Friday, May 24, 2013

کالا باغ پر اختلافات کے بارے میں مشہور شاعر وادیب اور واپڈا کے سابق افسرِ تعلقاتِ عامہ، خالد احمد صاحب کی رائے


پچھلے دنوں ہی قومی ڈائجسٹ کا ایک پرانا شمارہ پڑھنے کا موقعہ ملا۔ اُس میں مشہور شاعر خالد احمد صاحب کا انٹرویو پڑھا۔ حال ہی میں اِن کا انتقال ہوا ہے۔ آپ مشہور افسانہ نویس بہنوں خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کے چھوٹے بھائی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب سے بھی آپ کے پُرانے تعلقات ہیں۔ نوائے وقت میں "لمحہ لمحہ" نامی کالم بھی تحریر فرماتے رہے ہیں۔  اپنے انٹرویو میں انہوں نے اپنی ذاتی اور ادبی زندگی پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اُسی انٹرویو میں پڑھ کر پتہ چلا کہ خالد صاحب واپڈا کے افسرِ تعلقاتِ عامہ بھی رہے ہیں۔ انٹرویو لینے والے نے اچانک کالا باغ ڈیم پر اختلاف کے حوالے سے سوال کر دیا۔ خالد صاحب نے جو جواب دیا، وہ اس قابل ہے کہ آپ دوستوں سے شئیر کیا جائے۔ پڑھیے اور سوچیے۔ اور خدارا، کالا باغ ڈیم کے مسئلے پر ذہنی وسعت پیدا کیجیے۔


سوال: پھر تو آپ کالا باغ کی تعمیر کے خلاف جاری مہم کے درپردہ رازوں سے بھی آگاہ ہوں گے؟
خالد احمد:سندھ طاس معاہدے کے تین فریق ہیں۔ ایک ہے پاکستان، دوسرا بھارت، تیسرا ورلڈ بینک ۔۔۔۔ورلڈبینک اس کا ضامن ہے۔اس معاہدے کہ رُو سے مشرقی دریاوٗں پر بھارت کا حق تسلیم کر لیا گیااور چناب ، جہلم ، سندھ یہ پاکستان کے دریا ہیں۔اب اس کے اندر اصل مسئلہ یہ ہے کہ معاہدے میں شرط ہے کہ اگر کوئی ملک پانی ضائع کرے جو بڑی قیمتی شے ہے، نعمت ہے اللہ کی۔۔۔۔اسے کوئی ایک ملک استعمال نہ کرے تو دوسرا ملک یہ ضائع ہونے والا پانی استعمال کر سکتا ہے ۔ لہٰذا سازش یہ ہے کہ پاکستان کو پانی استعمال کرنے سے روکا جائے تاکہ بھارت اسے استعمال کر لے۔ ۔ اسی لیے پاکستان میں ایک سازش کے تحت ڈیموں کے بنانے کی مخالفت کی جا رہی ہے۔اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ جو لوگ کالا باغ ڈیم بنانے کی مخالفت کر رہے ہیں وہ کس ملک کی خدمت کر رہے ہیں، جو لوگ پاکستان میں پانی کے ذخائر بننے نہیں دے رہے کس کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔۔۔۔
کبھی پاکستان کی گندم روس تک جاتی تھی۔۔۔آج ہم اپنے لیے روٹی کو ترس رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے بااثر طبقات نے قسم کھا لی ہے کہ ہم اپنے ملک کے سوا باقی سب ملکوں کے بارے میں اچھا سوچیں گے۔۔ہم نے وتیرہ بنا لیا ہے کہ ہمارا کوئلہ غیر ملکی آ کر نکالیں گے ہم خود کام نہیں کریں گے۔سونا ، تانبہ ، پیتل ، غرضیکہ جو بھی ہمارے پاس قدرت کے عطیات ہیں وہ غیر ملکی آکر نکال لیں گے۔۔۔ہم نہیں۔۔۔اس کا فائدہ صرف وہ اٹھائیں گے۔۔۔ ہم نہیں۔۔۔ ہم صرف رائیلٹی لیں گے اور یہ رائیلٹی بھی ہمارے باہر کے بینکوں میں جمع ہو گی پاکستان کے قومی خزانے یا بینکوں میں نہیں ہو گی۔ یہ ہے ہمارا سوچنے کا انداز۔۔۔بنتے ہم سب ملک کے خیر خواہ ہیں ۔ زبانی دعوے بڑے کرتے ہیں مگر عملی طور پر ہماری ساری سیاست غیروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے، اپنے ملک یا قوم کے لیے ہم کچھ نہیں کرتے نہ کریں گے۔ (قومی ڈائجسٹ - جون 2012)

اسی موضوع پر گذشتہ مضمون پڑھیے:

آپ بھی کہتے ہوں گے کہ یہ کیا کالا باغ ڈیم کا واویلا مچا رکھا ہے۔ لیکن دوستو، کیا کریں، جب رات رات بھر بجلی نہ آئے، اور شدید گرمی میں سونا پڑے، اور کوئی حیلہ پُرسکون نیند کا کارگر نہ رہے اور مذید ستم ظریفی یہ ہو کہ بجلی کا بِل پہلے سے بھی ذیادہ آئے۔ ملک کی انڈسٹری بجلی کے نہ ہونے کہ وجہ سے ٹھپ ہو کر رہ گئی ہو اور آپ کے ہی دائیں بائیں بے شمار بے روزگار لوگ ملک کے تلخ کاروباری حالات کا اظہار کر رہے ہوں۔ کاروباری جمود کی صورتحال یہ ہو کہ بہت سے ادارے تنخواہوں کے ادا کرنے سے قاصر ہو گئے ہوں اور لوگ پھر بھی اپنی نوکری کو چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوں۔ جب یہ سب کچھ بیت رہا ہو، تو لا محالہ  کالا باغ ڈیم کے لیے ہی سوچنا پڑتا ہے۔ اس پر بے سروپا قسم کے اعتراضات سن کر سر پیٹ لینے کا دل کرتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ ایسے منصوبے دوسرے ملکوں میں متنازعہ کیوں نہیں بن جاتے اور ہمارے ملک میں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔ بہرحال یہ آزمائش ہے اور ہمیں بحیثیتِ قوم اس میں سے گزرنا ہے۔ بقول شاعر، اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔

No comments :

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...