقابلہ میں معمولی ہیں۔ ہمارے جسم کسٹم افسروں کا سامنا کرتے
ہوئے پروان چڑھے ہیں۔ ہماری والدہ سویڈیش ہیں۔ ہماری زندگی ان لوگوں سے
قدرے بہتر ہے جو بے اختیار ہیں، قلاش ہیں اور شناختی اوراق سے محروم۔ ہمیں
ملک بدر کیے جانے کی دھمکیاں نہیں سننا پڑتیں۔ دوسرے ممالک کے سفر سے واپسی
پر ہمیں جیل بھیجے جانے کاخوف نہ تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ دوسرے ’’اغیار‘‘
کو ہم سے زیادہ ظلم سہنا پڑتے ہیں ہم نے خاموش رہنا پسند کیا۔ یوں سالہا
سال بیت گئے۔ پھر Reva کا قانون آیا جسے’’ضابطوں کے موثر نفاذ کا قانونی
پراجیکٹ‘‘ بتایا گیا۔ پس پولیس نے شاپنگ سنٹروں اور غیر قانونی اجنبیوں کے
مخصوص شفاخانوں کے باہر قطاروں میں کھڑے لوگوں سے شناخت طلب کرنا شروع
کردی۔ سویڈن میں پیدا ہونے والے بچوں اور ان کی فیملیوں کو زبردستی ایسے
ممالک بھجوایا گیا جو انہوں نے پہلے کبھی دیکھے بھی نہ تھے۔ سویڈن کے
شہریوں سے ان کی شہریت کے ثبوت کے طور پر ان کے پاسپورٹ طلب کئے جانے لگے
اور ایک وزیر انصاف نے یہ وضاحت پیش کی کہ اس رویہ کا نسلی امتیاز سے کوئی
تعلق نہیں بلکہ یہ کچھ لوگوں کے ساتھ پیش آنے والے انفرادی واقعات تھے۔
طاقتوروں کے معمولات۔ تشدد کی کاروائیاں۔ ہر کوئی اپنا اپنا کام ہی تو
کررہا تھا۔ سکیورٹی گارڈ، پولیس، کسٹم کے افسر، سیاستدان اور عوام۔
یہاں آپ مجھے روک کر کہتی ہیں ’’یہ سمجھنا ایسا مشکل کیوں ہے؟ قانون کی پاسداری ہر ایک پر فرض ہے‘‘۔
اور ہم جواباً کہتے ہیں، ’’چاہے وہ قانون غیر قانونی ہی کیوں نہ ہو؟‘‘
آپ فرماتی ہیں کہ ’’یہ سب ترجیحات کا معاملہ ہے۔ اور ہمارے وسائل بھی تو
لامحدود نہیں ہیں‘‘ اور ہم کہتے ہیں ’’قلاشوں پر ظلم ڈھانے کے لیے آپ کے
پاس ہمیشہ دولت ہوتی ہے، لیکن ان بے چاروں کی حمایت کیلئے آپ کے وسائل کم
پڑ جاتے ہیں‘‘۔
پھر آپ کہتی ہیں کہ ’’ہمارا وسیع فلاحی نظام اجازت نہیں دیتا کہ ہم اپنے دروازے ہر ایک کیلئے کھول رکھیں‘‘۔
اور ہم اپنے گلے صاف کرتے ہوئے، اپنے پائوں زمین پر رگڑتے ہیں کیونکہ
سچی بات ہے کہ ہم سے کوئی جواب نہ بن پڑ رہا تھا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ
کوئی شخص ’’غیر قانونی‘‘ نہیں ہوتا اور جب وردی والے عدم تحفظ پھیلائیں اور
قانون اپنے ہی شہریوں کے خلاف سرگرم ہوں تو بہتری کے کچھ اقدام کرنا لازم
ہوجاتا ہے۔
بیٹرس آسک، اب تو آپ کی ناک میں دم آنے لگا ہوگا‘ اور آپ ہمارے مشترک
قالب سے جان چھڑانے کی کوشش کررہی ہوں گی، اور میرے قارئین کی طرح آپ بھی
سوچتی ہوں گی کہ اب بہت ہوگئی اور معاملہ کو طوالت دی جارہی ہے، ایک ہی بات
کو باربار دہرایا جارہا ہے اور کوئی مدعا واضح نہیں ہوتا۔ آپ صحیح ہیں،
کسی بات کا خاتمہ نہیں ہوتا، کیونکہ حل حتمی نہیں ہوتا، کوئی اخراج ہنگامی
نہیں ہوتا، سب کچھ دہرایا ہی تو جاتا ہے۔ کیونکہ اقتدار کے استعمال کے
ضابطے صرف اس لیے معدوم نہیں ہوجائیں گے کہ ہم نے Reva کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
Reva کا قانون ہلکی شدت کے مستقل جبر کا منطقی بڑھاوا ہی تو ہے۔ Reva کی
حجت ہماری قوم کے تصور خودی کی تشکیل نو کی ناکامی ہے۔ آج آپ کے قریب واقع
بار میں رنگین چمڑی والے سکیورٹی کے عملے سے بچنے کیلئے جان بوجھ کر ایک
دوسرے سے دور دور رہتے ہیں اور کل گھر حاصل کرنے کے امیدواروں کی قطار میں
کھڑے ایسے لوگ جن کے نام غیر ملکی ہیں اپنے ازواج کے سویڈش نام درج کروائیں
گے تاکہ ان کے نام کو فہرست سے خارج نہ کردیا جائے اور مجھے ابھی بتایا
گیا ہے کہ ایک عام سویڈش شہری نے ایک آسامی کیلئے اپنی عرضی میں خود کو جلی
حروف میں ’’سویڈن کی جم پل‘‘ ظاہر کیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ایسا نہ
کرنے کا نتیجہ کیا ہوگا۔
لیکن اس کے بارے میں کوئی بھی کچھ نہیں کرتا۔ اس کے بجائے ہماری توجہ
ایسے لوگوں کی تلاش میں لگی ہوتی ہے جو اس حفظ و امان کی تلاش میں یہاں آئے
ہیں جو ہم نہایت فخر سے اپنے (چند) شہریوں کو فراہم کرتے ہیں اور میں یہ
سب اس لیے تحریر کررہا ہوں ’’ہم‘‘ اس مجمع کاحصہ ہیں، اس معاشرتی قالب کا
اور اس ’’ہم‘‘ کا بھی۔ اب آپ جاسکتی ہیں۔
جوناس حسن خیمیری
حسن خیمیری 1978ء سویڈن میں پیدا ہوا۔ وہ پیشے کے اعتبار سے مصنف ہے اور
اب تک تین ناول اور چھ ڈرامے تخلیق کرچکا ہے۔ اس کا پہلا ناول ون ریڈ آئی
(One Red Eye) ’’بورس ٹائیڈنگ ایوارڈ‘‘ برائے بہترین تخلیقی ادب کا حقدار
قرار پایا۔ اس کے دوسرے ناول Montecore نے سال کے بہترین ناول کے لیے سویڈش
ریڈیو ایوارڈ سمیت غیر معمولی پذیرائی اور کئی ادبی ایوارڈ حاصل کیے۔
خیمیری کے ادبی کام کے دنیا کی پندرہ اہم زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں جبکہ
دنیا کی 40 سے زائد کمپنیاں اس کے ڈراموں کو سٹیج کرچکی ہیں۔مسلمانوں اور
غیر یورپی تارکین وطن سے امتیازی رویے کی حمایت کرنے پر حسن نے وزیر انصاف
بیٹرس آسک کو ایک خط تحریر کیا جو ایک ادب پارے سے کم نہیں۔آن لائن ادبی
جریدے Asymptote کے لیے اس کا انگریزی ترجمہ ریچل ولسن بروے لس نے کیا۔
ریچل اِس خط کے پس منظر کے بارے میں Asmptote میں لکھتی ہیں:
سویڈن کی حکومت اور مائیگریشن بورڈ نے 2009ء میں REVA پروجیکٹ متعارف
کروایا تھا جس کا مقصد سویڈن میں رہائش پذیر غیر قانونی تارکین وطن کے
مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے کام کو یقینی بنانا تھا۔ اس پروگرام کو اب
جاکر دارالحکومت سٹاک ہوم میں نافذ کردیا گیا ہے اور پولیس ہر اُس شخص کے
کاغذات چیک کررہی جس پر انہیں شک ہوتا ہے حالانکہ پولیس کو یہ نہیں کہا گیا
کہ وہ لوگوں کی شکل و صورت اور حُلیے کو بنیاد بنا کر نہیں چیک کریں، لیکن
اس بارے میں بے شمار شکایات ہیں کہ صرف ان لوگوں کو روکا جاتا ہے جو شکل و
صورت سے سویڈن کے مقامی باشندے نہیں لگتے۔
عام تاثر یہ ہے کہ پولیس زیادہ سے زیادہ تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے
لیے نسلی امتیاز کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے اس بات پر بڑا شور
اُٹھا، لیکن جب وزیر انصاف بیٹرکس آسک کو ایک ریڈیو انٹرویو میں پوچھا گیا
کہ آیا انہیں اس بات پر تشویش ہے، تو ان کا جواب تھا ’’جس بات کو لوگ نسل
پرستانہ رویہ کہتے ہیں وہ تاثر انفرادی تجربات پر مبنی ہے۔‘‘ ان کا کہنا
تھا کہ وہ اس سلسلے میں کسی قسم کے اقدامات کو ضروری نہیں سمجھتیں۔ وزیر
انصاف کے اس جواب کے ردعمل میں حسن خیمیری نے انہیں یہ خط تحریر کیا تھا۔
13 مارچ، 2013ء کو یہ خط سٹاک ہوم کے اخبار Dagens Hyheter میں شائع ہوگیا۔
اسی دن کے اختتام تک اس خط نے سوشل میڈیا پر ایک دن میں سب سے زیادہ شیئر
کیے جانے والی تحریر کے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اخبار کے مطابق
ٹویٹر Twitter پر اس خط کو اتنا شیئر کیا گیا کہ اکائونٹ رکھنے والے سویڈن
کے ہر شہری کے پاس پہنچ جائے۔ اس وقت یہ تحریر سویڈن میں آج تک سب سے زیادہ
شہرت پانے والی تحریر کا امتیاز حاصل کرچکی ہے۔
Asymptote(خط متقاربہ) علم جیومیٹری میں Asymptote ایسے خط (لکیر) کو
کہتے ہیں جو کسی دوسر خط کے بتدریج قریب ہوتا چلا جائے مگر اسے چھوئے نہیں)
ایک آن لائن ادبی مجلہ ہے جس کا مقصد دنیا کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی
اہم ادبی تخلیقات کو منظر عام لانا ہے۔ اس وقت یہ جریدہ دنیا کی 54 مختلف
زبانوں میں کام کررہا ہے، یہ تحریریں دنیا کے 75 مختلف ممالک سے حاصل ہوتی
ہیں۔ جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ دنیا کے اہم ادیب اور دانشور Asymlotote
کے ساتھ منسلک ہیں۔
ریچل ولسن بروے لس
ریچسل یونیورسٹی آف وسکونسن۔ میڈی سن میں مطالعہ سیکنڈے نیویا کے مضمون
میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔ وہ جوناس حسن کے ناول Montecore کا انگریزی
میں ترجمہ کرچکی ہیں۔ سویڈن کی وزیر قانون و انصاف بٹیرس آسک کوجو خط جو
ناس حسن خیمیری نے تحریر کیا تھا اس کا انگریزی میں ترجمہ بھی ریچل نے کیا
تھا۔ جسے بعد میں بیرون ملک طویل عرصہ سفارتی خدمات انجام دینے والے سابق
پاکستانی ڈپلومیٹ توحید احمد نے اردو میں منتقل کیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس اتوار 21 جولائ 2013
No comments :
Post a Comment