نقل ہے کہ ایک شہر میں ایک مست بابا آ گیا۔ آتے ہی اُس نے حکم دیا کہ ایک بہت بڑی دیگ لاؤ۔ دیگ آ گئی تو بولا، اس دیگ کے لائق ایک چولہا بناؤ، اس میں لکڑیاں رکھ کر بھانبنڑ لگا دو۔ چولہا جل گیا، مست نے حکم دیا کہ دیگ میں پانی بھر دو، اوپر ڈھکنا لگا دو، اسے چولہے پر رکھ دو۔ اگلی صبح انھوں نے دیگ کا ڈھکنا اُٹھایا تو دیکھا کہ وہ پلاؤ سے بھری ہوئی ہے۔ سارے شہر میں اعلان کر دیا گیا کہ حاجت مند آئیں، انھیں کھانا مفت تقسیم کیا جائے گا۔
اس اعلان پر سارا شہر دیگ پر اُمڈ آیا مست پلاؤ کی تھالیاں بھر بھر کر دینے لگا۔ اگلے روز انھوں نے دیگ کا ڈھکنا اُٹھایا تو دیکھا کہ دیگ جوں کی توں بھری ہوئی تھی۔ اس پر شہر میں مست بابا کی دھوم مچ گئی۔ برتاوے تھالیاں بھر بھر کر لوگوں کو بانٹتے مگر دیگ جوں کی توں بھری تھی۔ حاجت مندوں میں ایک فقیر بھی تھا۔ وہ خالی ہاتھ آتا اور سارا دن کھڑا تماشا دیکھتا رہتا۔ برتاوے کہتے، میاں تو کیوں خالی ہاتھ کھڑآ ہے، برتن لا اور چاول لے لے۔ وہ کہتا، میں حاجت مند نہیں ہوں۔
اس بات پر اور برتاؤ بہت حیران ہوتے کہ کھڑا بھی رہتا ہے بٹر بٹر دیکھتا بھی رہتا ہے مگر کھاتا پیتا نہیں ہے۔ انھوں نے مست بابا سے بات کی۔ مست بابا نے کہا، اس شخص کو میرے پاس لاؤ۔ وہ فقیر کو مست بابا کے پاس لے گئے۔ مست بابا نے پوچھا، میاں کیا بات ہے کہ تو سارا دن دیگ کے سامنے کھڑا رہتا ہے لیکن دیگ کے چاول نہیں کھاتا۔
فقیر بولا، میں یہاں چاول کھانے نہیں آتا اور نہ ہی اس دیگ کو دیکھنے آتا ہوں، جو سدا بھری رہتی ہوں۔ مست بابا نے پوچھا، پھر تو یہاں آتا کیوں ہے؟ فقیر بولا میں تو تیری زیارت کرنے آتا ہوں، تو جو اس شہر کا رب بنا ہوا ہے اور لوگوں میں رزق تقسیم کر رہا ہے۔
مست بابا کا چہرہ بھیانک ہو گیا۔ وہ چلا کر بولا: ” دیگ کو اُنڈیل دو۔ چولہے پر پانی ڈال دو۔‟ یہ کہہ کر مست بابا نے اپنی لاٹھی اُٹھائی اور شہر سے باہر نکل گیا۔
پاکستانی دیگ
میرے کئی دوست کہتے ہیں، مفتی یہ کہانی تو نے خود گھڑی ہے۔ یہ تو پاکستان کی کہانی ہے۔ لوگ اس دیگ کو کھا رہے ہیں۔ وہ چلا جاتا ہے تو دسرا گروپ آ جاتا ہے کھاتا ہے، وہ چلا جاتا ہے تو دوسرا گروپ آ جاتا ہے۔ اس کے جیالے دیگ پر ٹوٹ پڑتے ہیں لیکن یہ دیگ ختم ہونے میں نہیں آتی۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ دیگ مست نے چڑھائی تھی اور یہ خود ربِ جلیل نے چڑھائی ہے۔
(ممتاز مفتی کی کتاب ”تلاش” سے اقتباس)
No comments :
Post a Comment