Thursday, May 30, 2013

خروٹ آباد کا سچا آدمی - ڈاکٹر باقر شاہ شہید


ظالموں نے ڈاکٹر باقر شاہ کو مار دیا۔ ڈاکٹر کو پتہ تھا کہ جو وہ کرنے جا رہا ہے، اس کے نتیجے میں موت اُس کا مقدر بنے گی۔ اُس کو کسی کونے کھدرے سے چلائی ہوئی گولی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جائےگا۔  لیکن اُس نے موت کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنا فرض انجام دینا مناسب سمجھا۔ اُس نے بے خوفی سے اپنا فرض انجام دیا اور نتیجہ میں خاموش کر دیا گیا۔ اُس کی فصیلِ جاں کو پانچ گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ ایسی بابرکت موت کو اللہ رب العزت نے زندگی سے تعبیر فرمایا ہے جس کو ہم جیسے کم فہم لوگ نہیں سمجھ پاتے۔ 
اُ س کی شہادت کے دن ۲۹ دسمبر ۲۰۱۱ کو میں نے ایک مختصر تحریر میں اپنے بلاگ موچی گیٹ ڈاٹ کام میں تحریر کیا تھا۔

"شہادت کمانے والا شہ سوار۔ واللہ ایسا دلیر اور باکردار شخص بھی کوئی ہو گا جس نے اللہ کی رضا کے لیے حق کی گواہی دی، سچ چھپانے سے باز رہا، سارے دنیاوی خوف اور دباؤ اسے جھوٹ بولنے پر مجبور نہ کر سکے۔ یہ لوگ ہمارے معاشرے کے سچے ہیرو ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر انسانیت کو فخر ہے۔ اللہ ان کو اپنی رضا سے نوازے اور ان کی غلطیوں کوتاہیوں کو اپنی رحمت سے معاف فرمائے۔ اللہ ہماری قوم کو اس جیسے دلیروں کا راستہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین۔"

ان کی شہادت کی خبر یوں آئی:
" کوئٹہ : کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے سانحہ خروٹ آباد کے مقتولین کا پوسٹ مارٹم کرنیوالے پولیس سرجن باقر شاہ کو ہلاک کردیا تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی گئی۔تفصیلات کے مطابق پولیس سرجن باقر شاہ بولان میڈیکل کمپلیکس اپنی گاڑی میں بی ایم سی سے عیسی نگری جارہے تھے کہ راستے میں دو نامعلوم نقاب پوش افراد موٹر سائیکل سواروں نے سبزی روڈ پر عیسی نگری موڑ کے قریب ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے ڈاکٹر باقر شاہ موقعے پر ہی جاں بحق ہوگئے ۔حملہ آور موقعے سے ہی فرار ہوگئے ان کے نائب قاصد الحمید نے انہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا ۔پولیس کے مطابق ڈاکٹر باقر شاہ کو پانچ گولیاں لگی تھیں "
جس رپورٹ کو لکھنے کی بنیاد پر انہیں موت کی سزا دی گئی، اس کے بارے میں بی بی سی اردو کی خبر کچھ یوں ہے:


"پولیس سرجن ڈاکٹر باقر شاہ نے رواں سال سترہ مئی کو کوئٹہ کے نواحی علاقے خروٹ آباد میں پیش آنے والے سانحہ خروب آباد میں ہلاک ہونے والے پانچ غیر ملکیوں کی ہلاکت کی پوسٹمارٹم رپورٹ تیار کی تھی جس میں انہوں نے واضع طور پر کہا تھا کہ پانچ چیچن باشندوں کی ہلاکتیں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہوئیں تھیں۔
اس واقعے کے فوراً بعد اس وقت کے سینئیر سٹی پولیس آفیسر داؤد جونیجو اور فرنٹیئر کور کے کرنل فیصل نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہلاک ہونے والے پانچ غیر ملکی افراد خودکش حملہ آور تھے جو کہ تخریب کاری کے لیے کوئٹہ شہر میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے لیکن سکیورٹی فورسز نے تخریب کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا۔
تاہم ڈاکٹرسید باقر شاہ کی پوسٹمارٹم رپورٹ نے سکیورٹی فورسز کے اس دعوے کو نہ صرف بے بنیاد قرار دیا تھا بلکہ انہوں نے سانحہ خروٹ آباد سے متعلق بلوچستان ہائی کورٹ کے جج محمد ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں قائم ہونے والے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے بھی اہم گواہ کے طور پر اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔"

 جیسا کہ اس خبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے پانچ بے گناہ غیر ملکی مار دیے گئے تھے جن کو بعد میں دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ یہ "دہشت گرد" دستی بمبوں سے لیس تھے اور انہوں نے ہماری سکیورٹی فورسز پر اٹیک کیا۔ لیکن ایک لیکڈ ویڈیو سے یہ دعویٰ مشکوک ہو گیا۔ اُن غیر ملکیوں خواتین اورمردوں کی مظلومانہ شہادت نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا۔ ویڈیو میں یہ بھی دکھایا گیا کہ کس طرح حریص گِدھوں جیسے پولیس والے اُن مظلوموں کے سامان کو لوٹتے رہے۔ 

اُن مظلوم چیچن باشندوں کی شہادت کی خبر کچھ یوں لگی:

"17 مئی 2011 کو کوئٹہ کے نزدیک خروٹ آباد میں فرنٹیئر کانسٹیبلری نے 5 چیچن باشندوں کو ماورائے عدالت قتل کردیا۔ شروع میں حکام نے
دعوی کیا کہ یہ لوگ خودکش بمبار تھے اس لیے ان پر فائرنگ کی گئی تاہم بعد میں سامنے آنے والی وڈیو میں یہ لوگ نہتے نظر آتے ہیں۔ان افراد میں 2 مرد اور 3 عورتیں تھیں، ایک عورت 7 ماہ کی حاملہ تھی۔ اطلاعات کے مطابق مقامی پاسبان نے پہلے ان افراد سے مختلف مقامات پر رشوت لی اور بعد میں جب یہ لوگ شکایت کے لیے سرحدی سپاہ کی چوکی کی طرف جانے لگے تو پاسبان نے سپاہ کو اطلاع کی کہ خودکش بمبار ان کی چوکی کی طرف آ رہے ہیں۔"

مجھے اپنی سیکورٹی فورسز سے بھی پیار ہے۔ لیکن جرم جو بھی کرے اُس کو سزا ملنی چاہیئے۔ سپریم کورٹ نے بھی شلجموں سے مٹی جھاڑی لیکن حسبِ عادت کوئی نتیجہ خیز فیصلہ سنانے میں ناکام رہے۔

میرا مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر باقر کو فرض شناسی کا سب سے اعلٰی  تغمہ دیا جائے اور ان کے قاتلوں کو پکڑ کر قرارواقعی سزا دی جائے۔ اُن مظلوم چیچن باشندوں کے قاتلوں کو بھی بلا رُو رعایت پھانسی کی سزا دی جائے۔

اگر یہ انصاف نہ ہوا تو، ہمیں مزید بد امنی جھیلنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ قدرت کا اپنا عجیب نظام ہے۔ قدرت کی سزائیں بہت بھیانک ہیں۔ کیا ہم بحیثیتِ قوم اُ س کے لیے تیار ہیں؟ اِس سے بہتر ہے کہ ہم خود انصاف کے عمل کو چلنے دیں۔



No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...